3 اہم ترین ایشو

٭نجی تعلیمی اداروں کے مسائل : پرائیویٹ تعلیمی اداروں کو حکومتی ناقص پالیسیوں کے باعث بہت سے خطرات لا حق ہو گئے ہیں،حکومتی پالیسیاں کس قدر ناقص ہیں اس کا ذکر بھی لازم ہو گیا ہے ،پرائیویٹ تعلیمی اداروں کی نمائندوں تنظیموں کی معلومات اور میڈیا ذرائع کے مطابق حکومت نے پرائیویٹ تعلیمی اداروں کیلئے ایسے قوانین بنائے ہیں جس کو پورا کرنا مشکل ہی نہیں ناممکن ہوگیا ہے ۔ملک کے گلی ،محلوں میں پرائیویٹ سکولوں کی کثیر تعداد موجود ہے جن کا رزلٹ سرکاری تعلیمی اداروں سے ہمیشہ بہتر رہا ،کامیابی کا تناسب بھی پرایؤیٹ سکولز نے ہی زیادہ دیا ۔ایک حقیقت یہ بھی ہے کہ پاکستان کے گلی محلوں میں قائم اگر پرائیویٹ تعلیمی ادارے بند کردئیے جائیں تو حکومت سب طلبہ وطالبات کو اپنی مدد آپ کے تحت تعلیم ہی نہیں دے سکتی کیونکہ حکومت کے پاس اتنے تعلیمی ادارے،اساتذہ اور وسائل ہی نہیں ہیں، سرکاری سکولز بھی غیر سرکاری این جی اوز کے رحم وکرم پر چھوڑے جا رہے ہیں سینکڑوں تعلیمی اداروں کو تو این جی اوز کی بھینٹ چڑھا دیا گیا ہے ۔مندرجہ بالا حقائق چیخ چیخ کر یہ بتا رہے ہیں کہ حکومت اپنی مدد آپ کے تحت تعلیمی ادارے چلانے میں ناکام ہو گئی ہے ۔دوسری طرف پرائیویٹ تعلیمی اداروں کا گھیرا تنگ کیا جارہا ہے ،ابھی تک نجی تعلیمی اداروں کی رجسٹریشن کا معاملہ حل نہیں ہو پا رہا ۔رجسٹریشن کیلئے ایسے اصول وضع کئے گئے ہیں جو قطعاً درست نہیں ہیں۔حکومت کے مطابق رجسٹریشن کیلئے تعلیمی اداروں کے سلسلہ میں پرائمری کیلئے 10مرلے،مڈل کیلئے 15 مرلے اور ہائی کیلئے ایک کنال ہونا لازم ہے بصورت دیگر رجسٹریشن نہیں ہو گی ۔ جبکہ98 فیصد سکولز اس معیار پر پورے ہی نہیں اتر تے تو کیا حکومت ان تعلیمی اداروں کو بند کر دے گی ؟مثال کے طور پر تعلیمی میدان میں بہترین رزلٹ دینے والے کثیر تعلیمی ادارے ایسے ہیں جن کے پاس مطلوبہ رقبہ ہی نہیں جس کی ڈیمانڈ حکومت کر رہی ہے تو ایسے تعلیمی اداروں کامستقبل کیا ہوگا ؟جو فروغ علم میں اپنی مثال آپ ہیں ۔رقبہ پر حکومت کو نظر ثانی کرنا ہوگی کیونکہ کئی دہائیوں سے ایسے تعلیمی ادارے کام کر رہے ہیں جن کا رقبہ مطلوبہ ڈیمانڈ پر پورا نہیں اترتا جس سے تعلیمی کا عمل رک جائے گا اور تعلیم کا پرائیویٹ شعبہ ایک خاص مالدار طبقہ کے پاس آ جائے گا جو پہلے ہی ملک میں تعلیم کے نام پر لوٹ مار کرنے میں مصروف ہیں جن کی شکایتیں عام سنی دیکھی جا رہی ہیں۔حکومت نے رجسٹریشن کمیٹیوں کے حوالے سے جواصول طے کیا ہے وہ بھی پرائیویٹ تعلیمی اداروں کو قبول نہیں ان کا مطالبہ ہے کہ ماضی کا طریقہ ر جسٹریشن بحال کیا جائے اور رجسٹریشن کمیٹی میں پرائیویٹ تعلیمی اداروں کا ایک نمائندہ شامل کیا جائے ۔نجی تعلیمی اداروں کی رجسٹریشن کے حوالہ سے حکومت کو چاہیے کہ مزید غوروفکر کرے اور نجی تعلیمی اداروں کے لئے مزید آسانیاں پیدا کرے تاکہ فروغ علم کا جاری سفر اسی طرح جاری وساری رہے اور نونہالان قوم زیور تعلیم سے یوں ہی آراستہ ہوتے رہیں اور ملکی ترقی میں اپنا حصہ ڈالتے رہیں ۔

٭سیاستدانوں کی سیاست:پاکستان کے پر فتن حالات کو امن میں بدلنے میں پاک فوج کا کردار اہم ترین ہے دہشت گردی کی جنگ میں پاک فوج نے دنیا کو موثر جواب دیا کہ پاکستان دہشت گرد نہیں بلکہ دہشت گردی کا شکار ہے جس کا مرکز یورپ ومغرب ہے لیکن ا ن حالات میں پاکستان کے سیاستدان کیسی سیاست کر رہے ہیں ؟اس کا تذکرہ انتہائی اہم ہے جلسوں ،جلوسوں میں کیا ارشادات فرما کر قوم کو لالی پوپ دے رہے ہیں وہ بھی سننے اور جاننے کے لائق ہے ۔ایک روز پاکستان کی چند سال پہلے سے قومی سطح کی معروف سیاسی جماعت تحریک انصاف کے سربراہ کا خطاب سننے کا موقعہ ملا تو سر شرم سے جھک گیا کہ حقیقت کیا ہے اور وہ اپنی سیاست چمکانے کیلئے حقیقت کو کس طرح غلط سلط کر رہے ہیں ۔انہوں نے ایک بار پھر اپنے خطاب میں خلیفہ ٔ دوئم سیدنا عمر فاروق ؓ کے عہد زریں کا حوالہ دیا کہ حضرت عمر فاروقؓ کے دور میں انصاف کس قدر تھا کہ جسم پر اوڑھے ہوئے لباس پر ایک عام شہری کے اعتراض کا موثر ترین جواب اپنے بیٹے سے دلوایا پھر آپ ؓ نے خطبہ دیا ۔عمران خان صاحب کا فرما ن تھا کہ سیدنا عمر فاروقؓ کے عہد زریں میں اس قدر انصاف تھا۔ اگر حضرت عمر فاروقؓ جیسا شخص جواب دے سکتا ہے تو پاکستان کاوزیر اعظم کیوں نہیں دے سکتا؟عمران خان اور ان کے حمایتیوں،ہم خیال لوگوں کی خدمت میں گزارش ہے کہ وہ سب سے پہلے یہ جان لیں کہ پاکستان کا موجودہ نظام حکومت جمہوریت حضرت عمر فاروق ؓکے نظام حکومت کا ہم پلہ ہے ہی نہیں ۔حضرت عمر فاروقؓ کا نظام حکومت اﷲ ورسولﷺ کا عطاء کردہ نظام خلافت تھا جس کا آج کے انسان ساختہ،یہودوہنود کے نمائندہ نظام حکومت جمہوریت سے دور کا بھی تعلق نہیں ۔ان کے عہد حکومت میں قرآن وسنت کو عملاً سپریم ترین لاء کے طور پر نافذ کیاگیا جو آج بالکل نہیں۔جب وہ مقدس نظام ہی نہیں جس نے انصاف کے تمام تقاضوں کو پورا کیا تو پھر اس عہد زریں کی مثال آج کے اس نظام کے ساتھ سے نتھی کرنا فاش غلطی نہیں تواور کیا ہے،عمران خا ن کی طرح ہمارے دوسرے لیڈران بھی اسی نظام کے تحت تبدیلی لانا چاہتے ہیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ ایسا ہرگز ممکن نہیں،بلکہ اﷲ تعالیٰ کی یہ سنت ہی نہیں ۔لہٰذاہمارے قومی قائدین کو چاہیے کہ وہ اپنے مطالعہ کو وسیع کریں اور اسلامی نظام اور موجودہ نظام کو آپس میں ملا کر کتمان حق نہ کریں ۔عمران خان کے خطاب میں پاکستان کے جید عالم دین کے بارے میں جو ریمارکس دئیے گئے اس پر بھی دل بہت رنجیدہ ہوا کہ ایک ایسا لیڈر جو خود اسلام ظاہری طور پر بھی پر عمل نہیں کرتاوہ ایک ایسے عالم دین کے بارے میں ایسی بے بنیاد باتیں کر تا ہے جو ملک کی سب سے بڑی علمائے کرام کی نمائندہ سیاسی جمہوری جماعت ہے صرف سیاست چمکانے کیلئے ۔تو ہم اس نتیجہ پر پہنچے کہ یہ نظام ہی ایسا ہے جس میں قرآن وسنت کو وعدہ کرکے وہ مقام نہیں دیا گیا جو اس کا حق ہے تو یہ نظام اور اس کے کارندے علمائے کرام کوایک مناسب مقام کیسے دے سکتے ہیں ؟علمائے کرام کو چاہیے کہ مسنون طریقے سے اسلامی نظام کیلئے کوشش کر یں تاکہ اسلام اور پاکستان ترقی کی شاہراہ پر گامزن ہو سکیں۔نبی ﷺ کی سنت کے مطابق جدوجہد کرنے سے ہی اسلامی نظام آئیگا۔

٭ایک سچ ڈونلڈ ٹرمپ کی زبان سے:U.N.O کے کردار پر نو منتخب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے جو لب کشائی کی ہے وہ بھی حقیقت کا ایک پرتو ہے ڈونلڈ ٹرمپ کا کہنا ہے کہ اقوام متحدہ ایک کلب بن کر رہ گیا ہے جہاں لوگ آتے ،باتیں کرتے اور اچھا وقت گزار کر چلے جاتے ہیں جو بہت افسوس ناک صورت حال ہے ،بہت زیادہ امکانات کے حامل ادارے کا اس حد تک گرنا افسوسناک ہے ،انہوں نے ذاتی طور پر مداخلت کرکے سلامتی کونسل میں اسرائیل کے خلاف ایک قرارداد ملتوی کروا دی اس قرار داد میں مغربی کنارے میں یہودی بستیاں تعمیر کرنے کے اسرائیلی اقدام کی مذمت کی گئی تھی۔اس کے باوجود یہ قرارداد منظور ہوگئی ۔امریکہ کی پالیسیوں سے تو با خبر لوگ واقف ہیں کہ امریکہ کہتا کچھ اور ہے اور کرتا کچھ اور ہے ۔حالیہ بیان کی پس پردہ حقیقت کیا ہے ؟ یہ بات حقیقت ہے کہ اقوام متحدہ کسی اور کیلئے ایک کلب کی حیثیت رکھتا ہو یا نہ لیکن امت مسلمہ کیلئے اس کی حیثیت ایک کلب سے بڑھ کر ہر گز نہیں اگر امریکی صدر یہ فرماتے کہ اقوام متحدہ کی امت مسلمہ کے حوالے سے حیثیت ایک کلب سے بڑھ کر نہیں تو سو فیصد درست ہوتا اور اس بیان کو دنیا بھر میں خوب پذیرائی ملتی ۔اہل درد حلقہ ٔ احباب تو کئی دہائیوں سے یہ چیخ رہاہے کہ اقوام متحدہ عالم اسلام کے حقوق غصب کر رہا ہے آج تک کسی مسٔلہ کو حل کرنے میں اخلاص سے کام نہیں کیا ۔اگر امت مسلمہ مرحومہ اس حقیقت کو جان کر اپنے پاؤں پر وحدتکی شکل میں کھڑی ہو جائے تو اقوام متحدہ کی ہمیں ضرورت نہیں سرہے گی ۔عالم اسلام کا بین الاقوامی فوجی اتحاد جس میں 39 ممالک کی مسلم افواج شامل ہے جس کی کمان سابق پاک آرمی چیف جنرل (ر) راحیل شریف کرنے جا رہے ہیں ایک روشنی کی کرن ثابت ہو سکتا ہے۔
 
Ghulam Abbas Siddiqui
About the Author: Ghulam Abbas Siddiqui Read More Articles by Ghulam Abbas Siddiqui: 264 Articles with 244762 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.