کراچی پریس کلب کو ایف ایم حسین کا تحفہ

نومبر 1997 کی کوئی تاریخ تھی۔ چھٹی کا دن تھا، میں پریس کلب آیا تو ابراہیم جلیس ہال میں ایک سفید داڑھی والے لمبے سے آدمی کو دیکھا ، پنٹ بوشرٹ میں سبز شیشوں والا چشمہ لگائے، وہ شخص ایک تختہ پر کھڑا دیوار پر کچھ لکریں کھیچ رہا تھا، انور مقصود برش اور رنگ دیتے ہوئے ان کی مدد کررہے تھے۔ پریس کلب میں دیوار پر نقش یہ تاریخی پینٹنگ عالمی شہرت یافتہ بھارتی مصور مقبول فداحسین (ایم ایف حسین) کے موئے قلم کا شاہکار ہے، میں نے انھیں پینٹنگ کرتے دیکھا، اس وقت ان کی عمر اسی کے لھ بکھ ہوگی۔ دوپہر تک وہ یہ شاہکار پینٹ کرتے رہے، صحافیوں کی ایک عادت ہے تبصرے کرنے کی، سو ہال میں جو آتا یہ دیکھ کر پوچھتا یہ کیا ہورا ہے، پھر تصویر پر تبصرے کرتا، کوئی کہتا یہ گھوڑے کتنے ہیں، اس کا مطلب کیا ہے، نتیجہ یہ ہوا کہ دوپہر تک ایف ایم حسین تپ گئے، اور وہ اس تصویر کو اسی حالت میں چھوڑ گئے، بہت سے لوگوں کا خیال ہے کہ یہ نامکمل ہے، کچھ اسے ایک شاہکار قرار دیتے ہیں۔ ایف ایم حسین ننگے پیر چلتے اپنی کار میں بیٹھے اور رخصت ہوگئے، دنیا کے نامور مصور کا یہ شاہکار آج بھی پریس کلب کی دیوار پر نقش ہے۔ ایف ایم حسین کے بنائے ہوئے فن پارے اور مجسمے لاکھوں ڈالرز میں فروخت ہوئے تھے اور وہ ایشیا کے امیر ترین مصوروں میں شمار ہوتے تھے۔ انھیں 1971ء میں عالمی شہرت یافتہ مصور پابلو پکاسو کے ساتھ ساﺅپاﺅلو میں منعقدہ مصوری میلے میں مدعو کیا گیا تھا جہاں انھیں فوربس میگزین نے ''بھارت کا پکاسو'' کے خطاب سے نوازا تھا۔ مادھوری سے عشق اور اس کی پینٹنگ پر ہندوستان میں ان کے خلاف ایک مہم شروع کی گئی۔ ہندی دیویوں کی عریاں پینٹگز پر بھارت میں 1996ءمیں ان کے خلاف ایک تنازعہ اٹھ کھڑا ہواتھا۔یہ فن پارے انھوں نے 1970ءکے عشرے میں بنائے تھے۔ ہندوﺅں نے ''مدرانڈیا'' کے بنائے فن پارے پر بہت شوروغوغا مچایا تھا اور ممبئی میں ان کے گھر پر حملہ بھی کردیا تھا۔ انتہا پسند ہندوﺅں کی جانب سے قتل کی دھمکیوں کے بعد انھوں نے 2006ءمیں جلاوطنی کی زندگی اختیار کرلی اور وہ دبئی آبسے تھے جس کے بعد وہ قطر چلے گئے اور قطر نے انھیں 2010ءمیں شہریت دے دی تھی۔۔ہندوانتہا پسندوں نے ایم ایف حسین کے خلاف بھارت کی مختلف عدالتوں میں ان کی زندگی میں قریباً نو سو مقدمات دائر کیے تھے۔ہندوﺅں کے ایک انتہاپسند گروپ نے 2006ءمیں ایک ہندودیوی کی عریاں تصویربنانے پرایف ایم حسین کے قتل کے لیے لاکھوں ڈالرزانعام مقررکیا تھا جس کے بعد انہوں نے جلاوطنی کی زندگی اختیارکرلی تھی۔عالمی شہرت یافتہ مصور کا کہنا تھا کہ ان کے نزدیک عریانی صفائی اور پاکیزگی کی علامت ہے اور ان کا یہ کہنا رہا تھا کہ ان کے فن کا مقصد کسی کی دلآزاری کرنا نہیں۔

انہوں نے مارچ 2010ء میں کہا تھا کہ انھیں بھارت کی شہریت سے دستبرداری پر کوئی افسوس نہیں کیونکہ بھارت اپنے کسی شہری کو کسی دوسرے ملک کی بھی شہریت حاصل کرنے یا رکھنے کی اجازت نہیں دیتا۔انھوں نے کہا کہ ”میں ایک بھارتی نڑاد مصور ہوں اوراپنی آخری سانس تک ایسا ہی رہوں گا“۔9 جون 2011 کو وہ اس دنیا سے رخصت ہوگئے۔بھارتی حکومت نے پیش کش کی کہ ان کا جسد خاکی شایان شان طریقے سے لا کر دفنایا جائے، لیکن حسین کی وصیت تھی کہ وہ جہاں وفات پائیں وہیں انہیں سپرد خاک کر دیا جائے۔ بن ماں کے حسین سے دھرتی ماں نے بھی آخری عمر میں منہ موڑ لیا۔ حسین جیتے جی وہاں نہ رہ پائے تو مر کے واپس آنا بھی انہوں نے گوارا نہ کیا۔
Ata Muhammed Tabussum
About the Author: Ata Muhammed Tabussum Read More Articles by Ata Muhammed Tabussum: 376 Articles with 383652 views Ata Muhammed Tabussum ,is currently Head of Censor Aaj TV, and Coloumn Writer of Daily Jang. having a rich experience of print and electronic media,he.. View More