اس وقت سیاسی انتشارپیدا کرنا کیا ملک دشمنی نہیں ؟

 بے نظیربھٹو کی برسی کے موقع پر آصف زرداری اور بلاول زرداری نے سیاسی تحریک شروع کرنے کا عندیہ دے کر ملک میں ایک بار پھر سیاسی ہلچل مچادی ہے ۔ پاکستان میں جمہوری حکومتیں کیوں ناکام ہوتی ہیں ۔اس کی وجہ شاید یہی ہے کہ پاکستانی سیاست دان صبر کا میٹھا پھل کھانے سے پرہیز کرتے ہیں ۔ وہ اقتدار میں ہوں تو سب اچھا ، وگرنہ الیکشن سے پہلے ہی اقتدار پر دوبارہ قبضہ کرنے کی جنگ شروع کر دی جاتی ہے۔ بات کو آگے بڑھانے سے پہلے یہ بتانا ضروری سمجھتا ہوں کہ آصف زرداری ہوں یا بلاول یہ دونوں بھٹومرحوم کی پیپلز پارٹی کی کمائی کھانے کی جستجو میں مصروف ہیں جس نے غریب عوام کو ایک جھوٹا نعرہ " روٹی کپڑا اور مکان "کالگا کر ان سے چار مرتبہ ووٹ تولے لیے لیکن عوامی مسائل حل کرنے کی بجائے مہنگائی کاایسا طوفان کھڑاکر دیا کہ گھروں کے چولہے ہی بجھ گئے ۔2008ء میں پٹرول کی قیمت 54 روپے ڈالر 56 روپے اور آٹا 8 روپے کلو تھا لیکن جب زرداری صاحب پانچ سال بعد ایوان صدر سے باہر نکلے تو پٹرول 108 روپے اور ڈالر 110 روپے تک پہنچ چکا تھا ۔ عمرہ جومشرف دور میں 40 ہزار اور حج ایک لاکھ 36ہزار میں ہواکرتا تھا ۔پیپلز پارٹی کی مہربانیوں سے عمرہ ایک لاکھ پچیس ہزار اور حج اڑھائی لاکھ روپے تک جا پہنچا ۔ کسی اور کو روٹی کپڑا مکان ملے نہ ملے ۔ زرداری صاحب کو 10 ارب مالیت کا ایک عالیشان محل ملک ریاض نے سیاسی رشوت کے طور پر لاہور میں تعمیر کرکے دے دیا جس میں بیٹھ کر بلاول مرغے کی طرح بانگیں اور دھمکیاں دیتے ہیں۔اس سیاسی رشوت کا محرک کیا تھا تاریخ اس بارے میں خاموش ہے۔ زرداری دور کا ہی واقعہ ہے جب سٹاک ایکسچینج میں سرمایہ کاری کرنے والوں کو اس قدر خسارے کا سامنا کرنا پڑا کہ آدھے سے زیادہ لوگ قبرستانوں میں جاسوئے ۔وہی سٹاک ایکسچینج کی کارکردگی آج اس قدر شاندار ہوچکی ہے کہ عالمی جریدہ فوربز بھی تعریف کیے بغیر نہیں رہ سکا ۔یہ پاکستان جیسے ملک (جسے پیپلز پارٹی کے دور میں کرپٹ ترین ممالک میں شرکت کااعزاز حاصل ہوا تھا )کے لیے ایک اعزاز بنتا ہے ۔ زرداری صاحب نے نہ صرف خود کرپشن کے عالمی ریکارڈ توڑے بلکہ اپنے درجنوں فرنٹ مین بھی متعارف کروائے ۔کراچی میں روزانہ آٹھ دس ارب کے بھتے میں 50 فیصد زرداری اور 50 فیصد ایم کیو ایم کے قائد کی جیب میں جاتاتھا۔جوں ہی رینجر نے کراچی میں آپریشنر شروع کیا تو زرداری سمیت پیپلز پارٹی کے تمام فرشتے فرار ہوکر دوبئی جا پہنچے اور وہاں بیٹھ کر فوج اور دیگر انتظامی اداروں کو کھلی دھمکیاں دینی شروع کردیں ۔ڈاکٹر عاصم اس کی بہترین مثال ہیں انہوں نے جن افراد کے نام لیے انہیں ابھی تک گرفت میں نہیں لایاگیا ۔ زرداری صاحب نے ملکی تاریخ میں پہلی مرتبہ سندھ حکومت کو ایک ریموٹ کنٹرول کے ذریعے دوبئی میں بیٹھ کر چلانے کا کامیاب تجربہ بھی کیا ۔ سید قائم علی شاہ ہوں یا مراد علی شاہ ان کی زبان سے وہی الفاظ نکلتے ہیں جو زرداری صاحب فیڈ کرتے ہیں انہیں عوامی مسائل حل کرنے کی فکر نہیں انہیں اگر فکر ہے تو زرداری اور بلاول کی کہیں حکم عدولی نہ ہوجائے۔یہ سندھ حکومت کا ہی عظیم کارنامہ ہے کہ بلاول کسی انتظامی عہدے پر نہ ہونے کے باوجود وائسرائے کادرجہ حاصل کرچکے ہیں ۔ بے چارے سندھی آج بھی اٹھارویں صدی جیسے ماحول میں زندہ ہیں۔ کراچی میں آج بھی پینے کے پانی شدید قلت ہے اور جو ملتا ہے وہ انتہائی بدبو دار ہوتاہے جس کو پینے والے پیٹ کی لاتعداد بیماریوں کا شکار ہوجاتے ہیں ، سڑکوں کی ٹوٹ پھوٹ ، گندگی اور غلاظت کے جا بجا بکھر ے ہوئے ڈھیر، اغوا، بھتہ خوری، جرائم اور اختیارات سے تجاوز پیپلز پارٹی حکومت کے بہترین کارنامے ہیں ۔ یہ تونواز شریف کی مہربانی ہے کہ انہوں نے اندرون سندھ اور کراچی کا رخ نہیں کیا وگرنہ سندھ اور کراچی بھی پیپلز پارٹی کے ہاتھ نکل چکا ہوتا ۔ مزے کی بات تو یہ ہے کہ وہ کرپشن بھی کرتے ہیں اور معصوم بھی بنتے ہیں۔ سرکاری خرچ پر کراچی سے دوبئی اوردوبئی سے کراچی کا ہوائی سفر بھی کرتے ہیں۔بھٹو کی برسی ہو یا بے نظیر کی ۔ تمام اخبارات و جرائد اور ٹی وی پر سرکاری خرچ سے بھٹو خاندان کی ذاتی تشہیر کی جاتی ہے اور برسی کے تمام اخراجات بھی سندھ حکومت ہی برداشت کرتی ہے۔ اگربھٹو خاندان کی کرپشن کے خلاف کوئی بات کرے تو مولابخش چانڈیو ہاتھ دھوکر اس کے پیچھے اس طرح پڑ تے ہیں کہ تنقید کرنے والے کونانی یاد آجاتی ہے ۔ شاید یہ دنیا کی واحد سیاسی جماعت ہے جس میں ایک میٹر ریڈر کرپشن کا سہارا لے کر اپوزیشن لیڈر کی کرسی تک جاپہنچا ۔عمران خان انہیں پیار سے ڈبل شاہ کہتے ہیں ۔ویسے آپس کی بات ہے کہ ڈبل شا ہ کہنا ان کی توہین ہے کیونکہ جتنے کم عرصے میں انہوں نے حیرت انگیزترقی کی ہے ان کا نام گنیز بک آف ریکارڈ میں ہونا چاہیئے تھا وہ آج بھی مسٹر کلین ہیں ۔ اب بلاول اپنی مردہ پیپلزپارٹی کو زندہ اور پنجاب پر قبضہ کرنے کے دعوے کررہے ہیں لیکن میں نہایت ادب کے ساتھ کہنا چاہتا ہوں کہ مردے بھی کبھی زندہ ہوئے ہیں ۔جس طرح کسی مرنے والے انسان میں روح واپس نہیں لائی جاسکتی اسی طرح پیپلز پارٹی کو زندہ کرنے کے لیے حضرت عیسی علیہ السلام کی آمد کا انتظار کرنا ہوگا ۔ اس کی وجہ شاید یہ ہے کہ بھٹو خاندان کے لیے اپنے جسم کو آگ لگانے والے جیالے دنیا سے رخصت ہوچکے ہیں ۔ باقیماندہ جیالے زرداری صاحب کی کرپشن سے تنگ آکر عمران خان کی تحریک انصاف میں شامل ہوکر ڈی جے بٹ کی دھنوں پر مخلوط جلسوں میں ڈانس کررہے ہیں جہاں انہیں تفریح کے تمام مواقع میسر ہوتے ہیں۔ ان کو پیپلز پارٹی میں واپس لانا ناممکنات میں شامل ہے ۔ مجھے یہ کہنے عار محسوس نہیں ہوتی کہ اس وقت نہ صرف پنجاب بلکہ پاکستان میں جس طرح ترقی کی رفتار تیز ہورہی ہے ۔ بجلی کی لوڈشیڈنگ 16 گھنٹے سے کم ہوکر 3 گھنٹے رہ چکی ہے ، دہشت گردی (اکادکا واقعات کو چھوڑ کر) اپنی موت مر چکی ہے ۔سی پیک منصوبے میں چین ، روس اور وسطی ایشیائی ریاستوں کی شمولیت کے بعد ملک میں اقتصادی سرگرمیاں عروج پکڑرہی ہیں ۔ریلویز ،موٹروے ، بجلی گھر تیزی سے تکمیلی مراحل طے کررہے ہیں ۔اس وقت اپنی مردہ پیپلز پارٹی کو زندہ کرنے کے لیے سیاسی ہلچل مچانا بلاشہ ملک سے غداری کے مترادف ہے ۔ عمران ہوں یا بلاول اب 2018ء کاانتظارکرناہی ان کے لیے مناسب رہے گا۔وقت سے پہلے چیخ و پکار اور الزام تراشی سے وقت اور ماحول دونوں خراب ہوسکتے ہیں۔
Aslam Lodhi
About the Author: Aslam Lodhi Read More Articles by Aslam Lodhi: 781 Articles with 660513 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.