کیا تبدیلی آرہی ہے

سن دوہزار سترہ کی شروعات ہے ، ہم نے گذشتہ سال کیا پایا اور کیا کھویا اس کا تجزیہ کرنا ضروری تو نہیں پھر بھی کم از کم ہمیں کچھ تجربات سے مستفید ہونا لازم ہے ۔ آجکل سوشل میڈیا اظہار و خیالات کو پیش کرنے کا آسان اور بھترین ذریعہ بن گیا ہے ، اظہار کے اس ذریعے کو ہم کس طرح سے بھترین تربیت میں بدل سکتے ہیں اور کس طرح سے ہم اپنے خیالات و تاثرات کو دوسروں تک پہنچا سکتے ہیں یہ اہم ہے ۔ اس ٹیکنالاجی کا مقصد کیا ہے اس تو میں ناواقف ہوں لیکن اس سے ہم فائدہ کس طرح لے سکتے ہیں یہ سوچنا اور اس پر عمل کو یقینی بنانا ہے ۔

تبدیلی ایک فطری عمل ہے جو کہ ہر پہر ، ہر دن ، ہر سال رونما ہورہی ہے ، ہر لمحے کا بدل جانا بھی تبدیلی کے مترادف ہوتا ہے ۔ اس کے لوازمات میں یہ ضروری ہوتا ہے کہ ہمارا اپنا رویہ کیا محسوس کرتا ہے ، بہت سے ایسے بھی ہیں جنہیں کوئی تبدیلی محسوس نہیں ہوتی ۔ دیکھا یہ گیا ہے کہ جو خود کو تبدیل کرتے ہیں وہ ترقی و کامرانی کی راہ پر گامزن ہوتے ہیں جبکہ خود کو تبدیل کرنا مشکل ضرور ہے مگر ناممکن نہیں ۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ ذھنی طور تبدیلی کے لیے تیار رہنا لازمی ہے ۔ ہمارے یہاں کے معاشرے میں نجاد دھندہ کا انتظار صدیوں سے چلا آرہا ہے ، الیکشن کے لیے کسی مرعات یافتہ کو ووٹ دینا بھی اسی زمرے میں آتا ہے ۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کون آئے گا ؟ ۔ جس دن یہ احساس ہوگیا کہ کوئی نہیں آئے گا تو تبدیلی کا نیا سفر شروع ہوگا ۔ محترم ریحان اللہ والا کی یہ بات صیح ہے کہ خود کو بدلیں معاشرہ از خود بدل جائیگا ۔ ہم اگر ارادہ کرلیں کہ ہمیں نفرت ، تعصب ، اور اختلافات ختم کر کے بھائی چارے ، محبت ، اور اخوت کو فروغ دینا ہے تو معاشرہ خودبخود تبدیلی کی جانب گامزن ہوگا ۔ دنیا اچھے لوگوں سے بھری پڑی ہے لیکن اس کے لیے ہمارا خود کا اچھا ہونا اولین شرط ہے ۔ اچھے لوگ سڑک کنارے لگی اُن روشنیوں کی ماند ہوتے ہیں جو فاصلے تو کم نہیں کرتے البتہ رستے کو چلنے والوں کے لیے آسان اور محفوظ ضرور بناتے ہیں ۔ ایسے لوگ ہمیں جب میسر ہونگے جب ہم خود اچھائی کی پیروی کرینگے ۔ جھوٹ ، نفرت اور تعصب ہمیشہ بدحالی کی جانب لے جانے والے رستے ہیں اور اختلافات اس آگ کو مذید سُلگانے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں ۔

ہمارے معاشرے میں یہ بات عام ہے کہ اپنی کوتاہی کو پسِ پشت رکھ کر دوسرے کو قصور وار ٹھرایا جاتا ہے ۔ یہ اس طرح ہے جیسے اپنے گھر کا کچرا گلی میں پھینک کر یہ کہیں کہ حکومت سفائی ستھرائی کا خیال نہیں رکھتی ۔ ہم تعلیم کے دوہرے معیار کا رونا روتے ہیں لیکن دوہری تربیت کی بات نہیں کرتے ، ہم اگر اپنے بچوں کو صیح تربیت دیکر اسکول یا درسگاہ میں داخل کرائیں تو اس کے نتائیج بہت اچھے مل سکتے ہیں ۔ میری نظر میں سارا قصور نظامِ تعلیم کا نہیں ہمارے نظام تربیت کا ہے ، پہلے انہی سرکاری درس گاہوں سے بڑے بڑے نامور لوگ نکلے ہیں جبکہ آج یہ سلسلہ کیوں رُک گیا ہے ؟ اس کی بڑی وجہ ہماری تربیت ہے ، اگر گھر میں معاملات پیچیدہ ہیں اور بچے کے سامنے تمام ماحول ایسا ہے جس میں گھریلو چپقلس اور گالم گلوچ کا سلسلہ چل رہا ہو تو وہ بچہ اسکول میں بھی وہی رویہ اختیار کرتا ہے ۔ اس کے برعکس اگر ماحول پرسکون ہو تو بچے میں کئی صلاحیتیں نمودار ہوتی ہیں ۔ اچھی تعلیم کے لیے اچھی تربیت کا ہونا ضروری ہے ، اس کے بغیر ہماری تمام توقعات پوری نہیں ہوسکتی اور یہ وہ عمل ہے جسے ہم بہ آسانی کرسکتے ہیں ۔ جس کے لیے ضروری ہے کہ ہم وہ ماحول پیدا کریں جس سے بچوں میں علم حاصل کرنے کا شوق پیدا ہو ۔ اسی عمل سے ہی تبدیلی ممکن ہے باقی یہ سب دل لُبھانے کے باتیں ہیں کہ تبدیلی آرہی ہے ۔ آپ سوچیں کیا تبدیلی روز نہیں آتی ۔
Sheeedi Yaqoob Qambrani
About the Author: Sheeedi Yaqoob Qambrani Read More Articles by Sheeedi Yaqoob Qambrani: 14 Articles with 13014 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.