پاکستان کی اپ بیتی نمبر 7

میں پاکستان آپ کو اپنی پوری تاریح کی آپ بیتی سنا چکا ہوں اور اب میری دو ہزار سترہ میں میری سترھوین سالگرہ منای جاے گی ستر سال انسان کی زندگی تو کافی سارے ہوتے ہیں مگر ریاستوں کی زندگی میں ابتدای سال ہوتے ہیں اور جب میں نے آنکھیں. کھولیں اور باقی ریاستیں مجھے حیرت سے دیکھتی تھی اور تمام ریا ستوں میں اکڑ کر بیٹھتی تھی کیونکہ مجھے جتنی محنت اور جزبے سے حاصل کیا گیا اتنی جزبے اور قربانی سے کسی اور ریاست کو حاصل نہیں کیا گیا تھا اور میں سب میں کلیدی مقام رکھتی تھی مگر سواے قاید کے ایک سال اور چار سال قاید ملت لیاقت علیحاں کے باقی پینسٹھ سالوں میرے ساتھ تماشا چلتا رہا اور میرے سیاستدان اور علمائے کرام مجھے پاکستانی اور مسلمان نہیں بنا سکے بلکہ مجھے پارٹیوں اور فقوں میں تقسیم کیے رکھا اور میرے اندر وقت پر آزادانہ انتحابات نہ ہوسکے اور میرے اندر سیاسی استحکام نہ آسکا اور مجھے تجربات کی نظر کر دیا گیا اور میں جمہہوریت اور آمریت کے درمیان پستا رہا جو بھی ان ستر سالوں میں آیا اس نے اپنی پالیساں شروع کردیں اور میرے اندر سواے ایک دو کے کوئی ایسا لیڈر نہ آسکا جو میرے اندر استحکام لاتا اور میں ہمیشہ بد امنی کا شکار رہا اور کسی سیاستدان و فوجی سربراہ نے میرا اور میری عوام کا نہ سوچا اور مجھے ترقی دینے کی بجاے اپنے لوگوں کوازتے رہے میری عوام لو جب بھی میری خاطر بلایا انھون نے لبیک کہا اور اس کی کی مثالیں میری تاریح میں موجود ہیں اور بھارت میرا شروع دن سے دشمن ہے اور اس نے مجھے ہر محاذ پر نقصان پہچایا اور. میرا امن اسے زہر لگتا تھا اور شروع دن سے ایسے جالات پیدا کرنے کی کوشش کی میرا چلنا دشوار ہو جائے مگر میرے عظیم قاید ایک سال کے اندر مجھے اپنے پاوں پر کھزا کر گے اور رہنما اصول بنا گے اور بھارتیوں نے ریذکلف کو خرید لیا تھا اور اسکی مدد سے علاقون کی تقسیم اور وسایل کی تقسیم میں کھلی بے ایمانی کی گی اور بھارت اپنی ھٹ دھرمی پر شروع دن سے لیکر آج تک قایم ہے اور میرے خلاف ہمیشہ زہر اگلتا رہاہے اس ھٹ دھرمی کا مطاہرہ وہ میرے ساتھ تین بزی جنگوں میں کر چکا ہے انیس اڑتالیس میں کشمیر کے مقام پر اور انیس پینسٹھ براہ راست میرےبدل لاہور پر اور انیس سو اکہتر میں میرے مشرقی حصے پہلی دو جنگوں میں اسے عبرت ناک شکست ہوی اور تیسری جنگ میں میرے اپنے لوگوں نے میرے خلاف بغاوت کر دی اور مجھے زندگی کا بہت بزا دکھ ملا جس سے میں آج تک نہیں نکل سکا اس میں میرے حکمرانوں کا قصور بھی تھا انھوں نے میرے مشرقی حصے کو اقتدار سے دور رکھا اور ان کو ترقی میں شامل نہ کیا اور اسکے علاوہ ہندو اساتزہ نے میرے خلاف بنگالیوں میں زہر بھر دیا تھا اور اس کے بھٹو صاجب نے مجھے سنبھلنے میں اہم کردار ادا کیا اور اسکے علاوہ پورے پینسٹھ سالوں میں مجھے بھارت اور اہنوں نے تزپایا ہے ایک زحم مل رہاہوتا ایک اور زحم لگا دیا جاتا اور مجھے ترقی دینے اور میرے عوام کو خوشحال کرنے کی بجائے ساری زندگی سیاستدان آپس میں لڑتے رہے میں اور میری عوام سسکتے رہے اور میرے ادارے بجائے آگے جانے کی بجاے دیوالیہ ہونے کے قریب پہنچتے رہے جو بھی آیا اس نے الزام دوسرے پر لگایا اور کوئی اپنی ذمہ داری کو ایمانداری سے ادا نہ کر سکا اور ہر جاکم اپنے آپکو تو مضبوط کرتا رہا مگر میں اور میری عوام ترقی اور خوشحالی کو ترستے رہے اور حکمرانوں کا منہ تکتے رہے کیونکہ میری خوشی تو عوام کی خوشی سے تھی اور میں جب اپنے لوگوں کو کچرے سے رزق تلاش کرتے دیکھتا ہوں تو تڑپ اٹھتا ہوں اور جب میرا شہری غربت کی وجہ سے خودکشی کرتا ہے تو مجھے رونا آجا تا ہے کہ میرے حاکم پتہ نہیں کیسے حساب دیں گے اگر میرے اندر اسلام کا نظام نافز کر دیا جاتا تو میرا یہ حشر نہ ہوتا جب ہم ریاستیں اکھٹے بیٹھتی ہیں تو وہ ریاستیں جو میرے بعد آزاد ہوی اکڑ اکڑ چلتی ہیں اور میں اپنا منہ چھپا لیتا ہوں اور انکو کہتا ہوں کہ اکڑ لوں جیسے چلنا ہے چل لو مگر مجھے تو میرے اپنوں نے وہ مقام نہ دیا اور جب ہم ریاستیں اکھٹے بیٹھتی ہیں تو دوسری ریاستیں مجھ سے نفرت کرتی ہیں اور کہتی ہیں کہ تو کیسی ریاست ہے تیرے لوگ کیسے ہیں اپنے ہاتھوں سے اپنے لوگوں کو مارتے ہیں میں اس وقت پانی پانی ہو جاتی ہوں ایک دفعہ ایک انگریز ریاست نے کہا کہ میرے حکمران زیادہ ایماندار ہیں کراے کے مکان سے آتے ہیں اور کراے کے مکان میں چلے جاتے ہیں تمھارے سڑک سے چلتے آتے ہین جب جاتے ہیں تو اربوں کے مالک یوتے ہیں اسکے علاوہ وہ ریاستیں فحر سے کہتی ہیں کہ ہم نے تمھاری اچھی باتوں کو اپنا لیا کامیاب ہوگے اور تم نے ہماری غلط باتوں کو اپنا لیا اور تم تمام اسلامی ریاستیں پستی میں ہو انکی باتیں بالکل صحیح لگتی ہیں ان ستر سالوں میں مجھے ہر ایک نے لوٹا لوٹا اس نے نہیں جسکو چابس نییں ملا اب میں اور میری عوام کہاں جایں میرے وسایل سے دس پرسینٹ لوگ تو عیاشی کر رہے ہیں باقی مشکل سے زندگی گزار رہے ہین اور اس پر مجھے بہت دکھ ہوتا میرے پیارے پاکستانیوں اچھے لوگوں کو چنو جو تمھارے درد کو اپنا درد سمجھے اور جس کو موت اور قبر یاد ہو میرے بعد آزاد ہونے والے کہاں سے کہان پہنچ گے مگر میرے سیاستدان ابھی تک دھاندلی پر لڑ رہے ہیں ابھی میرے لوگوں کو میرا نہیں بنا سکے میرے اندر سب میرے ادارے سسکیاں لے ریے ییں اور مجھ سے انک یہ حالت دیکھی نہیں جاتی مگر میں اور میری عوام مایوس نہیں میں عوام کو تسلی دیتا رہتا ہوں کوی میرے حکمرانوں سے تو پوچھے کہ جب انکم سپورٹ میں ایک سو دو ارب رکھے گے ہیں تو پھر میری عوام کیوں خودکشیاں کر رہی ہے جب ضحت کار ڈ دے دیے گے ہیں تو میری عوام کیوں دوای نہ ہونے سے مر رہی ہے جب حکمران کہتے ہیں ملک میں خوشحالی ہے تو پھر کیوں میری عوام میں مایوسی ہے آو حکمرانوں میں پاکستان تمہیں بتاتا ہوں کہ کہاں کہاں خوشحالی ہے خوشحالی آپ لوگوں میں ہے خوشحالی وزراء میں یے خوشحالی بڑے بڑے بیوروکریٹ میں جن کو منتھلی لاکھوں روہے گھر بیٹھے مل جاتے ہیں ہاں خوشحالی ہے تو صرف اورصرف انکے پاس جو بڑی بڑی صنعتوں کے مالک ہیں میرے پیارے حکمرانو ں اب بھی وقت ہے میرا اور میری عوام کا سوچ لو کیونکہ یہ دنیا چند دن کی. ہے اور اگلی زندگی ہمیشہ کی ہے اس زندگی پر اس زندگی کو قربان مت کرو اور یہ حقیقت ہے جس نے مجھے اور میری عوام کو لوٹا اللہ تعالیٰ نے اسکو سکون سے نہین مرنے دیا اور وہ یہان جق دیکر گیا ہے اور کیا بتاؤ یہ تھی میری آپ بیتی اب آپ سب فیصلہ کریں کہ میرے ساتھ جو یو ریا ہے ٹھیک ہو رہا ہے اور کیا میرے ساتھ ایسا یونا چاہیے تھا اللہ پاک میری غریب عوا م کا حامی و ناصر ہو آمین -
Muneer Ahmad Khan
About the Author: Muneer Ahmad Khan Read More Articles by Muneer Ahmad Khan: 303 Articles with 302501 views I am Muneer Ahmad Khan . I belong to disst Rahim Yar Khan. I proud that my beloved country name is Pakistan I love my country very much i hope ur a.. View More