ہسپتالوں میں مریضہ کے ساتھ سلوک اوراس کی ہلاکت

مسلم لیگ کی موجودہ حکومت کی طرف سے عوام کی خدمت کے دعوے توبڑے زوروشورسے کیے جاتے ہیں۔ملک کی ترقی کے سلسلے میں میاں برادران اپنی تعریفیں درتعریفیں کرتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں۔اس میں کوئی دورائے نہیں کہ وہ ملک کوترقی یافتہ ممالک کی صف میں شامل کرنے اورعوام کوبہترسے بہترسہولیات پہنچانے کے لیے دن رات ایک کیے ہوئے ہیں۔پھرکیاوجہ ہے کہ آئے روزایسی خبریں پڑھنے اورسننے کوملتی ہیں کہ انسان سوچنے پر مجبور ہو جاتا ہے کہ اس ملک میں حکومت بھی ہے ؟رعایاکوتعلیم، صحت، روزگار،امن، رہائش اورخوراک جیسی بنیادی سہولیات فراہم کرناریاست کی ذمہ داریوں میں شامل ہے۔عائشہ غوث کاکہناتھا کہ پرائم منسٹرنیشنل ہیلتھ پروگرام شروع کیا ہے ۔مستحق خاندانوں کوعلاج کی بہترسہولیات میسرآئیں گی۔نیشنل ہیلتھ پروگرام سے رجسٹرڈخاندان کوہسپتال میں داخلہ کی صورت میں اڑھائی لاکھ تک کی رقم کاتحفظ فراہم کیاجائے گا۔مستحق خاندانوں کوعلاج معالجہ کی سہولیات فراہم ہونے کی حقیقت یہ ہے کہ تین بڑے ہسپتالوں میں علاج کے لیے فٹ بال بننے والی قصورکی غریب مریضہ جناح ہسپتال کے فرش پرزندگی کی بازی ہارگئی۔تین ایمبولینسز بدلنے والی زہرہ بی بی ادویات کے لیے ادھارلائے ہوئے پیسے ایمبولینسزپرخرچ کرچکی تھی۔رات کے تین بجے ضلع قصورکی ساٹھ سالہ زہرہ بی بی کودل کی تکلیف کے باعث پنجاب انسٹی ٹیوٹ آف کارڈیالوجی ہسپتال لایاگیا۔ڈاکٹروں نے مریضہ کے گردوں کی خرابی کاکہہ کرلواحقین کوسروسزہسپتال لے جانے کی تجویزدی ۔سروسزہسپتال میں مریضہ کوایمرجنسی سے ہی جناح ہسپتال لے جانے کاکہہ دیاگیا۔جس پرمریضہ کے لواحقین اسے جناح ہسپتال لے گئے۔جہاں اسے ایمرجنسی میڈیکل ون میں داخل کیاگیا۔ابتدائی طبی امدادکے بعدمریضہ کوداخلے کے لیے میڈیکل یونٹ ون کے وارڈ میں بھجوادیا گیا ۔ جہاں بیڈدستیاب نہ ہونے کے باعث مریضہ کووارڈ کے فرش پرہی لٹادیاگیا۔ٹھنڈے فرش پرہی نرسزنے مریضہ کوڈرپ لگادی۔اسی حوالہ سے ایک قومی اخبارکی خبرمیں لکھا ہے کہ کچھ ڈرپ کااثرتھااورکچھ ٹھنڈے فرش نے کام دکھایاکہ دیکھتے ہی دیکھتے مریضہ کوشدیدبخارنے آگھیرااس پربھی وہاں موجو د ڈاکٹروں اورطبی عملے کوکچھ خیال نہ آیاتاہم انہوں نے اسی وقت پھرتی دکھائی جب زہرہ بی بی کے ساتھ آنے والے لواحقین نے دھاڑیں مارکرروناشروع کردیالیکن تب تک بہت دیرہوچکی تھی اورزہرہ بی بی ابدی نیندجاسوئی ۔مریضوں کے ساتھ یہ سلوک صرف لاہورمیں نہیں ہورہادیگرشہروں میں بھی کچھ اسی طرح کی صورت حال دکھائی دیتی ہے،گردوں کے مریض ساٹھ سالہ حاجی مشتاق کوسول ہسپتال گوجرانوالہ لایاگیاتوڈاکٹرنے فوری ڈائلنسز تجویز کردیا ۔ ڈائلنسزسنٹرکے عملہ نے پہلے ایک گھنٹہ بعد آنے کاکہاپھرجگہ نہ ہونے بہانہ بناکرمزیددوگھنٹے انتظارکی سولی پرلٹکادیا۔ادھرادھرکے چکرمیں مریض ایمرجنسی کے باہرہی تڑپ تڑپ کرجان کی بازی ہارگیا۔آٹھ ستمبرکے ایک قومی اخبارمیں خبرہے کہ ممتازآبادملتان کے رہائشی شبیراحمدکے ہاں پرائیویٹ کلینک میں نارمل ڈلیوری سے پیداہونے والا بچہ ایک پرائیویٹ کلینک میں چیک اپ کے لیے لایاگیاجس کوچلڈرن کمپلیکس ریفرکیاگیامگروہاں سے ڈاکٹرنے مبینہ طورپربچے کوابدالی روڈپرایک پرائیویٹ ہسپتال لے جانے کاکہااوروہاں بھاری فیس لے کرآئی سی یووارڈمیں شفٹ کرادیاجہاں بچے کی حالت سنبھلنے کی بجائے بگڑگئی توڈاکٹرنے مبینہ طورپراسے چلڈرن کمپلیکس میں انکوبیٹراورآکسیجن میں رکھنے کے لیے بھیج دیامگرچلڈرن کمپلیکس لے جانے پربچے کی موت واقع ہوگئی۔اس کاذمہ دارلواحقین نے ڈاکٹرکی غفلت قراردیااوراحتجاجی مظاہرہ کیا۔ اس ضمن میں راقم الحروف کاذاتی تجربہ کچھ یوں ہے کہ اب سے چند سال قبل راقم الحروف ایک تیرہ سالہ مریضہ کوچیک اپ کے لیے ڈسٹرکٹ ہیڈ کوارٹرہسپتال لیہ لے گیا توایک ڈاکٹرنے کہا کہ فلاں ڈاکٹرکوچیک کراؤ بچوں کا علاج وہ ڈاکٹرکرتے ہیں۔ راقم الحروف بچوں کے ڈاکٹرکے کمرے کے پاس گیا تووہاں پرکھڑے ہوئے وارڈ بوائے نے کہا کہ یہ بچوں کے ڈاکٹرہیںآپ مریضہ کوفلاں ڈاکٹرکے پاس لے جائیں بڑوں کاچیک اپ وہی کرتے ہیں۔راقم الحروف پھراسی ڈاکٹرکے پاس گیا تووہاں کے وارڈ بوائے نے پھربچوں کے ڈاکٹرکے پاس بھیج دیا۔وہاں گئے توڈاکٹرکی شکل تونہ دیکھ سکے تاہم وارڈ بوائے نے ایک سادہ کاغذپردوائی لکھ دی ۔ جناح ہسپتال لاہورمیں مریضہ کی ہلاکت کے حوالے سے ہسپتال کی انتظامیہ کاکہنا ہے کہ مریضہ کے لیے بیڈ کاانتظام کیاجارہا تھا کہ وہ جان کی بازی ہارگئی۔ہسپتال سے ڈیتھ سر ٹیفکیٹ ملنے کے بعدلواحقین مرحومہ کوتدفین کے لیے اپنے آبائی علاقے قصورلے گئے۔میڈیاپرخبرنشرہونے کے بعدوزیراعلیٰ شہبازشریف نے واقعہ کانوٹس لیتے ہوئے ذمہ داران کاتعین کرنے کی ہدایت جاری کردی ۔ اورکنگ ایڈورڈ میڈیکل یونیورسٹی کے وائس چانسلرپروفیسر فیصل مسعودکی قیادت میں تین رکنی کمیٹی قائم کردی جس میں وائس چانسلرفاطمہ جناح میڈیکل یونیورسٹی سردارفخرامام سمیت محکمہ صحت کے ایک ایڈیشنل ٹیکنیکل ڈاکٹرسلمان شاہدکوشامل کیاگیا ۔جنہیں ہدایت کی گئی کہ واقعہ کی تحقیقات کرکے رپورٹ چوبیس گھنٹوں کے اندرپیش کی جائے۔علاوہ ازیں محکمہ صحت کے ترجمان کے مطابق صوبائی وزیرصحت اسپیشلائزڈ ہیلتھ کیئراینڈ میڈیکل ایجوکیشن خواجہ سلمان رفیق نے جناح ہسپتال لاہورمیں مبینہ طورپرایک مریضہ ساٹھ سالہ زہرہ انورکووارڈ میں بسترنہ دینے اورفرشی بسترپراس کی ہلاکت کے واقعہ کی تحقیقات کے لیے ہدایت کردی ہے۔وزیرصحت افسو س ناک واقعہ کی اطلاع ملتے ہی سپیشل سیکرٹری ہیلتھ ڈاکٹرساجد چوہان کے ہمراہ جناح ہسپتال پہنچ گئے اورپرنسپل محمودشوکت اورایم ایس ڈاکٹرظفریوسف سے مریضہ کوفراہم کیے گئے علاج معالجہ بارے معلومات حاصل کیں بعدازاں میڈیاکے نمائندوں سے گفتگوکرتے ہوئے خواجہ سلمان رفیق نے کہا کہ افسو س ناک واقعہ کے بارے میں مکمل اورغیرجانبدارانہ تحقیقات کرائی جائے گی اورکسی کی کوتاہی ثابت ہوئی تواس کے خلاف سخت ایکشن لیاجائے گا۔مانیٹرنگ سیل کے مطابق خاتون کی بیٹی دہائی دیتی رہی کہ ٹھنڈ بہت ہے کم ازکم میری ماں کوبسترتودے دیں میری ماں کوبچالو۔لیکن کسی نے توجہ نہیں دی۔بالآخرتین گھنٹے بعدٹھنڈے فرش پرہی بوتل لگادی گئی۔اس ٹھنڈے فرش پرتڑپ تڑپ کرمریضہ خودٹھنڈی ہوگئی۔ایک قومی اخبارمیں شائع ہونے والی خبرکے مطابق زہرہ بی بی گذشتہ چھ سال سے دل اورگردوں کے مرض میں مبتلا تھی جسے رات ساڑھے تین بجے جناح ہسپتال لایاگیا لیکن علاج تودرکنارمریضہ کولٹانے کے لیے بستربھی میسرنہ ہوسکا۔ہرطرف سے ناکامی کے بعدروتی بلکتی بیٹی نے ماں کوایک دیوارکے ساتھ ہی چادریں بچھاکرفرش پرلٹادیا،فرش پرہی تین گھنٹے گزارنے کے بعداگلی صبح چھ بجے دیوارکے ساتھ بوتل لٹکاکرساٹھ سالہ مریضہ کووہیں پرڈرپ لگادی گئی۔ٹھنڈ لگنے کی وجہ سے مریضہ کوشدیدبخارہوا۔اوراسی اثناء میں وہ خودٹھنڈی ہوگئی۔لیکن ہسپتال میں کسی کے کان جوں تک نہ رینگی ۔سب سے حیران کن بات یہ ہے کہ زہرہ کی موت کے دس گھنٹے بعدبھی جناح ہسپتال کے فرشوں پرمریض جوں کے توں موجودہیں۔ کراچی سے شائع ہونے والے ایک قومی اخبارمیں شائع ہونے والی ایک رپورٹ یوں ہے کہ جناح ہسپتال میں ٹھنڈے فرش پرہلاک ہونے والی مریضہ تین نہیں پانچ ہسپتالوں کے دھکے کھاتی رہی۔چندروزپہلے گلاب دیوی ہسپتال انتظامیہ نے مریضہ کاپیشاب بندہونے پرعلاج کرنے کی بجائے گھرلے جانے کا مشورہ دیا۔اتوارکے روزڈسٹرکٹ ہیڈ کوارٹرہسپتال میں کوئی ڈاکٹرمیسرنہ آسکا۔مرحومہ مریضہ کے بیٹے محمدعمرنے اخبارسے گفتگوکرتے ہوئے کہا کہ جب میں نے اپنی ماں کوٹھنڈے فرش پرلٹایاتومیراکلیجہ پھٹ گیاتھالیکن غریب آدمی اس کے علاوہ اورکیاکرسکتاہے۔ ہماری حکومت سے صرف اتنی گزارش ہے کہ سرکاری ہسپتالوں میں جوسلوک ہمارے ساتھ ہواکسی اورکے ساتھ نہ ہو۔ ڈیوٹی ڈاکٹرنے فرش پرپڑی ہوئی مریضہ کوہاتھ لگانے سے انکارکردیاتھا ۔مریضہ کابیٹاجب بھی ڈاکٹرکوچیک کرنے کاکہتاتوجواب ملتاپہلے بیڈ پرلٹاؤ۔ گویا بسترکاانتظام کرنا ہسپتال کی نہیں مریضہ کے ورثاء کی ذمہ داری تھی۔ایمبولنس والے نے دس ہزارروپے کرایہ مانگا۔مریضہ کے بیٹے نے بتایا کہ ہمارے جاننے والے نے اسے سخت سست کہا توتین ہزارمیں مان گیا۔وہ سات ہزارروپے زیادہ لے رہاتھا۔کیاانسانیت اسی کوکہتے ہیں کہ مجبور وبے کس کی امدادکرنے کی بجائے اسے لوٹنے کی کوشش کی جائے۔اس خبرسے یہ بات پتہ چلتی ہے کہ مذکورہ ہسپتال میں مرحومہ مریضہ کے علاوہ بھی مریضوں پرفرش پرہی لٹادیا جاتا ہے۔ایک نیوزچینل کی رپورٹ کے مطابق جناح ہسپتال بارہ سوبستروں کاہسپتال ہے۔اس کے باوجودمریضوں کوفرش پرہی لٹادینا دوباتوں کی نشاندہی کرتا ہے ۔اول یہ کہ ہسپتال میں آنے والے مریضوں کی تعدادبہت زیادہ ہے۔اس لیے مریضوں کومجبوری سے فرش پرہی لٹاناپڑتا ہے۔یہی صورت حال ہے توپنجاب حکومت کوہسپتال کواپ گریڈ کرکے بستروں کی تعدادمیں اتنااضافہ کرنا چاہیے کہ کسی بھی مریض کوفرش پرنہ لٹاناپڑے ۔دوسری بات یہ ہوسکتی ہے کہ مذکورہ ہسپتال میں مریضوں کی درجہ بندی ان کی مالی حالت کودیکھ کرکی جاتی ہے ۔بااثراورمالی طورپربہترحالت کاحامل مریض آجائے تواس کوبستر اوردیگرسہولیات فراہم کردی جاتی ہیں اورمالی طورپرکمزوراوربے آسراء مریض آجائے تواسے فرش پرہی لٹادیا جاتا ہے۔یہ صورت حال ہے تووزیراعلیٰ شہبازشریف کوسخت ایکشن لیناچاہیے۔اس معاملہ میں صرف ایم ایس کی معطلی ہی کافی نہیں۔وزیراعلیٰ پنجاب شہبازشریف کی زیرصدارت اہم اجلاس ہوا۔جس میں جناح ہسپتال میں قصورکی رہائشی مریضہ کے جاں بحق ہونے کے افسوس ناک واقعہ کی ابتدائی رپورٹ پیش کی گئی۔مناسب علاج معالجہ نہ ملنے پرمریضہ کے جاں بحق ہونے پروزیراعلیٰ نے شدیدبرہمی کااظہارکیا۔غفلت، کوتاہی اورنااہلی کامظاہرہ کرنے پرسخت ایکشن لیااورجناح ہسپتال کے ایم ایس ظفریوسف کوفوری معطل کردیا۔واقعے کے ذمہ دارڈاکٹروں اوردیگرعملے کے خلاف بھی سخت ترین کارروائی کی ہدایت دی۔ ان کاکہناتھا کہ ایم ایس جناح ہسپتال ،ذمہ دارڈاکٹروں اوردیگرعملے کے خلاف محکمانہ کارروائی بھی عمل میں لائی جائے۔وزیراعلیٰ پنجاب کاکہناتھا کہ فرش پرمریضہ کولٹانابدترین نااہلی اورفرائض سے غفلت ہے۔کوئی مریض مناسب علاج نہ ملنے پردم توڑجائے ایساقطعی برداشت نہیں کروں گا۔ ایک قومی اخبارمیں ملتان سے خبرہے کہ نشترہسپتال سمیت ضلع کے تمام سرکاری ہسپتالوں میں بستروں کی شدیدکمی ہے جس کے باعث ایک ایک بسترپردوسے تین مریض داخل رہنامعمول ہے۔بستروں کی عدم دستیابی کی وجہ سے مریضوں کوزمین پرلٹاکربھی علاج کیاجاتا ہے ۔ نشتر ہسپتال میں بستروں کی منظورشدہ تعدادسترہ سوہے مگرروزانہ ۰۰۲۲ سے ۰۰۳۲مریض داخل رہتے ہیں ۔اس طرح ایک سوپچاس بستروں پرمشتمل چلڈرن کمپلیکس میں بھی ہربسترپرعموماً چارسے پانچ بچے داخل رہتے ہیں۔کارڈیالوجی انسٹی ٹیوٹ کاایمرجنسی وارڈ۲۷ بستروں پرمشتمل ہے مگررش کی وجہ سے متعددمریضوں کوداخلہ نہیں ملتا۔دل کے مریض ویل چیئراورسٹریچرپرعلاج کرواتے نظرآتے ہیں۔شہبازشریف جنرل ہسپتال ۰۰۱بستروں پرمشتمل ہے مگرمکمل طورپرفعال نہ ہونے کی وجہ سے مریض مستفیدنہیں ہوپاتے۔ میلسی سے ایک قومی اخبارمیں خبرہے کہ تحصیل ہیڈکوارٹرہسپتال میلسی میں ڈاکٹرزکی شدیدقلت ہے۔صرف دوڈاکٹرزکام کررہے ہیں جبکہ چودہ ڈاکٹرزکی اسامیاں خالی ہیں۔صرف دوڈاکٹرہونے کی وجہ سے روزانہ شہراورمضافات سے آنے والے ہزاروں مریضوں کودن بھرلائن میں لگنے کے بعددوپہرکے بعدمایوس لوٹناپڑتا ہے۔ جناح ہسپتال میں ٹھنڈے فرش پرمریضہ کی ہلاکت کامعاملہ تحریک انصاف نے پنجاب اسمبلی میں معاملہ اٹھانے کے لیے توجہ دلاؤنوٹس جمع کرادیا۔ تحریک انصاف نے پنجاب اسمبلی میں جناح ہسپتال لاہو ر میں مریضہ کی ہلاکت کامعاملہ اٹھانے کے لیے توجہ دلاؤنوٹس جمع کرادیا۔یہ نوٹس شعیب صدیقی نے جمع کرایاجس میں مریضہ کوبیڈ اورعلاج فراہم کرنے کی بجائے ٹھنڈے فرش پرلٹانے پرتشویش کااظہارکیاگیاہے۔میڈیارپورٹ کے مطابق وزیراعلیٰ پنجاب کے حکم پرلاہورکے جناح ہسپتال میں علاج نہ ہونے کے باعث ہلاک ہونے والی مریضہ زہرہ بی بی کی ہلاکت کی تحقیقات شروع کرد ی گئی ہیں۔ ا س سلسلہ میں تین رکنی تحقیقاتی کمیٹی ہسپتال پہنچی ۔ہسپتال کے ایم ایس پانچ ڈاکٹروں سمیت چارنرسوں سے پوچھ گچھ کی ہے۔تحقیقاتی ٹیم کاکہنا ہے کہ ذمہ داروں کے خلاف سختی سے نمٹاجائے گا۔اورواقعہ کی تفصیلی تحقیقاتی رپورٹ وزیراعلیٰ کوپیش کی جائے گی۔ جماعت اہلسنت پاکستان ملتان کے آرگنائزرعلامہ سیّدمحمدرمضان شاہ فیضی نے کہا ہے کہ جناح ہسپتال لاہورکے ٹھنڈے فرش پرخاتون مریضہ کی ہلاکت حکمرانوں کے لیے لمحہ فکریہ ہے۔سرکاری ہسپتالوں میں علاج کے لیے آنے والے غریب مریض علاج نہ ہونے کے باعث ایڑیاں رگڑرگڑکرمررہے ہیں لیکن وزیراعلیٰ شہبازشریف کواس کاکوئی احساس نہیں۔ سیاسی وسماجی خواتین نے کہا ہے کہ جناح ہسپتال میں مریضوں کی ہلاکت المیہ ہے۔مہذب معاشرے کے منہ پرطمانچہ ہے۔نظام کی اصلاح کی جائے۔ذمہ داروں کامحاسبہ کیاجائے۔

زندگی اورموت اللہ تعالیٰ کے ہاتھ میں ہے۔ہرایک کااس دنیاسے جانے کاوقت بھی مقررہے۔اس کے باوجودانسانی جان کی حرمت بھی اسلام میں بتائی گئی ہے۔کسی کوجان سے ماردیناقتل کرناکہلاتا ہے۔ ایک میگزین میں شائع ہونے والے حضرت عمرفاروق رضی اللہ عنہ پر ایک مضمون میں لکھاتھا کہ حضرت عمرفاروق رضی اللہ عنہ کے دورخلافت میں ایک راہگیرنے پانی مانگااسے پانی دیاگیاتووہ پیاس کی شدت کی وجہ سے انتقال کرگیا ۔حضرت عمرفاروق رضی اللہ عنہ نے ان لوگوں سے خون بہاوصول کرلیا جن لوگوں سے اس راہگیرنے پانی مانگا تھا۔یہاں توایک مریضہ علاج کے لیے آئی۔اس کاعلاج کرنے کی بجائے اس کے ساتھ یہ سلوک ہوا۔اس مریضہ کی ہلاکت کے تمام ذمہ داروں سے بھی خون بہالے کراس کے ورثاء کودے دیناچاہیے۔سچی بات تویہ ہے کہ اس مریضہ کی ہلاکت کے ذمہ دارخودوزیراعلیٰ پنجاب شہبازشریف بھی ہیں ۔اخبارات میں شائع ہونے والے ہسپتالوں کے مسائل سے تویہ بات سامنے آتی ہے کہ ہسپتالوں کے مسائل کی طرف وزیراعلیٰ کی توجہ نہ ہونے کے برابرہے۔انہوں نے اپنے جومعاونین متعین کررکھے ہیں وہ بھی اس میں دلچسپی نہیں رکھتے۔جناح ہسپتال لاہورمیں مریضہ کی ٹھنڈے فرش پرہلاکت شہبازشریف کی کارکردگی پرسوالیہ نشان ہے۔اب وزیراعلیٰ شہبازشریف پنجاب کے تمام ہسپتالوں کی کاکردگی رپورٹ منگوائیں اورمسائل کاجائزہ لے کر انہیں ترجیحی بنیادوں پرحل کرائیں تاکہ آئندہ ایسی صورت حال کاسامنانہ کرناپڑے۔

Disclaimer: All material on this website is provided for your information only and may not be construed as medical advice or instruction. No action or inaction should be taken based solely on the contents of this information; instead, readers should consult appropriate health professionals on any matter relating to their health and well-being. The data information and opinions expressed here are believed to be accurate, which is gathered from different sources but might have some errors. Hamariweb.com is not responsible for errors or omissions. Doctors and Hospital officials are not necessarily required to respond or go through this page.

Muhammad Siddique Prihar
About the Author: Muhammad Siddique Prihar Read More Articles by Muhammad Siddique Prihar: 394 Articles with 300807 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.