معمار ادب ،اسکالر ، ڈاکٹرنبی بخش خان بلوچ(مرحوم)

علم وادب میں شاندار خدمات پرمعتدد اعزازات آپ کی دانشور شخصیت کوثابت کرنے کیلئے کافی ہے
 ہمیں اس حقیقت کو تسلیم کرنا چاہئے کہ قوموں کی تقدیریں محض دعاؤں اور آرزؤں سے بدلا نہیں کرتیں اس کیلئے مسلسل محنت و جدوجہد کی ضرورت ہوتی ہے۔ دنیا کا کوئی معاشرہ ، کوئی دانشور ، کوئی فلسفی ، کوئی مدبر ، کوئی سائنسدان اورکوئی قلم کا راستاد کے احترام و ادب سے منکر نہیں ہے ۔ اسلام نے توتحصیل علم کوہرمرد وزن کیلئے فرض قرار دے کراستاد کی حیثیت اورمرتبہ کو بہت بلند کردیا ہے۔ اساتذہ قوم کے معمار ہوتے ہیں۔ ادب کے فروغ میں ہمارے معاشرے میں کچھ شخصیات ایسی ہیں جنہوں نے علم و ادب کو دنیا کے سامنے روشناس کرایا۔ میں جس شخصیت سے آگاہ ہونے جارہاہوں۔ ان کے بارے میں جاننے کا حسن اتفاق مجھے ایک ادبی سیمینار کی وجہ سے ہوگیا۔ چونکہ پہلی مرتبہ مجھے کسی ادبی سیمینار میں جانے کااتفاق ہووا تھاتو پہلے اپنی بے ادب طرز زندگی کا جائزہ لیا تو ایک نقطے کے برابر ’’ادب محسوس ہواتو میں جانے کے لیئے تیار ہوگیا‘‘۔ یہاں اس ادبی سیمینار کو منعقد کرنے کااعزاز پاکستان ادکامی ادیبات کمبائند ڈویژن گورنمنٹ آف پاکستان اور سرسید یونیورسٹی آف انجینئرنگ اینڈ ٹیکنالوجی کی مشترکہ کاوش تھی۔ ڈائریکٹر ریذیڈنٹ پاکستان ادکامی ادیبات آغا نور محمد پٹھان صاحب نے مجھے اس سیمینار میں آنے کا دعوت نامہ بھیجا تھا۔ جن کی وجہ سے مجھے معمار ادب ، اسکالر ، دانشور ، ڈاکٹر نبی بخش خان بلوچ مرحوم کے بارے میں جاننے کا واقعہ ملا بلاشعبہ علمی و ادب خدمات کے حوالے سے آغا نور محمد پٹھان اوروائس چانسلر سرسید یونیورسٹی زیڈ اے نظامی (مرحوم) کی قابل قدر خدمات کو فراموش کرنا ممکن نہیں ہے۔ ڈاکٹر نبی بخش پاکستان کے نامور محقق اور دانشور تھے جنہیں علم وادب میں ایک خاص و منفرد و مقام حاصل تھا۔ 66برس سے زائد عرصے سے شب روز علم و ادب سے وابستہ رہے اور اپنی اعلیٰ و تحقیقی خدمات پر بین الاقوامی شہرت پائی۔

ڈاکٹر نبی بخش خان بلوچ (16دسمبر1917ء ) کو قریہ جعفر خان لغاری ضلع سانگھڑ میں پیداہوئے۔ 1936ء میں سندھ میں اول پوزیشن حاصل کرتے ہوئے میڑک کیا۔ یہاں سے ڈاکٹر نبی بخش خان بلوچ کی علمی قابلیت کا وہ سنہرا ددور شروع ہو اجس سے ہزاروں طالب علموں کوسیکھنے کاموقع ملا۔ ڈاکٹر صاحب کی اردو میں تحقیقی خدمات کے حوالے سے اگر جائزہ لیاجائے تو اردو زبان میں ڈاکٹر صاحب کی 7کتب شائع ہوئیں۔ ان میں 3شاعری کی کتابیں ہیں۔ سندھ میں اردو شاعری ( ازعہد زشاہ جہان تاقیام پاکستان) ان کی پہلی کتاب تھی یہ کتاب اپنے موضوع اورمواد کے لحاظ سے منفرد ہے اس کتاب میں بلوچ صاحب نے بڑی محنت سے 1658ء سے1935ء تک سندھ کے 171شعراء کے حالات زندگی اورکلام کاانتخاب ہیش کیا ہے سندھ میں اردو شاعری کے اشاعت اول کے پیش الفاظ میں ڈاکٹر نبی بخش بلوچ صاحب اس کتاب کی وجہ تالیف اورشامل مواد کے بارے میں تحریر کرتے ہیں، اردو شاعری کی تراویج میں خطے سندھ کے شعراء کاحصہ برصغیر کے دوسرے خطوں کے شعراء سے کچھ کم نہیں ہے۔ فن شاعری کے سلسلے میں اس بیش بہا سرمایہ کی حفاظت اور اشاعت کو ضروری سمجھ کر راقم نے مہران آرٹس کونسل کے سامنے یہ تجویز پیش کی کہ خطہ سندھ کے قدیم اردو شعراء کا منتخب کلام کونسل کی طرف سے شائع کیاجائے۔ کونسل نے اس تجویز کو منظور کرلیا اور بندے نے اس کتاب کی تالیف اپنے ذمہ لے لی۔اس اہم کتاب کی اشاعت اول 1967ء میں مہران آرٹس کونسل حیدر آباد سندھ کی جانب سے ہوئی جس میں 66شعراء کے حالات اورکلام پیش کیاگیا۔ اشاعت دوئم 1970ء میں مجلس ترقی ادب لاہور میں ہوئی جس میں مزید 4شاعروں کی شمولیت کے بعد کل شعراء کی تعداد 70ہوگئی۔ اس کتاب کی اشاعت سوم مجلس ترقی لاہور سے 1978ء میں ہوئی جس میں شعراء کی تعداد 74ہے۔ اس کتاب کی تالیف میں بلوچ صاحب کی معاونت ڈاکٹر غلام مصطفی خان سابق صدر شعبہ اردو سندھ یونیورسٹی نے کی جن کاڈاکٹر بلوچ صاحب نے خصوصی شکریہ اداکیا۔’’طلبہ اور تعلیم قائداعظم نے کیا سوچا اور کیاکہا‘‘ ان کی دوسری کتاب ہے قائداعظم محمد علی جناح کے تعلیم سے متعلق اقوال کا یہ مفید کتا بچہ ڈاکٹر نبی بخش صاحب نے 1976ء میں قائداعظم محمد علی جناح کے صد سال جشن کے موقع پر مرتب کیا۔ اس کے پیش لفظ میں ڈاکٹر صاحب تحریر فرماتے ہیں۔ جشن صد سالہ قائداعظم 1976ء کی مطبوعات کمیٹی کی خواہش پرقائد اعظم کے ان ارشادات کو بعض مطبوعہ کتب اوروفاقی وزارت تعلیم اسلام آباد میں محفوظ و ذخیرہ کاغذات قائد اعظم سے مرتب کیاگیاہے یہ مفید کتابچہ اب تک قائداعظم اکیڈمی کراچی سے شائع ہوچکا ہے۔ (دیوان شوق افزاء عرف دیوان صابر) تیسری کتاب ہے ۔ سندھ کے ایک قدیم شاعر میر محمود صابرکااردو دیوان ہے جسے ڈاکٹر نبی بخش بلوچ نے بڑی محنت سے مرتب کیا۔44صفحات پر مشتمل عالمانہ مقدمہ بھی لکھا اس کتاب میں کل 600غزلیں ہیں۔ بلوچ صاحب نے حسب عادت بڑی جانفشانی اور سلیقے سے دیوان شوق افزاء مرتب کیا۔اورمیرمحمود کے حالات زندگی تحریر کیئے۔ڈاکٹربلوچ صاحب نے میرمحمود صاحب کے متعلق تحریر لکھتے ہوئے کہا کہ میر محمود اردو شاعری کے باواآدم علی دکنی (گجراتی ) کے فوری بعد کے شعراء میں شامل تھے۔ بلوچ صاحب کے مرتبہ دیوان شوق افزاء کی اشاعت 1984ء میں اردو سائنس بورڈ لاہور نے کی ۔ مولانا آزاد سبحانی برصغیرپاک و ہند کے ایک مقتدر رہنماء کی چوتھی کتاب ہے۔ مولانا آزاد سبحانی نے برصغیر پاک و ہند کے ممتاز علماء میں سے ایک تھے ۔انہوں نے قیام پاکستان خاطر تحریک پاکستان میں بھرپور حصہ لیا۔لیکن پاکستان منتقل ہونے کے بجائے بھارتی مسلمانوں کی خدمت کے جذبے کے تحت وہیں قیام کیا۔ مولانا آزاد سبحانی فلسفیانہ ذہن رکھتے تھے۔ فلسفہ دین کی خاطر انہوں نے کانپور میں ایک مدرسہ بھی قائم کیا تھا۔ مجلس عاملہ ریسرچ سوسائٹی آف پاکستان جامعہ پنجاب کے اجلاس میں 1987-88بلوچ صاحب نے تجویز دی کہ آزاد سبحانی کی سوانح مرتب کیا جائے۔ اس اجلاس میں مولانا آزاد سبحانی کی سوانح مرتب کرنے کی ذمہ داری بلوچ صاحب نے خود قبول کی۔ اس کی انہوں نے 2وجوہات بیان کی کہ کیوں وہ مولانا آزاد سبحانی کی سوانح لکھنا چاہتے ہیں پہلی یہ کہ انہوں نے قیام پاکستان سے چند ماہ قبل جب ڈاکٹر نبی بخش بلوچ صاحب کو لمبیا یونیورسٹی آف امریکا میں ڈاکٹر یٹ کی تحقیق کی خاطر مقیم تھے اسی زمانے میں مولانا آزاد سبحانی امریکا آئے تھے۔ ان کو مولانا آزاد کو قریب سے دیکھنے کاموقع ملا اور وہ مولانا کی قلندارانہ شخصیت و علمی قابلیت سے بہت متاثر ہوئے۔ ڈاکٹر نبی بخش بلوچ کو مولانا آزاد سبحانی کے اس وصف نے بے حد متاثر کیا کہ حصول پاکستان کے بعد بھی مولانا آزاد پاکستان نہیں آئے بلکہ بھارت ہی میں وہ کروہاں کے مجبور مسلمانوں کی خدمت کرتے رہیں اور اپنی بقیہ زندگی وہیں گزرنے کا فیصلہ کیا، امریکا میں قیام کے دوران مولانا سے بلوچ صاحب کا قریبی تعلق قائم ہوا اور باہمی ملاقاتیں ہوتی رہیں مولانا صاحب جب نیو یارک سے جانے لگے تو اپنی شعری بیاض بھی بلوچ صاحب کو عنایت کرگئے۔ اس کتاب کی خاطر بلوچ صاحب نے مولانا آزاد سبحانی کے مستند حالات کی تحریک پاکستان میں مولانا کاکردار ، مولانا کا فکر و فلسفہ، مولانا کے مطبوعہ سفرنامے سے اقتباسات ، ان کی شاعری کاانتخاب ،مولانا کی زبانی تحریک سے متعلق انگریزی مضامین پیش کیئے ہیں یہ کتاب فروری 1989ء میں ریسرچ سوسائٹی آف پاکستان پنجاب یونیور سٹی لاہور سے شائع ہوئی۔

دیوان ماتم (پانچویں کتاب) حیدرآباد سے تعلق رکھنے والے شاعر حاجی فضل محمد ماتم دیوان جسے ڈاکٹر صاحب نے مرتب کیا۔ سندھ ادبی بورڈ جامشورو نے 1990ء میں شائع کیا۔ کتاب میں دیوان کے مطبوعے کے چند عکسی صفحات بھی شامل کیئے ہیں۔ جن سے پتا چلتا کہ دیوان کاقلمی نسخہ انتہائی خستہ حالت میں تھا۔جس میں مصر عوں کی قرأت ایک مشکل کام تھا ۔ بلوچ صاحب نے بڑی خوبی اورسلیقے سے ان مشکلات کو حل کیا۔ قلمی دیوان کانسخہ حاجی فقیر کو ہٹڑی کے گاؤں سے نہایت خستہ حال میں ملا تھا۔ دیوان ماتم کی ابتداء میں ڈاکٹر نبی بخش بلوچ صاحب نے 17صفحات پر مشتمل عالمانہ پیش لفظ لکھا ہے۔جس میں حاجی فضل محمد ماتم کے حالات زندگی بڑی تحقیق کے بعد لکھے گئے ہیں۔ سندھی ، اردو لغت، اور اردو سندھی لغات حکومت پاکستان کی وزارت تعلیم نے 1953ء اور 1954ء میں سندھ یونیورسٹی کو مذکورہ بالا دولغات اور شاہ عبدالطیف بھٹائی کے کلام کے اردو ترجمے کے لئے مالی امدادی ۔ اس زمانے میں سندھ یونیورسٹی کے وائس چانسلر آئی آئی قاضی نے اس پیشکش کو منظور کرلیا اور دونوں لغات اور کلام شاہ عبدالطیف بھٹائی کے اردو ترجمے کی خاطر مفصل خاکہ تیار کرایا۔ اس تجویز میں یہ بھی مذکورہ تھا کہ دونوں لغات دوسال کے عرصے میں تیار کرلی جائینگی۔ اس عرصے کو مد نظر رکھتے ہوئے بلوچ صاحب نے پانچ پانچ صفحات کی دو لغات کاازسر نو خاکہ تیار کیا جس کو وزارت تعلیم نے منظور کرلیا۔ بلوچ صاحب نے اس خاکے کی لغات کی جامعیت اور افادیت کا پورا خیال رکھا اور لفظ کے ساتھ محاورات کو بھی شامل کیا ۔ ان کی تیاری میں یہ بات بھی پیش نظر رکھی کہ لغات عام علمی ضروریات کے ساتھ اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے والے طلبہ کی ضروریات بھی پوراکریں۔ اس طرح سندھی لغات کے کل صفحات 589اور الفاظ و محاورات کی تعداد 19660ہے یہ1960ء میں شائع کی گئی۔ ان دونوں لغات کی تالیف میں عربی ، فارسی کے وہ الفاظ شامل نہیں کئے گئے۔ جو اصل حالت میں سندھی اور اردو میں موجود ہیں ۔ نصف صدی سے زائد عرصہ گذرنے کے بعد آج بھی ان لغات کی افادیت قائم ہے ۔ گلشن اردو(چھٹی کتاب) ڈاکٹر این اے بلوچ کے ان اردو مقالات کا مجموعہ ہے جو انہوں نے اپنی زندگی کے مختلف اوقات میں تحریر کیئے۔مجموعی طور پر ان 26مقالات کو راشد شیخ نے مرتب کیا ہے جبکہ تعارف پروفیسر مظہرالحق صدیق سابق وائس چانسلر کالکھا ہوا ہے 405صفحات پر مشتمل گلشن اردو 2009ء میں سندھ یونیورسٹی سے شائع ہوئی۔ ڈاکٹر بلوچ جنوری 1973ء سے دسمبر 1976ء تک سندھ یونیورسٹی کے وائس چانسلر رہے۔ اگست 1976ء سے نومبر 1980ء تک انٹرنیشنل اسلامک یونیورسٹی اسلام آباد کے بانی وائس چانسلر رہے۔ سندھ کے عظیم صوفی شاعر شاہ عبدالطیف بھٹائی نے (شاہ جورسالو) کی دس جلدیں مرتب کیں۔ حکومت پاکستان نے آپ کی شاندار تعلیمی وادبی خدامت پر ہلال امتیاز ، ستارہ امتیاز ، پرائیڈ آف پرفارمنس اورشاہ عبدالطیف بھٹائی ایوارڈ عنایت کیئے۔ ڈاکٹر نبی بخش خان بلوچ کی علمی و ادبی خدمات آنے والے مستقبل کے معماروں کیلئے مشعل راہ ہیں۔(ختم شد)
SYED MEHBOOB AHMED CHISHTY
About the Author: SYED MEHBOOB AHMED CHISHTY Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.