پُلس (پولیس)

ایک زمانہ تھا جب پی ٹی وی اپنے فیملی تفریحی ڈراموں کی وجہ سے بڑا مشہور ہوا کرتا تھااور پی ٹی وی پہ ایک ڈرامہ سیریز اندھیرا اُجالانشر ہوا کرتی تھی جس سے ہر عمر اور ہرطبقے کے لوگ محظوظ ہوا کرتے تھے۔ اس وقت ہم بچے ہوا کرتے تھے تب یہ پتہ بھی نہیں ہوتا تھا کہ پولیس ہوتی کیا ہے اور اِس کا کام کاج کیا ہوتا ہے پر اس ڈرامے کے کردار اپنی جاندار اَداکاری سے حقیقت کا رنگ بھر دیتے تھے اور مزاح مزاح میں پولیس کے کام اور معاشرے میں ان کے کردار کو صحیح معنوں میں بیان کرتے تھے۔ اَب جب کبھی پولیس والوں کودیکھتے ہیں تو کرم داد جیسے معصوم پولیس والے بھی نظر آتے ہیں اور جعفر حسین جیسے تیز اور چالاک پولیس افسر بھی جو اگر کام کرنا چاہیں تو فوری کر دیتے تھے نہیں تو بہت خوبصورتی سے عوام کو ٹالتے تھے۔ چلو وہ تو ایک ڈرامہ تھاجس میں رنگ بھرنے کے لئے ایسا کیا جاتا ہوگا پر حقیقت اس سے مختلف بھی نہیں ہے اور یہ سلسلہ جاری و ساری ہے۔

آج پولیس کے بارے میں لکھنے کی ہمت کر رہاہوں جس کے حسن وسلوک اور کارکردگی کی وجہ سے عوام ان کی عزت کرنے پہ ـ’’مجبور‘‘ ہو جاتے ہیں اور دل میں خوب داد دیتے ہیں(سمجھ تو آپ گئے ہوں گے)۔ پولیس والوں کے سامنے بڑے بڑے لوگ وائبریشن موڈ(کانپنے لگ جاتے ہیں) پہ چلے جاتے ہیں(ان کو اپنی اس صلاحیت پہ بڑا فخر ہے)میرا قلم تو تھر تھر کانپ رہا ہے حالانکہ اتنی سردی بھی نہیں ہے اس لئے مجبوراََ کمپیوٹر کی بورڈ سے ٹائپنگ کرنا پڑرہی ہے۔ ویسے لوگوں کے وائبریشن موڈ پہ لگنے میں ان بے چاروں کا کوئی قصور نہیں ہے یہ تو بس کچھ بزدل اور حاسد لوگوں نے ان کو بدنام کررکھا ہے پر اِس سے ان کو فرق بھی کوئی نہیں پڑتاکیوں کہ بدنام جو ہوں گے کیا نام نہ ہوگا والی ضرب المثل آخر کس لئے بنی ہے۔
نام سے یاد آیاکہ پولیس اچھا خاصا نام ہے پر کچھ لوگ اس کو ’’پُلس‘‘ کہتے ہیں حالانکہ ایسے کہنے سے مطلب اور تعریف وہی بنتی ہے جو کہ لفظ پولیس کی ہے پرلوگ شاید چٹخارہ لینے کے لئے پُلس کہہ دیتے ہوں گے۔ پولیس کو پُلس کہنے کی کوئی خاص وجہ مجھے تو سمجھ میں نہیں آئی البتہ اتنا کہہ سکتا ہوں کہ پنجابی میں پولیس بگڑ کر پُلس ہو گئی(دوسری علاقائی اور صوبائی زبان بولنے والو ں کا نہیں پتہ انہوں ان کو کیا نِک نیم دیا ہوا)۔اور تو اور کچھ بے اَدب اور گستاخ لوگ بے اَدبی اورگستاخی کرتے ہوئے پولیس والو ں کو’’ پُلسئے‘‘ اور’’ سِپڑا‘‘بھی کہہ دیتے ہیں جو کہ اخلاقی طور پہ غلط بات ہے۔لیکن ایسا کہنے والے بھی ایسا کہنے پہ مجبور ہوتے ہوں گے (یہ تو آپ جانتے ہوں گے کہ انسان ایک مجبور مخلوق ہے) کیونکہ وہ پُلس کی خوش خلقی سے مستفیذ ہوئے ہوں گے۔ کچھ لوگ جوش ِ محبت میں’’چھلڑ‘‘بھی کہہ جاتے ہیں ایسا کہنے والے ایسا اس لئے کہتے ہیں کہ پُلس صفائی ستھرائی کی بڑی قائل ہے اور جو ہتھے چڑھ جاتے تو اس کا چھلڑ(چھلکا، کھال) تک اتار لیتی ہے۔ انڈیا میں پولیس والے کو ’’ٹُھلا‘‘ کہا جاتا ہے اور پاکستان کی ایک علاقائی زبان میں ٹھلا موٹے انسان کو کہتے ہیں(کتنی بُری بات ہے یہ) شاید وہاں بھی اس کا مطلب یہی ہو اور اِن کی جسمانی صحت کو مدِنظر رکھتے ہوئے کہا جاتا ہو۔

ویسے تو پُلس کا کام عوام کی حفاظت کرنا ہوتا ہے لیکن عوام کو ان کی حفاظت کرنا پڑجاتی ہے کہ کہیں ان سے آمنا سامنا نہ ہو جائے نہیں تو لینے کے دینے پڑجائیں گے۔اکثر لوگ تو پُلس کو دیکھ کر یا تو کبوتر کی طرح آنکھیں بند کرلیتے ہیں(کبوتر بچتاپھر بھی نہیں) کہ آمنا سامنا نہ ہو جائے ۔آمنا سامنا نہ کرنے کی ایک وجہ شاید یہ محاورہ ہے’’دُوریوں سے محبت بڑھتی ہے‘‘ پُلس اور عوام دونوں نہیں چاہتے کہ ان کی آپس کی محبت کم ہواس لئے عوام تو عوام پُلس نے ببھی کبھی اس محبت کو کم نہیں ہونے دیا اور ہمیشہ دُوریوں تو مزید بڑھایا تاکہ محبت کم نہ ہو ۔یا تولوگ راستہ بدل لیتے ہیں تاکہ معصوم پُلس والوں کو تکلیف نہ ہو لیکن پُلس پھر بھی راستے میں ہی کھڑی ہوتی ہے بقول محسن نقوی
مجھ کو بھی شوق تھا نئے چہروں کی دید کا
راستہ بدل کے چلنے کی عادت اُسے بھی تھی

اگر پُلس نے آپ کو راستہ تبدیل کرتے ہوئے دیکھ لیاتو بس پھر سب سے بڑے مشکوک اور دہشت گرد آپ ہی ہوں گے کیونکہ راستہ بدلنا تو شریف لوگوں کا کام ہی نہیں حالانکہ شریف انسان ہی تُو تکرار میں نہیں پڑنا چاہتا۔یہ سوچ تو ہم سب کی ہے کہ غلط کام کرنے والے ہی ایسا کرتے ہیں پر شکی سوچ تو پُلس کا ہی خاصا ہے کیوں کہ بقول ان کے کہ ہر تفتیش کی بُنیاد شک سے شروع ہوتی ہے اور اب یہ پُلس کا کام ہے چاہے تو شک شکایت کرنے والے پہ ہی کرنا شروع کردے کیونکہ قانون اور پُلس کی نظر میں سب برابر ہوتے ہیں چاہے شکایت کرنے والا ہو یا جس کے خلاف شکایت کی جارہی ہو۔ پُلس تو بڑی انصاف پسند ہوتی ہے سب کو ایک ہی نگاہ سے دیکھتی ہے جس کو شک کی نگاہ کہا جاتا ہے۔ہمارے معاشرے میں دو قسم کے لوگ شک کی نگاہ کا استعمال بہت زیادہ کرتے ہیں ایک پُلس اور دوسرا بیوی ۔ دونوں شک کی نگاہ سے دیکھتے ہوئے بڑی قیامت کی نظر رکھتے ہیں اور شک بھی ایسا کہ خود ان کو ہی یقین ہوتا ہے کہ جس پہ شک کررہے ہیں وہ ورلڈٹریڈ سنٹر کی تباہی اور ٹرمپ کوالیکشن جتوانے میں ملوث ہیں۔اگر آپ کبھی پُلس اسٹیشن چوری، ڈکیتی کی ایف آئی آر(F.I.R)یا کسی بھی قسم کی شکایت درج کرانے جاتے ہیں تو اندر قدم رکھتے ہیں آپ کی دنیا بدل جاتی ہے آپ خوف کے مارے بد حواس ہو جاتے ہیں اور سوچ میں پڑ جاتے ہیں کہ ـ’’اے میں کتھے پھس گیا‘‘ اور سمجھ تو ایک طرف رہی یاد بھی نہیں آتا کہ ادھر آئے کس لئے تھے، پھر جب تھوڑی دیر بعد آپ کے ہوش ٹھکانے پہ واپس آتے ہیں تو یاد آنا شروع ہو جاتاہے کہ یہاں آنے کا بھی ایک مقصد تھااور اس مقصد کے حصول کے لئے جب کسی پُلس والے سے رابطہ کرتے ہیں تو پھر آپ کی تھانہ پریڈ شروع کرا دی جاتی ہے کبھی ایک کے پاس تو کبھی دوسرے کے پاس بھیجا جاتا ہے آخرکار جب آپ مطلوبہ دربار مطلب پُلس والے کی میز تک پہنچتے ہیں یا تو کوئی ہوتا نہیں وہاں پہ اگر ہوتا ہے تو پیرو مرشد کی طرح اکڑ سے بیٹھے ہوئے ایک انسان جس کی مونچھیں تک بھی اکڑ میں ہوتی ہیں کو جب آپ اپنے آنے کا مقصد بتاتے ہیں تو پھر جس پیارے لب ولہجے میں معصومانہ سوالات کی بوچھاڑ میں آپ کی اپنی تفتیش شروع ہو تی ہے تو تب آپ دل میں خود کو صلواتیں سُنانا شروع کر دیتے ہیں اور بار بار ایک ہی سوال خود سے کر رہے ہوتے ہیں میں ایتھے آیا ہی کیوں سی؟ اور آپ کو ایسا لگنے لگتا ہے کہ آپ ہی مجرم ہیں۔

ایسے رویے کی وجہ سے لوگ کسی بھی حادثے یا واقعے کی نہ تو رپورٹ کرتے ہیں اور نہ ہی گواہی دینا چاہتے ہیں۔اور اگر آپ ثابت قدم رہیں اور ایف آئی آرلکھوانے کی ضد کرتے ہیں تو جس طرح بچے کو بہلایا جاتا ایسی طرح آپ کو بہلانے کے لئے سادہ کاغذ پہ کچی پنسل سے یا پھر اگر بال پن کہیں سے مل جائے تو اُس سے آپ کا بیان ہوبہو لکھ کے تھاما دیتے ہیں اور اگلے دن یا ڈاکٹر کی ہدایت کی طرح تین دن بعد آنے کا کہتے ہیں اور اپنے پاس کوئی ریکارڈ بھی نہیں رکھتے اور اگر غلطی سے رکھ بھی لیں تو جب آپ دوبارہ جائیں گے تو وہ ریکارڈ آپ کو تھانے میں نہیں البتہ کسی پکوڑے بیچنے والے کے پاس سے لازمی مل جائے گا۔

آپ کی رپورٹ پہ ایکشن تو ہونا کچھ نہیں اور اگر آپ ضدی طبیعت کے مالک ہیں اور باربار جا کے پُلس والوں کو تنگ کریں گے پہلے تو وہ پیار بھری جھڑکیاں دیں گے پھر بھی آپ باز نہ آئے اپنی شکایت کے ازالے کے مطالبے سے تو پھر وہ آپ کوایسی پیار بھری تڑی لگائیں گے کہ آپ تھانے سے تڑی پار ہو جائیں گے اور آپ کو عقل آجائے گی مطلب کہ سمجھ لگ جائے گی کہ ان تلوں میں تیل نہیں۔

اگر آپ کی کوئی قیمتی چیز چوری ہوئی ہے یا کسی نے گن پوائنٹ پہ چھین لی ہے اور آپ رپورٹ کرائیں تب بھی اور نہ کرائیں تب بھی آپ اپنی قسمت کا لکھا سمجھ کر چُپ ہوجائیں اور سیانے لوگوں کی طرح اس کا ثواب اپنے کسی مرحوم کو بخش دیں۔ایسے ہی کچھ قیمتی اور بہت قیمتی چیزیں کا ثواب ہم لوگ بھی مرحومین کو بخش چکے ہیں۔اسی طرح ایک کار۔نامہ ۱ور یاد آگیا کہ کسی بندے کی کار چوری ہو گئی پہلے تو بے چارہ دو دن ایف آئی آر کرانے کے لئے چکر ہی کاٹتا رہا پھر تیسرے دن بڑی مشکل سے کسی بڑے بندے کے منت ترلے کرکے ایک چھوٹی سی فون کال کراکے ایف آئی آر کرائی اور اتنا تو آپ جانتے ہوں گے رابطے کے طور پہ موبائل نمبر بھی لکھا جاتا ہے۔ایف آئی آر F.I.Rکرانے کیکے تھوڑی دیر بعد ہی کار اغواء کار کی طرف سے تاوان کی کال آگئی۔اُن تک نمبر کیسے پہنچا اور یہ معلومات کیسے لیک ہوئیں ؟ چلیں اس کا الزام ہم وکی لیکس کے بانی کے سر ڈال دیتے ہیں ۔

خوش اخلاقی کا تو یہ عالم ہے کہ یہ عام عوام سے بڑے تُو تڑاخ سے بات کرتے ہیں جیسے کہ لنگوٹئے یار ہوں بس فرق صرف لہجے کا ہوتا ہے کیونکہ کے یار لوگوں کے لہجے میں پیارہوتا ہے عزت نہیں اور ان کے لہجے میں پیار اور عزت ۔۔۔۔۔ دونوں نہیں۔پُلس والے بڑی گاڑیوں اور رُعب داب والے انسان کو روکنا اوراُن سے بات کرناپسند نہیں کرتے پر شریف دِکھنے والے اور خاص طور پہ صوفی بندے تو ان کی نظر میں مشکوک ترین انسان ہوتے ہیں ایسے لوگوں کو روک کر حال احوال پوچھنا(تفتیش اور تلاشی) تو ان کا فرض ہے۔ اور اگر غلطی سے آپ ان کو سلام کر ڈالیں تو جوابی سلام یا سلام کی اُمید پہ دُنیا قائم نہ کریں اور چپکے سے چلتے بنیں نہیں تو سلام کا جواب لینے کے دینے پڑ جائیں گے۔باخبر ایسے ہوتے ہیں کہ جُرم ہونے کے بعد فوری بیان داغ دیتے ہیں کہ ایسی اطلاعات مل رہی تھی کوئی ان سے پوچھے جب معلومات مل رہی تھی تو آپ پھر تھے کہاں واردات ہونے سے پہلے؟اور باخبری ایسی بھی کہ پتہ ہی نہیں ہوتا کہ ڈیوٹی کہاں کررہے۔آفس کارڈ دیکھ کے اور اسی آفس کی عمارت کے سائے میں کھڑے ہو کے کارڈ دکھانے والے سے ہنسی مذاق میں پوچھ رہے ہوتے اوئے تیرا آفس ہے کدھر؟

کچھ پروپگنڈا کرنے والے لوگ کہتے ہیں کہ پُلس وقت پہ نہیں پہنچتی ۔۔۔ اب یہ کہنے والوں سے پوچھئے کیا واردات کرنے والے اعلان کرکے یا ان کو بتا کے تھوڑا آتے ہیں جو یہ وقت پہ پہنچیں(ٹھیک کہا نہ میں نے سرکار؟)۔جُرم ہوگا، عوام لُٹے گی مرے گی، کوئی شکایت یا رپورٹ ہوگی تو تب صاحب لوگ پہنچیں گے نہ آرام سے ، ٹائم پہ پہنچ کے مرنا تھوڑا نہ ہے اﷲ کی دی ہوئی زندگی کوختم کراکے نا شکری تو نہیں کرنی۔اگر شکایت نہ ہوتو ان کا راوی چین ہی چین لکھتا ہے اور یہ چین سے درآمدہ بانسری بجاتے رہتے ہیں۔
کہا تویہی جاتا ہے کہ پُلس عوام کی حفاظت کے لئے ہوتی اور یہ فرض بخوبی نبھایا بھی جاتا ہے۔ ایک عینی متاثر (عینی شاہد تو کسی حادثے کا گواہ ہوتا ہے لیکن عینی متاثر کسی حادثے کا شکارہوتاہے)کے بقول پُلس نے یہ فرض یہ کہہ کے نبھایا کہ ’’تُو اَگے جا تو رہاہے اگر کسی نے پکڑ کے مارا تو ہم چھڑانے نہیں آئیں گے‘‘۔ اور عوام کی خدمت میں تو ایسے پیش پیش ہوتے ہیں کہ اچھے بھلے شریف انسان کے پیش ہی پڑ جاتے ہیں اور دھمکی دینا تو ان کو آتا ہی نہیں بس اتنا سا ہی کہتے ہیں واپس نکل لے یہاں سے نہیں تو ڈنڈا گھما کے ماروں گااور اگر کوئی واپس مڑ بھی جائے تو اتنے پیارے کمنٹس پاس کرتے ہیں کہ انسان جل بھن کے کباب تو لازمی بن جاتا ہے۔

کسی بھی معمولی احتجاج کے دوران کِٹ(Kit) ایسے کستے ہیں کہ ایسے تو رگبی کے کھلاڑی بھی نہیں کرتے۔ایک گورا(انگریز) اس حالات میں ان کو دیکھ کے بڑا حیران ہوا کہ اتنی تعدار میں رگبی کے کھلاڑی پاکستان میں ہیں اوراور باقاعدہ پریکٹس بھی کرتے ہیں۔ویسے بھی کھیل کود سے صحت اچھی رہتی ہے اور ان کواپنی صحت کی بڑی فکر ہوتی۔ان کے کھیلنے کے لئے عوام کھلونا اور کودنے کے لئے سرکاری لنگر لازمی ہوتا ہے۔خوش خوراک ایسے ہیں کہ اگر دُور سے دِکھ جائیں تو ایسے لگتا کہ جیسے لینڈ سلائیڈنگ سے روڈ بلاک ہوگیاہو۔انٹرنیٹ پہ آپ کو ایسے بہت سے کلپس مل جائیں گے جو خفیہ کیمروں سے بنائے گئے ہوں گے جس میں رہڑی والے یا ہوٹل والے پیمنٹ کے لئے بس دیکھتے ہیں رہ جاتے ہیں اور یہ پُھر سے منظر سے غائب ہوجاتے ہیں۔کبھی اگر آپ موٹر وے کے علاوہ لانگ رُوٹ کے سفر کررہے ہوں خاص طور پہ عید کے دنوں میں تو مختلف چوکیوں پہ معصوم بچوں کی طرح ہر کوچ، بس، گاڑی والے سے عیدی لازمی وصول کرتے ہیں اور اگر عیدی نہ ملے تو کوچز جو رُکوا کے زبردستی مسافروں کے بیگوں کی تلاشی مسافر کو بتائے بغیر لیتے ہیں اور گھر جا کر پتہ چلتا ہے کہ مسافر بے چارے کی کچھ چیزیں ’’مِسنگ پرسن‘‘ کی طرح مِس ہیں۔ اس کا الزام ان پہ کُلی طور پہ نہیں ڈالتے شک کا فائدہ دیتے ہیں بیگ سے چیزوں کا اغواء تو کنڈیکٹر بھی کر سکتے ہیں۔

اگر کوئی احتجاج یا جلسہ ہوتو کہا جاتا ہے کہ پُلس حالتِ جنگ میں ہے پر کچھ زندہ دلانِ پُلس ایسے بھی ہوتے ہیں جو ایسے موقعوں پہ بھی انجوائے منٹ ڈھونڈھ لیتے ہیں اور اپنے اسمارٹ فونز پہ ہلکی پھلکی موسیقی لگا کے دو چار ٹھمکے لگا لیتے ہیں کیونکہ ٹینشن کے ماحول میں ہلکی پھلکی انجوائے منٹ سے کام کرنے میں آسانی رہتی ہے جیسے ہلکی پھلکی بھوک میں ہلکا پھلکا ٹک۔

آخر میں آخری بات۔۔۔ اُمید ہے کہ اس تحریر کومزاح کے طور پہ لیا جائے گا دل پہ نہیں اور اس میں جن معمولی اور تھوڑی سے باتوں کی طرف اشارہ کیا گیا ہے اُس کو سنجیدگی سے لے کر اصلاح کی کوشش کی جائے گی جو کہ ایک اچھے اور صحت مند معاشرے کے لئے ضروری ہے۔ جیسے کہ ہاتھ کی پانچوں انگلیاں براب نہیں ہوتیں اسی طرح کوئی بھی اِدارہ یا اس میں کام کرنے والے انسان بھی ایک جیسے نہیں ہوتے۔ بعض اوقات کسی ایک کی وجہ سے پورا اِدارہ، معاشرہ یا ملک بدنام ہوجاتاہے۔کمی کوتاہیاں ہرانسان اور معاشرے میں ہوتی ہیں پر اچھا انسان اور اچھا معاشرہ وہی ہوتا ہے جو اصلاح کرتا ہے۔اس تحریر کا مقصد بھی اصلاح کی طرف توجہ دلانا ہے گو کہ باتیں توتلخ ہیں ۔ ویسے بھی جیسے تالی ایک ہاتھ سے نہیں بجتی اسی طرح ساراالزام پُلس کو نہیں دیا جاسکتا اس میں ہم عوام کا بھی کسی نہ کسی حڈ تک کردار ہے اور اسی طرح اگر عوام کے ذہن میں پُلس کے لئے مثبت رائے نہیں ہے تو مطلب زیادتیاں پولیس کی طرف سے بھی ہوتی ہیں۔اس لئے تو عوام اور پولیس کے درمیان بہت فاصلے ہیں۔فاصلے کم کیجئے محبتوں کو فروغ دیجئے ۔
R S Mustafa
About the Author: R S Mustafa Read More Articles by R S Mustafa: 41 Articles with 26583 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.