جامعہ فاروقیہ میں بیتے ھوئے دس سال قسط(7) پارٹ (2)

استاد جی کریکٹر بلڈنگ اور موٹیویشن لیول بڑھانے میں اتنے ماہر ہیں کہ اندازہ بھی نہیں ہوتا کہ بندے کے اندر مختصر سے عرصے میں اچھی خاصی تبدیلی آچکی ہوتی ہے، یعنی اتنی آسانی سے مجھ جیسے طالبعلم کو کہتے کہ ندوی بننا ہے علی طنطاوي بننا کونسا مشکل ہے، آپ کی تحریر تو اتنی دلچسپ ہے کہ جبران کو بھی بھول گئے واہ پڑھنے کا انداز اتنا پیارا، اسی طرح حوصلہ افزائی اور پھر طالبعلم کی راہنمائی صرف زبانی نہیں بلکہ اپنے حجرے میں بلا کر کئی طلبہ سے گروپ کی شکل میں مکالمہ اور ادبی کتب کا مطالعہ پھر اگر کوئی مسابقہ وغیرہ ہوتا تو تقاریر واناشید کی ریہرسل سے لے کر سٹیج سیکرٹری کی تیاریاں یہ سب کام ان کے چھوٹے حجرے میں ہوا کرتے تھے .. خود مجھے یاد ہے پہلا سال معہد میں گیارہ بارہ سال کی عمر تھی جامعہ میں ایک جلسہ ہوا جس میں تلاوت کے لئے میرا نام پیش کیا اور مجھے زبردستی تلاوت کے لئے بھیجا جبکہ میں سٹیج اور ڈائس سے جھجکنے والا پھر صف اول کی درسگاہ میں مجھ سے کچھ نہ کچھ پڑھوانا اور تعریف کرنا حوصلہ افزائی کرنا مجھ سمیت کلاس میں ہر طالبعلم کی تشجیع.. پھر تھے بھی صاف گو اور سیدھی بات کرتے گمھا پھرا کر بالکل بات نہ کرتے جس کی وجہ سے کئی طلبہ اور دوست طبیعت کو نہ سمجھ کر ناراض بھی ہوتے..

جامعہ فاروقیہ میں معہد کا آغاز یقیناً دیگر جامعات کے لئے مشعل راہ کی مانند تھا، غالباً ہمارا بیچ چوتھا یا پانچواں تھا. اس کا اثر یہ ہوا کہ ملک کے مختلف اداروں میں معاہد کا قیام ہوا، عربی زبان کی طرف ہمارے اداروں میں عدم توجہ کا احساس ہوا اور ایک مستقل شعبہ مختص کرنے جس میں عربی میڈیم کلاسیں ہوں گی اور نصاب وہی سوائے چند کتابوں کے اضافے کے ساتھ. ہمارے پرانے احباب کو معلوم ہے کہ 90 سے 2000 تک خاص طور پر اور 2008 سے غالباً جس جذبے اور ولولے کے ساتھ بنیاد ڈالی گئی تھی وہ عمارت دھڑام سے گر گئی بجائے اس کے کہ اس کو مزید مضبوط کیا جاتا اور اس طرز کے ادارے بنائے جاتے، عربی کو فروغ دینے کے لئے کوششیں تیز کردی جاتیں، ملکی وغیر ملکی جامعات اور یونیورسٹیز سے تعلقات قائم کرکے وہاں سے اساتذہ اور ماہرین کو مبعوث کروانے کی کوششیں کی جاتیں اور طلبہ کا تبادلہ پروگرامز ایکسچینج، اور جو تعاون کی ممکنہ صورتیں ہوسکتی ان کو عملی جامہ پہناتے، معاملہ تو بالکل برعکس ہوا اور ہورہا کہ اس گلوبلائزیشن کے دور میں فاصلے کم ہونے کی بجائے بڑھ رہے..

بہر حال مولانا ولی خان المظفر صاحب اور ان کی ٹیم نے معہد کو فعال بنایا تھا اور جیسے ہی معہد کی درسگاہوں کا ہم رخ کرتے ایسا محسوس ہوتا جیسا کہ ہم الگ جگہ جہاں کی زبان الگ پہچان الگ اور اپنائیت محسوس ہوتی.. اچھا درسگاہ میں بھی عربی بولنے کی پابندی خاص طور پر رابعہ تک تو سختی ہوتی، اور استاد جی چونکہ ہم طلبہ اور مولویوں سے خوب واقف تھے کہ ان کو اگر کسی کام سے روکنا ہو تو مالی جرمانہ ہی حل ہے چنانچہ دوسری زبان میں بات کرنے پر پانچ پھر دس روپے کا جرمانہ مقرر کیا گیا تھا، الگ الگ گروپس بنائے گئے تھے، یہ وہ خصوصیات ہیں استاد جی میں جس کا آج کے استاد میں فقدان ہے، اور میری اپیل ہے پورے پاکستان میں موجود دینی مدارس کے عربی کے اساتذہ سے کہ یہ حضرات آپس میں مل بیٹھ کر کچھ طے کریں، نہ کسی مہتمم کا انتظار کریں نہ کسی مدیر اور نہ ہی کسی اور طرف بلکہ اپنی ذمہ داری سمجھتے ہوئے اپنے مدرسہ سے دس طلبہ سے بسم اللہ کریں پھر اپنے شہر کے دو چار اداروں سے رابطہ کرلیں معہد کے طلبہ کا آپس میں مربوط اور مضبوط تعلق بنائیں مسابقات رکھیں، ورک شاپس کروائیں، مجلات وجرائد پڑھوائیں، پورے سال مختلف ومتنوع سرگرمیاں جاری رکھیں جس سے اپنے اداروں اور دیگر اداروں کے معہد کے طلبہ کی جہاں فکری ارتقاء ہوتی ہے وہاں ایک جذبہ اور دلچسپی ودلجمعی کے ساتھ طالبعلم اپنے کام کو کر رہا ہوتا ہے.. اس حوالے سے عشاق العربية تمام تر تعاون کے لئے بھی تیار ہے اور لائحہ عمل تیار بھی ہے جس کا تفصیلی ذکر پھر کبھی صحیح..
استاد جی نے کلاس میں اور کلاس کے باہر ایسا ماحول بنایا تھا کہ طلبہ نے اس سے خوب استفادہ کیا..
اور پھر استاد جی آج کی زندہ زبان سیکھنے سکھانے کے قائل تھے محض پانچویں چھٹی صدی کے صرف ونحو اور عربی ادب کی تعبیرات رٹوانے کے حق میں ہر گز نہ تھے..

بہر کیف استاد جی سے پڑھنے والے جانتے ہیں کہ ان کو عربی سے کتنا لگاؤ ہے کتنا طلبہ کے ساتھ محنت کی ہے اور عربیت کے لئے کتنی جنگ لڑی مگر کچھ حضرات ٹس سے مس نہ ہوئے... اللہ ان کی کاوشوں کو قبول فرمائے اور دونوں جہاں کی خوشیاں نصیب فرمائے
بقلم: شیخ زاھد شاھد
Dr shaikh wali khan almuzaffar
About the Author: Dr shaikh wali khan almuzaffar Read More Articles by Dr shaikh wali khan almuzaffar: 450 Articles with 805944 views نُحب :_ الشعب العربي لأن رسول الله(ص)منهم،واللسان العربي لأن كلام الله نزل به، والعالم العربي لأن بيت الله فيه
.. View More