بغلیں بجاتے - منہ چھپاتے - شیخ رشید صاحب

آج شیخ رشید احمد صاحب فرط جذبات میں ہمیشہ کی طرح ایک اور پیش گوئی کرتے ہوئے فرماتے پائے گئے کہ عدالتی ریمارکس پر وزرا پریس کانفرنس کرکے روزانہ بغلیں نہ بجائیں، بغلیں بجانے والے وزرا منہ چھپاتے پھریں گے “ یہ مشورے شیخ صاحب دوسروں کو دینے کے دوران خود اپنی پریس کانفرنس کو کیا کہیں گے کیا ان کی یہ میڈیا ٹاک پاناما لیکس کی سماعت کے موقع پر نہیں تھی۔ ہمارے ملک میں یہ المیہ ہے کہ دوسروں کو مشورے اور ہدایات دینے والے اپنے تئیں ان تمام ضابطوں کو کسی خاطر میں نہیں لاتے۔ شیخ صاحب ایک ایسے سیاستدان ہیں کہ جنہوں نے بغیر اپنی کسی قابلیت کے ناصرف ملک عزیز میں بلاشرکت غیرے دہائیوں تک وزراتوں کے مزے لوٹے، کسی بھی آمر کا دور دیکھ لیں گزشتہ چار دہائیوں میں تمام میں شیخ صاحب بغیر اپنی کسی وزنی قابلیت کے صرف یا تو اپنے وزنی وزن سے یا اپنے شعبدے بازوں یا کہا جائے کہ چورن بیچنے والوں اور مداریوں کے انداز تکلم سے ملک کی ان وزارتوں پر مسلط رہے کہ جن پر اگر کوئی قابل پاکستانی برجمان رہتا تو امید ہے کہ اداروں کی تباہی اس قدر نہ ہوتی جس قدر گزشتہ ادوار میں ہوتی رہی ہے۔ شیخ صاحب دوسروں کو کرپٹ اور سلگش وغیرہ کہنے میں حفظ کی گئی تقاریر اور جملوں کو جس طرح بلاناغہ اور بلاتکلف استعمال کرتے ہیں وہ ہم سامعین اور ناظرین اکثر اوقات میں دیکھتے رہتے ہیں۔

شیخ صاحب ایک انتہائی ہوشیار سیاستدان کا روپ دھارنے کی کوششوں میں لگے رہتے ہیں اور ان کا یہ تجزیہ ہمیشہ ان کے کام آتا رہتا ہے کہ کب کس حکمران کی کشتی میں سوراخ ہوگئے ہیں چنانچہ کشتی ڈوبنے سے پہلے جو مخلوق کشتی سے فرار ہوتی ہے ان سے کچھ پہلے یا کچھ بعد میں شیخ صاحب بھی حکمرانی کی کشتی چھوڑ کر نکل جانے میں ہمیشہ کامیاب رہتے ہیں۔

شیخ صاحب کی پیش گوئیوں کی فہرست نہایت طویل ہے ہر مہینہ وہ اگلے مہینے کی پیش گوئی کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں مگر یہ دوسری بات ہے کہ ملک کے اکثر علاقوں میں کہیں برف گرے نہ گرے مگر ان کی گزشتہ پیشن گوئیوں پر برف ہمیشہ گرتی رہتی ہے یہ دوسری بات ہے کہ وہ اپنی پرانی پیش گوئیوں کو بھولنے اور بھلانے میں کافی ماہر ہوگئے ہیں۔ سکھوں پر تو کافی لطیفے بنتے رہتے ہیں مگر اب تو شیخ صاحب پر بھی لوگ پھبتی کستے ہیں کہ “وقت بدلنے والا ہے اب دسمبر کے بعد جنوری آکر رہے گا“۔

شیخ صاحب کی ہر روز ہونے والی ہوائی فائرنگ یعنی پیش گوئیوں میں سے اگر دس فیصد پر بھی کامیابی ان کے نصیب میں آجاتی تو شیخ صاحب ہمارے آنجہانی پیر پگارہ مرحوم کے صحیح معنوں میں جان نشین ثابت ہوسکتے تھے۔

شیخ صاحب دوسروں پر کرپشن کے الزامات لگانے اور ان کو اپنے تئیں ثابت کرنے میں حد درجے زور لگاتے نظر آتے ہیں، اگر ان سے یہ دریافت کیا جاتا ہے کہ آپ کے ٹھاٹ باٹ اور موجاں کے کیا ممکنہ زرائع ہیں تو موصوف فرماتے ہیں کہ جی ہمارے کچھ کاروبار ہیں، یعنی شیخ صاحب کبھی زندگی میں اپنے کسی کاروبار میں مصروف نہیں پائے گئے اور نہ ان کے معاشی زرائع ہیں مگر ان کے ٹھاٹ باٹ ہیں کہ ختم ہی ہونے میں نہیں آتے۔

بات چلی تھی ن لیگ والوں کو مشورے دینے کی کہ سپریم کورٹ کے احکامات کے مطابق ن لیگی پانامہ کیس کی سنوائی کے بعد پریس کانفرنسز نہ کریں مگر وہ یہ مشورہ خود بھی پریس کانفرنس کرکے پانامہ لیکس کے مقدرے سے پہلے میڈیا سے پہلے کرکے دیتے پائے گئے۔ نامعلوم کونسا وقت ہوگا کہ ہم قواعد و ضوابط پر دوسروں کو متوجہ کرنے کے بجائے اپنے آپ کو بھی ان قواعد و ضوابط کا پابند رکھیں۔

مسئلہ پھر وہی ہے کہ جس قوم کی باگ دوڑ شیدیوں، شیروں اور مداریوں کے ہاتھ میں رہے گی تو ملک و قوم کا وہی حشر ہونا ہے کہ جو ہمارا فی الوقت ہورہا ہے۔ امید تو ہے کہ ملک و قوم کو ان عذابوں سے جلد نجات ملے گی، شعور، آگہی، ادراک، علم و عمل کا سلسلہ جلد اپنی جڑیں مضبوط کرے گا اور ہم بھی اقوام عالم میں ایک پروقار اور ذمہ دار قوم کی حیثیت اختیار کرجائیں گے مگر اس کے لئے اس سے کہیں زیادہ محنت کی ضرورت ہوگی جن کے مظاہرے ہم اپنے گلی محلوں اور اداروں میں دیکھ رہے ہیں۔

اللہ پاکستان کی حفاظت فرمائے اور ہمیں عقل و شعور عطا فرمائے آمین
 
M. Furqan Hanif
About the Author: M. Furqan Hanif Read More Articles by M. Furqan Hanif: 448 Articles with 493794 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.