یادیں

احساس کے صحرا میں اُتر آتی ہے جب دھوپ تب ابر کرم بنتی ہیں چھا جاتی ہیں یادیں

محمد مسعود میڈوز نوٹنگھم یو کے

نہ بچپن رہتا ہے نہ الھڑ جوانی مگر رہ جاتی ہیں یادیں۔ ان کا کیا کہنا بے آسرا گھومتی رہتی ہیں، جس نے بلایا اسی کی ہو رہیں کوئی آواز مانوس لگی تو کانوں میں رس گھولنے لگی۔ کسی کے چہرے میں اپنے چاہنے والے کی جھلک دکھائی دی تو آنکھوں میں آسودگی آ گئی ۔ عجیب بات ہے کہ عمر کے بڑھنے کے ساتھ ان یادوں کی تازگی میں فرق نہیں آتا۔ آنکھیں بند کرو یا نہیں یہ تصویریں نگاہوں کے سامنے جلوہ گر ہو جاتی ہیں۔ برسوں پرانی بات ایسی لگتی ہے جیسے کل کی بات ہو۔ ان یادوں کے جمگھٹ میں رنگینیاں بھی ہوتی ہیں اور اُداسیوں کی پھوار بھی۔

دراصل یادوں کا تعلق ماضی سے ہے۔ اس کی جڑیں ہمارے دلوں کی زرخیز مٹی میں پھیلی رہتی ہیں اور مضبوطی کے ساتھ ہمیں اپنے جال میں جکڑے رہتی ہیں۔ ان ہی کے تانوں بانوں سے ہمارے ماضی کی چادر بنی ہے اور یہی یادیں بچھڑے ہوئے لوگوں کو بلا لاتی ہیں۔ ان میں ہمارے ماں باپ کے ساتھ گذرا زمانہ بھی ہوتا ہے۔ بہن بھائی کے ساتھ چھیڑ خانی بھی، سکول کالج میں دوستوں کی خوش گپیاں بھی۔ پڑوسیوں کی حکایتیں بھی، ملازمت سے سروکار رہا ہے تو اس دور کے واقعات بھی، دوسرے ملنے والوں کی باتیں بھی، درس و تدریس سے وابستگی رہی ہو تو شاگردوں کی فرمانبرداری یا شرارتیں، دوستوں کے گھر یا اپنے خاندان کی شادیاں، وہ رسمیں، مراثنوں کا گانا بجانا، کہیں نوبت، شہنائی۔ کہیں گھومنے پھرنے جاتیں یا پکنک کا پروگرام، برسات کا موسم شروع ہوتا تو درختوں پر جھولے کی پینگیں، بارش میں بھیگنا۔ الغرض کیا کچھ نہیں ہوتا، ان یادوں کی زنبیل میں۔ یہ ضروری نہیں کہ یادیں مرجانے والوں کے ساتھ وابستہ ہوتی ہیں یہ تو زندہ افراد سے بھی جڑی رہتی ہیں جو حالات بدلنے پر آپ سے جدا ہوکر کسی دوسرے شہر یا ملک چلے جاتے ہیں۔ اس کا انحصار، اعلیٰ تعلیم، بہتر روزگار، شادیوں پر ہوتا ہے۔ چاہے دنیا کا نقشہ بدل جائے، حکومتیں بدل جائیں مگر یادیں اپنی جگہ قائم رہتی ہیں اور لوگ کہتے ہیں کہ

یادِ ماضی عذاب ہے یارب
چھین لے مجھ سے حافظہ میرا

کتنا غلط فلسفہ ہے یہ اگر ماضی کے رنج و غم کے واقعات دل دُکھاتے ہیں تو بڑوں کی نصیحتیں مستقبل میں قدم اُٹھانے کی راہ دکھاتی ہیں۔ دل کو ڈھارس دیتی ہیں۔ ملاحظہ کیجئے یہ شعر :

احساس کے صحرا میں اُتر آتی ہے جب دھوپ
تب ابر کرم بنتی ہیں چھا جاتی ہیں یادیں

کیا یہ غلط ہے کہ اُلجھن ہو یا پریشانی ہماری یادوں کے کینوس پر ہمارے بزرگ آکر سہارا دیتے ہیں۔ ماضی میں ایسے حالات میں کیسے ہمت سے کام لیا تھا کی یاد دلاتے ہیں۔ میرے نزدیک یادوں کی دولت کبھی کم نہیں ہوتی۔

میری بھتیجی کا مشاہدہ کے بعد یہ کہنا ہے کہ جب ہمارے ننھیال والے جمع ہوتے ہیں تو پکچر دیکھنے، پکنک کی اسکیم یا ہوٹل جانے کا پروگرام بناتے ہیں اور ددھیال والے ساتھ ہوں تو پرانی باتیں کرتے رہتے ہیں۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ ہم بہن بھائی اور قریبی رشتے دار ساتھ ہوں تو ماضی کے قصے جن میں مرحومین کا تذکرہ ان کی پُرلطف طرز گفتگو، ان کی بذلہ سنجی، ان کی حاضر جوابی، ان کی نصیحتیں کرنے کا طریقہ اور ان سے جڑی حکایتیں دوہرا کر ایک طرح سے خراج عقیدت پیش کرتے ہیں جس سے ثابت ہوتا ہے کہ ہم انھیں بھولے نہیں۔ ہمارے دل دماغ میں ماضی کی ہر وہ بات تازہ ہے جو ان سے وابستہ ہے۔ یادیں ایک ایسا وسیلہ ہیں جو مہینے سال گزرنے کے بعد بھی محبت، اُلفت کی گرم جوشی نہیں کھوتیں۔ دماغ ایک صدف کی طرح چھپا کر یادوں کو موتی بنا دیتا ہے اور جب یہ آتیں ہیں اپنی پوری آب و تاب کے ساتھ حال پر چھا جاتی ہیں۔ ماضی کا احاطہ کرنا مشکل ہی نہیں ناممکن ہے، کیونکہ ہر گزرنے والا لمحہ ہر پل میں ہونے والا واقعہ یاد ماضی بن جاتا ہے۔ رئیٹر فاطمہ عالم علی نے بڑے اچھے انداز میں لکھا ہے کہ یادیں ایک شریر بچے کی طرح ہوتی ہیں، اگر آپ اس کو پکڑنا چاہیں تو وہ آپ سے دور جا کھڑا ہوتا ہے اور شرارت بھرے انداز میں بلاتا ہے کہ آؤ مجھے پکڑو اور کبھی خود ہی آ کر بانہوں میں سما جاتا ہے۔ یہ بالکل سچ ہے کہ ایک یاد سے جڑی کئی یادیں رہتی ہیں، ایک کو لے کر بیٹھیں تو دوسری اس کو دھکیل کر سامنے آ جاتیں ہیں ۔ یادوں کا یہ کھیل جہاں دلچسپ ہوتا ہے وہیں پرانے زخم ہرے کر دیتا ہے۔ یہ کہنا زیادہ مناسب ہے کہ کبھی خوشی کبھی غم کا امتزاج، کبھی لبوں پر مسکراہٹ، تو کبھی آنکھوں میں اشکوں کی جھالر۔ ہر دو طرح ماضی کے نشیب و فراز کی جھلک دکھائی دیتی ہے۔ ہر انسان کی نجی زندگی کی اَن گنت یادیں ماضی میں شامل رہتی ہیں۔ جس کی مثالیں دی جائیں ممکن نہیں، لیکن ایک مثال ایسی دوں گا جو ہزاروں لوگوں پر صادق آئے گی۔ آج کل قافلے حج کے لئے جارہے ہیں۔ اس ذکر کے ساتھ ہی وہ فرد جو حج کر چکا ہے، اپنے حج کرنے کی ایک ایک بات نظروں میں پھرنے لگتی ہے۔ مدینہ منورہ اور مکہ معظمہ میں گذاری ہر گھڑی، ہر پل، کعبہ کا طواف، مقام ابراہیم اور کعبۃ اﷲ کے اطراف پڑھی نمازیں، گناہوں کی معافی کے لئے تڑپنا، رونا، مزدلفہ، رمی و جمرات، صفا و مروہ کی دوڑ، آبِ زم زم سے فیضیاب ہونا ، رسول اکرم ﷺ کے روضہ کی زیارت، جنت البقیع میں زمین سے ہموار قبروں پر سادگی سے رکھے پتھر اور پھر وہاں سے واپسی پر اپنی خوش قسمتی کا احساس کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے گھر بُلا کر سرفراز کیا۔ یہ ایسی یادیں ہیں جو ہر حاجی کے دل و دماغ میں تاحیات تازہ رہتی ہیں۔ وہ ساعتیں یاد آتیں تو پھولوں کی طرح مہکنے لگتی ہیں۔ آفتاب، مہتاب کی طرح چمکتی ہیں۔ ماضی کی یاد کبھی انسانی زندگی کے ارتقاء کی کہانی سناتی ہے تو قدیم تہذیب و تمدن، فنون لطیفہ، رہن سہن، رسم و رواج کے طور طریقے ہمارے سامنے ماضی کا البم کھول دیتی ہے۔ اور ہم تصور میں راجہ مہاراجہ کی حکومتوں، بادشاہوں کا عدل و انصاف، اُس دور کے لوگوں کے میل جول ایک دوسرے سے پیار محبت اور اتحاد کے بارے میں سوچنے لگتے ہیں۔ اس لئے ہم کہہ سکتے ہیں کہ ماضی کی یادیں کبھی تاریخ، کبھی سفر ناموں، کبھی سوانح حیات کے رنگ میں نظر آتی ہیں۔ اب آپ ہی بتایئے کہ ماضی کو کیوں کر بھلایا جا سکتا ہے جب ماضی کی یادیں ہم کو ہزار طرح سے سوغات دیتی ہیں۔ مجھے یقین ہے کہ میری بات سے آپ کو اتفاق ہو گا .

Mohammed Masood
About the Author: Mohammed Masood Read More Articles by Mohammed Masood: 61 Articles with 166939 views محمد مسعود اپنی دکھ سوکھ کی کہانی سنا رہا ہے

.. View More