معذور افراد کی بحالی ایک قومی اور اخلاقی فریضہ

 14 اکتوبر 1992کی ایک متفقہ قراردادمیں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے ہر سال تین دسمبر کے دن کو خصوصی یا اسپیشل افراد کے دن کے طور پر منانے کا اعلان کیا جسکی عالمی سطح پر باضابطہ منظوری بھی دی گئ.اس قرارداد کے مطابق ایسے تمام معذور افراد جو کسی ایسی جسمانی یا دماغی بیماری میں مبتلا ہوں جو انکے روزمرہ معاملات کو صحیح طور سے سرانجام دینے کی صلاحیت و قابلیت کو ختم کردے اسکے دائرہ کار میں آتے ہیں اسکو چار حصوں میں تقسیم بھی کیا گیا یعنی یہ معذوری ذہنی بھی ہوسکتی ہے جسمانی بھی پیدائشی بھی اور حادثاتی بھی-

ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کے مطابق اس وقت دنیا کی 650%ملین آبادی معذور افراد پر مشتمل ہے جبکہ پاکستان میں یہ ریشو کل آبادی کے 7فیصد پر مشتمل ہے وہ بھی 18سال پہلے کی گئ مردم شماری کے مطابق جب پاکستان میں تاحال آخری مردم شماری کرائ گئ.اتنے سالوں سے مردم شماری دوبارہ نہ ہونے کے باعث کسی سرکاری ادارے کے پاس درست اعدادو شمار میسر نہیں.

ایک غیر سرکاری اندازے کے مطابق پاکستان میں اس وقت معذور افراد کی تعداد 17.5 ملین کے لگ بھگ ہے ۔ 1998کی قومی مردم شماری میں شاید پہلی بار کسی بھی وجہ سے معذور ہونے والے افراد کی بھی گنتی کی گئی جن کی تعداد اس وقت 34لاکھ سے زائد33,79,930 تھی ۔ جن میں پنجاب میں18,26,623، سندھ میں9,29,400، خیبر پختونخوا میں3,75,448، بلوچستان میں1,46,421، فاٹا میں21,705اور آزاد کشمیر میں ایسے افراد کی تعداد80,333تھی ۔

جبکہ اس وقت 18کروڑ کی آبادی میں ان معذوروں میں سب سے زیادہ 40فیصد جسمانی معذور ہیں جن میں ٹانگوں سے معذور ،ہاتھوں اور بازووں سے معذوراور جسمانی تشددکے کیسز شامل ہیں جبکہ 20.20فیصد ذہنی و بینائی سے معذور افراد10.10فیصد سماعت سے معذوری کے حامل معذور افراد ہیں۔ صوبائی سطح پر آبادی کے تناسب سے سب سے زیادہ معذور 3.05فیصدسندھ میں ہیں جبکہ 2.48فیصد کے ساتھ پنجاب دوسرے، 2.23فیصد کے ساتھ بلوچستان تیسرے اور 2.12فیصد کے ساتھ سرحد چوتھے نمبر پر ہے۔ ملکی سطح پر 2.8فیصد مرد اور 2.2فیصد خواتین معذور ہیں۔

وزارت سوشل ویلفیئر اور سپیشل ایجوکیشن پاکستان کےایک جائزے کے مطابق ملک میں 18سال کی عمر تک کے60لاکھ سے زائد بچے جسمانی معذور ہیں جبکہ اس عمر کے حامل 14لاکھ10ہزارنوجوان بینائی سے ، 17لاکھ 5ہزار سماعت سے محروم ہیں جبکہ14لاکھ 10ہزار ذہنی معذور اور 16لاکھکے قریب ایک سے زائد معذوری رکھتے ہیں۔

ان اعداد و شمار سے ظاہر ہوتا ہے کہ گذشتہ 14سالوں میں پاکستان میں معذور افراد کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے۔1998کی مردم شماری کے مطابق اس وقت پاکستان کی کل آبادی 145.5 ملین تھی جس میں سے 34لاکھ کے لگ بھگ افراد معذور تھے یعنی کل آبادی کا 2.54فیصد اور اب جبکہ پاکستان کے ادارہ شماریات کے مطابق 16اکتوبر 2012کو پاکستان کی اندازاً آبادی 181.10 ملین ( 181068295 ) ہے میں سے معذور افراد کی تعداد ایک کروڑ 70لاکھ سے زائد ہے یعنی کل آباد ی کا 7فیصد سے زائد۔ چنانچہ دوسرے الفاظ میں صرف 14سالوں میں 5.46فیصد زائد آبادی معذور ہو چکی ہے۔

پاکستان میں بڑھتی ہوئی معذوری کی ایک وجہ اقوام متحدہ کے عالمی ادارہء صحت کے مطابق غربت اور زیادہ بچوں کی پیدائش بھی ہوسکتی ہے۔ جب کہ پیدائشی معذوری کے علاوہ معذوری کی دیگر وجوہات میں پولیو اور اسی طرح کی دوسری موذی بیماریاں، حادثات، تشدد ، مختلف نوعیت کی لڑائیاں، قدرتی آفات اور علاقائ بد امنی بھی شامل ہے۔

پاکستان میں جاری دہشت گردی اور جنگ کی وجہ سے گذشتہ صرف تین سالوں میں سوات کے علاقے میں 10,323 افراد معذور ہوئے جنہیں حکومت نے بطور معذور رجسٹرد کیا جبکہ ہر سال روڈ ایکسیڈنٹ کی وجہ سے بھی 10ہزار سے افراد معذور ہو رہے ہیں۔

پاکستانی معاشرے میں معذور افراد کو اس قابل قدر نظر سے نہیں دیکھا جارہا جسکے وہ مستحق ہیں.وہ بھی ہمارے معاشرے کا اتنا ہی اہم حصہ ہیں.جتنا کوئ عام شہری ہوسکتا ہے.وہ بھی ایک عام اور نارمل زندگی بسر کرنے کا حق رکھتے ہیں اگر اللہ رب العزت نے انھیں زندگی میں ایک آزمائش سے دوچار کیا ہے تو اس سے نبردآزما ہونے کے لیئے بھی ایسی بہت سی صلاحیتیں اور قابلیت بھی دی ہوئ ہے جو شاید آپ میں یا مجھ میں بھی نہیں.ہمارے یہاں ایسی بہت سی مثالیں موجود ہیں جن میں معزور افراد نے عام انسانی اندازوں کو یکسر مسترد کردیا اور کئ کارہائے نمایاں انجام دیئے. ہمیں انکو معاشرتی طور پر تضحیک کا نشانہ بنانے کے بجائے انکی حوصلہ افزائ کرنی چاہیئے.ایسا نہیں کہ ہمارے یہاں اس مقصد کے لیئے این جی اوز یا دوسری سرکاری اور غیر سرکاری تنظیمیں کام نہیں کررہیں.پر اکثر و بیشتر انکا اختتام بے نتیجہ کانفرنسوں سیمینارز میں کی گئ لمبی لمبی بے حاصل تقاریر پر ہوتا ہے. عملیت کا فقدان ہے.پریکٹیکل ورک اسطرح نہیں ہورہا جسطرح ملکی سطح پر ہونا چاہیئے-

پاکستان میں معذور افراد کی فلاح و بہبود سے متعلق صرف ایک ڈس ایبل پرسنز ایمپلائنمنٹ اینڈ ری ہیبلی ٹیشن آرڈیننس 1981ء موجود ہے جس میں معذور افراد کے لیے نوکریوں میں دو فیصد کوٹہ متعین ہے ،

پاکستان میں ان ڈس ایبل افراد کو قومی ترقی کے عمل میں شامل نہ کیئے جانے کے باعث روزانہ کی بنیاد پر ایک ملین ڈالر کا نقصان ہورہا ہے پاکستان میں اس وقت معزور افراد کے لیئے کام کرنے والے سرکاری محکموں کی کمی ہے معذورد افراد کے لیئے ایک خصوصی کمیشن بنایا جانا چاہیئے اور ہر سطح پر لوگوں کے لیئے عام تربیتی کورسسز کا اجراء کیا جانا چاہیئے کہ وہ ایسے افراد سے خواہ وہ انکے اپنے گھر میں ہی کیوں نہ ہوں کسطرح پیش آئیں.اور انھیں کسطرح مدد کریں.ایسی سہولیات اور چیزوں کا حصول آسان بنانا چاہیئے جو انکے لیئے ایک نارمل انسان کی طرح کام کرنے میں مددگار ثابت ہوں-

۔معذور افراد کے ساتھ پیش آنے والی پریشان کن صورتحال کا جائزہ لیا جائے توسرکاری اور نجی دفاتر، پبلک ٹرانسپورٹ، شاپنگ سینٹرز، ایئرپورٹ، ریلوے اسٹیشنوں اورہسپتالوں میں معذور افراد کو باآسانی رسائی ممکن نہیں۔ چونکہ عمارتوں کے انفراسٹرکچر میں معذور افراد کے لیے ریلنگ اور ریمپ نہیں بنائے جاتے جس کی وجہ سے جگہ جگہ معذور افراد کو اذیت کا احساس ہوتا ہے اور ان کی اکثریت گھروں تک محدود ہوجاتی ہے لہٰذا معذوروں کے احساس محرومی کا خاتمہ کرنے اور ان کی بحالی کے لیے ہنگامی بنیادوں پر اقدامات کی ضرورت ہے، تاکہ یہ معاشرے کا حصہ بن سکیں۔کیونکہ معذور ہونے کے باوجود ایسے افراد میں انتہائ پر عزم و پرجوش دکھائ دیتے ہیں.انکے اندر بھی ملک وملت کے لیئے خدمت کرنے کچھ کر دکھانے کا جذبہ موجود ہوتا ہے.صرف انکی معذوری کی بناء انھیں دوسرے انسانوں سے کمتر سمجھنا اور نظر انداز کرنا کسی طور درست نہیں یہ بھی باہمی و اجتماعی کوششوں کے نتیجے میں معاشرے کا ایک مثبت حصہ بن سکتے ہیں-

حکومتی سطح پر شروع ہونے والے بڑے منصوبوں میٹروبس اور حالیہ بند ہونے والے اورنج ٹرین جیسے منصوبوں میں کیا ایسے افراد کے لیئے کسی قسم کی گنجائش یا سہولت رکھی گئ؟ بڑی بڑی کنسٹرکشن کمپنیاں اپنے منصوبوں میں ایسے افراد کے لیئے کسی قسم کی سہولت کی گنجائش نہیں رکھتیں.نہ مسجدوں بینکوں اور ریستورانوں یا دوسرے پبلک تفریحی یا تعلیمی اداروں میں انکے لیئے الگ محفوظ راستوں اور جگہوں کو مختص کیا جاتا ہے پاکستان نے معزور افراد کے لیئے اقوام متحدہ کے کنونشن پر دستخط کرکے اس پر کام کرنے کا وعدہ تو کیا ہے پر تاحال کوئ ایسی رپورٹ نظر نہیں آتی جو اس ضمن میں ملکی صورتحال سے مطابق ہو.اس وقت مائل اسٹون سوسائٹی فاردی اسپیشل پرسنزز پیرالائزڈ نامی ادارہ جو انتالیس سالہ محمد شفیق الرحمان کی سرکردگی میں اپنی خدمات انجام دے رہا ہے قابل تحسین ہیں شفیق الرحمان خود بھی معزور ہیں اور اس عزم کا ہر روز اعادہ کرتے ہوئے نظر آتے ہیں کہ وہ نہ صرف اپنی بلکہ دوسرے معذور افراد کی معزوری کو بھی انکی مجبوری نہیں بننے دیں گے.

عزم وہمت کی ایک اور مثال منیبہ مزاری بھی ہیں جو وہیل چیئر پر ہونے کے باوجود بھی ایک مصورہ گلوکاتہ مصنفہ اور مقررہ ہونے کے ساتھ ساتھ ایک ایسی سماجی کارکن بھی ہیں جو خواتین کے خلاف امتیازی سلوک کی روک تھام کے علاوہ جسمانی معذوری میں مبتلا بچوں کے لیئے بھی کام کررہین ہیں.

اسکے علاوہ پاکستان کے قبائلی علاقے کے رہائشی فوجی نیاز بہادر آنکھوں اور ٹانگوں سے معذور ہیں.اسکے باوجود انہوں نے اپنی مدد آپ کے تحت معذور افراد کے لیئے ایک فلاحی ادارہ قائم کیا جو اپنے محدود دائرہ کے اندر قابل تحسین کام سر انجام دے رہا ہے اور نہ جانے کتنے ایسے درخشاں ستارے اس وقت ملک کے افق پر موجود ہیں جنھوں نے اپنی کمزوری کو اس ملک کے لیئے ضرب المثال بنادیا ہے.تو ہم جیسے یا ہماری حکومت کیوں انکے لیئے اسطرح کام نہیں کرسکتی ہمارے یہاں کی سیاسی جماعتیں تو شاید اپنے ایسے ورکرز کے لیئے بھی کوئ اہم پیش رفت نہیں دکھا پاتیں جو انکے لیئے کام کرتے ہوئے معذوری کا شکار ہوجاتے ہیں.پاکستان پیپلز پارٹی کے ایک معروف سیاسی کارکن اسرار شاہ اسکی ایک تازہ مثال ہیں جو ایک دہشت گردی کے واقعے کے نتیجے میں معذور ہوگئے.اور نہ جانے ایسے کتنے کارکن ہوںگے مختلف سیاسی جماعتوں کے جنھیں بے کار سمجھ کے فراموش کردیا جاتا ہے ویسے کچھ زیادہ توقعات وابستہ کرنا بھی درست نہیں خاص طور جب کہ عام آدمی کا ہی کوئ پرسان حال نہ ہو جہاں پڑھے لکھے قابل نوجوان نوکریوں کے لیئے در بدر کی خاک چھان رہے ہوں جہاں ریٹائرڈ ضعیف افراد کو پینشن کے لیئے لمبی قطاروں میں انتظار کی زحمت اٹھانی پڑے. جہاں معاشی و معاشرتی حالت تیزی سے تنزلی کا شکار ہورہی ہو وہاں ہم ان اسپیشل افراد کے لیئے کیا مثبت توقع رکھ سکتے ہیں.سوائے بلند بانگ دعوؤں اور لمبے چوڑے وعدوں کے.ہمارے یہاں ایسے کئ ادارے ہیں جہاں ایسے افراد بخوبی اپنی ذمے داریاں احسن طریقے سے سرانجام دے سکتے ہیں.

شاید ہی کسی اسکول کالج اور یونیورسٹی نے ایسے لوگوں کے لیئے اپنے وسائل کا کچھ حصہ انھیں تعلیم اور ہنر دینے کے لیئے مختص کیا ہو بلکہ الگ سے بھی ایسے ادارے نہ ہونے کے برابر ہیں جہاں خصوصی تربیت کا اہتمام کیا جاسکے اور انھیں معاشرے کا ذمہ دار فرد بنانے پر توجہ دی گئ ہو یقیننا یہ ایک لمحہء فکریہ ہے جنھیں ہم خود پر بوجھ تصور کرتے ہیں وہ حقیقتا قطعی طور پر ایسے نہیں.ہمیں انکی خدادا صلاحیتوں سے فائدہ اٹھانا چاہیئے انکے ساتھ اس جداگانہ اور امتیازی سلوک کو ختم کرنا چاہیئے جو انھیں بے چارگی کے احساس میں مبتلا کرسکتا ہے.صرف ذاتی بنیاد پر ہی نہیں بلکہ ملکی سطح پر بھی اس معاملے کو اٹھانے کی اشد ضرورت ہے.وقت کا تقاضا ہے کہ نئ مردم شماری کرائ جائے اور ایسے افراد کے لیئے نیا کوٹہ مختص کیا جائے نہ صرف یہ کہ بلکہ اس پر عمل درآمد کے لیئے بھی سخت قوانین بنائے جائیں.جو صرف کاغذی بنیادوں پر نہیں ہوں یہ ایک مشکل کام ضرور ہے مگر جذبے لگن اور مصمم ارادے کے ساتھ رنگ نسل مذہب اور ذات پات کی قیود سے آزاد ہوکر ایسے افراد کی بحالی کے لیئے اپنا کردار انفرادی اور اجتماعی طور پر جس حد تک ادا کرسکتے ہیں کرنا چاہیئے ایک لمحے کے لیئے یہ ضرور سوچ کے دیکھیں اگر ہم انکی جگہ ہوتے تو؟
Haya Ghazal
About the Author: Haya Ghazal Read More Articles by Haya Ghazal: 65 Articles with 87734 views I am freelancer poetess & witer on hamareweb. I work in Monthaliy International Magzin as a buti tips incharch.otherwise i write poetry on fb poerty p.. View More