سوال اپنی بقاء کا ہے

مسئلہ یہ ہے کہ دو کشتیوں کا مسافر کسی ایک کیلئے جی جان لگا بھی دے تو یہ ضرور سوچے گا کہ اگر دوسری بھی اس کے قرب میں رہتی تو استفادہ دگنا تھا ،اور یہی اندرونی خواہش جب وسعت پا لے تو جنونی حد پار کر کے ذہن پر چھا جاتی ہے اور ایسے میں ایک قوی النفس ہمیشہ اپنی خواہش کے حصول میں وہ حد پار کر لے تو اس کے لیے یہ منطق پیش کیا جاتا ہے ’یہ میرا حق ہے مگر چونکہ قانونی طور نہیں مل سکا تو یہی طریقہ اپنانا پڑا‘۔ اور یہاں اسکا موقف دو دھاری تلوار کا کام کرتا ہے۔ایک طرف تو صحیح گردانا جاتا ہے مگر دوسری جانب اگر کوئی اور بندہ کسی بڑے عہدے پر یہی کام کرے تو ـــ’’کرپشن‘‘،’’ کرپشن کا دور ہر سوں‘‘۔

فلاں سیاستدان کرپٹ ہے، فلاں امیر کرپٹ ہے اور بات نفس پر آئے تو خیر سب چلتا ہے۔گویا حل یہ نکلا کہ ہر وہ بندہ جو کسی کرسی پر بیٹھا ہو ـفرشتہ ہونا چاہیے اور ہم خود جو چاہے کریں۔ کرپشن بڑے پیمانے پر ہو تب ہی کرپشن ہوگا۔ طالب علم کام چوری کریں تو خیر،اساتذہ بروقت اسکول آنے سے گریز کریں تو خیر،دودھ والا دودھ میں پانی ملائے تو خیر،دکاندار مال پر سود لے تو خیر، کرپٹ تو پھر بھی تمام حکومتی ادارے ہیں ۔بھلا ہم جیسے فرشتے صفت انسان بھی اس سنگین جرم میں ملوث ہو سکتے ہیں؟؟

یہ سوچنے کی زحمت تو کی ہی نہیں یا یوں کہ دیجیئے کہ حکمرانوں کی غیبت سے فرصت ہی نہیں ملی ورنہ اس امر میں کتنی سچائی ہے ہم جان لیتے کہ برائی چھوٹے چھوٹے قدم عبور کر کے ہی فروغ پاتی ہے۔جس زمین پر ہزاروں کی تعداد میں زبانیں سچائی کا فالودہ بناتی ہوں اور سماعتوں سے ٹکرانے والا ہر لفظ بہتان اور غیبت سے لبریز ہو ، جہاں کا بچہ بچہ اپنی ذاتیات میں کڑپٹ نکلے وہ اوروں کو اسی جرم پر سزا کیسے سنا سکتا ہے؟ مگر نہیں اپنے لیئے اس قدر سخت الفاظ کیونکر سنوں؟ جھٹ سے جواب تیار کہ مجھے انگلی اٹھانے کا موقع ہی کیوں ملا؟ تبھی سورۃ احزاب کی آیت کا مفہوم سمجھ میں آتا ہے: ’’اﷲ نے نہیں بنائے کسی بھی آدمی کے سینے میں دو دل‘ ‘ ، یا تو وہ حق کے ساتھ ہے یا پھر باطل کے۔ اب ایک ہی وقت میں دونوں احساسات رکھنے سے رہا۔

ضرورت اس امر کی ہے کہ ہر بندہ خود کو اس کم درجہ کرپشن سے نکالے اور پھر ظلم کے خلاف آواز اٹھائے تو واقعی بات میں اثر رہے گا۔قلبِ واحد میں اپنے لیے ہزاروں عذر رکھنا(کہ یہ میرا حق ہے جو سیدھی انگلیوں سے ملا نہیں تو انگلیاں ٹیڑھی کرنی پڑیں)اور ان کرسیوں پر بیٹھنے والوں کے لیے الفاظوں کا زخیرہ اگلنا ،دوعقیدے بیک وقت ایک دل میں نہیں سما سکتے۔یہی وہ فرق ہے جسے ایک بندہ سمجھنے سے پرہیز کرتا ہے ،کرپٹ جیسے ٹیگوں سے خود کو بری کرنے کے لیے ایسے تعریفی لفظ اعلیٰ عہدے داروں کے لیے مختص کر دیے جاتے ہیں،کیونکہ سوال نفسی بقا کا ہے۔
Fatmah A. Zeb
About the Author: Fatmah A. Zeb Read More Articles by Fatmah A. Zeb: 5 Articles with 3931 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.