مفتی اعظم پاکستان حضرت مولانا مفتی محمد شفیع دیوبندی ؒ(مرحوم) کی یاد میں !

برصغیر کی سب سے بڑی اور مستند اسلامی درس گاہ ،جامعہ دارالعلوم کورنگی کراچی کے بانی مفتی صاحب کی گھریلو اور عالمانہ سرگرمیوں کے تذکرے پر مشتمل ایک خصوصی تحریر
مفتی اعظم پاکستان حضرت مولانامفتی محمد شفیع (مرحوم ) کا شمار برصغیر کے ان علمائے کرام میں ہوتا ہے جنیں ہر مکتبہ فکر کے ماننے والوں نے ہمیشہ عزت اور احترام دیا اور ان کے دیئے ہوئے فتوی ٰ کو حرف آخرکی حیثیت حاصل تھی اور آج بھی دینی درس گاہوں میں ان کے جاری کردہ فتاویٰ کی روشنی میں بہت سے متنازعہ مسائل کا حل تلاش کیا جاتا ہے جبکہ مفتی اعظم پاکستان حضرت مولانا مفتی محمد شفیع ؒ کوبرصغیر کے سب سے بڑے اور مستند دینی ادارے جامعہ دارلعلوم کورنگی کراچی کے بانی ہونے کااعزاز بھی حاصل ہے۔پاکستان جہاں مختلف مکاتب فکر سے تعلق رکھنے والے کروڑوں افراد آباد ہیں اورتقریبا ہر مکتبہ فکر سے وابستہ لوگ خود کو صھیح اور دوسرے مکاتب فکر کے افراد کو غلط ثابت کرنے میں نہ جانے کیا کیا کہ جاتے ہیں لیکن اس دور میں بھی اگر کسی عالم دین کو تمام مکاتب فکر میں غیر متنازعہ حیثیت حاصل ہے تو وہ حضرت مولانا مفتی محمد شفیع رحمت اﷲ علیہ کی ذات ہے جن کی کہی ہوئی باتوں کوشیعہ ہوں یا سنی،دیوبندی ہوں یا بریلوی سب ہی تسلیم کرتے ہیں اس بات سے بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ 72 فرقوں کے اس دور میں اگر مفتی محمد شفیع کا نام آج بھی عزت اور احترام سے لیا جاتا ہے اور ان کے فتاوی ٰ کو سب سے زیادہ معتبر سمجھا جاتا ہے تو یقیناًً حضرت مولانا مفتی محمد شفیع ؒکو ان کی خدمات اور کردارکی وجہ سے یہ مقام ملا ہوگا۔

حضرت مفتی محمد شفیع کے صاحبزادے مولانامحمدولی رازی کاشماربھی ممتاز علمائے کرام میں کیا جاتا ہے جن کے اکلوتے صاحبزادے فرید اشرف غازی ایک طویل عرصہ سے صحافت کے پیشے سے وابستہ ہیں ان کے لکھے ہوئے سینکڑوں مضامین اور مختلف موضوعات پر لکھی گئی متعددکتابیں ان کی شناخت ہیں اوراس حوالے سے وہ کراچی کی ایک جانی پہچانی شخصیت ہیں۔ان کا تحریر کردہ یہ مضمون ایک پوتے کی جانب سے اپنے نامور دادا کی شخصیت کو خراج عقیدت پیش کرنے کی ایک عمدہ کاوش ہے جس سے عام قارئین بھی مستفید ہوسکتے ہیں کہ اس مضمون میں پاکستان کے پہلے مفتی اعظم حضرت مفتی محمد شفیع صاحب کے حوالے سے بعض ایسی نجی باتوں کا تذکرہ بھی کیا گیا ہے جو مفتی صاحب کے حوالے سے لکھی گئی متعددکتابوں اور مضامین میں دکھائی نہیں دیتیں،اس مضمون کے ذریعے مفتی محمد شفیع صاحب کے عقیدت مندوں اور عام قارئین کو بہت سی نئی باتیں ایسی معلو م ہونگی جو اس سے قبل منظر عام پر نہیں آسکیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

تحریر : فر ید اشرف غازی
مفتی اعظم پاکستان حضرت مفتی محمد شفیع ؒکانام کسی تعارف کا محتاج نہیں وہ ایک غیر متنازعہ جید عالم دین تھے جنہوں نے پاکستان میں دیوبندی مکتبہ فکر کے سب سے بڑے مذہبی تعلیمی ادارے ’’جامعہ دارالعلوم کراچی ) کی بنیاد رکھی لیکن افسوس اسلامی دنیا کی یہ قابل فخر اور قابل تقلید مذہبی شخصیت 6 ،اکتوبر1976 کو اس دار فانی سے کوچ کرگئی اور یوں عالم اسلام ایک بہت بڑے عالم دین سے محروم ہوگیا ان کے لاکھوں معتقدین ، شاگرد اور مداح ہرسال 6 ،اکتوبر کوان کا یوم وفات بہت عقیدت و احترام کے ساتھ مناتے ہیں۔ان کی قائم کردہ اسلامی درس گاہ ’’جامعہ درالعلوم کراچی‘‘ کا شمار اس وقت عالم اسلام کے بہترین مذہبی تعلیمی اداروں میں ہوتا ہے اور یہاں سے فارغ التحصیل ہونے والے طلبا کو پوری دنیا میں بڑی قدر ومنزلت کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے یہی وجہ ہے کہ دینی تعلیم حاصل کرکے مولوی یامفتی بننے والوں کی پہلی ترجیح جامعہ دارالعلوم کراچی سے مذہبی تعلیم مکمل کرکے یہاں کی ڈگری حاصل کرنا ہوتا ہے ۔آج کل اسلامی دینا کی اس قابل فخر اسلامی درس گاہ جسے اب اسلامی یونیورسٹی کا درجہ حاصل ہوچکا ہے کے مہتمم حضرت مولانامفتی محمد شفیع ؒ (مرحوم )کے صاحبزادے مفتی محمد رفیع عثمانی ہیں جنہیں اس وقت مفتی اعظم پاکستان ہونے کا اعزاز بھی حاصل ہے۔

میں خود کو بہت خوش قسمت سمجھتا ہوں کہ جس ہستی کو دنیا بھر میں عزت اور احترم کی نگاہ سے دیکھاجاتا ہے ، میں اس نامور عالم دین کا پوتا ہوں ، جی ہاں!حضرت مولانا مفتی محمدشفیع ؒ میرے دادا تھے ،ایک پوتا ہونے کے ناطے مجھے اپنے دادا کو بہت قریب سے دیکھنے کا موقع ملا ہے اور میں نے ان کی زندگی کے وہ گوشے بھی دیکھے ہیں جو عام لوگوں کی نظروں سے اوجھل ہیں لہذا میں نے سوچا کہ کیوں نہ برصغیر کے سب سے بڑے عالم دین کے حوالے سے میں اپنی یادوں اور باتوں کو قارئین سے شیئر کروں تاکہ ان کے معتقدین ان کے بارے میں کچھ نئی باتوں سے بھی روشناس ہوسکیں۔ میرے دادا کو ہم سے بچھڑے ہوئے ایک طویل عرصہ بیت گیا ہے لیکن ان کی یادیں اور ان کی باتیں آج بھی میرے ذہن میں محفوظ ہیں ۔ جب ان کا انتقال ہوا تو میں اس وقت میٹرک کے امتحان کی تیاریوں میں مصروف تھا،جب مجھے ان کے انتقال کی خبر ملی تو مجھے ایسا محسوس ہوا کہ گویا مجھ سے میری آنکھوں کی روشنی چھین لی گئی ہو، میرے داادا حضرت مفتی محمد شفیع صاحب بھارت کے شہر سہارنپور کے ایک قصبے ’’دیوبند‘‘میں پیدا ہوئے ،وہیں پرورش پائی ،وہیں تعلیم مکمل کی اور وہیں سے درس وتدریس کا سلسلہ شروع کیا،وہ بر صغیر کے ممتازعالم ٍ دین تھے ،قیام پاکستان سے قبل وہ26 سال تک دارلعلم دیوبند میں درس حدیث دیتے رہے اور ساتھ ہی صدر مفتی کے منصب اعلٰی پر فائز رہے ۔قیام پاکستان کی جد وجہد میں پوری طرح شریک رہے اور قیام پاکستان کے لیے انتھک جد وجہد کی ِ‘قیام پاکستان کے بعد آپ نے’’ نانک واڑاہ ‘‘کراچی میں دارلعلو م دیوبند کی طرز کی درسگا ہ قائم کی جس کے آپ صدر تھے کچھ عرصہ بعد یہ دارالعلوم شرافی گو ٹھ لاندھی میں منتقل ہوگیا اور اب وہیں قائم ہے اوراب اسے سب’’ جامعہ دارالعلوم کراچی‘‘کے نام سے جانتے ہیں۔آج کل اس عظیم الشان اسلامی درس گاہ کے مہتمم مفتی محمدشفیع مرحوم کے صاحبزادے مفتی محمد رفیع عثمانی ہیں جنہیں اس وقت مفتی اعظم پاکستان ہونے کا اعزاز حاصل ہے۔

قیامـــ پاکستان کے بعد حکومت پاکستان نے جو تعلیمات اسلامیہ بورڈ قائم کیا تھا آپ اس کے رکن تھے ،مولانا شبیر احمد عثمانی کے انتقال کے بعد آپ جمعیت المائے اسلام کے مرکز ی صدر بھی رہے آپ نے جو کتابیں تالیف کی ہیں ان کی تعداد200سے زا ؔئدہے اور فتاویٰ کی تعداد ایک اندازے کے مطابق دو لاکھ سے زائد ہے.وہ عرصہ دراز سے مختلف بیماریوں میں مبتلا تھے جس کی وجہ سے انہوں نے عملی سیاست میں حصہ لینا چھوڑ دیا تھااور اپنی تمام تر توجہ دینی امور پر مرکوز کردی تھی۔ انڈونیشیا ،ملایئشیا، افریقہ ،پاکستان، ہندوستان افغانستان اور بنگلہ دیش میں آپ کے ہزاروں شاگرد موجود ہیں ۔میرے دادا مفتی محمد شفیع صاحب کے چار صاحبزادے اور تین صاحبزادیاں ہیں جن میں سے سب سے بڑے صاحبزادے معروف شاعر محمدزکی کیفی اور سب سے بڑی صاحبزادی نعیمہ خاتون انتقال فرما چکی ہیں۔ میرے دادا مفتی محمد شفیع کے والد کا نام محمد یاسین تھا اور وہ بھی ایک ممتاز عالم دین تھے، میرے دادا مفتی محمدشفیع کو اپنے خاندان کے تمام افراد سے بے پناہ محبت تھی، یہی وجہ تھی کے ہم سب کو اپنی نصیحتوں سے نواز تے رہتے تھے میرے دادا کا انتقال1976 میں ہوا،سب خاندان والوں نے ہمیشہ کی طرح اس سال بھی ’’عید‘‘ ان کی رہائش گاہ پران کے ہمراہ بڑی خوشی کے ساتھ منائی تھی لیکن ہمیں کیا معلوم تھا کہ یہ عید ہمارے داداکی آخری عید ہوگی اور ہمارے سر سے اتنی عظیم شخصیت کا سایہ ہمیشہ کے لیئے ا ٹھ جائے گا ۔انتقال سے بارہ روز پہلے وہ ہمارے درمیان بیٹھے ہم کو قیمتی نصیحتوں سے نواز رہے تھے اور آج جب میں ان کی برسی کے موقع پر یہ مضمون تحریر کررہا ہوں تو ان کا ایک جملہ میری آنکھوں کے سامنے پھر رہا ہے جو انہوں نے عید کے دوسرے دن ہم سب کے درمیان بیٹھ کر کہا تھا اور وہ جملہ یہ ہے ـ:ْ’’ دیکھو ہوسکتاہے کہ یہ میری تم لوگوں کے ساتھ آخری عید ہو ‘‘اورپھر میرے دادا حضرت مفتی محمدشفیع ہم کوان ہی الفاظ میں نصیحت کی جو حضورؐ کے ہونٹوں پر آخر تک تھی اور وہ یہ تھی کہ: ’’نماز کی پابندی کرو اور لوگوں کے حقوق پورے کرو اور پھر میرے دادا محترم نے فرمایا کہ‘‘جو لوگ نماز نہیں پڑھتے میرا دل چاہتا ہے کہ ان کے گھروں کو آگ لگادوں مگر ان کے بیوی بچوں کے خیال سے کہ وہ بے قصور ہیں میں اس خیال کو دل سے نکال دیتاہوں‘ِِِ‘۔ان کی یہ نصیحت آج مجھے اپنے دادا کی شدت سے یاد دلا رہی ہے اور میری آنکھوں کے سامنے ان کاپُرنور چہرا گھوم رہا ہے۔ کاش میرے دادا محترم کچھ عرصہ اور زندہ رہتے اور ہم کو انکی خدمت کی عظیم سعادت حاصل رہتی،میرے دادا اپنے تمام پوتوں اور پوتیوں سے بہت پیار کیا کرتے تھے اور انہیں سب کے شوقوں کا بھی علم تھا ،ان دنوں مجھے دنیا بھر کے ڈاک ٹکٹ جمع کرنے کا بہت شوق تھا اس لیئے میں جب بھی اپنے دااد سے ملنے دارالعلوم جایا کرتا تو وہ مجھے بہت پیار سے اپنے پاس بلاتے اور ڈاک کے لفافوں پر سے اتارے ہوئے ٹکٹ مجھے دے دیا کرتے تھے۔اب آپ یہ دیکھیں کہ میرے داادا ایک انتہائی مصروف انسان ہونے کے باوجود بچوں کی پسند کی چیزوں کا کتنا خیال رکھا کرتے تھے کہ ان کے پاس دنیا بھر سے جو خطوط آیا کرتے تھے وہ ان پر سے ڈاک ٹکٹ اتار کر محض اس لیئے جمع کرلیتے تھے کہ جب میں ان سے ملنے جاؤں تو وہ یہ ٹکٹ مجھے دے سکیں ،یہ تھے بڑے لوگ جواپنی مصروفیات میں بھی ذرا ذرا سی باتوں کو یاد رکھتے تھے ۔میرے دادا کی موت ہمارے خاندان کے لیئے ایک بڑے سانحے کے ساتھ ایک عظیم اسلامی رہنما کی بھی موت ہے جس کی کمی کبھی بھی پوری نہیں ہو سکتی میرے دادا حضرت مفتی محمد شفیع نے اپنی موت سے چند گھنٹے قبل اگر کسی سے کسی کی ذات کے بارے میں کوئی بات کی تو خوش قسمتی سے وہ میں تھا کیونکہ جن دنوں میرے دادا ہسپتال میں زیرعلاج تھے ان دنوں اتفاق سے میر ی طبعیت بھی بہت خراب تھی اور مجھے الٹیاں بہت زیادہ ہورہی تھیں اور میرے والد مولانا محمد ولی رازی صاحب ان کی دیکھ بھال کے لیئے روزآنہ ہسپتال جایا کرتے تھے جس روز میرے دادا کا انتقال ہوا اس روز بھی میرے والد ان کے پاس ہی موجود تھے اورانہوں نے میرے دادا کے انتقال کے بعد یہ بات سب خاندان والوں کو بتائی کہ میرے دادا حضرت مفتی محمد شفیع نے آخری جملہ جو میرے والد سے کہا وہ یہ تھا کہ: ’’ولی ،فرید کی طبعیت اب کیسی ہے ‘‘اور اس کے بعد ان کی روح قفس عنصری سے پرواز کر گئی اوراس لحاظ سے میں اپنے آپ کو بہت خوش قسمت سمجھتا ہوں کہ مرتے وقت میرے دادا نے مجھے یاد رکھا اوران کے ہونٹوں پر میرا نام تھا۔جس روز میرے دادا کا انتقال ہوا اس کے دوسرے دن میری سالگرہ کا دن تھا کیونکہ میں 7 ،اکتوبر1961 کو پیدا ہوتھااور میرے دادا کا انتقال 5 ،اکتوبر1976 کی رات 12 بج کر5منٹ پر ہوا یعنی 6 ۔اکتوبر کووہ اس دارفانی سے کوچ کر گئے یہی وجہ ہے کہ ان کے بے شمار معتقدین ،شاگرد اور مداح ہر سال 6 ،اکتوبر کو ان کا یوم وفات پوری عقیدت اور احترام کے ساتھ مناتے ہیں۔

میرے دادا حضرت مفتی محمد شفیع ؒایک طویل عرصہ سے دل کی بیماری میں مبتلا تھے اور آپ کے انتقال سے قبل بھی آپکو دل کے کئی دورے پڑچکے تھے لیکن 5 ،اکتوبر1976 کو منگل کی دوپہر پونے دو بجے آپ کے دل میں سخت تکلیف ہوئی ،شام کوادار ہ انسد ادامراض قلب کے ماہر ڈاکٹر اسلم نے آپ کا معائنہ کیا اور پھر اپنے ساتھ ہی جناح اسپتال لے گئے جہاں ڈاکٹر وں کی انتھک کوششوں کے باوجود رات کو بارہ بجکر چوبیس منٹ پر آپ نے داعی اجل کو لبیک کہا ۔آپ کی جدائی سے جو خلا پیدا ہوا تھا وہ کبھی بھی پرنہ ہوسکے گا ۔آپ نے تقریباً تمام عمر دین کی خدمت میں بسر کی آپ حدسے زیادہ دہ منکسرالمزاج اور بہت سی خوبیوں کا مجموعہ تھے جو کسی ایک شخصیت میں کم ہی جمع ہوتی ہیں۔ وہ اپنی ذات میں ایک انجمن بھی تھے اور ملک وقوم کے سچے بہی خواہ بھی ۔آپ جیسے یگانہ روز گار لوگ صدیوں میں پیدا ہوتے ہیں ،آپ ایک منفرد حیثیت اور مقام کے مالک تھے، آپ کی جدائی بلا شبہ ایک عظیم قومی سانح کی حیثیت رکھتی ہے، آپ کے ہزاروں معتقدین نے آپ کی نمازجنازہ حضرت ڈاکٹر عبدلحئی کی امامت میں دارالعلوم کورنگی کراچی میں اداکی پھر آپ کو دارالعلوم کی چاردیواری میں واقع قدیم قبرستان لے جایا گیاجہاں ہزاروں اشکہار آنکھوں نے آپ کے لئے دعا کی اور آپ کو بڑے ہی رنج وغم کے ساتھ آپکی آخری آرام گاہ میں اتارا گیا اورپھر یوں اس صدی کے عظیم اسلامی رہنما کی تدفین کی گئی اس موقع پر پاکستان کے کونے کونے سے ہزاروں کی تعداد میں لوگوں نے ان کی نماز جنازہ اور تدفین میں شرکت کی ،اس موقع پر دارالعلوم کورنکی کی وسیع وعریض مسجد اور میدان میں حدنگاہ تک لوگ ہی لوگ نظر آرہے تھے جس سے ہمیں اندازہ ہوا کہ ہمارے دادا عام لوگوں میں کس قدر چاہے جاتے تھے ،ان کے انتقال کے بعد یہ بات شدت سے محسوس ہوئی کہ ہم ایک ایسی عظیم ہستی سے محروم ہوچکے ہیں جن کو پورے عالم السلام میں بے پناہ چاہت اور عقیدت حاصل تھی اورجنہیں ہر مکتنبہ فکراور مذہبی فرقے میں بڑی عزت اور احترام کی نظر سے دیکھا جاتا تھا،شیعہ ہوں یا سنی ،دیوبندی ہوں یا بریلوی سب ہی میرے دادا حضرت مفتی محمدشفیع کے معتقد تھے اور ان کو ایک غیرمتنازعہ عالم دین سمجھا جا تا تھا۔میں چونکہ ان کا لاڈلا پوتا تھا اس لیئے ان کے کافی قریب رہتا تھا اور میں نے دیکھاکہ ا تنی زیادہ شہرت اور اہمیت کے باوجود ان کے مزاج میں سادگی اور انکساری کا حسین امتزاج پایا جاتاتھا، نام ونمود،جاہ و منصب اور مال ودولت کی طلب سے ہم نے اپنے دادا کو ہمیشہ دور ہی دیکھاجب ہم کورنگی کراچی کے دارلعلوم میں ان کی رہائش گاہ پر جایا کرتے تھے تو وہ نہایت مصروف ہونے کے باوجود اپنے پوتوں اور نواسوں کے لیے وقت نکالا کرتے تھے جس کے دوران وہ ہم سب سے ہلکا پھلکا مذاق کرنے کے علاوہ اکثر بڑی کام کی باتیں اور نصیحتیں کرتے تھے اور ہم بچوں کے ساتھ اپنی نشست برخاست کرتے ہوئے ان کاآخری جملہ اکثر یہی ہوتا تھا کہ:’’بیٹا ہمہشہ نماز کی پابندی کرو اور کسی بھی حالت میں نماز کو ہرگز نہ چھوڑوکیونکہ نماز ہمارے دین کاستون ہے ،اپنی نمازوں کی حفاظت کیا کرواور کوشش کرکے ہمیشہ اول وقت میں نماز پڑھا کرواور اﷲ تعالیٰ سے کثرت سے اپنے گناہوں کی معافی مانگا کروـ‘‘۔ان کے یہ الفاظ آج بھی میرے کانوں میں گونجتے ہیں جن کی وجہ سے اﷲ نے مجھے نماز پڑھنے کی توفیق عطا کررکھی ہے ۔ آخرمیں میری دلی دعا ہے کہ اﷲ تعالی میرے دادحضرت مفتی محمد شفیع مرحوم کو جنت الفردوس میں اعلیٰ ترین مقام عطاع فرمائے۔ (آمین)
تحریر:فریداشرف غازی ۔کراچی
 
Fareed Ashraf Ghazi
About the Author: Fareed Ashraf Ghazi Read More Articles by Fareed Ashraf Ghazi : 119 Articles with 125625 views Famous Writer,Poet,Host,Journalist of Karachi.
Author of Several Book on Different Topics.
.. View More