بینچ اور بار

 جھیلوں جھرنوں حسین وادیوں کھیت کھلیانوں آبشاروں دریاؤں مرغزاروں باغ بغیچوں سبزازاروں آسمان سے باتیں کرتے پہاڑوں خوبصورت نظاروں اورچارموسموں کا حامل مادروطن جموں کشمیر اپنی تاریخی روایات کے باعث دنیا میں ایک منفرد مقام رکھتا ہے خوبصورت لوگ خوبصورت اجتماعی تہذیب وتمدن ،حسین ثقافت درجنوں مذاہب اورمختلف فکروعمل کے حامل لوگوں پر مشتمل یہ دیس امن کا گہوارہ رہا ہے تاریخ گواہ ہے کہ دوردراز سے لوگ تہذیب سیکھنے یہاں آیا کرتے تھے اور کہا جاتا ہے کہ کئی پڑوسی راجواڑوں میں یہ روایات بن چکی تھیں کہ جب وہ اپنے بچوں کو پہلی بار سکول بھیجتے تو گھر سے نکلتے وقت بچے کا رخ قصداً’’جموں کشمیر‘‘ کی جانب موڑدیاجاتا کہ جموں کشمیر ’’گیان ‘‘کے دیوتاؤں کا دیس مانا جاتاتھا ۔زیادہ پرانی بات نہیں ہم نے اپنی زندگی میں سینکڑوں ایسی روایات کو دیکھا ہے کہ اکیسویں صدی کی جدید دنیا میں بھی ہزاروں لوگ ان روایات کوترستے ہیں یقینا ان کا احیاء چاہتے ہے ۔

دورجدید کے عدالتی نظام میں بار اور بینچ کا مفہوم بڑا واضع ہے اور سبھی جانتے ہیں کہ کمرہ عدالت میں دوران سماعت کسی مقدمہ کے لئے نامزد کئے گئے ایک یا ایک سے زائد ججزمشتمل پینل کو بینچ کہتے ہیں اور ان کے ساتھ ایک طرف چند ریٹائرڈ اور حاضر سروس ججز پر مشتمل پینل بھی براجمان ہوتا ہے جسے جیوری اور ان کے سامنے وکلاء اور ان کی دوسری جانب عام عوام ہوتے ہیں تو اس طرح عوام اور ججز کے درمیاں وکلاء ایک ’’بار‘‘ جسے ’’بریگیشن‘‘ بھی کہا جا سکتا ہے جسے ایک ایسی دیوار کا نام دیا جا سکتا ہے جو عوام اور بینچ کے درمیاں حائل رہتی ہے تاکہ کمرہ عدالت میں دوران سماعت کوئی عام انسان عدالتی کاروائی میں مدخل نہ ہوسکے اور وہ بار بینچ اور عوام کے درمیاں ایک پل کا نام ہے جب کہ وکلاء کی لیگل آرگنازیشن کو بھی بار کہتے ہیں ۔ کل ہی کی بات ہے جب بینچ وبار جیسے الفاظ سے ہم ناآشنا تھے اور ہم جیسے ہزاروں لاکھوں لوگوں کو کل تک اس عدالتی نظام کا زرہ برابر ادراک نہیں تھا ۔ہمارے دیس میں سالہا سال سے عدل وانصاف کے حوالے سے بڑی ہی منفرد روایات رہی ہیں دیس کے ہر گاوں اور بستی میں جہاں کہیں کوئی انسانی آبادی موجود رہی وہاں کے معروض کے مطابق وہاں روز مرہ کے تقاضوں جھگڑوں حتیٰ کے قتل تک کے مقدمات کے فیصلے موقع پر ہی کئے جانے کا ایک نظام موجود رہتا تھا، ہر علاقے و آبادی میں چند ایک نام ایسے جو انصاف کی علامت مانے جاتے تھے اور کچھ ایسے بھی ہواکرتے تھے جواپنے مبنی برحق فیصلوں کے باعث دوردراز کے دسیوں گاوٗں تک مقبول ہونے کے باعث انہیں خاندانی و برادری کے مقدمات کی شنوائی کے لئے مدعو کیا جاتا اور وہ جاکر انصاف کا بول بالہ کرتے تھے اس دور کے شہری اور دیہاتی علاقوں اور ترقی یافتہ اور ترقی پذیر علاقوں میں محض اتنافرق ہوتا کہ کسی علاقے میں چند نام انصاف کی علامت تھے اور جہاں باقائدہ منتخب پنچائت ہوتی اسے ماڈرن سمجھا جاتا تھا ،اس دور میں بھی کہیں ناں کہیں سرکاری عدالت کا نشان ضرور ہوتا لیکن ادھر شاوزر نازر ہی کوئی رخ کرتا تھا زیادہ تر مقدمات موقع پر ہی نپٹادئے جاتے تھے ۔اس دور کے منصفی وپنچائتی نظام کے علاوہ بھی ایک نظام عدل جو زیادہ تر شہری علاقوں اورگلی محلوں کی نکڑپرواقع چھوٹے بازار وں سے وقوع پذیر ہواتھا ،اس زمانے میں ہمارے ان خوبصورت بازاروں کے خدوخال یوں ہواکرتے تھے کہ اکثروبیشتر دکانوں پر کوئی سائن بورڈنام کی کوئی چیز نہ تھی بس جب ہم بازار پہنچتے ہیں تو جہاں خالص ریوڑی ومخانوں کی خوشبو محسوس ہو اور بوندیوں وٹافیوں کے دوتین ڈبے دور سے نظرآئیں وہ ’’گروسوری‘‘ہے اور جہاں مٹی کے تیل سے چلنے والے ’’سٹوپ‘‘ چولہے کی سراں سراں اور سچے زمانے کی خالص پتی کی مہک آئے تو سمجھ لیجئے کوئی اعلیٰ درجے کا ’’کیفی ٹیریا‘‘ہے اورخاص بات کہ ہمارے دیس کے چھوٹے بڑے بازاروں کی ہر دکان کے ’’بار‘‘ باہر آمنے سامنے ایک یا دو بینچ رکھے ہوتے ہیں ،اور یہ بینچ کبھی دکاندار کیلئے فرست کے لمحات میں اخبار پڑھنے اور دوردراز سے آئے ان کے دوستوں اور گاہکوں کے لئے راحت کا سامان بنتے ہیں اور انہی بینچوں پر طویل دورانیئے پر محیط ’’ڈرافٹ بورڈ‘‘ کے میچ ہواکرتے ہیں اور انہی بینچوں پر دکاندار سے متعلقہ گاوٗں کے اور مقامی مقدمات پر فیصلے بھی کئے جاتے ہیں قارئین کرام انہیں دو بینچوں کے درمیاں ایک’’پی ڑہ‘‘ٹائپ کی کرسی بھی موجود رہتی ہے جو اپنی تندرستی اورطویل عمری کی منہ بولتی تصویربنی رہتی ہے اس بدقسمت کرسی کی ’’تندیاں‘‘ درمیان سے ٹوٹ چکی ہوتی ہیں اور اس کے اس بڑے ہول پر چھ سات ’’گدیاں‘‘رکھ کر اسکے عیب چھپالئے جاتے ہیں اورکچھ گدیاں پشت پر بھی رکھی ہوتی ہیں جن پر سرسوں کا تیل نمایاں طور پرنظرآرہاہوتا ہے یقین جانئیے اس کرسی پر بیٹھنے میں جو راحت ملتی ہے وہ شائد آج کے وزیراعظم کی چیئر پر بھی نہ ہو ۔بہرحال اس کرسی پر اکثر گاوئں کے ریٹائرڈ صوبیدار یا حوالدار بیٹھاکرتے ہیں یا گاوں کے نامور مہذب شخصیت۔ اگر میرے جیسا کوئی کبھی بیٹھ بھی جائے تو کسی ایسے بزرگ کے آنے پر فوراً اسے خالی کرنا ہوتاہے اکثر مقدمات کے فیصلے اسی کرسی پر بیٹھ کر صادر فرمائے جاتے ہیں، بیشک ہمارے دیس کے اسی دکان کے ’’باررکھے ہوئے بینچ‘‘ سے باہر کی دنیا نے یہ نظام چرایا اوربینچ و بار کی اصطلاع ایجاد کر دی ایک عدالتی نظام کھڑا کر دیا لیکن دعٰوے سے کہا جا سکتا ہے کہ دورجدید کا یہ نظام عدل بینچ وبار ہمارے ان ججز کا عشرعشیربھی نہیں جو دکانوں کے باہر عدالت سجا دیا کرتے تھے اور بنا معاوضے کے عوام کو انصاف دلادیا کرتے تھے یہی نہیں بلکہ کئی بار اپنے کئے فیصلوں پر عمل درآمد کروانے کیلئے جانوں پر کھیل جایا کرتے تھے لیکن آج ہماری وہ عظیم تاریخی روایات ایک ایک کر کے دم توڑ رہی ہیں ،جبری طور پر منقسم دیس میں چاروں طرف سے غیر ملکی ثقافت وتہذیب کی ایک یلغار ہے جو کچھ تو ہم خود ادھار مانگ کر لارہئے ہیں اور کچھ تو حکمت عملی کے زریعے ہمارے وطن میں لائی جا رہی ہیں تاکہ نادیدہ قوتیں ہم سے ہماری تاریخ ،ثقافت ،تہذیب وتمدن سبھی چھین لیں اور ہماری آنے والوں نسلوں کو خبر ہی نہ رہے کہ وہ کون ہیں کہاں سے آئے اور ان کی پہچان کیا ہے ۔
Niaz Ahmed
About the Author: Niaz Ahmed Read More Articles by Niaz Ahmed: 98 Articles with 74261 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.