2016 تک میں نے فیس بک سے کیا سیکھا؟

راشد حسین،کراچی
آج کل سوشل میڈیا اور خاص کر فیس بک ہماری زندگی اور مصروفیات کا باقاعدہ حصہ بن چکا ہے،ہر چیز کے کچھ فائدے اور کچھ نقصانات ہوتے ہیں، فیس بک کا بھی معاملہ کچھ یونہی سمجھئے، اگر حدود و قیود کے بغیر وقت بے وقت، ہر وقت اس میں مشغول رہا جائے، تو اس سے بڑی کوئی نقصان دہ چیز نہیں اور اگر اپنے اوقات کا خیال رکھتے ہوئے اس کا مثبت استعمال کیا جائے ،تو کسی درجے میں فائدہ سے بھی خالی نہیں،میں خود بھی 2012 سے فیس بک استعمال کر رہا ہوں، اس دوران جو کچھ سیکھا اور جو جو تجربات حاصل ہوئے،وہ نکات کی شکل میں پیشِ خدمت ہیں:

1․جتنا وقت ہم اکیلے فیس بک کو دیتے ہیں ،اگر اس کا چوتھائی بھی کتابوں کو دینے لگیں، تو ہمارا علم، فیس بک سے حاصل شدہ سطحی علم سے نہ صرف کئی گنا بڑھ سکتا ہے؛ بلکہ سوچنے سمجھنے کی صلاحیت میں اضافہ اور عقل و شعور میں پختگی بھی پیدا ہوگی!اس حقیقت سے بہرحال انکار ممکن نہیں کہ فیس بک نے کتاب سے دور کیا ہے، حالانکہ ’’کوئی رفیق نہیں ہے کتاب سے بہتر‘‘ مطالعہ کی کمی کے دو لازمی نتیجے فکری تنزلی اور تحریری پسماندگی ہیں؛اس لیے اپنی فکر اور تحریر کو مضبوط کرنے کے لیے مطالعہ ازحد ضروری ہے۔

2․ہر کام کا ایک وقت ہوتا ہے، وقت بے وقت کی مصروفیات انسان کو خلفشارِ ذہنی کا شکار کر دیتی ہیں، فیس بک کے استعمال کے لیے بھی ایک وقت مخصوص کرنا لازم ہے، ورنہ تشتتِ ذہنی دیگر علمی و عملی سرگرمیوں میں رکاوٹ کا باعث بن سکتا ہے اور ویسے بھی فرصت کے لمحات اور عدمِ مشغولیت ان چیزوں میں سے ہے کہ جن کے معاملے میں اکثر لوگ خسارے میں ہیں(مفہوم ِحدیث) اس لیے جن لوگوں کی مصروفیات علمی، تحقیقی یا تخلیقی قسم کی ہوں،انہیں خود کو اس پابندی میں جکڑنا ضروری ہے،جبکہ اکثر لوگ اس سے غافل ہیں’’من نکردم شما حذر بکنید!‘‘

3․فیس بک پر جتنے بڑے بڑے لکھاری اور مشہور شخصیات موجود ہیں، انہوں نے پہلے خوب مطالعہ کرکے فکری پختگی اور علمی رسوخ حاصل کیا اور اب ان دونوں بنیادوں پر تحریری میدانوں میں جوہر بکھیرتے نظر آتے ہیں، اب قوتِ دلیل کے ساتھ صحیح یا غلط بات کے ذریعے لوگوں کو متاثر کرتے ہیں،جبکہ آج کا نوجوان مطالعہ کے بغیر ہی اس میدان میں اتر آیا ہے اور وہی مقام و مرتبہ حاصل کرنا چاہتا ہے، جو انہیں حاصل ہے؛چنانچہ اکثر اوقات غلط یا صحیح نظریات کے درمیان فرق بھی نہیں کر پاتا یا بہت جلد ایسی باتوں سے متاثر ہو جاتا ہے، جو بہت پہلے سے کتابوں میں لکھی جا چکی ہیں یا جن کے جواب دیے جا چکے ہیں،کسی نے سچ کہا تھا کہ’’جنہیں پڑھنا چاہئے وہ لکھ رہے ہیں!‘‘ ایک من علم کے لیے دس من عقل کی ضرورت ہوتی ہے اور یہاں لبرز و سیکولر اور دین بیزار لوگوں کا مقابلہ کرنے کے لیے یا ان کے زہریلے اثرات سے بچنے کے لیے دس من علم کی۔

4․فیس بک پر الحمد ﷲ بعض حضرات کی کوششوں سے ایک مثبت تبدیلی اور تعمیری ماحول پیدا ہورہا ہے، ایسے میں خود کو بھی اس میدان میں اہم اور فائدہ مند ثابت کرنے کیلئے تعمیری کام کرنا ضروری ہے،گپ شپ یا طنزو مزاح کی ضرورت و افادیت اپنی جگہ ہے اور یہ بھی فیس بک کے استعمال کے مقاصد میں سے ایک مقصد ہے اور میں ذاتی طور پر فیس بک کو حدود و قیود کے ساتھ تفریحِ ذہنی کا ہی ایک بامقصد مشغلہ سمجھتا ہوں،تاہم ہمہ وقت غیر تعمیری سرگرمیاں، فالتو گپ شپ اور بحث مباحثے، تعمیرِ شخصیت و عظمتِ کردار پر منفی اثر ڈالتے ہیں۔

5․جو لوگ عرصے سے فیس بک پر لکھ رہے ہیں اور بجا طور پر بہترین لکھ رہے ہیں، چاہے وہ خود سمجھتے ہیں یا لوگوں کا کہنا ہے، بہرحال اب انہیں کچھ آگے بڑھنا چاہیے، کئی نئی ویب سائٹس آگئی ہیں،ان کے لیے لکھیں، جو ویب سائٹس کے لیے پہلے سے لکھ رہے ہیں، وہ اخبارات کی طرف متوجہ ہوں، کیونکہ’’ہر اک مقام سے آگے مقام ہے تیرا‘‘ اس حوالے سے ان لوگوں کی مثال سامنے رکھی جائے ، جو اسی فیس بک کے ذریعے گوشۂ گمنامی سے شہرت کی بلندیوں تک پہنچے۔اگر شروع سے اب تک آپ وہی لائک یا کمنٹ کرنے والے یا دوسروں کی پوسٹس ہی شیئر کرنے والے ہیں، تو یقیناً آپ خسارے میں ہیں،عربی زبان کا مقولہ ہے کہ ’’جس کے دو دن ایک جیسے رہے، وہ نقصان میں رہا‘‘ اکثر دیکھا گیا ہے کہ اچھے خاصے صلاحیتوں والے نوجوان اپنی صلاحتیں برباد کر رہے ہیں، اپنے اندر چھپے ہوئے ادیب و قلم کار کو باہر نکالیے، اس سے پہلے کہ وہ گھٹ کے مر جائے۔

6․مختار مسعود نے لکھا ہے کہ:’’رزق ہی نہیں، بعض کتابیں بھی ایسی ہوتی ہیں، جن کے پڑھنے سے پرواز میں کوتاہی آجاتی ہے‘‘ میرے خیال میں مز یدعمومیت کے ساتھ یوں کہنا چاہیے کہ صرف کتابیں ہی نہیں،بعض لوگ بھی ایسے ہوتے ہیں ،جن کے ساتھ تعلق سے پرواز میں کوتاہی آجاتی ہے۔’’آدمی اپنے دوست کے دین پر ہوتا ہے؛ اس لیے دیکھتے رہنا چاہیے کہ کس قسم کے لوگوں کے ساتھ تعلق ہے‘‘ (حدیث) پست عزائم،منفی سوچ،اور مایوس فکر کے حامل افراد کے ساتھ اٹھنے بیٹھنے سے انسان خود بھی نچلے درجے پر آجاتا ہے ’’اونچی رکھ پرواز کہ تو بنے عقاب!‘‘۔

7․اپنی شخصیت کی تعمیر میں ہم اتنے مصروف ہو جائیں کہ دوسروں کی غلطیاں اور بری باتیں بھی ہماری اپنی اصلاح کا سبب بن جائیں، سوشل میڈیاسے ہم وہ سب کچھ سیکھ سکتے ہیں ،جو حکیم لقمان جیسے عظیم دانشور نے لوگوں سے سیکھا تھا،ان سے کسی نے پوچھا کہ:’’ آپ نے ادب کہاں سے سیکھا؟‘‘ حکیم لقمان نے جواب دیا کہ:’’ میں نے ادب بے ادبوں سے سیکھا ہے،ن کا جو فعل مجھے برا محسوس ہوا ،میں نے اس کے کرنے سے پرہیز کیا ہے‘‘’’لطمۂ موج کم از سیلیِ استاد نہیں!‘‘۔ ہم دن بھر کتنی چیزیں اور رویے ایسے دیکھتے ہیں ،جو ہمیں پسند نہیں ہوتے یا برے لگتے ہیں، بس فیس بک سے ان سب سے بچنا لازم ہے۔

8․دوستی و دشمنی میں اعتدال لازم ہے،فیس بک پر ہی بعض لوگ دشمنی میں اتنا آگے چلے جاتے ہیں کہ واپسی کے راستے مسدود کر بیٹھتے ہیں،حدیث میں فرمایا گیا ہے کہ:’’ اپنے دشمن سے دشمنی میں بھی اعتدال رکھو، ہوسکتا ہے کہ وہ کبھی تمہارا دوست بنا جائے‘‘،جبکہ یہی حال دوستی کابھی ہے۔ انباکس میں دوستی کے زعم میں وہ وہ باتیں کی جاتی ہیں کہ دوستی ختم ہونے کے بعد ان کا سامنا مشکل ہوجاتا ہے۔اسی حدیث کے دوسرے حصے میں کہاگیا ہے کہ:’’ اپنے دوست سے دوستی میں بھی اعتدال قائم رکھو،ہوسکتا ہے کہ وہ کبھی تمہارا دشمن بن جائے‘‘۔دونوں قسم کی بیسیوں مثالیں اسکرین شارٹس کے ذریعیسامنے آتی رہتی ہیں۔سو

اے عدم احتیاط لازم ہے!
لوگ منکر نکیر ہوتے ہیں
9․شہرت کا خناس بڑا خطرناک قسم کا وائرس ہوتا ہے اور بدقسمتی سے آج کل یہ بہت پھیلتا جارہا ہے، یہ سیدھا دل پر حملہ آور ہوتا ہے اور اس بیماری کا پتہ بھی نہیں چلتا،یہ انسان کو خودرائی اور تکبر تک کھینچ کے لے جاتی ہے اور پھر اپنے سوا سب ہیچنظر آنے لگتے ہیں،اس سے وہی لوگ بچ پاتے ہیں ،جو اﷲ تعالیٰ کے فضل و کرم اور کسی کے فیضانِ نظر سے عقلِ سلیم رکھتے ہوں․؛اس لییخود کو سستی شہرت سے بچانا لازم ہے،ہمیشہ ڈرتے رہنا چاہیے کہ سوشل میڈیا پرہماری موجودگی اور خدمات کہیں محض لوگوں کی تعریف سننے کیلئے تو نہیں ہے؟ اگر ایسا ہے تو ’’نہ ادھر کے رہے نہ ادھر کے رہے‘‘ والی بات ہوگی۔

10․سوشل میڈیا کی دنیا ایک مصنوعی دنیا ہے؛ لہذا اسے اسی حد تک رکھنا چاہیے اور اس کی وجہ سے اپنی حقیقی زندگی کو متاثر نہیں ہونے دینا چاہیے، اﷲ کا شکر ہے کہ اس سے باہر ایک حقیقی دنیا بھی ہے اور حوصلہ افزا حد تک ہے، بس اصول یہ ہے کہ یہاں نہ تو کسی کی شہرت سے متاثر ہونا چاہیے اور نہ اپنی عدمِ شہرت سے مایوس،ہر کسی کا ایک الگ میدان ہے ،ہوسکتا ہے کہ آپ کا یہ میدان نہ ہو،عدمِ شہرت تو عافیت ہے؛ لیکن عموماً دیکھا گیا ہے کہ جسے تھوڑی شہرت ملی، اس کادماغ آسمان پر پہنچ جاتا ہے؛اس لیے اپنے دل کا معاینہ کرتے رہنا لازم ہے۔

11․ایک مسلمان کی شان یہ ہے کہ اس کا کوئی عمل بھی نیک نیتی سے خالی نہ ہو،سوشل میڈیا کے استعمال میں بھی تفریحِ طبع کے ساتھ مقصدیت اور نیک نیتی بہرحال اہم چیز ہے، جب ہمارے مد ِمقابل لوگ باقاعدہ کسی نہ کسی مشن و مقصد کے تحت کام کر رہے ہیں، تو ہم کیوں پیچھے رہیں’’پرے ہے چرخِ نیلی فام سے منزل مسلماں کی‘‘نیک بات کا پھیلانا صدقہ ہے اور آپ کی طرف سے پوسٹ کی گئی نیک بات لمحوں میں ہزاروں لوگوں تک پہنچ کرآپ کا دامن نیکیوں سے بھر سکتی ہے اور اسی طرح گناہوں کا معاملہ ہے،اسی طرح مقصد پر کاربند رہنا بھی ضروری ہے، اکثر لوگوں کو دیکھا ہے کہ آتے تو کسی مقصد کے تحت ہیں؛ لیکن استعمال دوسروں کے مقاصد میں ہو جاتے ہیں۔

12․آج جبکہ دینی مدارس کے طلبا اورنوجوان فضلا دھڑا دھڑ سوشل میڈیا کا حصہ بن رہے ہیں اور وہاں زندگی کے مختلف طبقات سے تعلق رکھنے والے اہلِ علم و دانش سے متاثر بھی ہو رہے ہیں ،تو ان کی نظریاتی پختگی اور فکری اساس کا مضبوط ہونا ایک لازمی امر ہے؛ تاکہ وہ متاثر ہونے کی بجاے مؤثر بن سکیں، نیز وہ فکری گمراہیوں کا شکار ہونے کی بجاے دوسروں کی فکری اصلاح کرسکیں،مدعو بننے کی بجاے دین کے سچے داعی بن سکیں،کسی سے مرعوب ہونے کی بجاے فخر کے ساتھ اپنے نظریات کا دفاع کرسکیں، کسی سے دبنے کی بجاے دلیل کے ساتھ اپنا مقدمہ لڑ سکیں، نفرت کی لاٹھی سے ہانکنے کی بجاے حسنِ اخلاق کے ساتھ دوسروں کو قریب لاسکیں، دوسروں کو اپنے مشن و مقصد کے قریب لانے کی غرض سے ملاقاتیں بھی ہوں، تو اپنے اصول و نظریا ت قربان نہ ہوں،اس حوالے سے اپنے اندر خود داری اور خود اعتمادی پیدا کرنا لازم ہے:
برخود نظر کشا زتہی دامنی مرنج!
در سینۂ تو ماہِ تمامے نہادہ اند

اہلِ مدارس کواس حوالے سے بطورِخاص فکرمند ہونے اور طلبا کی ذہن سازی کرنے کی ضرورت ہے۔

13․سوشل میڈیا پر رہتے ہوئے ترجیحات کا تعین بہت لازم ہے، ورنہ بندہ اسی کو دنیا کی سب سے بڑی ترجیح سمجھ بیٹھتا ہے، اگر اس کے سبب آپ کے کام، ذمے داریاں، مفوضہ امور یا خانگی زندگی متاثر ہورہی ہے ،توآپ ان کاموں پر فوکس کریں؛ کیونکہ وہ آپ کی زندگی میں اولین ترجیح و توجہ کے متقاضی ہیں۔یقین مانیں فیس بک آپ کے بغیر بالکل بند نہیں ہوگی اور اسی طرح آپ بھی اس کے بنا کئی سال خوشی کے ساتھ زندہ رہ سکتے ہیں،اسے اپنے لیے لازم و ملزوم مت سمجھیے، اس میدان میں محنت کیجیے، جس سے آپ کا رزق وابستہ ہے، اکثر طالب علم بھائی اپنے بننے سنورنے اور صلاحیتیں بنانے کی عمر میں پڑھائی وغیرہ کے اہم کام چھوڑ کر اس سے چمٹے نظرآتے ہیں، ایسے لوگوں کے لیے فیس بک ذہنی عیاشی کے سوا کچھ نہیں، کاش کہ وہ غور کرتے!

14․گھر والوں کے ساتھ، بوڑھے والدین یا بچوں کے ساتھ بیٹھ کرفیس بک پر مشغول رہنا ان کی بدترین حق تلفی ہے، فیس بک باقی رہے گی؛ لیکن بوڑھے والدین مہمان ہوتے ہیں، کسی بھی وقت رخصت ہو جائیں گے اور بچے بھی بڑے ہوجائیں گے، پھر کل کوہم اور آپ بھی دیکھ رہے ہوں گے کہ بیٹا موبائل ہاتھ میں لیے گھنٹوں مشغول رہتا ہے؛ لیکن بے اعتنائی سے جواب دینے کے علاوہ اس کے پاس ہمارے ساتھ بات کرنے کا وقت نہیں ہے، ایسا عین ممکن ہے کہ ایک شخص یہ اسٹیٹس اپڈیٹ کررہا ہوتا ہے کہ میرے 5000 فرینڈ ہوگئے ، جبکہ ان لمحات میں گھر والوں سے اس بات پر ناراضگی چل رہی ہو کہ گھر میں صحیح سے وقت نہیں دیتے، آج رابطے بڑھ گئے؛ لیکن محبتیں کم ہوگئیں، رابطے بے شک کم ہو جائیں؛ لیکن محبتیں کم نہ ہوں۔

15․سوائے معتبر ومشہورشخصیات کے ،فیس بک کا اصول یہ ہے کہ ’’ایک ہاتھ دو، ایک ہاتھ لو‘‘ یا’’من ترا حاجی بگویم تو مرا حاجی بگو!‘‘۔اگر آپ کسی کی پوسٹ پر کمینٹ نہیں کرتے،تو دوسرے بھی گھاس نہیں ڈالیں گے؛اس لیے یاتو اتنا وقت ہو کہ سب کو لائک اور کمینٹ کیا جاسکے یا پھرسمجھوتہ کر لیا جائے کہ میں لکھتا رہوں گا، چاہے کوئی پسند کرے یا نہ کرے،لکھتے رہنا کبھی فائدے سے خالی نہیں جاتا،یہاں لکھی تحریریں بعد میں اکثر لوگوں کے لیے پورے پورے مضامین کی بنیادفراہم کرتی ہیں، میرے خیال میں دوسرا راستہ آسان ہے’’یابم یا نیابم ، جستجوئے میکنم‘‘ اسی کو اختیار کرنے میں عافیت ہے،ہوسکتا ہے کہ آپ بھی کبھی انہی بڑے لوگوں میں شامل ہو جائیں ،جن کے پاس غیر معروف یا چھوٹے لوگوں کی پوسٹ لائک کرنے کے لیے وقت ہی نہیں بچتا،اسے ایک ڈائری کی طرح سمجھنا چاہیے، جہاں آپ اپنی چیزیں نوٹ کرتے جارہے ہیں ،جو بوقتِ ضرورت کام آسکتی ہیں۔

فیس بک کے استعمال کے دوران جو کچھ میں نے محسوس کیا ہے، وہی تحریر کیاہے، ہوسکتا ہے کہ کسی کو کسی نکتے سے اختلاف بھی ہو،بہرحال مذکورۂ بالاسب وہ حقائق ہیں، جنہیں جھٹلانا ممکن نہیں،اس نئے سال سے میں نے اپنے لیے بھی کچھ ضوابط مقرر کیے ہیں، جن میں سرِ فہرست وقت کا تعین ہے کہ کب سے کب تک اس کا استعمال کیا جائے، اگر میرے سیکھے ہوئے ان اسباق سے کسی ایک شخص کا بھی بھلا ہوگیا، تو سمجھوں گا کہ میں نے بھی فیس بک کا ایک مقصد حاصل کرلیا،آئیے اپنا جائزہ لیں اور نیا سال شروع کرنے کے ساتھ کوئی عزم کیجیے، کوئی وعدہ کیجیے اور پھر اس کی پاسداری کر کے دیکھیے،شاید کہ اگلا سال گذشتہ سے بہتر ثابت ہو۔اﷲ آپ کا حامی و ناصر ہو۔(آمین)

 
Nayab Hasan
About the Author: Nayab Hasan Read More Articles by Nayab Hasan: 28 Articles with 21828 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.