مسیحا بن گئے دشمن ہماری جان کے!

انسان اپنی زندگی میں کچھ اسے واقعادت دیکھتا ہے جو دل کو چھو کر گزرتیں ہیں اور کچھ دل چیر کران میں سی ایک واقعہ پر میں آج تبصرہ کررہا ہوں بروز منگل کومیں اپنے کالمزکے حوالے سے مختلف اخبارات کونیٹ پر سرچ کرہا تا تو کچھ چوٹے بڑے اخبارات میں ایک خبر پر نظر گئی جس نے دل کو ہلاکر رکھ دیا ویسے تو آئے روز دل دہلادینے خبریں اخبارات میں لگی ہوئی ہوتی ہے مگر یہ خبردل کو چھو کر گزری اور دل پر گہرا اثر کیا ،مجھے اس خبر پر بڑا افسوس ہو ا ،ہاں افسوس کے سیوا میں کچھ کر بھی تو نہیں سکتا ،کافی سوچ وچار کے بعد میں نیٹ بند کرکے ان پیج کھول دیا۔ کیا تی وہ خبر جس نے مجھ کو ہلا کر رکھ دیا ،اخباری رپورٹ کے مطابق،، پیر کی علیٰ الصبح قصور کی رہائشی زہرہ بی بی کو اس کے بچے میلوں دور لاہور کے جناح اسپتال میں صرف اس لیے لائے کہ شاید ان کی والدہ کو بہتر علاج کی سہولیات مل جائے لیکن جہاں حکمران خود بیرون ملک علاج کراتے ہوں وہاں ملک کے سرکاری اسپتالوں میں بھلا غریبوں کو کون پوچھے گا اور نتیجہ وہی نکلا جو زہرہ بی بی جیسے ہزاروں مریضوں کو سرکاری اسپاتالوں میں لانے سے نکلتے ہیں یعنی ورثا لائے تو مریض کو اپنے پیروں پر لیکن اسے چار کندھوں پر لے جایا گیا،،زہرہ بی بی کو جناح اسپتال کی ایمرجنسی میں ایک بیڈ بھی نہ ملا اور تو اور ڈاکٹروں نے اس کے میڈیکل ریکارڈ کا بھی جائزہ نہ لیا کہ وہ بدنصیب دل کی مریضہ ہے، زہرہ کو ایمرجنسی کے ٹھنڈے فرش پر ہی لٹاکر ڈرپ لگادی گئی، کچھ ڈرپ کا اثر تھا اور کچھ ٹھنڈے فرش نے کام دکھایا کہ دیکھتے ہی دیکھتے اسے شدید بخار نے آگھیرا، اس پر بھی وہاں موجود ڈاکٹروں اور طبی عملے کو کچھ خیال نہ آیا، انہوں نے اسی وقت پھرتی دکھائی جب زہرہ کے ساتھ آنے والوں نے دھاڑیں مار کر رونا شروع کردیا زہرہ بی بی کے بیٹے نے اپنی ماں کو تڑپتہ دیکھ کر ڈاکٹروں التجاء کی کہ خدا کیلئے میری ماں کو بچالو ٹھنڈ بہت ہے کم از کم بیڈ یا بستر پر ہی لٹا دو، لیکن تب تک بہت دیر ہوچکی تھی اور زہرہ بی بی ابدی نیند جاسوئی۔زہرہ بی بی کی ہلاکت پر اسپتال انتظامیہ کا کہنا تھا کہ اسپتال کا پورا عملہ مریضوں کے علاج میں کوئی کسر باقی نہیں رکھتا لیکن اسپتال میں آنے والے مریضوں کی تعداد بہت زیادہ جب کہ سہولیات کم ہیں اور یہ واقعہ بھی اسی کا نتیجہ ہے۔ دوسری جانب وزیر اعلی پنجاب شہباز شریف نے روایتی انداز میں واقعے کا نوٹس لیتے ہوئے رپورٹ طلب کرلی ہے۔کیا کہے ہمارے ملک کے ہسپتا لوں کی، اس طرح کی واقعات آئے دن ہمارے ملک میں ہوتے رہتے ہیں اور ارباب اختیار نوٹس لیکر رپورٹ طلب کرلے تے ہیں اور اس ہی پر بس ہو جاتاہے ۔ نہ تو رپورٹ آتی ہے اور نہ زمہ داروں کے خلاف کارائی ہوتی ہے ۔ اﷲ سب کو بیماریوں اور ہسپتالوں کے چکروں سے محفوظ رکھے لیکن جن لوگوں کا سرکاری ہسپتالوں سے واسطہ پڑا ہے ان کے مشاہدے میں آیا ہو گا کہ اگر آپ کسی مریض کی عیادت یا مریض کو کسی قسم کی طبی سہولت کی فراہمی کے لئے ہسپتال جاتے ہیں اور آپ نے پینٹ ٹی شرٹ یا پھر مہنگے سے مہنگا صاف ستھرا’کلف زدہ لباس زیب تن کر رکھا ہے’چہرے سے سنجیدگی یا پھر کسی حد تک رعونت عیاں ہے اور گفتگو میں سختی ہے یا انگلش الفاظ کی آمیزش ہے تو ہسپتال کے گیٹ پر موجود چوکیدار آپ سے پوچھے بغیر کہ آپ ہسپتال میں کیوں داخل ہورہے ہیں اور کہاں جانا چاہتے ہیں آپ کے لئے گیٹ کھول دیگا اور خوشی خوشی اندر جانے دے گا ۔ آپ کو ،جبکہ بعد ازاں ہسپتال کے مختلف شعبوں میں نہ صرف آپ کی آمدورفت آسان ہو گی بلکہ ڈاکٹرز اور طبی عملے کا رویہ بھی آپ کے ساتھ ان کے عہدوں کی مناسبت سے مودبانہ’نرم یا کم از کم قابل برداشت تو ہو گا۔جبکہ اس کے برعکس اگر آپ نے عام سادہ سے کپڑیں زیب تن کئے ہو ئے ہیں۔ داڑی بھی بڑھی ہوئی ہے یا پھر داڑھی کی تراش خراش کا خیال نہیں رکھا ہوا’چہرے پر عاجزی اور غم خوری کے آثار ہیں اور گفتگو بھی سادہ سی ہے تو پہلے تو آپ کو ہسپتال کے اندر داخل ہونے کے لئے چوکیدارکی منت سماجت کرنی پڑے گی یا چوکیدار کے ہاتھ میں دس بیس روپے رکھنے پڑینگے اور پھر ہسپتال کے مختلف شعبوں میں مختلف امور کی انجام دہی کے دوران طبی عملے کی ناگواری’بے زاری اور ڈانٹ ڈپٹ وغیرہ سے واسطہ پڑے گا۔ علاوہ ازیں او پی ڈی میں معائنے سے لیکر ایکسرے اور لیبارٹریز وغیرہ سے واسطہ پڑ نے اور اگر خدانخواستہ ہسپتال میں ایڈمیٹ ہونا پڑ گیا تو پہلے وارڈ میں مناسب جگہ پر یعنی صاف ستھرے حصے میں باتھ روم سے دور’اے سی یا کم از کم پنکھے کے قریب یاپھر سائیڈ روم میں بستر کے حصول تک جو’معاشی اور سماجی تفریق’مریض کے آڑے آتی ہے۔اس کا حال کسی سے پوشیدہ نہیں ہے،ملک بھرمیں سرکاری ہسپتالوں کی صورتحال کسی بھی اعتبار سے تسلی بخش نظر نہیں آتی آئے روز کوئی نہ کوئی ایسی خبر آتی ہے کہ فلاح ہسپتال میں یہ ہوا، اس سے ہسپتالوں کی حالت ِزار کی فوری اصلاح کی طرف حکومت کی عدم توجہ کا احساس اجاگر ہوتاہے سرکاری ہسپتالوں میں طبی عملے کی غفلت، لاپروائی اور فرض ناشناسی ایک انتہائی تکلیف دہ مسئلہ بن چکی ہے جس کے نتیجے میں آئے روز کسی نہ کسی سرکاری ہسپتال میں کوئی نہ کوئی مریض زہرہ بی بی کی طرح اپنی جان کی بازی ہار تا رہتا ہیں ۔میرے ایک عزیز نے اپنے بیٹے کو علاج کے عرض سے جناح ہسپتال لاہور لیا تھا تو ڈاکٹر نے اس کو داوائی لکھ کر دی تو جب وہ لوگ سرکاری فارمیسی میں گئے تو وہاں نہ ہی بخار کا شربت پیناڈول دستیاب تھی اور نہ ہی کانسی کی ادویات مل رہی ہیں سرکاری دوا تو ملتی ہی نہیں اور ہسپتال کی فارمیسی میں بھی نہیں پتہ کہ ادویات کہاں غائب ہو جاتی ہیں سرکاری ہسپتال میں انسانیت کی جو تذلیل کی جاتی ہے اسے دیکھتے ہوئے انسانیت کو خود شرم آنے لگ جاتی ہے ڈاکٹر اپنا فرض مکمل تور پر بھلائے بیٹھے ہیں بلکہ وہ انجوائے کرنے کے لئے وقت گزاری کے لئے اوروارڈوں میں آکر مریضوں کو خوار کرتے ہیں ۔یا تو کسی کونے خانچے میں بیٹھ کر سموسے کھارہے ہوتے ہیں اور فیس بوک کا استعمال بھی جاری و ساری ہوتا ہے۔ یہ ان کا مشغلہ بن چکا ہے حالانکہ وہی ڈاکٹر شام کو اپنے پرائیویٹ کلینک پر مریض پر بہت ز یادہ توجہ دیتے ہیں کیونکہ وہاں ان کو فیسیں مل رہی ہوتی ،ڈاکٹر ز اور حکمران عوام کے مسیحاہوتے ہیں ۔ جس ملک میں مسیحا ہی اپنے شعبے سے غداری کریں تو پراس ملک کا اﷲ ہی حافظ ، اس وقت مسیحابن گئے دشمن ہماری جان کے۔ میں ہاتھ جوڑ کران مسیحاوں اور سرکاری افیسران سے اپیل کرتا ہوں کہ خود کو غریب عوام کی جگہ رکھ کر پالیسیاں مرتکب کریں اور اپنے افسران کو اس بات کا پابند کریں کہ وہ نجی ہسپتالوں کے بجائے سرکاری ہسپتالوں سے اپنا علاج کروائیں اور اپنے بچوں کو سرکاری سکولوں میں تعلیم حاصل کروائیں تاکہ انہیں پتہ چل سکے کہ وہاں کیا ہو رہا ہے۔ گرمیوں میں ائے سی اور سردی کے موسم میں کوٹ پر اتار کر کرسی پر لٹکا دینے والوں کو کیا پتہ باہر کا درجہ حرارت کیا ہے۔اﷲ ہم سب کو ہدایت نصیب کر اورہم پر اپنا خصوصی کرم فرما (آمین)
 

Disclaimer: All material on this website is provided for your information only and may not be construed as medical advice or instruction. No action or inaction should be taken based solely on the contents of this information; instead, readers should consult appropriate health professionals on any matter relating to their health and well-being. The data information and opinions expressed here are believed to be accurate, which is gathered from different sources but might have some errors. Hamariweb.com is not responsible for errors or omissions. Doctors and Hospital officials are not necessarily required to respond or go through this page.

Inayat Kabalgraami
About the Author: Inayat Kabalgraami Read More Articles by Inayat Kabalgraami: 94 Articles with 84897 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.