قائد عوام ذوالفقار علی بھٹو

ذوالفقار علی بھٹوکے 5 جنوری 2017 ء کو89 ویں یوم پیدائش پر خصوصی تحریر ملک بھر میں ان کا یوم پیدائش جوش و خروش سے منایا جاتاہے ، گڑھی خدا بخش لاڑکانہ میں مرکزی تقریب منعقد ہوتی ہے ۔
ذوالفقاری علی بھٹو 5جنوری1928 ء کو لاڑکانہ میں پیدا ہوئے ۔بھٹو کو ئی قوم نہیں ہے ،بلکہ یہ ایک بھارت کے گا ؤ ں کا نام تھا ۔بھارت کے ضلع حصار کے قصبے سرسہ کے میں ایک گا ؤ ں بھٹو تھا ۔جو اب بھی دریائے سرسوتی کے کنارے آباد ہے ۔جب دریائے سرسوتی خشک ہوا ،قحط پڑا ،وہاں کے مکین ہجرت کر کے لاڑکانہ میں آباد ہوگئے ۔بھٹوخاندان اس گاؤں کی مناسبت سے بھٹو کہلایا۔ذوالفقارعلی بھٹو سر شاہنواز کے تیسرے بیٹے تھے ،شاہنواز کو برطانیہ نے سر کے خطاب دیا تھا ،ان کو ہند کی سیاست میں ایک اہم مقام حاصل تھا ۔

ذوالفقار علی بھٹو نے بمبئی اورآکسفورڈیونیورسٹی میں تعلیم حاصل کی ۔1950 ء میں کیلیفورنیا یونیورسٹی سے پولیٹیکل سائنس میں گریجویشن کیا ۔ تعلیم مکمل کرنے کے بعدکراچی میں وکالت کا آغاز کیا ،اور پھر 1953 ء میں ایس ایم لا ء کالج میں بین الاقوامی قانون پڑھانے لگے ۔ آپ کی شادی نصرت اصفہانی سے ہوئی جو کہ نسلا ایرانی تھیں ان کے والد مرزا اصفہانی کی کراچی میں کیمیکل کی ایک انڈسٹری تھی ۔
انتہائی خوش شکل ،خوش لباس ،گیسو دراز،ذہین و فطین بھٹو کی شہرت ملک میں پھیلی تو ایوب خان نے 1958 ء کو بھٹو صاحب کو بطور وزیر اپنی کابینہ میں شامل کر لیا ۔ اکتوبر 1958 ء کو آپ کو وزیر تجارت بنا دیا گیا ۔جنوری 1960ء میں اس کے ساتھ ساتھ آپ کو مزید محکمے مثلاََ اقلیتی امور ،ایندھن بجلی و قدرتی وسائل اور امور کشمیر کا قلم دان بھی سونپ دیا گیا ۔1962 ء کے آخر میں دسمبر میں پاک بھارت مذاکرات کے مندوب مقرر ہوئے ۔1963 ء میں وہ ملک کے وزیر خارجہ بنے ۔قائد عوام کو ہلال پاکستان کا اعزاز 27 جون 1964 ء کو دیا گیا ۔بھٹو ایک بہادر اور نڈر طبیعت کے مالک تھے ۔مفاہمت ،منافقت ،دوغلی پالیسی سے ان کا کوئی تعلق نہیں تھا ۔وہ سچ بات منہ پر کہنے کے عادی تھے ۔ایک بار جب وہ وزیر خارجہ تھے تو صدر جانس نے ان سے کہا تھا ،دنیا کے جس حصے میں اور جتنی دولت چاہیے لے لو اور ہماری راہ سے ہٹ جا ؤ ،بھٹو نے جواب دیا ۔ہم بکا ؤ مال نہیں ہیں ایک غیرت مند قوم ہیں ۔

1966ء جنوری کی دس تاریخ کو صدر ایوب سے پہلا اختلاف ہوا جس نے بعد میں ان کی راہیں جدا کر دیں 10 جنوری 1966 ء میں معاہدہ تاشقند سے اختلاف کیا پانچ ماہ بعد اور 10 جون 1966 ء کو ایوب کابینہ سے استعفیٰ دے دیا ۔پہلے تو انہوں نے معاہدہ تاشقند پر صرف اختلاف کیا تھا لیکن جب ایوب خان نے اعلان تاشقند پر دستخط کیے تو وہ حکومت سے علیحدہ ہو گئے ۔

30 نومبر 1967ء کو اپنے دو اڑھائی سو دوستوں کے ساتھ گلبرگ لاہور میں ڈاکٹر مبشر حسن کے گھر میں پاکستان پیپلز پارٹی کی بنیاد رکھی ۔چار ارکان پر مشتمل پیپلز پارٹی کی سپریم کونسل بنائی گئی جن میں ذوالفقار علی بھٹو،جے اے رحیم ، محمد حنیف رامے ،ڈاکٹر مبشر حسن شامل تھے۔ بنیادی ارکان میں بھٹو کا کوئی قریبی رشتہ دار نہیں تھا ۔بھٹو نے غریبوں کے حق میں انقلاب لانے کا اعلان کیا تھا ۔لیکن وہ غریبوں کے حق میں انقلاب نہیں لا سکے یا ان کو لانے نہیں دیا گیا ان کی راہ میں رکاوٹیں کھڑی کی گئیں ۔لیکن ہاں وہ غریبوں کو جگا ضرو ر گئے۔ان کو ان کے حقوق سے آگاہ ضرور کر گئے ۔ وہ جب تک زندہ رہے پارٹی میں الیکشن نہیں کروائے ۔

پاکستان پیپلز پارٹی کے چار بنیادی اصول تھے۔ ۔اسلام ہمارا دین ہے ۔جمہوریت ہماری سیاست ہے۔سوشلزم ہماری معیشت ہے ۔طاقت کا سرچشمہ عوام ہیں ۔جب پاکستان پیپلز پارٹی کی بنیاد رکھی گئی تو اس وقت ایک سوال تھا کہ ایک نئی پارٹی کیوں ضروری ہے ؟اس کا جو جواب دیا گیا وہ قابل توجہ ہے ۔آزادی سے پہلے اور آزادی کے بعد برصغیر کے مسلمانوں نے مکمل اتحاد سے ساتھ اعلان کیا تھا کہ پاکستان کی بنیادیں اسلام کے بنیادی اصولوں پر استوار کی جائیں گی اور ہماری سیاسی ،معاشی،اور سماجی زندگی اسلام کے دینی و دنیوی اصولوں کی قوت سے رواں دواں ہوگی لیکن ایسا نہ ہو سکا اس مقصد کو حاصل کرنے کے لیے پاکستان پیپلز پارٹی کی بنیاد رکھی گئی ہے ۔ بھٹو صاحب نے دن رات محنت کر کے پاکستان پیپلز پارٹی کو پاکستان کی مقبول ترین جماعت بنا دیا۔

1970 ء میں ہونے والے الیکشن میں پاکستان پیپلز پارٹی نے مغربی پاکستان میں اکثریت حاصل کی ۔اس وقت سقوط ڈھاکہ ہوا 1971 ء میں مشرقی اور مغربی پاکستان الگ الگ ہو گئے ۔اسی سال وہ پاکستان کے تیسرے صدر بنے اور 14 اگست1973 ء کو پاکستان کا پہلا آئین نافذ کیا اور خود وزیر اعظم بن گئے ۔اور بھارت سے مقبوضہ علاقے واگزار کرائے ، جس نے ان کو ملک مقبول ترین لیڈر بنا دیا ۔اس کے علاوہ 20 نومبر 1972 ء کو پاکستان کے پہلے ایٹمی ری ایکٹرکا افتتاح کیا ۔بھٹو جب اقتدار میں آئے تو ان کو جن مسائل کا سامنا تھا ان میں سے بنگلہ دیش کو تسلیم کرنا ،بھارت سے تعلقات بحال کرنا ،نوے ہزار سے زائد قیدی بھارت سے رہا کروانا،مضیب الرحمن جو ان دنوں قید تھے اور ملک میں ان کے حق میں تحریک چل رہی تھی ۔اس کے علاوہ بھارت کے قبضہ میں پانچ ہزار مربع میل زمین بھی تھی اسے واگزار کروانا ۔قائد عوام نے ملک کو ایٹمی ملک بنانے ،اسلامی بینک قائم کرنے،کہوٹہ پلانٹ کی تعمیر کرنے،ملک کو پہلا متفقہ آئین دینے ،نوے ہزار قیدیوں کو بھارت سے چھڑانے ،غریبوں کو ان کے حقوق سے آگاہ کرنے ان کو ان کے حق دلانے جیسے کاموں کے لیے جدو جہد کی ۔

بھٹو نے ہمیشہ غریبوں کی بات کی ان کے حق کے لیے آواز اٹھائی ،ملک کو قومی لباس شلو ار قمیض دیا ،اس سے پہلے ملک کا کوئی قومی لباس نہ تھا ۔پاکستان پیپلز پارٹی جو کہ قومی جماعت تھی آج صرف سندھ تک سمٹ گئی ہے ۔مفاہمت کی سیاست کے لیے پیپلز پارٹی نہیں بنی تھی بلکہ غریبوں کے حق کے آواز بلند کرنے ان کے حقوق دلانے کے لیے۔روٹی ،کپڑا اور مکان ۔ایک انسان کی بنیادی ضروریات کا نعرہ لگایا گیا جس نے بے پناہ مقبولیت پائی ا س کے علاوہ پاکستان میں اسلامی نظام کے رائج کرنے لیے پاکستان پیپلز پارٹی کا قیام عمل میں لایا گیا تھا ۔

ایک دور تھا جب پاکستان میں بھٹو کٹ جناب بھٹو کا ہیر اسٹائل مقبول ہوا تھا ۔ سر پر بڑے بڑے بال رکھنا بھٹو کٹ تھا، اس وقت پاکستان کے نوجوان بھٹو کٹ میں اکثر دیکھنے کو ملتے تھے ۔بھٹو کے لاکھوں کارکن تھے جن کو جیالوں کا نام دیا گیا ۔بھٹو نے انقلاب غریبوں کے لیے ،نیا پاکستان کا بھی نعرہ لگایا اور بے پناہ غریبوں کی محبت پائی ۔کسان کا قائد بھٹو ہے ،مزدور کا قائد بھٹو ہے ،غریبوں کا قائد بھٹو ہے کے نعروں سے ملک گونج اٹھا ۔اگر کوئی اپنی ذات کے لیے نمود و نمائش کے لیے نام و شہرت کے لیے ،عہدہ و مقام کے لیے جد و جہد کرے تو وہ ایسا بن سکتا ہے لیکن عظیم انسان بننے کے لیے اپنی ذاتیات سے ہٹ کر قوم،عوام ،انسانوں کے لیے جہدو جہد کرنی پڑتی ہے ۔

ذوالفقار علی بھٹو وہ پہلے سیاست دان ہیں جنہوں نے غریبوں کی بات کی ،غریبوں کے لیے سیاست کے دروازے کھولے ،عوام کی حکومت ،عوام کے ذریعے ،عوام کے لیے یعنی حقیقی جمہوریت کے لیے جہدو جہد کی ۔غریبوں کے لیے روٹی ،کپڑا ،مکان کا نعرہ لگایا ۔اس طرح پاکستان کی سیاست میں تبدیلی لے آئے قائد اعظم کے بعد عوام کے محبوب لیڈر بن گئے ۔پیپلز پارٹی کے عوامی منشور نے پاکستان کے ہر طبقہ فکر کو متاثر کیا اور لوگ جوک در جوک اس میں شامل ہونے لگے ۔ان کا سب سے بڑا کارنامہ عوام کو ان کے حقوق سے آگاہ کرنا ہے ،ووٹ کی طاقت کو تسلیم کیا جانے لگا ۔انہوں نے غریبوں کے لیے بہت سے منصوبہ جات شروع کئے ۔

پھر جب 1977 ء میں انتخابات ہوئے تو بھی پاکستان پیپلز پارٹی نے بھاری اکثریت حاصل کی لیکن حزب اختلا ف نے الیکشن قبول نہ کیے اور ملک گیر تحریک چلائی جس کے نتیجے میں جنرل ضیاء الحق نے اقتدار پر قبضہ کر لیا ۔ اور 5 جولائی 1977 ء کو ملک میں مارشل لگایا ۔دو ماہ بعد ذوالفقار علی بھٹو کو محمد احمد خان کے قتل کے مقدمہ میں گرفتار کر لیا گیا اور 18 مارچ 1977 ء کو انہیں قتل کے الزام میں موت کی سزا سنائی گئی۔ اس طرح 4اپریل 1979 ء کو قائد عوام جو کہ لاکھوں دلوں کی دھڑکن تھا ان کو پھانسی دے کر شہید کر دیا گیا ۔فیض احمد فیض نے بھٹو کی پھانسی کے بعد کہا ۔
دیا تھا صبح مسرت نے ایک چراغ ہمیں
اسی کو تم نے سر شام کھو دیا لوگو

ایک سیاست دان نواب احمد رضا خان جو کہ پرویز مشرف کے وکیل احمد رضا قصوری کے والد تھے، انہیں لاہور میں 11نومبر کو قتل کر دیا گیا تھا، ان کے قتل کا مقدمہ ایک منتخب وزیر اعظم پر ہوا اور اس کو اس ناکردہ قتل کی سزا میں پھانسی سنا دی گئی ۔پاکستان کی تاریخ کا اپنی نوعیت کایہ واحد کیس ہے ۔ اگر اس کیس کی لوجک کو سامنے رکھا جائے تو ملک میں ہر وزیر اعظم کو پھانسی ہونی چاہیے ۔شائد ایسی ہی کوئی بات تھی بھٹو کے دل میں جب انہوں نے ۔۔۔درداں دی ماری دلڑی علیل ہے ۔۔۔سرائیکی شاعری کے نغمے کا یہ ٹکڑا بھٹو نے سپریم کورٹ کے سامنے اپنی دفاعی تقریر میں کہا تھا ۔بھٹو صاحب کو مئی 1978 ء کی صبح کوٹ لکھپت جیل لاہور سے راولپنڈی سینٹرل جیل میں لایا گیا ۔

4 اپریل 1979ء کو ان کو پھانسی دی گئی اس دوران ان سے ملنے والوں کا ریکارڈ موجود ہے 342 ملاقاتیں ہوئیں جن میں جیل کے عملے کا ریکارڈ درج نہیں ہے اس دوران ان کی مختلف افراد سے ملاقاتیں ہوں اور آخری ملاقات محترمہ بے نظیر سے درج ہے ۔کہنا یہ ہے کہ ان کو اپنی بیٹی سے بے پناہ پیار تھا ۔بھٹو سے آخری ملاقات محترمہ بے نظیر بھٹو اور نصرت بھٹو کی 3 اپریل 1979ء کو ہوئی اور دوسرے دن 4 اپریل 1979 ء کو قائد عوام کو پھانسی کی سزا سنا دی گئی ۔ان کی تدفین لاڑکانہ گڑھی خدا بخش میں ہوئی ۔

اس دن پاکستان کے بہت سے گھروں میں صف ماتم بچھ گئی ۔بھٹو کو شہید کر دیا گیا اور شہید زندہ ہوتے ہیں ،بھٹو عوام کے دلوں میں زندہ رہا اس کی عوام میں بے پناہ مقبولیت کی وجہ سے اس کی بیٹی بے نظیر دو مرتبہ ملک کی وزیر اعظم بنی اور ایک دفعہ ان کے داماد آصف علی زرداری بھی پانچ سال حکومت کر چکے ہیں ۔آج بھی بلاول ز رداری بھٹو اپنے نانا کی عوام کے دلوں میں جو بے پناہ عقیدہ ہے اس کے بل بوتے پر سیاست کے میدان میں اترا ہے اور وزیر اعظم بننا چاہتا ہے ۔لیکن یہ فیصلہ وقت کرے گا کہ بھٹو کو پھانسی سے قتل کیا گیا یا اس کے جانشین اس کے بنائے ہوئے منشور پر نہ چل سکے اور بھٹو کو انہوں نے مار دیا ۔

چند دن پہلے ایک کتاب میرے مطالعہ سے گزری ۔جس کے آخری جملے پرمیری نگاہ کافی دیر تک ٹکی رہی کتاب ختم ہو چکی تھی مگر جو کچھ اس کتا ب میں لکھا تھا وہ سب مناظر میرے سامنے گھوم رہے تھے ۔یہ کتاب بھٹو صاحب کا خط تھی جو انہوں نے اپنی پیاری بیٹی محترمہ بے نظیر بھٹو کو لکھا تھا اس کا آخری جملہ میں نے کئی بار پڑھا وہ لکھتے ہیں ۔۔میں آنے والی نسل کے لیے ٹینی سن کا مایوس کن لیکن ایک طرح سے پیغمبرانہ پیغام چھوڑتا ہوں کہ ۔۔ارے پچاس سال کی عمر میں میں کیسا ہو جا ؤ ں گا اگر قدرت نے مجھے زندہ رکھا جبکہ اس پچیس سال کی ہی عمر میں میں دنیا کو اس قدر تلخ پاتا ہوں ۔ ۔
Akhtar Sardar Chaudhry Columnist Kassowal
About the Author: Akhtar Sardar Chaudhry Columnist Kassowal Read More Articles by Akhtar Sardar Chaudhry Columnist Kassowal: 496 Articles with 527748 views Akhtar Sardar Chaudhry Columnist Kassowal
Press Reporter at Columnist at Kassowal
Attended Government High School Kassowal
Lives in Kassowal, Punja
.. View More