کامیابی کیسے؟

ایک خوب صورت شام ایک خوب صورت ہوٹل کے سیمنار ہال میں اور میرے دو صحافی ساتھی داخل ہوتے ہیں۔ تقریب کا مقصد میڈیا انڈسٹری کو پروموٹ کرنا ہے۔ مجھے ایک لکھاری کی حیثیت سے مدعو کیا گیا ہے۔ میں عموماً تقاریب میں نہیں جاتی۔ مزاج ہی کچھ ایسا ہے کہ بھیڑ میں ہمیشہ ہی ان فٹ ہوتی ہوں۔ صحافت کے سفر میں بس یہی دیکھا کہ کیا آگاہی کے پروگرام اور کیا سیشنز، زیادہ تر ایونٹ فقط اپنی پی آر میں اضافہ کرنے کے لیے ہوتے ہیں۔ خاموش طبع شخص اکثر کہیں پیچھے کی نشست پر ساری محفل کا جائزہ لیتے ہوئے نظر آرہا ہوتا ہے، ایسے میں مجھ جیسے لکھاری کی نظر ان پہلوؤں پر ہوتی ہے جو عام آنکھ سے اوجھل ہوں۔ اس کا مطلب ہر گز یہ نہیں کہ ہم اپنی نگاہ کو خاص کہیں۔ ہر کسی کو میرے رب نے ایک خاص صلاحیت سے نوازا ہے۔ میرے ساتھ معاملہ یہ ہے کہ کوئی موقع ہو یا واقعہ حساس طبیعت ہونے کی وجہ سے اس کے بعض پہلوؤں کا اثر تادیر مجھ پر قائم رہتا ہے۔

یہ طویل تمہید باندھنے کا مقصد فقط یہ ہے کہ جس تقریب کا احوال بتانے جا رہی ہوں شاید اس کے رُوح رواں اور منتظمین مجھ سے ناراض ہوجائیں، لیکن جو لوگ کام یابی کی لگن میں آگے بڑھتے چلے جاتے ہیں ان میں تنقید برداشت کرنے کی صلاحیت بھی ہوتی ہے، تاکہ وہ خود کو بہتر سے بہتر بناسکیں۔ مجھے بھی اس تقریب کے منتظمین سے یہی توقع ہے۔

تقریب کا آغاز انہیں لوازمات کے ساتھ ہوتا ہے جن کے تڑکے سے ثابت ہو کہ ہم مذہبی ہیں۔ بہرحال کلامِ پاک کی آیات کو جس طرح پیش کیا گیا اور جیسے انہیں کھول کر سمجھایا گیا وہ یقیناً قابل تحسین تھا۔ اس تقریب میں جہاں انگلش بولنے والوں کی تعداد منگلش بولنے والوں سے کم تھی وہاں میزبان نے آکر اُردو کے وہ جوہر دکھائے کے ہال میں بیٹھے شاید دس فی صد افراد ہی اسے ہضم کرسکتے تھے۔ تقریب کے رُوحِ رواں کی شا ن میں قصیدہ گوئی کے بعد مائیک ان کے سُپرد کریا گیا۔ تقریب کے فارمیٹ کو فالو کرتے ہوئے معزز میزبان سب سے پہلے اپنی زندگی کی داستان سناتے ہیں جو کہ بہت ہی دل چسپ ہوتی ہے اور تب تک چلتی ہے جب تک انہیں اس بات کا یقین نہیں ہوجاتا کہ اب ہال میں بیٹھے لوگ ان کی باتوں سے بے زار ہوچکے ہیں اور تقریب آگے لے جانا چاہتے ہیں۔ قابلِ احترام نوجوان میزبان کی تمام گفتگو میں ایک جملہ اہم ہوتا ہے کہ میری زندگی میں کچھ نا ممکن نہیں، جب مجھے کوئی یہ کہتا ہے کہ یہ کام نہیں ہوسکتا تو میں آخر تک اس کام کے پیچھے لگا رہتا ہوں اور اس کو پایۂ تکمیل تک پہچانے کے لیے رات دن ایک کر دیتا ہوں۔ ہال تالیوں سے گونج اٹھتا ہے۔ اب باری باری ان لوگوں کو بلایا جاتا ہے جنھوں نے نہ صرف پاکستان میں بل کہ پاکستان سے باہر بھی نمایاں کام یابی حاصل کی ڈراما ہو فلم ہو یا ڈوکومینٹری، وہ اپنی صلاحیت کا مکمل ادراک کرتے ہوئے کوششیں کر تے رہے اور کام یاب ہوئے۔ دعا ہے کہ انہیں مزید کام یابیاں نصیب ہوں۔

ایک صاحب جو کہ امریکا میں تقریباً تین دہائیوں سے رہائش پذیر تھے، نے سب سے پہلے اپنی کام یابی کی کہانی سنائی، واہ واہ سبحان اﷲ، نہایت ہی ہونہار پروڈیوسر اور ڈائریکٹر تھے اور سب سے بڑی خوبی یہ تھی کہ امریکا جیسے ملک میں رہتے ہوئے انھوں نے اپنے آپ کو منوایا، جہاں وسائل امڈ رہے ہیں۔ وہ اپنا اسکرین پلے رائٹر کا خواب شرمندۂ تعبیر کرنا چاہتے تھے، تو انھوں نے اپنی قانون کی ڈگری کو بکسے میں بند کردیا اور اپنے اسکرپٹ مختلف ڈائریکٹرز کو بھیجتے رہے۔ بہت دفع مسترد ہونے کے بعد آخر کام یابی ہوئی اور اب وہ مسلمانوں کا امیج بہتر بنانے کے لیے کام کر رہے ہیں۔ اب دوسرے صاحب آتے ہیں۔ انھوں نے بھی باہر سے تعلیم حاصل کی ہے اور سجان اﷲ اپنے والد کی بے پناہ دولت کے ہوتے ہوئے ان کے لیے نہ تو اپنی ڈگری کو چھوڑنا مسئلہ تھا اور نہ ہی یہ مسئلہ درپیش تھا کہ اگر وہ کچھ اور کرکے ناکام ہو بھی جاتے ہیں تو کیا ہوگا۔ بہرحال انھوں پاکستان کو ایک اچھی فلم دی۔ نوجوان ہیں، ارادے پختہ اور سرمایہ موجود، لہٰذا سب کر سکتے ہیں۔ اب ایک خاتون آتی ہیں۔ خاتون نہایت خوب صورت شخصیت کی مالک ہیں اور چوں کہ میں خود ایک فیمینسٹ ہوں تو مجھے خواتین کی نمایاں کام یابیوں پر دلی خوشی ہوتی ہے۔ ان خاتون لکھاری اور شاعرہ نے ایک بہت اچھی ڈوکومینٹری پاکستان کو دی اور عالمی سطح پر اسے سامنے لائیں، جو بلاشبہہ تعریف کے قابل ہے۔ ان کا جذبہ قابل احترام ہے۔ خاتون لکھاری نے ملک سے باہر تعلیم حاصل کی، لیکن مالیکولربائیولوجی اور قانون کی تعلیم حاصل کرنے کو بعد بھی انہیں اس بات کا احساس رہا کہ وہ اس کام کے لیے نہیں ہیں، انہیں کچھ اور کرنا چاہیے، اور انھوں نے کیا، اب بھی کر رہی ہیں، ماشااﷲ کام یاب ہیں۔ تیسری کام یابی کی کہانی ایک نوجوان کی تھی، جو کہ بینکر تھا، لیکن فنون لطیفہ میں دل چسپی رکھتا تھا، لہٰذا بینک کی زبردست نوکری ہونے کے باوجود اس نے اپنے فن کی پیاس بجھانے کے لیے اسٹیج پِلے کیے اور مزید کام کررہا ہے۔ اسی طرح بہت سے لوگ آئے اور اپنی کہانی سنا کر چلے گے۔

میں آتے جاتے ان لوگوں کو غور سے دیکھ رہی تھی اور ان کی زندگی کی کہانی سن رہی تھی۔ مجھے اب بھی اس تقریب میں انتظار اُس کام یاب انسان کا تھا جسے میں درحقیقت وہ کام یاب پاکستانی کہہ سکوں جس نے میرے ملک میں رہتے ہوئے نہایت کم وسائل کے ساتھ اپنے آپ کو منوایا ہو۔ مجھے کسی ایسے فرد کا انتظار تھا، جو ڈائس پر آکر مجھے اس پاکستانی کی کہانی سنائے جو کہانی اس ملک کے رہنے والے ستر فی صد ہونہار نوجوانوں کی نمائندگی کرتا ہو۔ لیکن افسوس! مجھے اس تقریب میں کوئی ایسا کام یاب پاکستانی نہیں ملا جو پاکستان کے اس وحشی تعلیمی نظام میں اپنی بھرپور صلاحیت اور میرٹ کے باوجود آگے نہیں آپاتا، کہیں بھاری رشوت اور کہیں کسی کے امیر باپ کی پرچی اِسے اُس کے جائز حق سے محروم کرکے کسی اور کو اُس کی جگہ پر پنہچادیتی ہے۔ میں جہاں موجود تھی اس تقریب کا مقصد میڈیا میں آنے والے نئے لوگوں کی حوصلہ افزائی کرنا اور انڈسٹری میں سرمایہ کاری کرنے والوں کو متوجہ کرنا تھا۔ اسی لیے کام یابی کی داستانیں سنائی گئیں، لیکن کن لوگوں کو رُول ماڈل کے طور پر پیش کیا گیا۔ وہ جنھیں یہ فکر نہیں تھی کہ اگر وہ اپنے خواب کی تعبیر کے لیے دس سال بھی پیسہ نہ کمائیں تو انھیں کوئی فرق نہیں پڑتا، کیوں کہ ان کا تعلق پاکستان میں رہنے والے زیادہ سے زیادہ پانچ فی صد لوگوں سے تھا۔ میں ہرگز یہ نہیں کہتی کہ مجھے ان لوگوں کی کام یابی پر کوئی شک یا شکایت ہے، ایسا نہیں ہے۔ میں تہہِ دل سے ان لوگوں کی رات دن کی محنت اور کام یابی کو سراہتی ہوں، بل کہ میری خواہش ہے کہ پاکستان کی حکومت ان لوگوں کی حوصلہ افزائی کرے، جنھوں نے اس ملک کا نام دنیا بھر میں روشن کیا، لیکن حضور! میرے وہ نوجوان اس تقریب میں کیوں نہیں تھے جو آگے آنے چاہتے ہیں اور کام یاب بھی ہوئے۔ مجھے اب بھی اس نوجوان کا چہرہ یاد ہے جو مجھے اس روز ملا جب میرا ایک ریڈیو چینل پر انٹرویو تھا۔ لیاری سے تعلق رکھنے والا یہ نوجوان احسان شاہ اپنے نہایت کم وسائل کے باوجود ایک مختصر بلوچی فلم بناتا ہے اور اس فلم کو سینتالیس ملکوں کے درمیان ہونے والے ایک فلم فیسٹول میں اول انعام ملتا ہے۔ میں اکثر سماجی رابطوں کی ویب سائیٹس پر اس کی تصاویر دیکھتی ہوں اب بھی وہ لیاری کی سڑکوں پر اپنی ٹیم کے ساتھ بیٹھا کسی موقع کی تلاش میں ہے کہ کوئی تو آئے اور اس کا ساتھ دے، تاکہ وہ اپنی صلاحیت کا لوہا منوا سکے، لیکن نہیں کوئی نہیں ہے ایسے لوگوں کا ساتھ دینے کے لیے، کیوں کہ یہ لوگ کسی کی پی آر میں اضافہ نہیں کرسکتے، اور آخر وہی کچھ اس کے ساتھ ہوگا جو یہاں عام پاکستانی کے ساتھ ہوتا آیا ہے، روٹی اور روزگار کی فکر اس کے ٹیلنٹ کو کھا جائے گی اور مجھے خوف ہے کہ اس کا فن بھی اپنے معاشرے میں موجود ہمارے دوسرے نوجوانوں کی طرح فرسٹریشن کی آگ میں تبدیل ہو جائے گا۔ کتنے ہی ایسے معزز اور معمر ٹی آرٹسٹ ہیں جنھیں وسائل کی کمی نے مار دیا۔ کتنے ہی ایسے طالب علم ہیں جو میڈیا کی تعلم حاصل کرنا چاہتے ہیں اور جب منہگے اداروں کی تعلیمی اخراجات کو پورا نہیں کر پاتے تو لے دے کر گورنمنٹ یونیورسٹیز کا رخ کرتے ہیں جہاں میڈیا کی تعلیم نہیں صرف ڈگری دی جاتی ہے۔

اس تحریر کا مقصد ہر گز ہر گز تنقید نہیں ہے۔ مقصد ہے تو فقط اتنا ہے کہ وہ لوگ جو درحقیقت میڈیا کو سپورٹ کرنا چاہتے ہیں وہ ایسے نوجوانوں کو اپنے ذہن میں رکھیں جو پاکستان کا مستقبل ہیں۔ وہ ان لوگوں کو تلاش کریں جنھوں نے محدود وسائل میں رہتے ہوئے اس میدان میں ترقی کی۔ ایسے لوگوں کو سپورٹ کریں جو سالہا سال سے محنت کر رہے ہیں لیکن ان کی محنت پاکستان کے مخصوص معاشی کی نظام کے ہاتھوں شکست کھاجاتی ہے۔ وہ لوگ جو صدقِ دل سے اس انڈسٹری اور یہاں کہ لوگوں کے لیے کچھ کرنا چاہتے ہیں، ایسی منصوبہ بندی کریں کہ ان کی کاوش سے وہ لوگ جو اپنی مجبوریوں کی وجہ سے آگے نہیں بڑھ سکے وہ مستقبل میں ان کی ایسی ہی شان دار تقاریب میں ڈائس پر کھڑے ہوکر یہ کہہ سکیں کہ اگر ایسی تنظیمیں نہیں ہوتیں جو میڈیا کو اور پاکستانی ٹیلینٹ کو سپورٹ کرتی ہیں تو ہم کبھی آگے نہ بڑھ سکتے تھے۔ یہ ہوگی وہ کام یابی جسے قرار واقع کام یابی کہا جائے گا۔ کہنے کو بہت کچھ ہے، لیکن اخبار کے اس پَنّے پر فقط اتنی ہی تحریر شایع ہو سکتی ہے۔ مزید پہلو آئندہ کسی تحریر میں سامنے لانے کا ارادہ ہے۔ سرمایہ دارانہ نظام ہر فن کھا گیا ہے مجھے ڈر ہے کہ جیسے ہمارے نوجوان دن بدن اپنے راستے تلاش کرتے کرتے کھو تے جارہے ہیں یہ قوم اپنے سارے مستقبل کے معماروں کو کھو نہ دے۔
Sana Ghori
About the Author: Sana Ghori Read More Articles by Sana Ghori: 317 Articles with 282007 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.