ایک گونج دار تھپڑ

پروفیشنل آزم کی کمی نے پاکستانی معاشرے کو تباہی کےگڑھےمیں گرا دیا ہے پاکستانی نیوز میڈیا ایک آئینہ بن کر شب و روز ہمیں اس پروفیشنل آزم کی کمی کا عکس دیکھاتا ہےمگرالمیہ یہ ہےکہ یہی آئینہ خود بھی اس معاشرے کا حصہ ہونے کی وجہ سےاس موذی بیماری کا شکار ہے
کچھ دن پہلے ہمارا "آزاد " نیوز میڈیا اوربےنتھا سوشل میڈیا نادرا آفس کراچی پرموجود ایک گرماگرم خبروں کو سب سے پہلے اسکرین پر پہنچانے کے دعوے دار چینل کی داداگیری کرتی خاتون اینکر اور اپنی یونیفارم پر اکڑتے سیکیورٹی اہلکار کےتھپڑ کی گونج اوراسکے معاشرے پر تباہ کن اثرات کے گرد گھومتے رہے اور جیسا کہ ہرایشو پر ہوتا ہے کہ اینکرز ، سینیر تجزیہ کار اور سوشل میڈیا پر موجود گرجنے والی توپیں اور چمکنےوالی بجلیاں اپنےاپنے حساب سے راۓ دیتے رہے اورہرسوشل انیمل ہمیشہ کی طرح اپنی راۓ کو ہی حتمی سمجھتا رہاجب تک کہ کوئی نئی خبر ایک اور تھپڑکی گونج اختیار نہیں کر گئی
اس واقعے کی تفصیل میں جانے کی ضرورت اس لیے نہیں کہ 14 فیصد پاکستانی سوشل سائیٹس پر موجود ہیں سب کے سب جانتے ہیں کہ خاتون صحافی نے کیا طرزعمل اختیار کیا اور سیکیورٹی پر موجود اہل کار نے کب اپنی نااہلی دیکھائی اس لیے تفصیل کو چھوڑ کر آگے بڑھتے ہیں اور اس بات کا جایزہ لیتے ہیں کہ آخر ایسے واقعات باوجود میڈیا کی کوریج ،عوامی ناراضگی اورمتعلقه اداروں کے "نوٹس لینے " کے پے در پے کیوں وقوع پزیر ہورہے ہیں ؟
میرا جواب ہے کہ یہ پارٹی ابھی اسی طرح چلتی رہے گی اور وجہ بہت آسان سی ہے
پروفیشنل ا زم کی کمی ہماری قومی زندگی کا حصہ آج نہیں بنی . یہ خرابی ہم میں اجتماعی طور پر ہمیشہ سے تھی مگراب دنیا گلوبل ویلج کی صورت اختیار کر چکی ہے خوبیاں ہوں یا خامیاں دونوں ہی مردہ لاش کی طرح پانی کی سطح پرآ جاتی ہیں .ایسے میں چھوٹی چھوٹی باتیں بھی ایک شور برپا کر دیتی ہیں، کبھی چاۓ والے کے "حسن " کا چرچا ہوتا ہے تو کبھی دو کرکٹرزکے درمیان " منہ ماری " کو ہوادینے کے لیے عجیب و غریب خبریں اور ٹرینڈ ز بناۓ جاتے ہیں ایسے میں اداروں کی ساکھ پل صراط پرچلنے والے گناہگارانسان کے مترادف ہوجاتی ہے ذرا سی غلطی اور بہت سی بدنامی
یھاں ہمارے ذہن میں یہ سوال آتا ہے کہ اس طرح کی بدنامی کے بعد بھی "پرنالہ وہیں کا وہیں " رہتا ہے آخر کیوں ؟
اس لیے کہ پروفیشنل ازم ہماری قومی عادا ت میں کبھی بھی شامل نہ ہوسکا اور رہی سہی کسر جوابداری کے فقدان نے پوری کر دی ہے
اپنے اردگرد نظر دوڑائیں آپکوعلما اکرام اکثرلوگوں کا دین و دنیا درست کروانے کی بجاۓ حکومت و سیاست میں حصہ لیتے ملیں گے، انٹیلیجنس کے ادارے ایک مدت سے فرایض منصبی ادا کرنے میں ناکام ہیں ہر دوسرے روز بیرونی دنیا سے اعلان عام ہوتا ہے کہ "فلاں فلاں دہشت گرد آپکی منجھی کے نیچے سو رہا ہے " کیا یہ کام دنیا کا ہے کہ وہ ہمیں بتاۓ ؟ سیاست کبھی نظریاتی ہوتی تھی رہنما کارکنوں کو اتحاد کا درس دیتے تھے مگر اب ایک ایک پارٹی کے اتنے دھڑے ہیں کہ بچے بنا استاد "حروف تہجی " سیکھ سکتے ہیں !جج صاحبان کے پروفیشنل آزم کا یہ عالم ہے کہ اپنے فیصلے لکھنے کی بجاۓ شاعری لکھتے ہیں کچھ جج تو رات بھر "ساس بہو " کے ڈرامے دیکھتے ہیں اسی لیے طنزبھرے ریمارکس دیتے ہوۓ یہ بھول جاتے ہیں کہ انکا منصب منتخب نمایندوں کو "سیدھے تیر " مارنے کی اجازت نہیں دیتا اگر اتنا ہی ڈائیلاگ بازی کا شوق ہے تو ڈراموں میں کام کر لیں فلم انڈسٹری فی الحال اپنے پاؤں پر کھڑی نہیں ہو پارہی مگرامید ہے
پیمرا کے دیر سے ہی سہی ، ہوش میں آنےکے بعد اس انڈسٹری میں کچھ نہ کچھ بہتری آ ئے گی
نیوز میڈیا میں صحافی کی جگہ اینکرز نے لے لی ہے جو سوال پوچھتے پوچھتے جج صاحب بن جاتے ہیں اوراپنے ہی بناۓ ملزم کی صفائی سنے بغیر یا تو کمرشل بریک لے لیتے ہیں یا سزا کا حکم صادر فرما کر شو ختم کرنے کی اجازت ... وہ بھی اس جملے کے ساتھ کہ "ہماری طرف سے بس آج اتنا "...... یعنی کل کاسالن الگ ہوگا آج بس اتنے سے ہی پیٹ بھرو
فیلڈ رپورٹنگ کے لیےغیرتربیت یافتہ نوجوانوں کولے لیا جاتا ہے انکی مناسب حفاظت کا کوئی طریقہ چینل مالکان ذمہ داری سے ادا نہیں کرتے
طاقتور اداروں سے وابستہ خطرناک نیوزسٹوریز ہوں یا عوامی مسایل میں گھرے اداروں کی رپوٹنگ دونوں صورتوں میں رپورٹرز کی عزت ، وقار اور جان سخت خطرے میں ہوتی ہیں مگر چینل کو تو یہیں سے ریٹنگ اور مال بنانا ہے اب چاہے کسی رپورٹر کی جان "نامعلوم افراد " کی گولیوں کی نظر ہوجاۓ یا پھر خاتون کرین سے گر کر زخمی ہوں ،عوامی ریلے میں بیہوش ہوجائیں یا پبلک پلیس پر تھپڑ کھائیں .... ہماری جان گئی آپکی ادا ٹہری
نہ ایسے چینلز میں کام کرنے والے اپنے کام کی ایتھکس سمجھتے ہیں اور نہ ادارہ چاہتا ہے کہ وہ سمجھ بوجھ سے کام لیں
ایک لمحے کو غور سے نیوز بلیٹین سنیے ... خبروں کی بجاۓ تجزیے کیے جاتے ہیں اورخبروں کوتعصبا نہ رنگ دے کر کسی ایک شخصیت یا پارٹی کو ذلیل و رسوا اوردوسری پرجان بوجھ کر نوازشات کی بارش کی جاتی ہے
مثلا '' خبر یہ تھی کہ کسی شہر کے اسپتال میں دوائیاں موجود نہیں اب ہونا تو یہ چاہیے کہ خبر صرف اس حد تک دی جاۓ کہ " فلاں شہر کے فلاں اسپتال میں دوائیاں دستیاب نہیں لوگ مشکلات کا شکار ہیں ،اسپر رپورٹر نے ہسپتال کی انتظامیہ ، وزارت صحت سے متعلقه سرکاری افسران سے سوالات کیے وغیرہ " مگرنیوز اینکر صاحب فرماتے ہیں کہ فلاں صوبےپر فلاں پارٹی کی 11 سالہ حکومتی نااہلی کھل کر سامنے آگئی ہے یہ خبر ہمارا چینل ہمیشہ کی طرح سب سے پہلے لایا ہے ہسپتال میں دوائیا ں غایب ہیں، لوگ مررہے ہیں دربدرہیں تڑپتے بلکتے دھائیا ں دیتے جارہے ہیں وزیراعلی شادی کی تقریب کا لطف اٹھا رہے ہیں وغیرہ وغیرہ
اب خبر تو یقینن درست ہے کہ ہسپتال میں دوائیاں نہیں مگر نیوز ڈاریکٹر اوراینکر کی ملی بھگت بتا رہی ہے کہ انکو اس سے کوئی دلچسپی نہیں کہ متعلقه محکمے اور افراد کی نشاندھی ہو،جوابداری ہو اور دوائیاں ہسپتال اور مریضوں تک پہنچیں اور یوں عوام کا مسلہ حل ہو بلکہ انکی تما م ترکوشش نمک مرچ لگا کرخبرکو "بیچنے" کی ہے اسی لیے وہ حقایق سے روگردانی بھی کر رہے ہیں انکو یقین ہے کہ انکی جوابداری نہیں ہوگی نیوز اینکر سے یہ نہیں پوچھا جاۓ گا کہ محترم یا محترمہ آپ جس خبر کو گلا پھاڑ کر ،چیخیں مار کر سنا رہےتھے اسمیں فیکٹس پرخودکش دھماکہ کیا گیا ہے نہ تو اس پارٹی کی حکومت ١١سال سے ہے نہ ہی کوئی شخص دوائیوں کی عدم دستیابی سے ہلاک ہوا ہے نہ ہی کسی صوبے کا وزیراعلی ہسپتالوں کا ایڈمنیسٹریٹر ہوتا ہے اور نہ اسکا شادی کی تقریب میں ہونا دوائیوں کی عدم دستیابی کی وجہ بنا ہوا ہے
اس قسم کی چٹپٹی پھلجڑ یوں سے تمام نیوزچینلز ریٹنگ تو بنا رہے ہیں مگرقوم کو تباہی کےگڑھے میں گرا چکے ہیں......ایک ہیروین زدہ شخص کی طرح ہمیں بھی خبریں سننے سے زیادہ "بکواس" سننےکی عادت ہوگئی ہے.
(غیر پارلیمانی لفظ کے استعمال پرمعذرت )
جہاں تک قانون نافذ کرنے والے اداروں کے پروفیشنل ا زم کا تعلق ہے تو انکا اصول ہی "جسکی لاٹھی اسکی بھینس "پر عملدرآمد کرانا ہے کل تک جن پران اداروں کی چھپر چھاؤں تھی پانچ سے چھ گھنٹےانکو بنا کمرشل بریک "بولنے ،ہنسنے ،رونے اور گانے " کی کھلی چھوٹ تھی ، انکے خلاف میڈیا میں ایک لفظ کہنے کی کسی ذی روح کو اجازت نہ تھی اور پھر ہوا کا رخ بدلا اور دنیا ہی بدل گئی آج انہی لوگوں کواسکرین پراپنا چہرہ مبارک دیکھانے کی اجازت نہیں ، انکا نام لینا بھی نیوز میڈیا میں گناہ ٹہرا ہے. کوئی مجھ جیسا پوچھےکیوں جناب یہ شمالا '' جنوبا '' فیصلے کس لیے ؟؟ تو جواب میں ........... شاید ایک گونج دار تھپڑ
 
aina syeda
About the Author: aina syeda Read More Articles by aina syeda: 44 Articles with 62925 views I am a teacher by profession, a writer by passion, a poet by heart and a volunteer by choice... View More