شکوہِ محبت

مانا کہ محبت ہو گئی صحیح۔محبوب کو تاڑ ٹاڑ دیکھتے رہنا محبت نہیں بلکہ اگر سچی محبت ہے تو ایسی محبت میں احترام لازمی ہے۔اگر احترام ہے تو لازماً آنکھیں جھکیں گی۔شائد اسی کو محبت کہتے ہیں ۔کسی کے لیے چاہت دل میں رکھنا اور پھر بس دل میں ہی رکھنا کیونکہ محبوب کی عزت سے بڑھ کر محبت کو اور کیا چاہیے۔کیونکہ عزت ہے تو محبت ہے اگر عزت نہیں تو محبت نہیں ۔محبت نے قربانی مانگی تو جی بسم اللہ۔کیوں نہیں سچی محبت ہو تو ایک کیا لاکھوں قربانیاں دی جا سکتی ہیں۔شائد ایک قربانی یہ بھی ہوتی ہے کہ محبوب کی خوشی کے لیے اپنی محبت کا گلا گھونٹ دینا۔دنیا کے کسی کونے میں کوئی شخص خوش ہو گا کیونکہ اس کا محبوب خوش ہو گا۔شائد اسی کا نام محبت ہے۔

وہ لفظ ڈھونڈ رہا تھا لرزتے ہونٹوں سے ضعیف باپ نے بیٹے سے بات کرنی تھی

"محبت وہ جذبہ ہے جو خدا سے ملاتا ہے"۔محبت واقعی رب سے ملاتی ہے اگر محبت واقعی محبت ہو۔
؎ کوئی قابل ہو تو ہم شان کئی دیتے ہیں
ڈھونڈنے والوں کو نئی دنیا بھی دیتے ہیں۔
محبت کا جذبہ خدا سے ملاتا ہے ۔اس بات کو لفظوں میں بیان کر دینا کافی آسان ہے ۔محبت کی ویسے بھی بہت سی (Definitions)ہیں ۔جن میں اکثرو مشہور کچھ یہ ہیں:محبت کے معنی کشش کے ہیں ۔محبت ایک پاکیزہ جذبہ ہے۔الغرض محبت نام سے ہی بہت پیارا لگتا ہے۔جیسے کسی کے گھر کوئی محبت بھرا میٹھا پکوان پکا ہو۔
عصر ِ حاضر میں دیکھا جائے تو اتنی کوئی اور چیز بدنام نہیں ہو گی کہ جتنی محبت بدنام ہے۔ایسا کیوں ہے ؟ یہ شکوہِ محبت ہر کسی کی زبان پر کیوں ہے ؟جہاں بھی نظر دوڑائیں تو محبت کے شکوے ہی شکوے نظر آئیں گے۔یہ بات حقیقت ہے۔محبت سے شکوے اس لیے ہیں کہ محبت کے عظیم جذبے کو ہم نے بہت ہلکا لیا ہے۔
نہایت معذرت کے ساتھ میں آج کی دور کی محبت کو بیان کرنا چاہتا ہوں۔یہ بات لکھنے اور سوچنے میں بھی بہت گھٹیا لگتی ہیں لیکن افسوس انہیں باتوں کو محبت کو نام دے دیا گیا ہے۔
''یار تیرے بیلنس ہے ؟مجھے ایک کال کرنی ہے ۔تینوں دوستوں (جو ایک پارک میں بیٹھے ہیں) میں سے ایک دوست نے دریافت کیا۔
دوسرادوست: ہاں یار !کیوں نہیں ،اپنے بھائی کے پاس بیلنس ضرور ہو گا۔آخر بھائی نے اونچا ہاتھ مارا ہے ۔
پہلا دوست: ہاں یار ! ویسے یار بڑی قسمت ہے یار تیری ،اتنے کمال کا پیس تجھے ملے گا ،تو نے تو خیالوں میں بھی نہیں سوچا ہو گا۔
تیسرا دوست(جس کی ''محبت'' کی شان میں یہ الفاظ بیان کیے جا رہے ہیں ): ہاں ۔ویسے فلموں والے سچ کہتے ہیں کہ دوست کمینے ہوتے ہیں ۔
شر م کرو !بھابھی ہے تمہاری!محبت ہے میری ۔۔۔۔۔۔۔تمہیں نہیں پتہ 'میں نے اسے پٹانے میں کتنی دیر لگائی ہے؟تین سال اس کے آگے پیچھے پھرا ہوں ،پھر جا کے وہ کائن پہ آئی ہے۔لیکن اب دیکھو !تیرے بھائی پہ مرتی ہے۔میں تو کہتا بھی نہیں ،لیکن پھر بھی لوڈ کروادیتی ہے۔لے یار تو فون کر !جلدی کرنا ذرا ! کہیں اس کی کال نہ آجائے ،ویسے بھی وہ بہت شک کرتی ہے۔آگے میں جھوٹی قسمیں کھا کھا کے تنگ آ گیا ہوں۔"
قارئین سے ایک با ر پھر معذرت !لیکن آج کے دور کا یہی محبت ہے یہی افسانہ ہے۔مجھے نہیں سمجھ آتا۔اس میں پاکیزگی کہاں تھی؟مجھے نہیں سمجھ آتا کہ ایسی محبت خدا سے کیسی ملاتی ہے؟
رہی بات شکوے کی ! اگر ایسی محبت کرے گے اور محبوب کے بارے میں ایسی سوچ رکھے گے تو کوئی سوچ سکتا ہے تو آپ کے محبوب کی رائے آپ کے باے میں بہت اچھی ہوگی۔پھر تو شکوے ایسے ہی ہو گے۔
محبت کا دائرہ بہت وسیع ہے۔انسان کے ذہن قابلیت ہے کہ وہ کس حد تک محبت کے دائرے کو سمجھتا ہے۔اگر واقعی محبت کی بات کرتے ہیں تو محبت انسان کی پیدائش سے شروع ہو جاتی ہے۔بچپن میں ماں کی محبت کو دیکھ لیجیے۔جتنی محبت ماں اپنے بچے سے کرتی ہےشائد دنیا میں کوئی اتنی محبت نہیں کرتا۔کہا جاتا ہے کہ محبت یہ ہے کہ دوسرے کے کچھ کہنے کے بغیر ہی انسان 'اپنے'کا دکھ سمجھ لے ۔اسی کا نام ہی محبت ہے ۔خوشی آپ کے چاہنے والے کو ملے اور محسوس آپ کریں ۔کہتے ہیں اسی احساس کو محبت کہتے ہیں ۔ماں کی محبت دنیا کی بے لوث محبت ہوتی ہے۔اس سے بڑھ کر اور محبت کیا ہو سکتی ہے جب ایک ماں خود تو گیلے بستر پر سو جاتی ہے مگر اپنے بچے کو خشک بستر پر سلاتی ہے۔جب بچہ خوش ہوتا ہے تو ٹھنڈا ماںکا کلیجہ ہوتا ہے۔اگر بچے کو چوٹ لگتی ہے تو سانس ماں کی رکنے لگتی ہے۔پھر باپ کی محبت کو دیکھیں جو اپنی اولاد کے کل کے لیے اپنا آج قربان کر دیتا ہے۔
ہم جس کو محبت سمجھتے ہیں اس کا دائرہ صرف لڑکے اور لڑکی کی پسند تک محیط ہے۔جب لڑکے کو کوئی لڑکی پسند آ گئی اس کو محبت کا نام دیا ۔پھر اس محبت کو پانے کے لیے حقیقی محبت کو بھول گئے ۔وہ محبت جو ماں نے اسے بچپن سے جوانی تک دی۔وہ محبت جو باپ نے دی۔سارا دن کام سے تھک کر چور ہو کر پہنچا تو بیٹے نے فرمائش کر دی ۔بابا جانی ! میرے دوست کے پاس اینڈرائڈ موبائل ہے تو مجھے بھی لے کر دیں۔باپ کو چاہے لاکھ مجبوریاں ہو مگر وہ اسے موبائل لے کر دے گا۔لیکن اولاد جوان ہوئی تو ان کو پتہ چلا کہ پالنا پوسنا تو ماں باپ کا فرض تھا۔چلو اب ہم خود سمجھنے کے قابل ہو گئے۔اب ہم اپنی زندگی کے خود فیصلے کرے گے۔
سنا ہے محبت کسی کے لیے قربانی دینے کا نام ہے ۔تو کیوں نہیں دیتے ہم قربانی۔ہمارے ہاں محبت ہوئی ۔جب دیکھا کہ دال نہیں گلتی تو راہ ِ فرار پکڑی۔میں صد قے جاؤ۔ایسی محبت سے انسان شکوہ ِ محبت کر لے تو اچھا ہے۔
مانا کہ محبت ہو گئی صحیح۔محبوب کو تاڑ ٹاڑ دیکھتے رہنا محبت نہیں بلکہ اگر سچی محبت ہے تو ایسی محبت میں احترام لازمی ہے۔اگر احترام ہے تو لازماً آنکھیں جھکیں گی۔شائد اسی کو محبت کہتے ہیں ۔کسی کے لیے چاہت دل میں رکھنا اور پھر بس دل میں ہی رکھنا کیونکہ محبوب کی عزت سے بڑھ کر محبت کو اور کیا چاہیے۔کیونکہ عزت ہے تو محبت ہے اگر عزت نہیں تو محبت نہیں ۔محبت نے قربانی مانگی تو جی بسم اللہ۔کیوں نہیں سچی محبت ہو تو ایک کیا لاکھوں قربانیاں دی جا سکتی ہیں۔شائد ایک قربانی یہ بھی ہوتی ہے کہ محبوب کی خوشی کے لیے اپنی محبت کا گلا گھونٹ دینا۔دنیا کے کسی کونے میں کوئی شخص خوش ہو گا کیونکہ اس کا محبوب خوش ہو گا۔شائد اسی کا نام محبت ہے۔
پہلے دوستی ہوئی ،پھر بے تکلفی ہوئی اور جب ایک دوسرے کو خوب طعنے دینے آگئے تو پھر کیا ہوا ۔ہم جی ایک دوسرے کو سمجھنے لگے ہیں۔لگتا ہے وی فال ان لو۔But this is not love۔یہ حقیقت میں ایک دوسرے کے ساتھ مذاق ہے ۔کیونکہ بے تکلفی سے محبت نہیں ہوتی ۔ایسی محبت جس میں روز روٹھنے کی باتیں ہوں، عزت واحترام کا کہیں نام و نشان نہ ہو تو ایسی محبت سے شکوہ بہت ہے مجھے۔کیونکہ کسی نے کہا تھا جہاں محبت ہوتی ہے وہاں شکوہ نہیں ہوتا اور جہاں شکوہ ہوتا ہے ۔وہاں محبت نہیں ہوتی۔والدین اپنی اولاد سے محبت کرتے ہیں مگر کبھی ان سے شکوہ نہیں کرتے ۔کبھی احسان نہیں جتلاتے۔
بعد میں سرمایہ ِوالدین (اولاد) کہتی ہے بابا جی ! اگر آپ نے زندگی میں کچھ ڈھنگ کا کام کر لیا ہوتا تو ہماری زندگی بن جاتی۔
؎ وہ لفظ ڈھونڈ رہا تھا لرزتے ہونٹوں سے
ضعیف باپ نے بیٹے سے بات کرنی تھی
 
Abdul Kabeer
About the Author: Abdul Kabeer Read More Articles by Abdul Kabeer: 25 Articles with 37962 views I'm Abdul Kabir. I'm like to write my personal life moments as well social issues... View More