پاکستان میں اُردو شاعری میں حریت ِفکر کی روایت(1958-1969)

 غلام شبیررانا
22 فروری 1956 کو پاکستان کی آئین ساز اسمبلی نے پاکستان کا آئین منظور کر لیاتھا۔ اس آئین میں ملک کو اسلامی جمہوریہ پاکستان قرار دیا گیا ۔ گورنر جنرل اسکندر مرزا کو صدر نامزد کیا گیا۔ گورنر جنرل کی حیثیت سے اسکندر مرزا کا آخری کام آئینی بل کی رسمی توثیق تھا۔ اسکندر مرزا نے 2 مارچ 1956 کو آئینی بل کی توثیق کردی اس طرح 23مارچ 1956 کو پاکستان اسلامی جمہوریہ بن گیا ۔ آزادی کے بعدبد قسمتی سے پاکستان میں جمہور یت کو پنپنے کا موقع ہی نہیں دیا گیا ۔ گورنر جنرل غلام محمد نے جمہو ریت کو پامال کرنے کے لیے جن سازشوں اور ریشہ دوانیوں کا آغا ز کیا تھا اس سلسلے کو اسکندر مرزا نے پایہ تکمیل تک پہنچا کر دم لیا۔ 7 ۔ اکتوبر1958 کو اسکندر مرزا نے 1956کے دستور کو منسوخ کر دیا۔ اس کے ساتھ ہی مرکزی اور صوبائی حکومتوں کو بھی بر طرف کر دیا اور قومی و صوبائی اسمبلیوں کو توڑ دیا۔سیاسی جماعتوں پر پابندی لگادی گئی اور پورے ملک میں مارشل لا نافذ کردیا گیا۔ بری فوج کے سربراہ جنرل محمد ایوب خاں کوچیف مارشل لا ایڈ منسٹریٹر مقر ر کیا گیا۔ عدالتوں کو کا م کرنے کی اجازت تھی لیکن بنیادی حقو ق معطل کردئیے گئے اور یہ اعلان کیا گیا کہ مارشل لاکے کسی حکم یا فوجی عدالت کے کسی عدالت میں چیلنج نہیں کیا جاسکتا۔ (1 )27 ۔ اکتوبر 1958 کو بری فوج کے سربراہ اور چیف مارشل لاایڈمنسٹریٹر نے صدراسکندرمرزا کو عہدے سے ہٹا کر خود صدر کا عہدہ بھی سنبھال لیا ۔ یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ بانی ٔ پاکستان کی وفات کے فوراًبعد سے ہمارا حکمران طبقہ اپنے اقتدار کو مستحکم بنانے کے لیے عوام کے اعتماد سے کھیلتا رہا۔ آئین ،قانون اور جمہوریت کوکبھی لائق ِاعتنا نہ سمجھا گیا۔ نوآبادیاتی دور کے خاتمے کے بعد اس خطے کے حالات بدل گئے ۔عالمی سامراج اور استعماری طاقتوں کی ریشہ دوانیوں میں اضافہ ہونے لگا۔ تاریخی حقائق سے یہ واضح ہے کہ 1945کے بعدلاطینی امریکہ،افریقہ،سپین اور مشرقِ وسطیٰ میں فوجی حکومتوں کا قیام سلطانی ٔ جمہور کے لیے بہت بڑا دھچکا تھا۔دنیا میں جن فوجی آمروں نے اپنے اپنے ممالک میں فوجی آمریت مسلط کی اور سلطانی ٔ جمہور کی راہیں مسدود کیں ان میں یو گنڈا میں عدی امین( Idi Amin,1971-1979)،نا ئیجیریامیں سنی اباچہ ( Sani Abacha ,1993-1998)،لیبیا میں معمر قذافی(Muammar al-Gaddafi 1969-2011 )مصر میں جمال عبدالناصر( Gamal Abdel Nasser,1956-1970 )،سپین کے مطلق العنا ن آمر جنرل فر انسسکو فرانکو ( Francisco Franco,1936-1975)اور عراق میں صدام حسین (Saddam Hussein,1979-2003)نے اپنے عہد حکومت میں اپنی شخصیت کو اُجاگر کرنے پرتوجہ مرکوز رکھی ۔ یہ سب آمر ذرائع ابلاغ کے ذریعے اپنی شخصیت کو اس قدر پُر کشش اور با صلاحیت ظاہر کرتے کہ عوام ان کے گرویدہ ہو جائیں اور ان کے مطلق العنان اقتدار میں کوئی مزاحمت نہ ہو۔
تاریخ شاہد ہے کہ دنیا کے ہر معاشرے میں زندگی کا تسلسل جاری رہتا ہے اور اس کے معمولات میں رخنہ ڈالنے کی کوئی کوشش کامیاب نہیں ہو سکتی ۔ سُود و زیاں کے اندیشے اور افلاس کے بیشیزندگی کی روانیوں اور افکار کی جو لانیوں میں حائل نہیں ہو سکتے۔عہد بہ عہد اورلمحہ بہ لمحہ زندگی کے مروّجہ معائر ،مسلمہ تصورات اور مقبول نظریات میں اقتضائے وقت کے مطابق ترمیم و اضافے اور تغیر و تبدل کا سلسلہ جاری رہتا ہے ۔عصری آ گہی کی نمو کا تقاضا یہ ہے کہ جدید دور میں سائنس و ٹیکنالوجی کی محیر العقول ترقی کے پیشِ نظر حالات کے تقاضوں سے ہم آ ہنگ ہونے کی سعی جاری رکھی جائے۔ قیامِ پاکستان کے بعداِس ملک کی سب سے بڑی بد قسمتی یہ رہی ہے کہ یہاں بے لوث ، مخلص ، دیانت دار اوراعلی کردار کی حامل ہر دلعزیز قیادت کا فقدان رہا ہے۔ نو آبادیاتی دور کے خاتمے کے بعداس خطے میں سیاسی رسہ کشی میں مسلسل اضافہ ہونے لگا ۔مفاد پرست استحصالی عناصر سلطانی ٔ جمہور کی راہ میں سدِ سکندری بن کر حائل ہو گئے۔آزادی کے بعد پاکستان میں جمہوریت کا پودا ابھی پنپنے ہی لگا تھا کہ اسے جڑ سے اُکھاڑ پھینکا گیا۔ ہوسِ اقتدار کے مارے سیاست دانوں نے عوامی مسائل سے شپرانہ چشم پوشی کو وتیرہ بنا لیا۔آئین ساز اسمبلی کے تیار کیے ہوئے آئین کے نفاذ کے بعد یہ توقع کی جا رہی تھی کہ اب پاکستان کی نو آزاد مملکت ترقی اور خوش حالی کی راہ پر گام زن ہو کر عوامی فلاح اور بہبود کے کاموں کا آغاز کرے گی۔ مہاجرین کی آبادکاری کا کٹھن کام تقریباً مکمل ہو چکا تھا اور ملکی معیشت میں بھی استحکام کے آثار دکھائی دے رہے تھے ۔مہاجرین کے مسائل حل ہونے کے بعدملک کے سیاسی حالات میں بہتری آ رہی تھی۔قیام پاکستان کے چار سال بعدجنرل محمد ایوب خان نے برطانوی فوجی ڈگلس گریسی(Douglas David Gracey) کی جگہ پاکستانی فوج کی کمان سنبھالی۔جنرل محمد ایوب خان (کمانڈر انچیف:سولہ جنوری 1951تاستائیس اکتوبر 1958) نے مسلح افواج کی پیشہ ورانہ تربیت پر توجہ دی اور ملکی دفاع کومضبوط بنانے پر زور دیا۔ مسلح افواج کی پیشہ ورانہ تربیت ،اسلحہ کی فراہمی اور سرحدوں کی حفاظت پر اپنی توجہ مرکوز رکھنے پر ہمیشہ اصرار کیا۔جنرل محمد یوب خان نے ہمیشہ یہی تاثر دیاکہ فوج کے سامنے ملکی دفاع اور سرحدوں کی حفاظت کا اہم کام ہے اور فوج کے کسی قسم کے سیاسی عزائم نہیں ہیں۔ان حالات میں 1956 کاآئین منسوخ کر نے کا بالکل کوئی جواز نہ تھا۔(2)آئین کی تنسیخ کے انتہائی اقدام نے عوام کو مایوسیوں کی بھینٹ چڑھا دیا۔
برصغیر سے بر طانوی استعمار کے خاتمے کے بعد جب تقسیم ہند کا مرحلہ آیا تو برطانوی سامراج کی سازش سے ریڈ کلف ایوارڈمسلمانوں کے لیے ایک بلائے نا گہانی بن گیا۔آزادی کے بعد پاکستانی سیاست کا سب سے بڑا المیہ یہ رہا کہ یہاں جذبہ ٔ خدمت سے سر شار بے لوث ،مخلص ،دیانت داراور اعلیٰ کردار کی حامل ہر دل عزیز قیادت کا فقدان رہا۔(3) آزادی کے بعد سے پاکستان میں جمہوری عمل کو شدید مشکلات اور مسموم ماحول کا سامنا تھا۔ان مخدوش حالات میں بھی جمہوری عمل آہستہ آہستہ آگے بڑ ھ رہا تھا۔اس میں کوئی شُبہ نہیں کہ آزادی کے بعد پاکستان میں جمہوری عمل کو مناسب انداز میں آگے بڑھانے میں خاطر خواہ کام یابی حاصل نہ ہوئی۔جمہوری عمل کی سست روی کو جمہوریت کی ناکامی پر محمول کرنا بہت بڑی نا انصافی ہے ۔ دنیا بھر میں یہ بات تسلیم کی جاتی ہے کہ اگر کہیں جمہوری عمل سست روی کا شکار ہو یا کسی وجہ سے موثر ثابت نہ ہو رہا ہو تو اس کا واحد حل یہ ہے کہ جمہوری عمل کو تقویت پہنچانے کی خاطر جمہوریت کے مزید تجربات جاری رکھے جائیں ۔جمہوری عمل کو مضبوط ،مستحکم اور رواں دواں رکھنے کے لیے مزید جمہوریت پر انحصار کیا جائے۔اگر بعض وجوہات کی بنا پر جمہوری عمل کو پروان چڑھانے میں خاطر خواہ کام یابی نہیں ہو رہی تو ایسے کٹھن حالات میں بھی مزید جمہوری تجربات کو جاری رکھنا ضروری ہے ۔جمہوریت کی راہ میں حائل مشکلات کو دیکھ کر اسے جمہوریت کی ناکامی سمجھتے ہوئے گلستانِ وطن سے جمہوریت کے نرم و نازک ،عطر بیز اور بُور لدے پودے کو جڑ سے اُکھاڑ کر پھینک دینا اور اس کی جگہ آمریت کے حنظل،پوہلی اورتھوہر اُگانا بے بصری اور کو ر مغزی کی دلیل ہے۔ قیام پاکستان کے بعد گیارہ برس (1947-1958) میں چار سر براہانِ مملکت اور سات وزرائے اعظم نے نوآزاد ملک کا نظم و نسق چلانے کی کوشش کی مگر ملک کو سیاسی استحکام کی منزل تک نہ پہنچایا جا سکا۔ قدرت اﷲ شہاب نے اسکندر مرزا اور ایوب خان کی مسلط کی ہوئی فوجی آمریت پر اپنے دِلی رنج کا اظہار کرتے ہوئے سال1958 کے مارشل کے نفاذ کے فیصلے پر اپنی تشویش اور کرب کااظہار کرتے ہوئے شہاب نامہ میں لکھا ہے:
’’اُس وقت پاکستان کسی غیر معمولی بیرونی خطرے سے دو چار نہ تھا۔ اپنی کرسی ٔ صدارت کو اِس اُفتاد سے بچانے کے لیے اُنھوں نے یہ رٹ لگا رکھی تھی کہ 1956 کا آئین نا قابلِ عمل ہے۔یہ بڑا بھونڈا عُذرِ لنگ تھا۔۔۔اپنے ذاتی اِقتدارکی حفاظت کے لیے صدر اسکندر مرزا نے مارشل لا کی کی راہ ہموار کی۔جنرل ایوب خان پچھلے ایک سال سے اِسی نفسیاتی لمحے کاانتظار کر رہے تھے۔‘‘(4)
ڈوسو کیس(State V/S Dosso Case 1958,P.L.D 1958 Sc 553)کی سماعت جس بنچ نے کی اس کے سربراہ پاکستان کے اس وقت کے چیف جسٹس محمد منیر تھے جو اس سے قبل مولوی تمیز الدین کیس کی سماعت بھی کر چکے تھے ۔ ڈوسو کیس کی اہمیت کے پیشِ نظر اس کے بارے میں چند حقائق پیش کیے جاتے ہیں:
ضلع لورالائی ( بلو چستان) سے تعلق رکھنے والے ڈوسو نامی ایک شخص پر قتل کا الزام تھا۔ بلوچستان کے مروّجہ قبائلی نظام کے تحت لو یا جرگہ میں FCR - 1901 کے تحت مقدمہ چلایا گیا۔ جرگہ کے معززین نے ڈوسو کو مجرم قرار دیا ۔ ڈوسو کے قریبی رشتہ داروں نے فرنٹیر کرائمز ریگولیشنز ایکٹ( Frontier Crimes Regulations Act )کو چیلنج کرتے ہوئے فیصلے کے خلاف لاہور ہائی کورٹ میں رٹ دائر کی۔لاہور ہائی کورٹ نے 1956 کے آئین کے تحت اپیل کی سماعت کی اور ڈوسو کے حق میں فیصلہ دیا اور کہا کہ FCR آئین 1956 سے متصادم ہے اور لاہور ہائی کورٹ نے FCR کو غیر آئینی قرار دیا اور لویا جرگہ کے فیصلے کومنسوخ کر دیا۔وفاقی حکومت نے لاہور ہائی کورٹ اس فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ میں ا پیل دائر کی تو وہاں سے وفاقی حکومت کے حق میں فیصلہ صادر کیا گیا۔ اس کے ساتھ ہی پاکستان کی سپریم کورٹ نے لاہور ہائی کورٹ کے فیصلے کو الٹا دیا ۔ ڈوسو کیس کی سماعت 13۔ اکتوبر 1958 کو شروع ہونا تھی لیکن 7۔ اکتوبر 1958 کو پاکستان میں مارشل لا لگ گیا،1956 کا آئین منسوخ کردیا گیا اور مارشل لا حکام نے منسوخ شدہ آئین کے علاوہ پہلے سے نافذ تمام قوانین کو ( Continuance in Force ) order: ( october 11,1958 ) کے تحت جوں کا توں برقرار رکھا۔
پاکستان کی سپریم کورٹ کے چیف جسٹس محمد منیر کے فیصلوں سے یہ تاثر پیدا ہوتا تھا کہ ضرورت کسی قانون کی تابع نہیں۔جسٹس محمد منیر نے مولوی تمیز الدین کیس کی طرح ڈوسو کیس میں بھی آسٹریلو ی قانون دان ہینز کیلسن(Hans Kelsen) کے نظریۂ ضرورت(Doctrine Of Necessity) کے علاوہ نظریہ قانونی اثبات(Theory Of Legal Positivism) پر انحصار کیا۔ ڈوسو کیس میں پاکستان سپریم کورٹ کے چیف جسٹس محمد منیر نے ہینر کیلسن کے نظریات کو اپنے فیصلے کی اساس بناتے ہوئے لکھا ہے :
’’کوئی تبدیلی جودستور منسوخ کر دے اور یہ منسوخی موثر ہو ،قانوناًنقلاب کہلائے گی۔اگر انقلاب کامیاب ہے اِن معنی میں کہ جوافراد اِس کے تحت اِقتدار سنبھالیں ملک کے باشندوں سے نئی حکومت کا اتباع کر ا سکیں توانقلاب خودقانون ساز حقیقت بن جاتا ہے کیونکہ اِس کے بعد اِس کی قانونی حیثیت کو منسوخ شدہ دستور کے حوالے سے نہیں جانچا جائے گا۔چنانچہ اِس بات کا تعین کرنے کے لیے کہ آیا دستور منسوخ ہو چُکا یہ دیکھنا ہو گا کہ تبدیلی موثر ہے یا نہیں۔‘‘(5)
ہینز کیلسن(1881-1973)کے قانونی اثبات (Legal Positivism) کے تصور کے بارے میں قانونی حلقوں میں اچھی رائے نہیں پائی جاتی۔ ہینز کیلسن نے اپنی کتاب نظریۂ قانون اورریاست (Theory Of Law And State)میں لکھا ہے :
"Thus it is never the constitution merely but always the entire legal order that is changed by a revolution.This shows that all norms of the old order have been deprived of their validity by revolution and not according to the principle of legitimacy.And they have been so deprived not only de facto but also de jure.No jurist would maintain that even after a successful revolution the old constitution and the laws based thereupon remain in force,on the ground that they have not been nullified in a manner anticipated by older order itself. Every jurist will persume that older order--has ceased to be valid,and that all norms which are valid within the new order,receive their validity exclusively from the new constitution.It follows that,from this juristic point of view ,the norms of the older order can no longer be recognized as valid norms."(6)
جسٹس محمد منیر کے اس فیصلے نے بھی مولوی تمیز الدین خان کیس کی طرح ملکی سیاست پر دُور رس اثرات مرتب کیے ۔ ان فیصلوں کے بعدنظریۂ ضرورت کی بد روح آسیب کی طرح مُلکی افق اور پاکستانی سیاست پر مسلسل منڈلانے لگی۔ ماہرین ِقانون کااس بات پر اتفاق ہے کہ مملکت بنام ڈوسو کیس میں جسٹس محمد منیر نے بعض مفروضات کو سامنے رکھا تھا ۔یہ تمام مفرضات ایسے ہیں جن کو مضبوط قانونی اسا س قرار نہیں دیا جا سکتا۔ مثال کے طور پر جسٹس محمد منیر کا یہ موقف کہ ’’قانونی اثبات کے بنیادی پہلو‘‘ جنھیں وہ تسلیم کر رہے ہیں دنیا بھر میں مسلمہ ہیں۔اور یہ کہ عصر حاضر میں جدیدعلمِ قانون کا قصر ِعالی شان اسی کی اسا س پر استوار ہے ۔اس کے علاوہ یہ کہ کوئی بھی اچانک تبدیلی جو دستور میں مذکور نہ ہو وہ انقلاب کے زمرے میں شامل ہے ،خواہ اس تبدیلی کی نوعیت وقتی،عارضی اور عبوری ہی کیوں نہ ہو ،اگر کسی نے اس کی مخالفت میں کوئی موثر اقدام نہیں کیا تویہ تبدیلی بر قرار سمجھی جائے گی ۔نیز یہ کہ بین الا قوامی قانون کاایک اصول جو مملکتوں کے تسلیم کیے جانے سے متعلق ہے ،وہ مملکت کی اندرونی آزادی کے معاملے پر بھی لاگو ہو سکتا ہے ۔ آئینی ماہرین کی رائے میں جسٹس محمد منیر کے یہ سب مفروضے درست نہیں تھے ۔ دنیا بھر کے آئینی ماہرین اور ممتاز قانون دان ان مفروضوں کی اصلیت اور حقیقت پر سوالیہ نشان لگا چکے ہیں۔ عالمی سطح پر قانونی حلقوں میں ہینز کیلسن کے نظریات پر اتفاق رائے عنقا ہے۔ہینز کیلسن کے جس نظریہ کو ڈوسو کیس میں فیصلے کی اسا س بنایاگیاہے وہ بھی عالم گیر طور پر متفقہ نہیں ہے ۔ہینز کیلسن کا یہ نظریہ اس قدر اہم اور افادیت سے لبریز ہر گز نہیں کہ ماہرینِ قانون اسے جدید علم قانون کے ایک اہم بنیادی اصول کی حیثیت سے سر آنکھوں پر جگہ دیں۔بین الاقوامی طور پر قانون کے تحت کسی مملکت کو تسلیم کیے جانے کے معاملے کا انسلاک اس کی داخلی آزادی اور خود مختاری سے نہیں کیا جا سکتا۔کوئی فرد کسی مملکت کا سر براہ محض اس بنا پر نہیں بن جاتا کہ دوسری حکومتوں نے اسے تسلیم کر لیا ہے بل کہ یہ منصب اسے مقامی قانون کے تحت ملتا ہے۔جسٹس محمد منیر کے فیصلے پر اپنے شدید تحفظات کااظہار کرتے ہوئے بہت بعد اپنے ایک اہم فیصلے میں پاکستان کے چیف جسٹس حمو د الرحمٰن نے لکھا:
’’چیف جسٹس محمد منیر کیلسن کے نظریے کی توضیح میں بھی غلطی پر تھے اوراِس مقدمے کے واقعات وحالات پر اِس کااطلاق کرنے میں بھی جواُس وقت اُن کے پیشِ نظرتھا۔جو اصول انھوں نے وضع کیا ۔۔۔قطعاً ناقابلِ تسلیم ہے اور میں یہ کہنا اپنا فرض سمجھتا ہوں کہ اِسے صحیح قانون نہیں سمجھا جاسکتانہ تو’’فیصلوں پر قرار‘‘ کے اصولوں کی رُو سے اور نہ کسی دوسری صورت سے۔‘‘(7)
اسکندر مرزا نے قومی مفادات اور ملکی استحکام کو کبھی پیشِ نظر نہ رکھا۔ اپنے غیر قانونی اقتدار کو طُو ل دینے ،اپنے انتہائی پست نوعیت کے ذاتی مفادات ،منفی اور حقیر سوچ کے تحت اس نے جمہوریت کی بساط لپیٹ دی۔پاکستان کا دستور عوام کے منتخب نمائندوں کا مرتب کیا ہوا ایک قابلِ عمل اور موثر عہد نامہ تھا جس کے ذریعے قومی وحدت ،ملی یک جہتی اور ملک کے تمام حصوں کے جغرافیائی اتحاد کو یقینی بنانے کے امکانات روشن تھے۔ فردِ واحد کی بے بصری ،کور مغزی، ہوسِ اقتدار اورغیر اخلاقی حرکت کے باعث آئین کی تنسیخ کے اس المیے نے پا کستانی قوم کی آزادی اور خود مختاری کی کشتی کو سیل ِزمان کے ایسے مہیب تھپیڑوں اور آلامِ روزگار کی موجِ تلاطم کی جانب دھکیل دیا جہاں ہر موج میں حلقہ ٔصد کا م نہنگ درپئے آزار تھا۔اس کے بعد پاکستان میں عوام کی منتخب نمائندہ جمہوری حکومت کی اطاعت سے انحراف کرنے،آئین کو معطل کرکے من مانی کارروائی کرنے اور آمریت کے قیام کی راہ ہموار ہو گئی۔جسٹس یعقوب علی خان نے اسکندر مرزا کے اس اقدام کوصریح بغاوت کا جُرم قرار دیا۔(8)دنیابھر میں آمریت کو اس لیے نا پسند کیا جاتا ہے کہ مطلق العنان آمر اپنی رعایا کو حقیر سمجھتے ہوئے ان کے چام کے دام چلاتا ہے اور عوام کے ساتھ اسی طرح کا اہانت آمیز سلوک رو ارکھتاہے جس طرح کا سلوک 1857میں بر صغیر میں مغلوں کی جائز حکومت کا نا جائز طریقے سے تختہ اُلٹنے کے بعد میجر جنرل رابرٹ کلائیو (Major-General Robert Clive)نے بر صغیر کے مفتوح عوام سے کیا تھایانادر شاہ درانی نے(بائیس مارچ1739) دہلی کے باشندوں سے کیا تھا۔ایک طالع آزما اور مہم جُو آمرکی حیثیت سے صدر اسکندر مرزا نے اپنے منفی کردار سے صوبوں میں بد گمانی اور بے اعتمادی پید ا کی،ملکی تعمیر و ترقی کے منصوبوں کو درہم بر ہم کر دیا اور سب سے بڑھ کر یہ کہ پاکستان کی بہادر اور اعلیٰ ترین پیشہ ورانہ صلاحیت کی حامل فوج کو آزمائش میں ڈال دیا۔
جس دن سپریم کورٹ نے صدر اسکند ر مرزا کے نافذ کیے ہوئے نئے قانونی نظام کا ’’ کامیاب‘ ‘ اور ’’ موثر‘‘ ہونے کی بنا پر جائز قرار دیا اسی شام کابینہ کے تین وزرا لیفٹنٹ جنرل اعظم خان ، لیفٹنٹ جنرل بر کی اور لیفٹنٹ جنرل کے ۔ ایم ۔شیخ، چیف مارشل لا ایڈ منسٹریٹر کا ایک پیغام لے کر صد ر سے ملے۔ انھیں یہ ہدایت تھی کہ اگر اسکندر مرزا استعفیٰ نہ دیں تو انھیں گولی سے اڑا دیں ۔ (9) لاہور کے جنرل آفیسر کمانڈ (GOC) لیفٹنٹ جنرل اعظم خان نے اس بارے میں کہا ہے:
’’میں اپنے ساتھ ایک اردلی کے کر گیا تھا اُسے میں نے باہر کھڑ ا کردیا تھااور اپناپستول دے دیاتھا ۔ میں نے اسکندر مرزا سے کہا قو م تم کو نہیں چاہتی ہے ۔ تمھارے گیٹ کے باہر بہت بڑا مجمع کھڑ ا ہے وہ تمھارا استعفیٰ چاہتے ہیں ۔ میں نے تو اُس سے صاف صاف کہا کہ اس کاغذ پر دستخط کردو ۔ بہت دیر ہورہی ہے بعد کے نتائج کامیں ذمہ دار نہیں ہوں گا۔ (10)
ملک کے عسکری حلقوں میں لیفٹنٹ جنرل اعظم خان اچھی شہرت کے حامل فوجی افسر تھے۔ جب آئی آئی چندریگر (اسماعیل ابراہیم چندریگر) پنجاب کے گورنر تھے (1951-1953)،اس زمانے میں لاہور میں احمدیہ فرقے کے خلاف ہونے والے فسادات(یکم فروری 1953تاچودہ مئی1953)میں مشتعل مظاہرین اور سامراجی طاقتوں کی سازش سے بد امنی کی فضا پیدا ہو گئی۔ بر طانوی استعمار کے آلۂ کار دہشت گردوں نے جلاؤ ،گھیراؤ ،توڑ پھوڑ اور لُوٹ مار سے شہر کا امن و سکون غارت کردیا۔ سول انتظامیہ اپنی پُوری کوشش کے باوجود پنجاب میں تیزی سے پھیلتے ہوئے ان پُرتشد مظاہروں اور فسادات پر قابو نہ پاسکی ۔ گورنر جنرل ملک غلام محمد نے وزیر اعظم خواجہ ناظم الدین اور سیکرٹری دفاع اسکندر مرزا کے ایما پر چھے مارچ1953کو پنجاب میں مارشل لا لگا دیااورلیفٹنٹ جنرل اعظم خان کو پنجاب میں مارشل لا ایڈ منسٹریٹر مقر کر دیا۔ سول انتظامیہ کی ناکامی کے بعد کسی صوبے میں امن و امان کی بحالی کے لیے پاکستان کی بری فوج کو پہلی مرتبہ طلب کیا گیا۔ پنجاب میں چھوٹے پیمانے پر نافذ کیاجانے والا مارشل لا انہتر دِن (چھے مارچ 1953تا چودہ مئی 1953) نافذ رہا۔لیفٹنٹ جنرل اعظم خان نے فوج کی مدد سے بہت جلد لاہور اور پنجاب بھر میں امن و امان بحال کر دیا۔آئینی ماہرین اس تشویش میں مبتلا تھے کہ سِول انتظامیہ کی ناکامی کی صورت میں فوج کو مدد کے لیے طلب کرنے کا فیصلہ مناسب نہیں تھا۔لاہور اوردوسرے شہروں میں ہونے والے ہنگاموں پر قابو پانے کے لیے محدود عرصے کے چھوٹے مارشل لا کے نفاذ کو آئینی ماہرین مستقبل کے لیے تشویش اور اضطراب کا سبب سمجھنے لگے۔انھیں اندیشہ تھا کہ اگر سول نتظامیہ ملک کے سیاسی حالات پر اپنی گرفت مضبوط نہ کر سکی توسول انتظامیہ کی مدد کے لیے فوج کو طلب کرنے کی روایت چل نکلے گی اور اس کے بعد کٹھن حالات میں فوجی مداخلت کو روکنا ممکن نہیں ہو گا۔ برصغیر سے نو آبادیاتی دور کے خاتمے اور آزادی کے بعد پاکستان کے سیاسی قائدین نے ملکی معیشت اور سیاسی استحکام پر مناسب توجہ نہ دی۔ تحریک ِ پاکستان کے دوران ملی وقار ،قومی یک جہتی ،خلوص و مروّت اور ایثار و دردمندی کے جو جذبات موجود تھے ،وہ رفتہ رفتہ عنقا ہونے لگے۔اس کاسبب یہ تھا کہ سیاسی قائدین نے عوامی مسائل سے چشم پوشی کوشعار بنا لیا تھا۔ تحریک پاکستان میں سر گرم حصہ لینے والے کارکن حالات سے دِل برداشتہ ہو کر گوشہ نشینی کی زندگی بسر کرنے پر مجبور ہو گئے۔سیاست دانوں کی باہمی چپقلش ،ہوسِ اقتدار اور خود غرضی اس قدر بڑھ گئی کہ انھیں ملکی نظم و نسق کی بہتری پر توجہ دینے کا خیال ہی نہ آیا۔ فوج اس تمام صورتِ حال پر کڑی نظر رکھے ہوئے تھی۔سب سے بڑھ کر المیہ یہ ہوا کہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ وہ جذبہ عنقا ہوگیاجس کی بنیاد پر پاکستان کا قیام عمل میں آیا تھا ۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ مہم جو طالع آزما عناصر کو کھل کھیلنے کا موقع مل گیا ۔ سردار عبد الرب نشتر اور کئی دوسرے سیاسی قائدین نے اس اندیشے کا اظہار کیا کہ اگر سیاسی قیادت تدبر اور فہم و فراست سے کام لے کر ملک کو درپیش سنگین سیاسی بحران پر قا بو پانے میں ناکا م رہی تو مسلح افواج کومداخلت کا موقع مِل جائے گا۔
پاکستان میں جمہوریت کو جن شدید مشکلات سے دوچار ہونا پڑاان کے بارے میں صحیح اندازِ فکر پروان چڑھانا ضروری ہے۔ قومی تاریخ سے لا علمی ایک ایسی مہلک غلطی ہے جو قومی تعمیر و ترقی میں مانع ہے ۔ ہر عہد کا ادیب اپنے زمانے کے واقعات کی لفظی مرقع نگاری کرنے پرتوجہ دیتا ہے جو مر حلہ وار واقعات اور ان کے تسلسل کی آئینہ دار ہوتی ہے ۔ تاریخی صداقتوں کے امین اِن ادب پارو ں کو اُس عہد کے سنجیدہ تنقیدی مطالعات اور مستند معلومات کا درجہ حاصل ہے ۔اس قسم کے جامع اور موثر بیانیہ کی ترکیب میں آزادیٔ اظہارکی جو روح کارفرما ہے اُسے جدید دور میں زیادہ پزیرائی مِلی ہے ۔ اس عہد کے ادیبوں نے تاریخ کے مسلسل عمل پر نگا ہ رکھی اورمعاشرے کو تنگ نظری پر مبنی ہر قسم کی عصبیت،منافرت، کینہ پروری،بغض و عناد،علاقائی ،لسانی ،نسلی اور فرقہ وارانہ مناقشات سے نجات دلا کر امن و آشتی کا گہوار ہ بنانے کی کوشش کی ۔ ادیب کی روح پر گزرنے والے صدمات اور دِل پر اُترنے والے موسموں کا تخلیقی عمل سے گہر ا تعلق ہے۔ آئی اے رچرڈز ( Ivor Armstrong Richards,1893-1979) نے تاریخ کے نشیب و فراز کے تناظر میں شاعروں اور تخلیق کاروں کے کردار کے حوالے سے لکھا ہے :
"Since the poet,s unconcious motives have been alluded to,it may be well at this point to make a few additional remarks.Whatever psycho-analysts may aver,the mental process of the poet are not a very profitable field for investigation.They offer far too happy a hunting -ground for uncontrollable conjencture.Much that goes to produce a poem is ,of course, unconcious.Very likely the unconcious processes are more important than the concious ,but even if we know far more than we do about how mind works,the attempt to display the inner working of the artist,s mind by the evidence of his work alone must be subject to the gravest dangers." (11)
آزادی کے بعد پاکستان میں سیاسی بے چینی اور عدم استحکام کا بنیادی سبب یہ ہے کہ عوامی مسائل سے چشم پوشی کرنے والی غیر نمائندہ حکومتوں نے قوم کو مستقل بحران کا شکار کردیا۔صدر اسکندرمرزا نے اپنے اختیارات سے تجاوز کرتے ہوئے پُورے ملک پر مارشل لا مسلط کر کے جو انتہائی قدم اُٹھایااس کے نتیجے میں پاکستان انتہائی خطر ناک آئینی بحران کی زد میں آ گیا۔اس اقدام کی وجہ سے ملکی استحکام ، قومی یک جہتی اور تعمیر و ترقی کے منصوبوں کو شدید دھچکا لگا۔پاکستان کے اس وقت کے صدر اسکندر مرزا کا یہ اقدام آئین سے انحراف اور ملک کے خلاف صریح بغاوت کا جُرم تھا جس نے ملکی وقار کی بنیادیں ہلا کر رکھ دیں۔1956 کے آئین کے تحت صد ر اسکندر مرزا صرف آئندہ انتخابات تک بر سر اقتدار رہ سکتا تھا۔ کوئی صد ر مسلسل دومعیادوں تک اس منصب پر فائز نہ رہ سکتا تھا۔ پاکستان میں انتخابات کے بر وقت انعقاد کی صورت میں اسکندر مرزا کو مستعفی ہو کر صدر کاانتخاب لڑنا پڑتا جس میں اس کی کامیابی کے امکانات بہت کم تھے۔1956 کے آئین میں یہ شرط شامل تھی کہ ملک میں پہلے عام انتخابات کے انعقاد سے قبل اسمبلی کو کسی حالت میں توڑا نہیں جاسکے گا ۔ منصب صدارت پر فائز ہوتے ہوئے اسکندر مرزا نے آئین شکنی کی ایسی قبیح مثال پیش کی جس کی بنا پر وہ پُوری قوم کی نفرتوں اور حقارتوں کا نشانہ بن گیا ۔ہوسِ اقتدار سے مجبور ہو کر اس نے ملکی وقار کو داؤ پر لگا کر اس نے ملکی آئین اور قانون کو جس بے دردی سے پامال کیا وہ ایک ناقابل معافی جُرم ہے جو تاریخ کے اوراق میں سیاہ حروف سے لکھا جائے گا۔ اپنی بد نیتی اور باطنی خباثت کو ملکی مفاد اور قومی استحکام کا نام دے کر ایک آمر نے ماورائے قانون اقدام سے عوام کا جینا دشوار کر دیا۔اسکندر مرز ا آئین اور قانون کی ابجد سے بھی واقف نہ تھااس لیے مشکوک نسب کے اس بے حس شخص کو بے بصری اور کور مغزی کا ایسا مجسمہ سمجھاجاتا تھا جس کی ذاتی بے توقیری اور بے وقعتی اس کے لیے ہلاکت خیز ثابت ہوئی ۔سامراجی طاقتیں اپنی سابقہ نو آبادیات کے باشندوں کی شبِ تاریک کی سحرہونے میں ہمیشہ مزاحمت کرتی ہیں۔ طالع آزما اور مہم جُو حکمرانوں کے توہین آمیز سلوک کے باعث ان نو آبادیات کے باشندوں کو اپنے وطن میں ایک مظلوم ،محکوم اور اجنبی کے طور پر دیکھا جاتاہے ۔ ان ممالک کے عوام محفوظ اور پُر مسرت زندگی کے لیے تر س جاتے ہیں۔اپنے آزاد اور خود مختار ملک کی تمنا لیے نو آبادیات کے باشندوں نے دورِ غلامی میں جن مصائب و آلام کا سامنا کیا وہ ان کی زندگی کا تلخ ترین تجربہ تھا ۔نئے حالات میں بھی جبر اور حبس کا یہ حال تھا کہ طیور بھی اپنے آ شیانوں میں سسک سسک کر دم توڑنے لگے۔سامراجی دور کے خاتمے کے بعد جب کسی نو آبادی کے باشندے مسلسل شکستِ دِل کے نتیجے میں یہ سمجھ لیں کہ اب تووہ اپنے وطن میں بھی اجنبی سمجھے جا رہے ہیں تو یہ قومی یک جہتی کے لیے بہت بُرا شگون ہے ۔ پس نو آبادیاتی دور میں اس قسم کے لرزہ خیز حالات سے عاجز آ کر وہاں کے قسمت سے محروم با شندے جب دیارِ غیر کا رُخ کرنے لگیں تو یہ سمجھ لینا چاہیے ان کے اپنے وطن میں انھیں ترقی کے مواقع سے محروم کر دیا گیا ہے ۔وطن کی فضاؤں میں ان پر عرصۂ حیات تنگ کر دیا گیا ہے اور اب وہاں ان کے مصائب کی تلافی کے امکانات معدوم ہو چکے ہیں۔یہاں یہ امر قابل غور ہے کہ ان نو آبادیات میں قانون کو اس قدر ناکارہ بنا دیاجاتاہے کہ بنیادی انسانی حقوق کی پامالی روز کا معمول بن جاتا ہے اور کوئی بھی مظلوم انسانیت کی داد رسی کرنے کو نہیں پہنچتا۔ان کرب ناک حالات میں مصیبت زدہ انسانوں کے سامنے ایک ہی صورت بچتی ہے کہ جس طرح بھی ممکن ہو اس عقوبت و اذیت سے بچنے کی کوئی صورت تلاش کی جائے اور اپنے دُکھی دل پر ہاتھ رکھ کر وہ وطن کو خیر باد کہنے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔جب معاشرتی اور سیاسی زندگی میں غُل غپاڑہ ،لُوٹ مار ،خو ف و دہشت کی فضا پید ہوا جاتی ہے تو مطلق العنان حکمرانوں کو مداخلت کا موقع مِل جاتا ہے ۔ امریکی مورخ اور فلسفی وِل ڈیورانٹ (Will Durant ,1885-1981) نے سادہ لوح عوام کی کج روی ، ہٹ دھرمی اور ریاستی جبر کے حوالے سے لکھا ہے :
"A state whic should rely upon forces alone would soon fall,for though men are naturally guliblehey are also naturally obstinate,and power like taxes,succeeds best when it is invisible and indirect." (12)
مطلق العنان آمرکا جبر جب حد سے تجاوز کر جاتاہے تو عوام کے صبر کا پیمانہ لبریز ہو جاتا ہے۔جدید علم ِ سیاسیات سے نا بلد مطلق العنان آمر اپنی قوت کا استعمال اس قوت اور مہارت سے کرتا ہے کہ رعایا کو دم مارنے کی مجال نہیں ہوتی۔دیانت سے عاری سیاست دان اپنے طرزِ عمل سے اٹلی سے تعلق رکھنے والے مورخ اور سیاست دان میکاولی ( Niccolo Machiavelli, 1469-1527 )کے تصورات( "Machiavellianism" ) کے پیروکار بن جاتے ہیں ۔جب سیاست دانوں کا دامن اخلاق سے تہی ہو جائے تو ان کی شقاوت آمیزناانصافیوں کا قلع قمع کرنے کا داعی کوئی آمر عوام کے نجات دہندہ کے رُوپ میں اقتدار پر قبضہ کر لیتا ہے ۔ ریاستی جبر کے خلا ف مزاحمت بڑے دِل گُردے کا کام ہے اس کے لیے اپنی جان پر کھیلنے کا حوصلہ درکار ہے ۔آمریت کے دور میں لوگ آمر کے کارناموں کے متعلق قیاس آ رائیوں ،افواہوں ، مفروضوں اور سُنی سنائی باتوں پر یقین کر لیتے ہیں مگر چشم دید واقعات جو ان سب باتوں کی نفی کر ر ہے ہوتے ہیں اُن پر توجہ دینے کی انھیں فرصت نہیں ہوتی۔ تاریخ شاہد ہے کہ دنیا میں سامراجی طاقتیں اپنی سابقہ نو آبادیات میں اپنی من پسند حکومتیں لاتی ہیں۔وہ اس لیے آمریت کی حوصلہ افزائی کرتی ہیں کہ ہر مطلق العنان آ مر یہ سمجھتا ہے کہ غلاموں کی اولا دکے لیے آزادی موزوں نہیں اس لیے انھیں طاقت کے بل بوتے پر اپنامطیع اور تابع رکھتا ہے اور انھیں مزاجِ غلامی میں پختہ تر کر نے کی کوشش کرتا ہے۔ اپنی سابقہ نو آبادیات کے باشندوں پر کوہِ ستم توڑنے میں عالمی سامراج سازشوں میں مصروف رہتا ہے ۔معاشرتی زندگی میں ریاستی جبر پر غور کرتے وقت بابائے تاریخ یونانی مورخ ہیرو ڈوٹس( Herodotus,B:484BC,Died,425BC )کے خیالات اہم ہیں :
"The Athenians accordingly increased in power; and it is evident,not by one instance only but in every way ,that Equality is an excellent thing,since the Athenians while they were ruled by despots were not better in war than any of those who dwelt about them ,whereas after they had got rid of despots they became far the first.This proves that when they were kept down they were wilffully slack, because they were working for a master,whereas when they had been set free each one was eager to achieve something for himself." ( 13)
پاکستان میں آئین کی تنسیخ کو جمہوری عمل کے لیے ایک بُرا شگون قرار دیا گیا جس کے بعد ملک کا پُورا انتظامی ڈھانچہ لرز اُٹھا۔عالمی سامراج اپنی سابقہ نو آبادیات میں اس قسم کے اقدامات کے ذریعے سازشوں کا جال بچھا دیتا ہے۔گزشتہ کئی صدیوں سے نوآبادیاتی نظام کے شکنجے میں جکڑے ہوئے مشرق کے مکین استعماری طاقتوں کی توسیع پسندی،مقامی باشندوں کے ساتھ محاذ آرائی،استحصال،نسلی امتیازات اور مکر وفریب کی مظہر جعلی ہمدردی سے عاجز آکر اپنی آزادی اور خود مختاری کے لیے جد و جہد کر ر ہے تھے ۔جب آزادی کی صورت میں ان کو اپنے حسین خوابوں کی تعبیر ملی تو سازشی عناصر نے سلطانی ٔ جمہور کا خاتمہ کر نے کی ٹھان لی۔مشرقی ممالک میں اپنی سابقہ نو آبادیات میں برطانوی سامراج کی مداخلت کا سلسلہ کبھی ختم نہیں ہوا،سامراجی طاقتوں نے نوآزاد ممالک پر عرصۂ حیات تنگ کر رکھا ہے ۔ ان ممالک کے اندرونی معاملات میں مداخلت کر کے وہ من مانی کرتے رہتے ہیں۔ پاکستانی ادیبوں کو اس بات کا شدت سے احسا س رہا کہ سامراج کی سابقہ نو آبادیات پر آزادی اور خود مختاری ایک تہمت کے سوا کچھ بھی نہیں ۔ سامراجی طاقتوں کے بغض و عناد ، حسد اور کینہ پروری کے باعث حالات میں بہتری کے امکانات کم ہو تے چلے گئے ۔ نو آزاد ممالک کو مجبور کردیا گیا کہ وہ اپنے سابق آقاؤں کے دست نگر بن کر ان سے قرضے حاصل کریں اور اپنی جعلی نمود و نمائش کا سلسلہ جا ری رکھیں۔ فلسطین سے تعلق رکھنے والے نقاد ایڈورڈ سعید(Edward Said ,1935-2003 )نے اس بارے میں لکھا ہے:
"The Oriental is imagined to feel his world threatened by a superior civilization;yet his motives are impelled,not by some positive desire for freedom ,political independence,or cultural achievement on their terms,but instead by rancor or jealous malice.The panace offered for this potentially ugly turn of affairs is that the orient be marketed for a Western consumer,be put before him as among numerous wares beseeching his attention. (14)
پاکستان میں پہلے مارشل لا کا نفاذ بھی عالمی سامراج کی سازشوں کی ایک کڑی تھی۔ نو آبادیاتی دور کے خاتمے کے بعد بھی اس خطے میں برطانوی سامراج کی ریشہ دوانیوں کاسلسلہ جاری رہا۔پاکستانی سیاست دانوں نے گردشِ ایام کے پُر اسرار پہلوؤ ں پرتوجہ نہ دی۔غلام قوم کو جب کئی عشروں کی غلامی کے بعد آزادی کی نعمت نصیب ہوتی ہے تو اس بات کا قوی امکان ہوتا ہے کہ اب یہ قوم بیدار ہو گی اور اس میں ایک داخلی انقلاب برپا ہو گا جس کے معجز نما اثر سے فکر و نظر کی کایا پلٹ جائے گی اور یہ نو آزاد قوم اپنی کشتی کو موجِ حوادث سے نکال کر ساحلِ عافیت پر پہنچانے میں کامیاب ہو جائے گی۔نو آزاد اقوام بالعموم اپنے روشن مستقبل کو یقینی بنانے کی خاطر اپنے لیے ایک قابلِ عمل نظریہ ٔحیات کا انتخاب کرتی ہیں ۔اس نظریہ ٔحیات پر کا ر بند رہتے ہوئے نو آزاد اقوام ماضی کے تلخ تجربات سے جو سبق سیکھتی ہے اُسے عملی زندگی میں زاد راہ بناتی ہیں۔زندہ اقوام عملی زندگی میں ایام کا مرکب بننے کے بجائے ایام کا راکب بنتی ہیں اور صبح و مسا اپنے اعمال و اقوال کااحتساب کرتی ہیں۔اس طرزِ عمل کا مثبت نتیجہ یہ نکلتاہے کہ نوآزاد اقوام مہیب سناٹوں ،جان لیوا ظلمتوں،جانگسل تنہائیوں،یاس و ہراس کے اعصاب شکن ماحول،پریشاں حالی و درماندگی،خو ف واضطراب اور بے عملی و کاہلی سے نجات حاصل کر کے حیاتِ جاوداں کے لیے ستیز پر انحصار کرتی ہیں۔جہد للبقا کے تقاضوں سے عہدہ برآ ہوتے ہوئے زندہ اقوام سعی ٔ پیہم ،ضبط ِ نفس،استقامت،عزم صمیم،بے لوث محبت ،ایثار اور دردمندی کو شعار بناتی ہیں۔اس طرح وہ اپنی منزل ِمقصود تک پہنچنے میں کامیاب ہو جاتی ہیں۔ آزادی کے فوراً بعد پاکستانی قوم مسائل کے گرداب میں اس طرح اُلجھ گئی کہ اُسے اپنے خوابوں کی تعبیر نہ مِل سکی۔ ان حالات میں مفاد پرست استحصالی طبقے کی بن آئی۔
اسکندر مرزا نے پاکستان میں جمہوریت کی ٹمٹماتی ہوئی مشعل کو گُل کرکے پاکستانی قوم کوجان لیوا ظُلمتوں کی بھینٹ چڑھا دیا۔اسکندرمرزا کے اس انتہائی اقدام سے سلطانیٔ جمہور کے خواب کی تعبیر نہ مِل سکی بل کہ اس کے بجائے آمریت کاعذاب مسلط ہو گیا۔فردِ واحد نے مطلق العنان حاکم بننے کی منھ زور خواہش اور بے تاب تمنا سے مجبور ہو کر پوری قوم کوآمریت کا عذاب سہنے پر مجبور کر دیا۔ اسکندر مرزا ایک ایسا آمر تھا جواپنی غیر صحت مند شخصیت کے باعث اقتضائے وقت کے مطابق ملکی سیاست میں موزوں اور بر محل کردار ادا کرنے سے قاصررہا۔تاریخ کے اس نازک موڑ پر وہ قوم کی توقعات پر پُورا نہ اُتر سکا اور اس کی غیر مستحکم شخصیت نے وہ گُل کھلایا کہ صحنِ چمن میں اُمیدوں کے سب گُلِ نوخیز مُرجھانے لگے اورجہاں گُل و لالہ ،چنبیلی وموتیا، سر و صنوبر اور بُورلدے چھتنار نمو پانے والے تھے وہاں کریروں، پوہلی ،اکڑا، حنظل،تھو ہر اور زقوم کی فراوانی ہو گئی ۔ وہ قوم جس نے بڑی تپسیا ،قربانیوں اور جاں فشانیوں کے بعد آزادی حاصل کی تھی،اُسے غیر یقینی حالات پیدا کر کے یاس و ہراس میں مبتلا کر کے سادیت پسندی کے مریض اسکندر مرزا نے لذتِ ایذا حاصل کی۔ آئین کی منسوخی کے اس اقدام سے قومی وقار ،تہذیب و تمدن اور ثقافت و معاشرت کا سارا منظر نامہ گہنا کر رہ گیا۔اس عالمِ آب و گِل میں دُھوپ چھاؤں کی کیفیت رہتی ہے ۔گُل زار ِ ہست و بُود کو اپنائیت کی نگاہ سے دیکھنے والوں پر یہ حقیقت واضح ہے کہ ہر بُو لدے چھتنار کے ساتھ گُل ہائے رنگ رنگ اورثمر نورس کے علاوہ خار بھی ہوتے ہیں۔ جب سرِ ہرخار اس قدر تیز ہو جائے کہ اس سے اُنگلیاں فگار ہونے لگیں تو ایسے عالم میں گُلوں کی عطر بیزی قریۂ جاں کو معطر کر دیتی ہے ۔فطرت کی تعزیریں نہایت سخت ہوتی ہیں ،ہر انسان اپنے اچھے اور بُرے اعمال کا جواب دہ ہوتا ہے ۔یہی قضاو قدر کا فیصلہ ہے کہ گردشِ ایام سے کوئی بچ نہیں سکتا۔ اسکندر مرزا کا نام تاریخ کے اوراق میں قومی مجرموں کی فہرست میں درج ہوچُکاہے۔ایڈورڈ سعید نے جزا وسزا کے حوالے سے لکھا ہے :
"The imputation of the reward to the merit ,of the penance to the sin, and of the punishment to the crime includes the imputation to the man,although only this imputation is clearly expressed in the common usage language.The problem of moralor legal responsibility is fundamentally connected with that of retribution;retribution is imputation of reward to merit,of penance to sin,of punishment to crime.( 15)
پاکستان کے 1956کے آئین کو منسوخ کرنے کے بعداسکندر مرز انے پاکستان کے اس وقت کے وزیر اعظم ملک فیروز خان نون کے نام اپنے ایک مکتوب میں مارشل لا کے نفاذ کے اسباب پرروشنی ڈالی ہے۔ اسکندر مرزا اپنے تئیں عقلِ کل اور قوم کے دُکھوں کا مداوا کرنے والا ایسا مسیحا سمجھتا تھا جس کا کوئی متبادل موجود نہ تھا۔ اس وقت کے وزیر اعظم کو لکھے گئے اپنے اس مکتوب میں اسکندر مرزانے خود نمائی اور خود ستائی کرتے ہوئے ملک کے سیاسی مسائل کی جو تصو یر پیش کی ہے وہ خود غرضی اور ہوسِ اقتدار کی مظہر ہے۔پاکستان کا مطلق العنان آمر بننے کی خواہش نے اسکندر مرزا کو اخلاقی اعتبار سے اس قدر پست بنا دیا تھا کہ اس نے تما م آئینی اداروں کو بہ یک جنبش قلم فارغ کر دیا اور خود عنانِ اقتدار پر غاصبانہ قبضہ کر لیا۔ صدر اسکندر مرزا کا یہ مکتوب نیّت اور فکر و خیال کی پستی او ر تخریب کے کئی پہلو سامنے لاتا ہے:
’’میں بڑے غور وفکر کے بعد اِس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ اِس مُلک میں اِستحکام اُس وقت تک پیدا نہیں ہوسکتاجب تک اِس کی ذمہ داریاں میں خود نہ سنبھال لوں اور انتظامیہ کو اپنے ہاتھ میں نہ لے لوں۔1956کا آئین نہ صرف یہ کہ ناقابلِ عمل ہے بل کہ پاکستان کی سا لمیت اور اس کے استحکام کے لیے خطرناک بھی ہے۔اگر ہم اِس کے مطابق عمل کرتے رہے توبالآخر ہمیں پاکستان سے ہاتھ دھونا پڑیں گے۔لہٰذامملکت کے سربراہ کی حیثیت سے میں نے یہ فیصلہ کیا ہے کہ آئین کو منسوخ کر دوں،تمام اختیارات خود سنبھال لوں،اسمبلیوں،مرکزی پا رلیمنٹ اور مرکزی و صوبائی کابینہ کو توڑ دوں۔مجھے صرف اِتنا افسوس ہے کہ یہ فیصلہ کن انقلابی اقدام مجھے آپ کی وزارت ِ عظمیٰ کے زمانہ میں کرنا پڑاہے،جس وقت آپ کو یہ خط مِلے گا،مارشل لا نافذ ہو گیا ہو گااور جنرل ایوب جنھیں میں نے مارشل لا کا ناظمِ اعلیٰ مقرر کیا ہے ،اپنے اختیارات سنبھال چُکے ہوں گے۔آپ کے لیے ذاتی طور پر میرے دِل میں بڑا احترام ہے اور آپ کی ذاتی خوشی اور فلاح کے لیے جو کچھ بھی ضروری ہوا بے تامل کروں گا۔‘‘(16)
آنے والے وقت نے ثابت کردیا کہ اپنے جس فیصلے کو اسکندر مرزا نے ’’انقلابی فیصلہ‘‘سمجھا ور دراصل فردِ واحدکا اضطرابی فیصلہ تھا جس کی وجہ سے پوری قوم تشویش اور ہیجان میں مبتلا ہو گئی۔ بر طانوی سامراج سے ساز باز کر کے پلاسی کے میدان میں سراج الدولہ کی پیٹھ میں چُھرا گھونپنے والے غدار کا مکان مرشد آباد ( مغربی بنگال ،بھارت) میں آج بھی موجود ہے ۔عرصہ درازسے مقامی لوگوں نے اس آسیب زدہ کھنڈر کو’’قصر غداراں ‘‘ کا نام دے رکھا ہے۔میر جعفر کے اس بوسیدہ کھنڈر نمامکان میں واقع’’ نمک حرام ڈیوڑھی‘‘ میں میر جعفر اور اس کے بیٹے میرن نے سراج الدولہ کو نہایت سفاکی سے موت کے گھاٹ اُتار دیا۔دنیا کی تاریخ میں محسن کُشی اور غداری کی ایسی قبیح مثال نہیں ملتی۔ اسکندر مرزا اسی میر جعفر کا پڑپوتا تھا جس نے ملکی آئین کو منسوخ کر کے منصب ِصدارت پرپر غاصبانہ قبضہ کر لیا۔مارشل لا کے نفاذ کے وقت یہ تاثر دیا گیا کہ فوج کے کوئی سیاسی عزائم نہیں مگر سیاسی تجزیہ نگاروں کی متفقہ رائے تھی کہ ایوب خان کی حکومت دس سال تک برقراررہے گی۔ دنیا بھر میں مطلق العنان آمریت کو نا پسند کیا جاتا ہے اور سلطانی ٔ جمہور ہی کو عوامی مسائل کے حل کرنے کی کلید قراردیا جاتا ہے۔ دنیا بھر کے ما ہرین آئین و قانون دان اس بات پر متفق ہیں کہ کسی بھی قوم کی تعمیر و ترقی کے لیے قانون کی حکمرانی نا گزیر ہے۔ امریکی سپریم کورٹ نے صدر ابراہم لنکن کو امریکی سول جنگ(American Civil War 1861-1865) میں فوجی عدالتوں کے قیام کی اجازت دینے پر رضا مند نہ ہوئی۔عدالت نے یہ رائے ظاہرکی کہ فعال سول عدلیہ کی موجودگی میں اس قسم کے ہنگامی انتظام کی احتیاج نہیں ۔فوجی عدالتیں صرف اسی صورت میں قائم کی جا سکتی ہیں جب انصاف کے تمام دروازے بند ہو چُکے ہوں اور انتہائی ضرورت کے تحت مختصر عبوری عرصے کے لیے ان کے قیام کے سوا کوئی اور چارۂ کار باقی نہ رہا ہو۔ سال 1868میں امریکی سپریم کورٹ نے ریاست انڈیانہ میں مارشل لا کے نفاذ کے خلاف اپنے فیصلے میں لکھا :
’’شہری آزادیاں اور اِس قسم کا مارشل لا ساتھ ساتھ نہیں چل سکتے۔ بُنیادی تضاد کے باعث دونوں میں مصالحت ممکن نہیں۔‘‘ (17)
پاکستان کی نو آزاد مملکت جو پہلے ہی مسائل کے گرداب میں پھنسی ہوئی تھی صدر اسکندر مرزا نے اُسے آئینی بحران میں پھنسا دیا۔1956کے آئین کی منسوخی صدر اسکندر مرزا کے آمرانہ اقتدار،شخصی کرداراور نام نہاد وقار کی تباہی کے تابوت میں آخری کیل ثابت ہوئی۔صدر اسکندر مرزا نے آئین شکنی سے وقتی طور پر پُورے ملک کی باگ ڈور توسنبھال لی مگر اسے یہ معلوم نہ تھا کہ یہ اقتدار اسے میراث میں نہیں ملا بل کہ اس نے عساکر پاکستان کی قوت پر انحصار کیا جن کی براہِ راست کمان اس کے پاس نہیں تھی۔مارشل لا کے نفاذ کے بعد یہ حقیقت واضح ہو گئی کہ صوبدید ی اختیارات کس کے پاس ہیں اور کٹھ پُتلی کون ہے ۔پاکستان میں سیاست دانوں کی بے بصری کا یہ حال تھا کہ انھوں نے اپنے جمہوری اختلافِ رائے کو بغض و عناد ،کینہ پروری اور ذاتی دشمنی میں بدل دیا۔ ہوسِ اقتدا ر سے مجبور ہو کر شخصی آمریت کوطول دینے کے لیے فوج کو استعمال کرنے کی غیر مستحسن نظیر قائم کی گئی ۔ سیاست دانوں نے اپنے ذاتی اقتدار کی خاطر فوج کو اپنی مدد کے لیے با ربار طلب کرنے کی جو روش اپنائی وہ آئین و قانون کی بالادستی اور عوامی حاکمیت کی راہ میں سد ِسکندری بن کر حائل ہوگئی۔ صدر اسکندر مرزا کی سیاسی قو ت کاسر چشمہ فوج کے سربراہ جنرل محمد ایوب خان تھے۔(18) محمدعلی بوگرہ کی وزارت عظمیٰ کے دور میں مسلح افواج کے سپہ سالار محمد ایوب خان کے پاس وزارتِ دفاع کا قلم دان بھی تھا۔ 1958 میں اسکندر مرزا نے جب آئین کو منسوخ کر دیا اور ملک میں خطرناک آئینی بحران پیدا ہو گیا تو اس انتہائی اقدام کے بعد جو تشویش ناک صورت حال پیدا ہو گئی تھی اس کے بارے میں میجر جنرل نواب زادہ محمد شیر علی خان نے لکھا ہے:
’’ آخر کار ایوب خان کامیاب ہوئے کیونکہ اسکندر مرزا دراصل اتنے ہوشیار نہ تھے جتنا خود کو سمجھتے تھے اس لیے کہ انھوں نے بذات خود کسی دباؤ کے تحت 1956 کے دستور کو کالعدم قرار دیتے ہوئے یہ فراموش کر دیا کہ یوں وہ خود اپنے لیے گڑھا کھود رہے ہیں ۔ اس کے بعد ان کی اپنی کوئی حیثیت باقی نہ رہی اور وہ فوج کے کمانڈر کے رحم و کر م پر تھے ۔(19) سات اکتوبر 1958کو پاکستان کے آئین کی تنسیخ کے بعد صدر اسکندر مرزا نے طاقت اوراقتدار کے نشے میں یہ اعلان کیا :
’’ میں غداروں کو مشورہ دیتا ہوں کہ موقع سے فاۂ اُٹھاتے ہوئے مُلک چھوڑکر بھاگ جائیں۔‘‘(20)
تقدیر کے کھیل بھی نرالے ہوتے ہیں ۔تقدیر ہر لمحہ اور ہر گام انسانی تدبیر کی دھجیاں اُڑا دیتی ہے ۔ ستائیس اکتوبر 1958 کو اپنی شامتِ اعمال اورگردشِ حالات کی زد میں آکرپہلا شخص جو ارضِ پاکستان سے جلاوطن ہوا وہ خود اسکندر مرزا تھا۔ مقتدر حلقوں کی جانب سے اسکندر مرزا کو چوبیس گھنٹے کے اندر سوہنی دھرتی سے اپنا بوجھ اُتار کر دیارِ غیر کا رُخ کرنے کا حکم دیا گیا۔ اُسی روز جنرل محمدایوب خان نے صدر کا عہدہ بھی سنبھال لیا۔تاریخی حقائق سے معلوم ہوتا ہے کہ پاکستان میں پہلے مارشل لا(1958) کانفاذ سیاسی حالات کی خرابی کے باعث اچانک نہیں ہوا بل کہ سیاست دانوں کی باہمی رسہ کشی ،بد عنوانی اور عوامی مسائل حل کرنے میں ناکامی کو دیکھتے ہوئے محمدایوب خان سال 1950سے فکر مند تھا۔وہ سیاسی اصلاحات کے ایک منصوبے پر کام کر رہاتھا جس پر عمل کر کے وہ اپنے آپ کو مستقبل کے نجات دہندہ کے طور پر پیش کرنے کا خواہش مند تھا۔(21) پاکستان میں مارشل لا کے نفاذ اور صدر کا عہدہ سنبھالنے کے بعد صدر ایوب خان نے یہ کہا کہ یہ سب کچھ اﷲ کے فضل و کرم سے ہوا۔(22)برطانوی سامراج کے چُنگل سے نجات حاصل کرنے کے بعد پاکستان میں بڑھتے ہوئے سیاسی عدم استحکام پرفوج کو گہری تشویش تھی۔مارشل لا کے نفاذ کے بعد صدر ایوب خان نے ملکی استحکام کے لیے فوج کی خدمات کاحوالہ دیتے ہوئے کہا:
’’آج میں پُورے وثوق کے ساتھ کہہ سکتا ہوں کہ پاکستان اِس فوج کے بغیراُن طوفانوں اور حملوں کی تاب نہ لا سکتاجن سے اِسے دو چار ہونا پڑا۔پاکستان کے عوام کی پُشت پر اُس کی فوج کی موجودگی آج بھی اِس بات کی ضمانت ہے کہ دُشمن ہمیں دبا نہیں سکتا۔‘‘(23)
صدر اسکندر مرزا نے جب آئین کو منسوخ کیاتو یہ با ت واضح نہ تھی کہ اس غیر آئینی اقدام کے پسِ پردہ کون سی طاقت کا ہاتھ ہے ۔جب جنرل محمد ایوب خان کا بہ حیثیت چیف مارشل لاایڈمنسٹریٹر تقرر ہوا تو تمام حالات واضح ہو گئے۔اس کے بعد جلد ہی مسلح افواج کو اس بات کا شدت سے احساس ہو نے لگاکہ اسکندر مرزا کی کور مغزی اور بے بصری سے عوام پہلے ہی نالاں اور ناخوش وبے زار ہیں۔اس لیے اسکندر مرزا سے نجات حاصل کرنا ضروری ہے ۔اسکندر مرزا نے ہوا کا رُخ پہچان لیا اور مسلح افواج کے تیزی سے بدلتے ہوئے تیور دیکھ کر اس نے فوج کے سپہ سالا ر جنرل محمد موسیٰ کو اپنا ہم نوا بنانے کی کوشش کی مگر اسے کامیابی نہ ہوئی(24)۔اس کے بعد اسے بے نیلِ مرام پاکستان چھوڑ کر پنشن پر جلاوطن ہو کر لندن جانا پڑا۔تحریکِ پاکستان کے دوران بر صغیر کی ملت ِاسلامیہ نے حریتِ فکر کا علم بلند رکھا۔تحریکِ پاکستان کے ممتاز قائدین نے حق گوئی اور بے باکی کا بلند ترین معیار پیش کیا اور کبھی مصلحت سے کام نہ لیا۔قائد اعظمؒ کی دلی تمناتھی کہ پاکستانی عوام اپنے آزاد وطن میں خود مختار شہریوں کی حیثیت سے سر اُٹھا کر چلیں اور حکومت پر بے خوفی سے تنقید کریں۔(25)مارشل لا کے نفاذ کے بعدحبس اور پابندیوں کے ماحول میں حریتِ فکر کے علم برداروں کو بہت کٹھن مسائل کا سامنا کرنا پڑا۔ماشل لا کے نفاذ کے بعد پاکستان میں تما م انتظامی اختیارا ت چیف مارشل لا ایڈمنسٹریٹر نے سنبھال لیے تھے ۔صدر محمد ایوب خان کا انداز ِ حکمرانی اس حقیقت کو سامنے لارہا تھا کہ صدر ملک کو کسی با قاعدہ آئینی یاقانونی ضابطے کے مطابق نہیں چلا رہے تھے بل کہ تمام اختیارات ان کی ذات میں مرتکز ہو گئے تھے۔(26)مارشل لا کے نفاذ کے بعد فوجی انتظامیہ نے اپنی مرضی سے قانون ساز ی شرع کر دی۔بنیادی انسانی حقوق کا کوئی تصور ہی باقی نہ رہا اور لوگ اس فکر میں مبتلا تھے کہ اب اس کے بعد کیا ہو گا۔ پاکستانی قوم اس غیر یقینی اور اعصاب شکن کیفیت میں یہ دیکھ رہی تھی کہ مارشل لا کے تحت حالات کس سمت میں جا رہے ہیں۔ مارشل لا کے دور میں مروّج ملکی قانون کو غیر فعال اور بے بس بنا نے کے لیے اس کی تذلیل کے نئے نئے خوش رنگ انداز اپنائے جاتے ہیں۔(27) صدر محمد ایوب خان کے خیال میں شعبہ نشر واشاعت کو ذہنی جنگ کے اسلحہ خانے کی حیثیت حاصل ہے ۔صحافت پر اپنی گرفت مضبوط رکھنے کے لیے پاکستان سیکیورٹی ایکٹ میں ترمیم کرکے اٹھارہ اپریل 1959کو میاں افتخار الدین کے ادارے پر و گریسو پیپرز لمیٹڈ کو حکومت نے اپنی تحویل میں لے لیا۔پر و گریسو پیپرز لمیٹڈ کے زیرِ اہتمام امروز،مشرق،مارننگ نیوز اور پاکستان ٹائمز شائع ہوتے تھے۔حکومت نے یہ ادارہ مختلف خریداروں کے ہاتھ فروخت کرنے کی کوشش کی مگر سب نے یہ بھاری پتھر چُوم کر رکھ دئیے بالآخر انھیں نیشنل پریس ٹرسٹ کے حوالے کر دیا گیا۔اخبارات اور صحافت پر اپنی گرفت مضبوط کرنے کے لیے حکومت نے26۔اپریل 1960کو پریس اینڈ پبلی کیشنز آرڈی نینس جاری کیا۔اس کے بعد 28 مارچ 1962کو ایک اور پریس آرڈی نینس جاری کیا گیا جس کے مطابق ہڑتالوں اور صنعتی بے چینی کی خبروں کی اشاعت کی ممانعت کر دی گئی۔اس کے بعد ایک اور حکم کے ذریعے تمام اخبارات و جرائد کو اس امر کا پابند کیا گیا کہ وہ مرکزی اور صوبائی حکومتوں کے پریس نوٹ شائع کریں۔(28) مارشل لا کے نفاذ کے بعد عوامی نمائندوں کے مرتب کیے ہوئے 1956کے آئین اور وفاقی پارلیمانی نظام کو ختم کر کے بعد صدر محمد ایوب خان نے 27۔اکتوبر1959کو پاکستان میں بنیادی جمہوریت کا نظام متعارف کرایا۔ اس نظام کو صدر محمد ایوب خان کے ناقدین نے نمائندہ آمریت کی ایک شکل قرار دیا ۔ملک میں بنیادی جمہوریت کے نفاذ کے بعد اکثر لوگوں کی رائے اس کے حق میں تھی۔لوگ کسی حد تک مطمئن تھے کہ اگرچہ چھوٹے پیمانے پر محدود جمہوریت کی داغ بیل پڑ گئی ہے اس کے بعد کبھی نہ کبھی مکمل جمہوریت بھی آ جائے گی۔(29)مارشل لا کے نفاذ کے بعد انتظامیہ کے جبر کے باوجود جری صحافیوں نے حق گوئی اور بے باکی کو اپنا شعار بنایا ۔آغا شورش کاشمیری نے اپنا موقف بیان کرتے ہوئے بر ملا کہا:
’’میں وہی کروں گا جو میرا ضمیر کہتا ہے میں آپ کا یا کسی اور کا نو کر نہیں ہوں۔‘‘(30)
غیر نمائندہ حکومتوں کے مسلط کردہ جبر کے ماحول میں حریت فکر کے مجاہدوں کو صبر آزما حالات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ مختلف ذرائع سے انھیں اپناہم نوا بنانے کی کوشش کی جاتی ہے ۔ جنرل محمد موسیٰ خان مارشل لا کے دور میں مغربی پاکستان کے گورنر(18ستمبر 1966تا20مارچ1969)کے منصب پرفائز تھے۔ ایک مرتبہ گورنر محمد موسیٰ خان نے مجلہ چٹان کے مدیر آغا شور کاشمیری سے رابطہ کیااور کہا کہ پاکستان کے صدر محمد ایوب خان اہم ملکی مسائل اور صحافت کے بارے میں ان سے ملاقات کی خواہش رکھتے ہیں۔آغا شورش کاشمیری نے مغربی پاکستان کے گورنر کی طرف سے ملنے والی صدر سے ملاقات کی دعوت منظو ر نہ کی اور مسکراتے ہوئے کہا:
’’اِس سے قبل صدر ایوب سے میری ایک ملاقات ہو چُکی ہے اوراِس ملاقات کے مصافحہ پر چھے ماہ کی نظر بندی مِلی۔اب دُوسری مُلاقات کے معانقہ پر تو گلے کا رسہ ہی مِلے گا۔‘‘(31)
پاکستان کے ادیبوں اور دانش وروں سے معتبرربط برقرار رکھنے کی غرض سے وفاقی سیکرٹری قدرت اﷲ شہاب کی تحریک پر 31۔جنوری 1959کو پاکستان رائٹرز گِلڈ کا قیام عمل میں لایاگیا۔ پاکستان رائٹرز گِلڈ کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے صدر محمدایوب خان نے اس ادارے کے لیے دس ہزار روپے کا ذاتی عطیہ دیا۔حکومت کے اس اقدام کو بعض لوگوں نے ادیبوں کو اپناہم نوا بنانے کی ایک کوشش سے تعبیر کیا۔ حکومت کے اس اقدام کے معترضین کاخیال تھا کہ اس طرح علمی و ادبی حلقے بھی سرکاری افسروں کے تابع ہو گئے اور لوح و قلم بہ حقِ سرکار محفوط کر لیے گئے۔(32) پاکستان رائٹرز گِلڈ کے سیکرٹری جنرل قدرت اﷲ شہاب نے گِلڈ کے اراکین کو بنیادی جمہوریت کے حق میں لکھنے پر مائل کرنے کی کوشش کی۔ اس عہد کے ادیبوں کا دبنگ لہجہ ،پُرجوش اُمنگ اور الفاظ کی ترنگ دیکھ کر یہ بات واضح ہوتی ہے کہ با ضمیر ادیبوں نے ترغیب و تحریص کے حربوں کو نفرت کی نگاہ سے دیکھا اور ستائش و صلے کی تمنا سے بے نیاز رہتے ہوئے تخلیق ادب پر اپنی توجہ مرکوز رکھی۔وہ عالمی تاریخ کی ان صداقتوں سے آ گاہ تھے کہ دنیا میں عظیم الشان کامرانیاں اور فقید المثال کا میابیاں قوت و ہیبت ،جاہ و جلال،کرو فر اور شمشیر سناں کی مرہونِ منت نہیں بل کہ تاروں پر کمند ڈالنے کے لیے جوش و جذبہ،عزمِ صمیم اور استقامت نا گزیر ہے ۔ اُس زمانے میں یہ تاثر عام تھاکہ گِلڈ کے قیام کے پسِ پردہ پاکستان کے حکمران طبقے کے اپنے ذاتی مقاصد ہیں ۔انھی خدشات کی بنا پر حبیب جالبؔ نے پاکستان رائٹرز گِلڈ کوحکومتی ادارہ قرار دیا۔(33)مارشل لا حکومت کی کی براہِ راست نگرانی اور سر پرستی میں چلنے والے ادارے پاکستان رائٹرز گِلڈ اور آدم جی ایوارڈ پر حبیب جالبؔ نے اپنے تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے کہا تھا:
رائٹرز گِلڈ
ذہانت رو رہی ہے منھ چُھپائے
جہالت قہقہے بر سارہی ہے
ادب پر افسروں کا ہے تسلط
حکومت شاعری فرما رہی ہے
----------------------------
آدم جی ایوارڈ
سینہ ٔ اِنساں کا یارو
زخم سِلے اب یا نہ سِلے
اپنی تو بس دوڑ ہے یہ
آدم جی ایوارڈ مِلے
مارشل لا کے نفاذ کے بعد سیاسی عمل کو جاری رکھنے اور ملک دشمن عناصر سے نجات حاصل کرنے کی آ ڑ میں سیاست دانوں کی جبری نااہلیوں کا سلسلہ شروع ہوگیا۔ اس مقصد کے لیے ما رشل لا حکام نے ایک سخت قانون PODO (PublicOffices Disqualification Order,21 March 1959)نا فذ کیا۔ اس کے تحت جرم ثابت ہو نے پر 15 سال تک سیاسی عہدوں کے لیے نااہل قرار دیا جاتا ۔ اس سے قبل حکومت نے ایبڈو (EBDO)(Elective Bodies Disqualification Order,7 August1959)نافذ کردیا تھا۔ جرم ثابت ہو نے پر چھے سال تک سیاست سے نااہلی کی سزا دی جاتی تھی ۔ ان قوانین کے تحت چھے ہزار کے قریب لوگوں کو عوامی نمائندگی کے لیے نااہل قرار دے کر سیاسی زندگی کی سر گرمیوں سے الگ کر دیا گیا۔(34) قیام پاکستان کے بعد سے لے کر مارشل لا کے نفاذ تک کے عرصے میں سول ملازمین کااحتساب بھی کیا گیا۔ اس مقصد کے لیے اعلیٰ اختیارات کی حامل کمیٹیاں بنائی گئیں جن کی رپورٹ پر1662 اہل کاروں کے خلا ف کاروائی کی گئی۔(35) بد عنوان سرکاری ملازمین کے خلاف کی جانے والی اس کارروائی کے بعد بیوروکریسی کو اپنی اوقات کاعلم ہو گیااور اُسے راہِ راست پر لانے میں مدد ملی اورعوام کے ساتھ ناروا سلوک کرنے والے افسروں کو نشانِ عبرت بنادیا گیا۔
پاکستان کے نئے آئین کی تیاری کے لیے صدر محمدایوب خان نے 17فروری 1960کوایک آئینی کمیشن کے قیام کا اعلان کیا ۔اس آئینی کمیشن کا سربراہ جسٹس شہاب الدین کو مقرر کیا گیا۔اِس آئینی کمیشن نے 6مئی 1961کو اپنی رپورٹ پیش کی۔جسٹس شہاب الدین نے اپنی رپورٹ میں پاکستان میں پارلیمانی جمہوریت کی ناکامی کے پیشِ نظر اِسے ناقابلِ عمل قرار دیا۔آئینی کمیشن نے پاکستان کانیا آئین مرتب کرتے وقت صدر محمد ایوب خان کے ان تصورات کو پیشِ نظر رکھاجو انھوں کچھ عرصہ پہلے پیش کیے تھے۔4۔اکتوبر 1954کو صدر محمد ایوب خان لندن کے ایک ہوٹل میں مقیم تھے،اسی ہوٹل میں قیام کے دوران وہ پاکستان کے مستقبل کے آئین کا اِبتدائی ڈھانچہ تیار کر چُکے تھے۔(36) مملکتِ خدادا پاکستان کو نیا آئین دینے والے صدرمحمد ایوب خان کے نام زد ماہرین قانون تھے۔یہ ماہرین قانون نہ تو عوام کے منتخب نمائندے تھے اور نہ ہی انھیں پاکستان کے آئین کی تیاری کے سلسلے میں عوام کی تائید و حمایت حاصل تھی۔آئین جیسی بنیادی اہمیت کی حامل اہم دستاویز کی تیاری کے تمام مراحل صیغہ ٔ راز میں رکھے گئے۔اس قسم کی راز داری مسلمہ جمہوری روایات اور سلطانی ٔ جمہور کے عمل سے کوئی مطابقت نہیں رکھتی۔یہ آئین پاکستانی عوام پر چُپکے سے مسلط کر دیا گیا۔نہ تو یہ عوام کے سامنے لایا گیا اور نہ ہی اس پر کوئی رائے لی گئی۔(37)صدر محمد ایوب خان نے 1962میں جو آئین دیا اس میں صدارتی طرزِ حکومت اپنایا گیا اور تمام اختیارات صدر کی ذات میں مر تکز کر دئیے گئے۔اس آئین کے دیباچے میں یہ درج تھا:
’’میں فیلڈ مارشل محمد ایوب خان ہلالِ پاکستان،ہلالِ جرأت یہ آئین نافذ کرتا ہوں۔‘‘ (38)
یکم مارچ 1962کو صدر محمد ایوب خان نے ریڈیو پر اپنی نشری تقریر میں پاکستان کے نئے آئین کا اعلان کر دیا۔اس کے بعد 8جون 1962کوصدر محمد ایوب خان نے قومی اسمبلی سے خطاب کے دوران مارشل لا اُٹھانے کا اعلان کیا۔پاکستان کے 1962کے آئین کی تیاری اور کے نفاذ کے مراحل پر اپنی رائے دیتے ہوئے ائیر مارشل اصغر خان نے لکھا ہے :
’’ایوب خان کو کیا حق پہنچتا تھا کہ وہ قوم کو آئین دے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ایوب خان کو اس کا احساس نہیں تھا کہ آئین سازی کے عمل اور تشکیل میں عوام کی رضامندی اور نمائندگی کتنی لازمی اور بنیادی حیثیت رکھتی ہے۔‘‘(39)
اس آئین کے نفاذ کے بعد ایسا محسوس ہوتا تھا کہ مقتدر حلقوں نے بر طانوی نو آبادیاتی نظام کے جبر کے وہی سخت مقام اپنے پیشِ نظر رکھے ہیں جن سے بر صغیر کے باشندے 1857کی ناکام جنگِ آزادی کے بعد دو چار ہوئے۔صدر مملکت کی قوت و ہیبت کا دارو مدار بیوروکریسی پر انحصار اوراختیارات کے صدر مملکت کی ذات میں ارتکاز پر تھا۔سب سے زیادہ تشویش ناک بات یہ تھی کہ ملک کی انتظامیہ اور عدلیہ میں کلیدی آسامیوں پر تقرر کے وقت سیاسی چھان بین کو ضروری سمجھا جانے لگا۔ نوآبادیاتی دورکے خاتمے کے بعدبر صغیر کے مسلمانوں نے اپنے آزادطن پاکستان میں کٹھن حالات کا نہایت خندہ پیشانی سے سامنا کیا ۔ آزادی کے بعد نئے حالات میں پاکستانی اہلِ قلم نے قومی کردارکی تشکیل میں فعال کردارادا کیا۔اقوم کی تقدیرسنوارنے میں معاشرے کے تمام افراد حصہ لیتے ہیں۔افراد کی شخصیت کا پُر شکوہ قصر ہمیشہ کِردار کی اساس پر استوار ہوتا ہے ۔معاشرتی زندگی میں متعدد نشیب و فراز آتے ہیں،بے شمار نگاہیں ،راہیں اور پناہ گاہیں سامنے ہوتی ہیں۔زیرک ،معاملہ فہم اور حساس تخلیق کار زندگی کے یہ سب زیر وبم ہمہ وقت پیشِ نظر ر کھتے ہیں تا کہ شخصیت میں نکھا رپید اہو اور زندگی میں بہار کے امکان روشن تر ہو تے چلے جائیں اور سوز و سازِ رومی اور پیچ وتاب ِ رازی کی کش مکش میں شخصیت اُلجھ کر نہ رہ جائے۔ابتلااور آزمائش کی گھڑی میں تذبذب،گومگو،متلون مزاجی،پیمان شکنی اور بے یقینی جیسے عیوب شخصیت کو غیر مستحکم کرنے کا سبب بن جاتے ہیں۔پاکستانی ادیبوں نے وطن،اہلِ وطن اور انسانیت سے قلبی وابستگی اور والہانہ محبت کو اپنا شعار بنا کر پاکستانی ادبیات کو پُوری دنیا میں معزز و مفتخر کر دیا۔ان جری تخلیق کاروں نے مصلحت کوشی کے بجائے حریتِ فکر و عمل کا علم بلند رکھتے ہوئے اپنی فعال اورمستحکم شخصیت کی ہمہ گیری کا لوہا منوایا۔ان ادیبوں نے دبنگ لہجے میں قطعیت ،اعتماد اور یقین سے اپنا ما فی الضمیر پیش کر کے عوام میں مثبت شعور و آگہی پیدا کرنے کی جومساعی کیں وہ تاریخ ِ ادب کا اہم باب ہیں۔
قائدا عظمؒ کی وفات کے بعد پاکستان سیاسی عدم استحکام کی زد میں ا ٓ گیا اور قومی ترقی کے منصوبے دھرے کے دھرے رہ گئے ۔پس نو آبادیاتی دور میں ارضِ پاکستان کو جِن گمبھیر کوہ پیکر مسائل کا سامناتھا ان سے عہدہ برآ ہونے والی جری ،بے لوث اور مخلص قومی قیادت مو جود نہ تھی۔عقابوں کے نشیمن زاغوں کے تصرف میں آ گئے،بونے اور با لشتیے اپنے تئیں باون گزا سمجھنے لگے ۔سرابوں اور سایوں کے تعاقب میں اُلجھے یہ مفاد پرست لوگ پیچیدہ سیاسی اور معاشی مسائل کے گرداب میں پھنسی ملت کی کشتی کو ساحلِ عافیت تک پہنچانے کے لیے ٹامک ٹوئیے مارتے پھرتے تھے۔حساس ادیب اپنے گِرد و پیش کے حالات اور قومی مسائل سے بے تعلق نہیں رہ سکتا۔تخلیقِ فن کے لمحوں میں وہ معاشرتی زندگی کے تمام حالات ، واقعات،سانحات،تضادات اور ارتعاشات کو نہایت باقاعدگی سے زیبِ قرطاس کرتا چلا جاتا ہے۔اُس کی تخلیقی فعالیت کے سوتے اپنے سماج اور معاشرے کے حالات ہی سے پُھوٹتے ہیں۔اپنی تہذیبی،ثقافتی اور تاریخی روایات کو مشعلِ راہ بنا کر محب وطن پاکستانی ادیبوں نے فکر وخیال کی جوانجمن سجائی اُس کے اعجاز سے پاکستانی قوم کوحریتِ ضمیر سے جینے کے لیے اسوہ ٔ شبیر پر کا ر بند رہنے کا ولولہ نصیب ہوا۔پس نو آبادیاتی دور میں پاکستانی ادیبوں نے تخلیقِ ادب کے دوران تہذیب و شائستگی،ایثار و وفا،خلوص و دردمندی کے جن موقر و معتبر حوالوں سے اپنے اسلوب کو نکھار عطا کیا ان میں حریتِ فکر کو نمایاں مقام حاصل ہے ۔آزادی کے بعد پاکستانی ادیبوں نے منزل اور سراب،کردار سازی اور ملمع سازی،حقائق اورفریب اورایثار و ہوس کے امتیازات کو اُجاگر کرتے ہوئے ابن الوقت عناصر کے شاخسانوں کو عبرت کے تازیانوں کی صورت میں سامنے لانے پر اپنی توجہ مرکوز رکھی۔وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ حق گوئی و بے باکی ان جری تخلیق کاروں کی فطرت ثانیہ بن گئی۔
سیاسی حالات میں تغیر و تبدل سے معاشرتی زندگی متاثر ہوئی جس کے نتیجے میں اقدار و روایات اورتصورات و نظریات کا منظر نامہ بدلتا چلا گیا۔اسکندر مرزا کے ہاتھوں جمہوریت کے خاتمے کے بعد گلشنِ وطن میں نکہتِ گُل چاک گریباں اور رنگِ چمن شعلہ شعلہ سا دکھائی دینے لگا۔جبر کے بے رحمانہ وار سے جمہوریت اور انسانیت کا دامن چاک کر دیا گیا،جسے رفو کرنے کے لیے محبِ وطن پاکستانی ادیبوں نے انتھک جد و جہد کی۔اپنی ذات اورشخصیت کو پس منظر میں رکھتے ہوئے پاکستانی ادیبوں نے اپنے عہد کے واقعات اور حالات کی اس خلوص اور درد مندی سے لفظی مرقع نگاری کی ہے کہ حقائق کی یہ ترجمانی قلب اورروح کی گہرائیوں میں اُتر جانے والی اثر آ فرینی قاری کے قلب و نظر کو مسخر کر لیتی ہے ۔جب مقتدر حلقے آئین اور قانون سے انحراف کو معمول بنا لیں تو یہ روّیہ اس بد قسمت معاشرے کے لیے خطرے کی گھنٹی سمجھا جاتا ہے ۔آمروں کی ضد اور ہٹ دھرمی کے باعث بد نظمی،لا قانونیت،لُوٹ مار اور شر پسند عناصر کی غنڈہ گردی گمبھیر صورت اختیار کر لیتی ہے ۔تہذیبی اور ثقافتی دریدگی کے اِس مسموم ماحول میں زیرک تخلیق کاراستحصالی عناصر کو چیرہ دستی سے باز رکھنے کی خاطریہ باور کرانے کی کوشش کرتے ہیں کہ فطرت کی سخت تعزیریں ان کے تعاقب میں ہیں۔حریتِ فکر کی مظہر یہ شاعری انسان دوستی اور حب الوطنی کے جذبات سے مزین ہے ۔اس شاعری کی اصلیت اورحقیقت کو محض اس کے تجریدی بیان میں مضمر نہیں سمجھنا چاہیے بل کہ اِس کے سوتے معاشرتی زندگی کے ارتعاشات سے پُھوٹتے ہیں۔ایسی شاعری افراد کے دِلوں کی دھڑکنوں سے ہم آہنگ ہو کر روح کی گہرائیوں میں اُتر جاتی ہے ۔ جامد و ساکت ماحول کسی بھی معاشرے کی ترقی کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ بن جاتا ہے ۔اس جمود کے خاتمے اور افراد کو زندگی کی تاب و تواں سے آشنا کرنے کے سلسلے میں پاکستانی ادیبوں نے بے مثال جد و جہد کی۔تاریخ کے مختلف ادوار میں رُو نما ہونے والے الم ناک سانحات،سیاسی رسہ کشی کے واقعات،ہوسِ اقتدار کے حادثات و واقعات اور ان کی ذمہ دار مختلف شخصیات سے وابستہ مختلف معاملات تو ابلقِ ایم کے سموں کی گرد میں اوجھل ہو کر تاریخ کے طوماروں میں دب سکتے ہیں مگر اس شاعری میں پائی جانے والی اثر آفرینی کی مہک فضاؤں میں پھیلی ہوئی ہے جو تا ابد قلب و نظر کو معطر کرتی رہے گی۔اس شاعری کو اپنی بقا اور دوام کے لیے بیتے لمحات سے وابستہ واقعا ت کی احتیاج نہیں بل کہ قوم،ملت، وطن،اہلِ وطن ،انسانیت اور معاشرے کی خدمت کا اجتماعی جذبہ جریدۂ عالم پر اس کے ثبات کا ضامن ہے ۔ہر دور کے ادب میں اس ولولہ انگیز شاعری کی با ز گشت سنائی دے گی۔
اپنے عہد کے حالات کی ترجمانی کر کے پاکستانی ادیبوں نے معاشرتی زندگی میں جو موثر اور فعال کر دار ادا کیا وہ تاریخ کا اہم باب ہے ۔ حریتِ فکر کے جذبات سے لبریز شاعری کے حرکیاتی کردار سے جبر کے خلاف مزاحمت کے جذبات پروان چڑھے اور پاکستان کے جمہوریت پسند عوام کی اکثریت آمریت سے شدید نفر ت کر نے لگی ۔ پس نو آبادیاتی دور کے آغاز ہی سے ارضِ پاکستان میں زندگی کی درخشاں روایات اوراقدار ِعالیہ کے استحکام میں حریتِ فکر نے کلید ی کردار اداکیا ۔ اجتماعی زندگی میں معاشرتی اقدار کے تغیر و تبدل کا سلسلہ جاری رہتاہے جس کو پیشِ نظر رکھتے ہوئے ادیب نئے تجربات کے ذریعے اسالیب کو نیا آہنگ عطا کر تے ہیں ۔ پس نو آبادیاتی دور کے ادب کا اسلوبیاتی جائزہ لینے سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ آزادی کے بعدپاکستانی ادیبوں نے قو می تشخص اور قو می کلچر کو پروان چڑھانے کی مقدور بھر کوشش کی ۔ ادبی روایات بھی رخش ِحیات کے مانند ہمیشہ رواں دواں رہتی ہیں ۔ پاکستانی ادیبوں نے اپنی تہذیبی اقدار کو لائق صد افتخار سمجھا اور اس ارفع کلچر کو اپنی میراث قرار دیا جس کے دھندلے نقو ش مو ہنجودڑو ، ہڑپہ ، ٹیکسلا اور شور کوٹ میں دیکھے جاسکتے ہیں ۔ اس خطے کے کلچر نے صد یوں کا جو ارتقا ئی سفر طے کیا ہے وہ چشم کشا صداقتوں کا خزینہ ہے ۔
صدر محمد ایوب خان کے عہد ِ حکومت میں آئین اور قانون کی حکمرانی کی ناگفتہ بہ صورتِ حال کو سامنے رکھتے ہوئے حبیب جالب نے اپنی نظم ’’دستور‘‘ قحط الرجال اورضعفِ بصارت کے اُس دور میں ہونے والی عجیب اور حیران کن آئین سازی کے بارے میں کہا تھا:
دستور
دیپ جس کا محلات ہی میں جلے
چند لو گوں کی خوشیوں کو لے کر چلے
وہ جو سائے میں ہر مصلحت کے چلے
ایسے دستور کو صبح بے نور کو
میں نہیں مانتا ، میں نہیں جا نتا
میں بھی خائف نہیں تختہ ٔ دار سے
میں بھی منصور ہوں کہہ دو اغیار سے
کیوں ڈراتے ہو زِندان کی دیوارسے
ظلم کی بات کو ، جہل کی رات کو
میں نہیں مانتا ، میں نہیں جا نتا
پھول شاخو ں پہ کھلنے لگے تم کہو
جام رِندوں کو ملنے لگے تم کہو
چاک سینوں کے سلنے لگے تم کہو
اس کھلے جُھوٹ کو ، ذہن کی لُوٹ کو
میں نہیں مانتا ، میں نہیں جانتا
تم نے لُوٹا ہے صدیوں ہمار ا سکوں
اب نہ ہم پر چلے گا تمھارا فسوں
چارہ گر میں تمھیں کس طرح سے کہوں
تم نہیں چارہ گر ، کوئی مانے ، مگر
میں نہیں مانتا ، میں نہیں جانتا
صدر محمد ایوب خان کے مشیر انھیں حقائق سے بے خبر رکھتے تھے ۔بنیادی جمہوریتوں کے نظام کو پاکستان میں متعارف کرانے کا سبب یہ تھا کہ صدر کے مشیر یہی کہتے تھے کہ نو آبادیاتی دور کے خاتمے اور آزادی کے بعد پاکستانی قوم سیاسی اعتبار سے ابھی اس قدر پختہ شعور نہیں رکھتی جو جمہوری عمل کے لیے نا گزیر ہے ۔پاکستان میں شرح خواندگی کم ہونے کے باعث عوام براہِ راست عام انتخابات میں حصہ لے کراپنے نمائندوں کا صحیح انتخاب کر نے سے قاصر ہیں ۔اس لیے صدر نے اپنے مشیروں کے ایما پر بنیادی جمہوریتوں کے ذریعے بالواسطہ طریقہ انتخاب کو ترجیح دی۔ ملک بھر سیبنیادی جمہوریتوں کے اسی ہزار منتخب نمائندوں میں سے 75282 ووٹ حاصل کر کے محمد ایوب خان نے اپنی صدارت پر مہر تصدیق ثبت کر والی یہ ریفرنڈم 14 فروری 1960 کو ہوا ۔ اس موقع پر ملک کے طُول و عرض میں سکتہ طاری تھا اور ہُو کاعالم تھا۔لوگ حیرت زدہ تھے کہ اس ریفرنڈم میں کسی جِن ،بُھوت،دیو ،آسیب یا مافوق الفطرت قوت نے ہا تھ کی ایسی صفائی دکھائی کہ سادہ لوح لوگوں سے عجب ہاتھ ہو گیا۔اس ریفرنڈم کے نتائج کو دیکھ کر سارا عالَم دنگ رہ گیا اور عالِم، فاضل اور چشمِ بینا رکھنے والے یہ نِرالے ڈھنگ دیکھ کر حکمرانوں کے خلاف طبلِ جنگ بجنیسے متنبہ کرنے لگے۔
17 فروری 1950 کو محمد ایوب خان نے صدر پاکستان کے طور پر ازسر نو حلف اٹھا یا۔ پاکستان میں مارشل لا کے نفاذ کے بعدصدر مملکت کے مشیروں کی بوالعجبی اور ستم ظریفی ایک طرفہ تماشا تھا۔متعدد گو سفندانِ قدیم اور سیکڑوں ابلہ رواقیت کے داعی بن کر صدرِ مملکت کے مشیر بن بیٹھے۔عقل وخرد اور فہم و فراست سے عاری یہ مشیر جب بھی اپنا کفن پھاڑ کرہرزہ سرا ہوتے تو ملک کے اہلِ علم و دانش کے خلاف ان کی زبان آری کی طرح چلنے لگتی۔ایوانِ اقتدارکے کلس پر کر گسی نگاہیں رکھنے والے خست و خجالت کے پیکر یہ مہا مسخرے جس سمت اپنے سبز قدم بڑھاتے دوطرفہ ندامت اور دکھی انسانیت کی ملامت ان کا تعاقب کرتی۔اپنی چرب زبانی سے سادہ لوح لوگوں کو کبھی تو یہ سبزباغ دکھا کر مسحور کرتے اور کبھی کالا باغ دکھاکر اطاعت پرمجبور کرتے تھے۔یہ مرغِ باد نما کبھی تو صدرِ مملکت کو یہ مشورہ دیتے کہ حکومت پر تنقید کرنے والے سر کش سیاست دانوں میں سے سر اُٹھاکر چلنے والے کچھ سیاست دانوں کو اگر دار پر کھنچوا دیا جائے تو ان کے باقی ہم پیشہ و ہم مشرب و ہم راز سرکشی کا یہ عبرت ناک انجام دیکھ کر سہم جائیں گے۔حق و صداقت اورحریت فکر و عمل کا علم بلند رکھنے والوں کی فسطائی جبر کے خلاف پیکار اور ضمیر کی للکار کو یہ مشیرآوازِسگاں کہہ کر اپنے دِل کی بھڑاس نکالتے۔( 40) المیہ یہ تھا کہ پُرانے پاپی اور شرپسند عناصر نے مشیر کا لبادہ اوڑھ رکھا تھا۔اس قماش کے تھوتھے چنے،چِکنے گھڑے اور تھالی کے بینگن مقتدر حلقوں اور صدر مملکت کو ملکی حالات اور عوامی مسائل کے بارے میں صحیح مشورہ دینے سے دانستہ گریز کرتے ۔ادیب اور دانش ور کسی قوم کے ضمیر کی ترجمانی کرتے ہیں۔یہ حالات کی ستم ظریفی نہیں تو اور کیا ہے کہ صدرِ مملکت نے اپنے ایک ایسے مشیر (نواب کالا باغ) کو مغربی پاکستان کے گورنر کے منصب پر فائز کر دیا جس کے نزدیک ادیبوں اور دانش وروں کی انجمن ’’کنجر خانہ ‘‘ تھا۔(41) ایوان ِ اقتدار کے مزے لُوٹنے والے یہ مفاد پرست مشیر قومی کردار کی لُٹیاڈبونے پر اُدھار کھائے بیٹھے تھے۔یہ مشیرِ بے تدبیر وفاقی حکمت اور صدر مملکت کو مکمل انہدام کے متلاطم بحرِ بے کراں میں واقع اُس جزیرہ ٔ جہلاکی جانب دھکیلنا چاہتے تھے جس کی ہر موج میں سیکڑوں خون آشام نہنگ جبڑے کھولے کسی لقمہ ٔ تر کا شدت سے انتظار کر رہے تھے۔یہ ہزالی مشیر اپنی لا ابالی طبیعت کے باعث عوام میں نفرت کی نگاہ سے دیکھے جاتے تھے۔ان مشیروں کی بے بصری ،کور مغزی اور ذہنی افلاس کا یہ حال تھا کہ یہ سب ایک آمر کو اپنا اوتار مانتے تھے اور اپنے اہلِ وطن کوجُل دے کر ہمہ وقت آمرکے سامنے دُم ہلانے میں خجل ہوتے تھے۔
آمریت میں فسطائی جبر ، استبداد اورجارحیت اس قدر بڑھ جاتی ہے کہ آمر انسانی حقوق کی پامالی میں کوئی عار محسوس نہیں کر تے ۔ انتہائی معمولی پست نوعیت کے ذاتی مفادات کے حصول کے لیے اعلی ترین قو می مفادات اور غیر معمولی افادیت کے حامل منصوبوں کو داؤ لگا دیا جا تا ہے ۔ یہ وہ سخت مقام ہے جہاں زندگی کی اقدارِ عا لیہ،درخشاں روایات،،انسانی وقاراور تہذیب و شائستگی پرنزع کاعالم طاری ہو جاتا ہے۔آمریت کے ہراساں عہد میں پس ماندہ طبقے کی اذیت ناک زندگی کی شب ِ تاریک کے سحر ہونے کے امکانات معدوم ہو جاتے ہیں۔اس زمانے میں چڑھتے سُورج کے پجاریوں کی پانچوں گھی میں ہوتی ہیں۔ نا م نہاد مشیر اپنی عیاری، چرب زبانی اور چاپلوسی سے کام لے کر آمر کو فریب دے کر اپنا اُلّو سیدھا کرنے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے۔ یہ ایک طرفہ تماشا ہے مشیر کا لبادہ اوڑھے ہوئے بے ضمیر مسخرے،نا ہنجار لُٹیرے،عیاش مفسد اور سادیت پسندی کے روگ میں مبتلا بے غیرت مفاد پرست اپنے مضحکہ خیز،بے ہودہ،بے فائدہ،بے ثمر،مہمل اور لا یعنی مشوروں سے آمر کو سدا خوش رکھتے ہیں اور مظلوم انسانیت پر عرصۂ حیات تنگ کر کے لذتِ ایذاحاصل کرتے ہیں۔ یہ حالات کی ستم ظریفی اور وقت کا الم ناک سانحہ ہے کہ اس قماش کے بد اندیش مشیر اپنی جہالت کا انعام بھی حاصل کر لیتے ہیں۔
کاروان ِ ہستی نہایت برق رفتاری سے شاہراہِ حیات پر رواں دواں ہے۔ پاکستان کے اہلِ قلم نے اپنی تخلیقی فعالیت سے قارئین کو اس بات کا احساس دلایا کہ پرِ زمانہ کی برق رفتاریاں تو پروازِ نُور سے بھی زیادہ ہیں۔ اس عالم آب و گِل میں سکون محال ہے اور زندگی مسلسل تغیر و تبدل کی زد میں ہے۔ہر لحظہ نیا طُور ، نئی بر قِ تجلی کی کیفیات میں فکر وخیال اور نظریات کا جو دھنک رنگ منظر نامہ سامنے آرہا ہے اس کی ر عنائیاں قلب و نظر کو مسخر کرلیتی ہیں اور اس کی تابانیاں نگاہوں کو خیرہ کردیتی ہیں ۔ پس نو آبادیاتی دور میں پا کستانی ادیبوں نے اپنی تہذیبی و ثقافتی اقدار و روایات کو اقتضائے وقت کے مطابق نئے دور کے تقاضوں سے ہم آہنگ کر نے کی خاطر عصری آگہی کو پروان چڑھانے پر اپنی توجہ مر کوز رکھی ۔ اپنے عہد کے تمام حالات و واقعات ، تضادات اور ارتعاشات کو الفاظ کے قالب میں ڈھال کر پاکستانی ادیبوں نے اذہان کی تطہیر و تنویر کا مؤثر اہتمام کیا۔ حبیب جالب نے آمریت کے زمانے میں متفنی مشیروں کی عیاری ، سفہا کی ریاکاری اور اجلاف و ارذال ادکاری کو ہمیشہ نفرت کی نگاہ سے دیکھا۔ اجلاف و ارذال اور سفہا نے بے بس و لاچار عوام پر کوہِ ستم توڑنے کے جو مشورے آمروں کو دئیے حبیب جالب نے اس پر گرفت کی۔ اردو کے ممتاز شاعر حبیب جالبؔ کی نظم ’’مشیر‘‘ اُس زمانے کے حالات اور مشیروں کے پیداکردہ سانحات پر دال ہے ۔
مشیر
یہ جو دس کروڑ ہیں
جہل کا نچوڑ ہیں
ان کی فکر سو گئی
ظلمتوں میں کھو گئی
یہ خبر درست ہے
ان کی موت ہوگئی
بے شعور لوگ ہیں
زندگی کا روگ ہیں
اور تیرے پاس ہے
ان کے درد کی دوا
میں نے اس سے یہ کہا
تو خدا کا نور ہے
عقل ہے شعور ہے
قو م تیرے ساتھ ہے
تیرے ہی وجود سے
ملک کی نجات ہے
تو ہے مہر صبح نو
تیرے بعد رات ہے
بولتے جو چند ہیں
سب یہ شر پسند ہیں
ان کی کھینچ لے زباں
ان کا گھونٹ دے گلا
میں نے اس یہ کہا
جن کو تھا زباں پہ ناز
چپ ہیں وہ زباں دراز
چین ہے سماج میں
بے مثال فرق ہے
کل میں اور آج میں
اپنے خرچ پر ہیں قید
لو گ تیرے راج میں
آدمی ہے وہ بڑا
در پہ جو رہے پڑا
جو پناہ مانگ لے
اس کی بخش دے خطا
میں نے اس سے یہ کہا
ہر وزیر ہر سفیر
بے نظیر ہے مشیر
واہ کیا جواب
تیرے ذہن کی قسم
خوب انتخاب ہے
جاگتی ہے افسری
قو م محوِ خواب ہے
یہ ترا وزیر خاں
دے رہا ہے جو بیاں
پڑھ کے ان کو ہر کوئی
کہہ رہا ہے مر حبا
میں نے اس سے یہ کہا
بادی النظر میں یہ حیثیت واضح ہے کہ آزاد ملک کے فلاحی معاشرے میں شخصیت کی نمو اور ارتقا کے لیے فکر و خیال کی ندرت و تنوع ، جذبات واحساسات کا تر فع اور زندگی کی اقدارِ عالیہ سے قلبی وابستگی کی جو احتیاج ہے کردار کے لیے وہ لازم نہیں ۔ اس سے یہ احساس تقویت پکڑتا ہے جہاں تک کردار کا تعلق ہے اس کے لیے زندگی کی اقدارِ عالیہ ، درخشاں اقدار و روایات اور عزائم اور تمناؤں کا ترفع ناگزیر نہیں۔ مثال کے طور ایک طالب علم اپنی تمام تر توجہ حصول علم کے لیے ،تا جر اپنے سامان کے منافع کے لیے ،کسان نقد آور اور غذائی فصلوں کو اُگانے کے لیے ، دست کا ر اپنی صناعی کے جوہر دکھانے کے لیے،کمان گر اپنی مہارتیں تیر ،کمان اور ترکش بنانے میں اور سیاست دان جاہ منصب کے حصول کے لیے دن رات ایک کردیتا ہے ۔ اپنے اپنے شعبوں میں بلند منصب پر فائز ہو نے اور اہم کردار ادا کرنے کے لیے وہ محنت شاقہ سے کام لے کر گوہرِ مراد یقیناً حاصل کر سکتے ہیں۔ شخصیت ایک طلسمِ ہوش رُبا ہے جس کی قریہ ٔ جاں کو معطر کرنے والی مہک اور شان دِل ربائی کے حصول کی خاطرافراد کو کو خون ِجگر سے اپنی شخصیت کی آبیاری کر نا پڑتی ہے۔تب کہیں جا کر وہ طلسمی اور مسحور کن شخصیت کے مالک بنتے ہیں۔حیف صد حیف کہ پس نو آبادیاتی دور میں کارواں کے دِ ل سے احساسِ زیاں عنقا ہونے لگااور پاکستانی سیاست دن اپنے سیاسی کردار اور اپنی شخصیت کے نکھار کا کوئی قابل اعتبار معیار پیش کرنے سے قاصر رہے۔
حریت فکر کے علم بردار ادیبوں کے منفرد اسلوب ، دل کش شخصیت اور مستحکم کردار کو تاریخ ادب کا موقر اور موثر حوالہ قرار دیا جاسکتا ہے۔ ان کے اسلوب کی انفرادیت اور روح پرور جاذبیت کاراز ان کے جذبہ ٔ انسانیت نوازی ، خاندانی شرافت ، تعلیم و تر بیت ، وطن اور اہل وطن سے والہانہ محبت اور دکھی انسانیت سے قلبی وابستگی میں مضمر ہے۔پا کستان میں حریت فکر کے علم بردار تخلیق کاروں نے وطن کی سلامتی ، تحفظ ، استحکام اور بقا کو اپنا مطمح نظر بنایا اور جبر کا ہر انداز مسترد کرکے ظلم و استبداد کے سامنے سپر انداز ہونے سے انکار کر کے اپنی شخصیت کو مقاصد کی رفعت اور دل کشی سے مزین کرکے ہمالہ کی بلندیوں سے آشنا کیا۔انسانیت کے وقار اور سر بلندی اور سلطانیٔ جمہور کی خاطر جابر سلطان کے سامنے کلمہ ٔ حق ادا کر نے والے حریت ِفکر کے ان مجاہدوں نے ثابت کردیا کہ نگاہ بلند اور سخن دل نوازکے اعجاز سے باغ و بہار شخصیت ، مستحکم کر دار اور جذبہ ٔ ا نسانیت نوازی کا ثمر ابد آشنا کی تخلیقات کی صورت میں منصہ شہود پر لایا جا سکتا ہے۔ غیر نمائندہ اور غیر جمہوری دور میں حریت ِفکر کے علم بردار پاکستانی ادیبوں نے اپنی بے خوف صدا، حرف صداقت اور ضمیر کی للکا ر کو جذبوں کی ایسی پیکار میں بدل دیا جس نے قارئین کو جہد و عمل کی راہ دکھائی اور یاس اضطراب کے ماحول میں راحت ، سکون ِقلب اور خوشی کی نوید سنائی۔حق گوئی اور بے باکی کو اپنا دستور العمل بناکر پاکستانی ادیبوں نے قلب اورروح کی اتھاہ گہرائیوں میں اُتر جانے والی وہ طرزِ فغاں اپنائی جس نے سنگلاخ چٹانو ں ،جامد و ساکت پتھروں اور بلند کوہساروں کو ایسا رعشۂ سیماب دیا جسے دیکھ کر دنیا بھر کے حساس اور درد آشنا انسان محو ِ استعجاب ہیں۔
1965 کے صدارتی انتخابات میں قائد اعظم ؒکی بہن محترمہ فاطمہ جناح صدر کے عہدے کے لیے محمد ایوب خان کے مقابلے میں انتخاب میں حصہ لے رہی تھیں ۔ 1958 کے مارشل لا کے بعد پاکستانی قوم آمریت کے خلاف اُٹھ کھڑی ہوئی ۔ محترمہ فا طمہ جناح نے اپنی انتخابی مہم کے دوران عوامی جلسوں اور جلوسوں سے اپنے پُرجوش خطاب کے دوران جمہوریت کے حق میں بھر پور دلائل دئیے اور ملک میں پائے جانے والے سیاسی جمود کا خاتمے کرنے میں اہم کردار ادا کیا ۔ اس عہد کے حالات کا جائزہ لینے سے یہ بات خورشیدِ جہاں تا ب کے مانند ضوفشاں دکھا ئی دیتی ہے کہ سیاسی بے چینی اور معاشرتی اضطراب کے خاتمے کے لیے محترمہ فاطمہ جناح نے جو تاریخی کردار ادا کیا وہ روح ِ عصر کے عین مطابق تھا ۔ محترمہ فاطمہ جناح نے اس بات پر زور دیا کہ عوام اپنے ووٹ کو قومی امانت سمجھتے ہوئے جذبہ ٔحب الوطنی سے سرشار اُمیدواروں کے حق میں اس کا استعمال کریں۔ محترمہ فاطمہ جناح نے اپنی انتخابی تقاریر میں پاکستانی عوام واضح کر دیا کہ اگر عوام اپنے ووٹ کا صحیح استعمال کرنے میں ناکام رہے تو نہ صر ف پُوری قوم کو مصیبت اُٹھانی پڑے گی بل کہ رائے دہند گان بھی مصائب و آلام کی زد میں آ جائیں گے۔ صدارتی انتخابات میں محترمہ فاطمہ جناح کی انتخابی مہم کے دوران حبیب جالبؔ نے ایک پُر جوش اور مستعد سیاسی کارکن کی حیثیت سے محترمہ فاطمہ جناح کے انتخابی جلسوں میں شرکت کی اور اپنی پُر جوش نظموں سے سامعین کو مسحور کر دیا۔حبیب جالبؔ کی انقلابی شاعری سُن کر جلسوں کے شرکا کے جوش و خروش میں بے پناہ اضافہ ہو جاتا۔حبیب جالبؔ کی نظم ’’مادر ملت ‘‘ سُن کر حاضرین کی آ نکھیں بِھیگ بِھیگ جاتیں ۔
ما در ملت
ایک آواز سے ایوان لرز اُٹھے ہیں
لوگ جا گے ہیں تو سلطان لرزاُٹھے ہیں
آمدِ صبح ِبہارا ں کی خبر سنتے ہی
ظلمتِ شب کے نگہبان لر ز اُٹھے ہیں
دیکھ کے لہر مرے دیس میں آزادی کی
قصر ِا َفرنگ کے دربان لرز اُٹھے ہیں
مشعلیں لے کے نکل آئے ہیں مظلوم عوام
غم و اندوہ میں ڈُوبی ہے محلات کی شام
یاس کا دور گیا خوف کی زنجیر کٹی
آج سہمے ہوئے لوگوں کو مِلا اِذنِ کلام
راہ میں لا کھ صداقت کے مخالف آئے
قو م نے سن ہی لیا مادر ملت کا پیام
ماں کے قدموں ہی میں جنت ہے اِدھر آجاؤ
ایک بے لوث محبت ہے اِدھر آجاؤ
وہ پھر آئی ہیں ہمیں ملک دِلانے کے لیے
ان کی یہ ہم پہ عنایت ہے اِدھر آجاؤ
اس طرف ظلم ہے بے داد ہے حق تلفی ہے
اس طرف پیار ہے اُلفت ہے اِدھر آجاؤ
صدارتی انتخابات کے دوران وفاقی وزیر اطلاعات عبدالوحید نے محترمہ فاطمہ جناح کے خلاف سخت لہجے میں بات کی ۔ صدر محمد ایوب خان کی کابینہ میں شامل اس وزیر نے محترمہ فاطمہ جناح کے سیاسی کردار اور انتخابی جلسوں پر تنقید کی ۔ عبدالوحید نے صدر محمد ایوب خان کی انتخابی مہم میں محترمہ فاطمہ جناح کی تقاریر کو حقائق سے متصادم قرار دیا ۔حبیب جالب ؔنے عبدالوحید کے قبیح کردار،ملک دشمنی اور احسان فراموشی کو نا پسند کرتے ہوئے اسے آڑے ہاتھوں لیا۔
مِس فاطمہ جناح کی باتیں بھی ہیں غلط
منطق ملاحظہ ہو یہ عبدالوحید کی
اِس بے ادب نے مادرِ ملت کی شان میں
گُستاخ ہو کے اپنی ہی مٹی پلید کی
حق بات پہ یہ داد بھی دیتا تو کس طرح
اِس نے ضمیر بیچ کے کرسی خرید کی
یہ جو وحید خان ہے تنہا وطن پرست
لعنت بہت بڑی ہے یہ دورِ جدید کی
اپنی مشہور نظم ’’بیس گھرانے ‘‘میں حبیب جالبؔ نے ملک میں پائی جانے والی طبقاتی کش مکش اور استحصالی طبقے کے مکر کی چالوں کو اشعار کے قالب میں ڈھالا ہے ۔حبیب جالبؔ نے تخیل اور شعور کے اِمتزاج سے ایسا منفرد اسلوب اپنایاجس کے معجز نما اثر سے پُوری قوم میں بیداری کی لہر دوڑ گئی۔ماضی کے تلخ تجربات کی روح فرسا یادیں اپنے حافظے میں سموئے ہوئے حبیب جالبؔ نے آمریت کے خلاف رائے عامہ ہموار کرنے میں اپنی شاعری کو وسیلہ بنایا۔
حبیب جالبؔ
بیس گھرانے (نظم)
بیس گھرانے ہیں آباد
اور کروڑوں ہیں ناشاد
صد ر ایوب زندہ باد
آج بھی ہم پر جاری ہے
کا لی صدیوں کی بے داد
صد ر ایوب زندہ باد
بیس روپیہ من آٹا
اس پر بھی ہے سناٹا
گوہر ، سہگل، آدم جی
بنے ہیں برلا اور ٹاٹا
ملک کے دشمن کہلاتے ہیں
جب ہم کرتے ہیں فریاد
صد ر ایوب زندہ باد
لائسنسوں کا موسم ہے
کنونشن کوکیاغم ہے
آج حکومت کے درپر
ہر شاہیں کا سر خم ہے
درسِ خودی دینے والوں کو
بھول گئی اقبال کی یاد
صد ر ایوب زندہ باد
عام ہوئی غنڈہ گردی
چپ ہیں سپاہی باوردی
شمع نوائے اہل سخن
کالے باغ نے گُل کردی
اہلِ قفس کی قید بڑھاکر
کم کرلی اپنی میعاد
صد ر ایوب زندہ باد
گلی گلی میں جنگ ہوئی
خلقت دیکھ کے دنگ ہوئی
اہلِ نظر کی ہر بستی
جہل کے ہاتھوں تنگ ہوئی
وہ دستور ہمیں بخشا ہے
نفرت ہے جس کی بنیاد
صد ر ایوب زندہ باد
پس نو آبادیاتی دور کے آغاز ہی سے پاکستانی زبانوں کے ادیبوں نے بالعموم اور اُردو زبان کے ادیبوں نے با لخصوص تخلیقی فعالیت کے وسیلے سے ملک کودرپیش سماجی اور معاشرتی مسائل کی جانب توجہ مبذول کرانے کی سعی کی۔بر صغیر سے نوآبادیاتی دور کے خاتمے اور پاکستان کی آزادی کے بعد پسِ نو آبادیاتی دورکے آغاز کے ساتھ ہی اُردو کے جری تخلیق کاروں نے اپنے تجربات اور مشاہدات کو الفاظ کے قالب میں ڈھال کر قارئین کے جذبات ، احساسات اور ادراک کو اس طرح مہمیز کیا کہ یہ سب تجربات و مشاہدات قاری کے عام شعور میں رچ بس گئے ۔ پاکستان میں پہلے مارشل لا کے نفاذ کے بعد جب اظہار و ابلاغ پر پابندیاں لگا دی گئیں تو ادیبوں نے قارئین کی ادبی کیفیات ، جذبات، احساسات اور مصائب و آلام کی لفظی مرقع نگاری پر پورے خلوص سے توجہ دی۔ یہی وجہ ہے کہ اس عہد کاادب اور فنونِ لطیفہ اصلاح اور مقصدیت سے لبریز دکھائی دیتا ہے ۔ اس میں معاشرتی اصلاح ،عوامی بیداری ، سلطانی ٔ جمہور ، بنیادی انسانی حقوق کی بحالی اورمعاشرتی عدل وانصاف جیسے ا ہداف تک رسائی کو اوّلیت دی گئی ۔ باشعور ادیبوں نے آزادی ٔ اظہار کے لیے انتھک جدو جہد کی۔ جبر کے خلاف سینہ سپر ہونا اور حق و صداقت کا علم بلند رکھنا ایک فطری اورجبلی میلان کی صورت میں ان کے اسلوب میں جلوہ گر ہے۔حریتِ فکر کے جذبات سے معمور یہ تخلیقات مسحور کن اثر آفرینی سے متمتع ہیں۔ اس عہد کی شاعری فکر و خیال کی نئی شمعیں فروزاں کر کے جہد و عمل کی راہ پر گامزن رہنے پر مائل کر تی ہے۔جبر کے ماحول میں ادیبوں نے مصلحت اندیشی کے داغ سے اپنا دامن آلودہ نہ ہونے دیا ۔ معاشرے میں ذہنی افلاس کے مارے تھوتھے چنے، بہتی گنگا میں ہاتھ دھونے والے چکنے گھڑے، چڑھتے سورج کی پر ستش کر نے والے تھالی کے بینگن، جو فروش گندم نما او ر بگلا بھگت قما ش کے مسخرے اپنی اوقات بُھول گئے۔ ان کے مکر کے خلاف حریت فکر کے مجاہد وں کی آواز شعلہ جوالا بن کرسامنے آئی ۔ ہر عہد میں با ضمیر تخلیق کار اورحریت ِ فکر وعمل کے مجاہدفکر و خیال اور جذبات و حساسات کی اساس پر اپنے فن کا عظیم الشان قصرتعمیرکرکے ندرتِ تخیل کے معجز نما اثر سے وقت کے فراعنہ،ہلاکو،چنگیز ،ہٹلر ،کلائیو اور فریدوں کے جور و ستم کا کریہہ چہرہ سامنے لانے میں کسی ہچکچاہٹ کا مظاہرہ نہیں کرتے ۔ اپنے ذہن و ذکاوت اور بصیرت و تدبر کو روبہ عمل لاتے ہوئے اردو زبان کے ادیبوں نے پس نو آبادیاتی دورمیں سائنسی اندازِ فکر اپناتے ہوئے قوم کو درپیش تمام مسائل کا معقولیت کے ساتھ جائزہ لینے کے بعداپنی تخلیقی فعالیت کوروح ِ عصر سے ہم آ ہنگ کر دیا۔
جب ملک میں آمریت مسلط ہو گئی توپاکستانی ادیبوں نے سیاسی ،تہذیبی ،سماجی اور معاشرتی عوامل پر اس کے اثرات کا جائزہ لیتے ہوئے ایک منفرد نو عیت کی طرزِ فغاں ایجا د کی ۔ بر صغیر میں نوآبادیاتی دور کی نوے سال پر محیط شبِ تاریک کے ختم ہونے کے بعد نمودِ سحر اور طلوعِ صبحِ بہاراں کی آس بندھی تو المیہ یہ ہوا کہ نو آزاد مملکت کے باشندوں کو پھر بھیانک تِیرگی نے گھیر لیا ۔ اکثر لوگوں کو یہ گمان گزرا کے وہ تو گجر بجنے سے فریب کھا گئے ہیں۔نو آبادیاتی دور کے محکوم با شندوں اور ارضِ وطن کی جانب ہجرت کرنے والے آبلہ پا مہاجرین کو حصولِ آزادی کے بعد بھی اصلاح احوال کی کوئی صورت دکھائی نہ دی تو وہ دِل تھام کر رہ گئے۔ اس کے باوجوداُنھوں نے حوصلے اور اُمید کی شمع فروزاں رکھی اور ہوائے جور و ستم میں بھی رُخِ وفا کی تابانی کم نہ ہونے دی۔علاقائی،لسانی ،نسلی ،فرقہ وارانہ اورطبقاتی عصبیتوں اور امتیازات کو بیخ و بن سے اکھاڑ پھینکنے کا عزم لیے پاکستانی ادیبوں نے قومی وحدت اور ملی وقار کو ہمیشہ پیشِ نظر رکھا۔مطلق العنان استبدادی حکومتوں کے دور میں جابر سلطان کے سامنے کلمۂ حق کہنا اپنی جان پر کھیلنے کے مترادف ہے ۔پاکستانی ادیبوں نے سچائی کی خاطر بہت قربانیاں دیں اور پاکستانی قوم کے دلوں میں جمہوریت اور آزادی کی تڑپ پیدا کی۔پاکستانی ادیبوں نے معقولیت کے ساتھ عملی زندگی کے معمولات انجام دینے پر اصرار کیا۔وادیٔ خیال میں مستانہ وار گھومنے ، ہوا میں گرہ لگانے اور بے پرکی اڑانے کے بجائے ادیبوں نے پاسبانِ عقل کو دِل کے ہمراہ رکھا تا کہ حالات کا صحیح تجزیہ کیا جاسکے۔ ادیبوں نے استحصال ، جو رو ستم ، شقاوت آمیز نا انصافیوں ، بنیادی انسانی حقوق کی پا مالی ، انصاف کُشی اور انسا نیت کی توہین ، تذلیل ، تضحیک اور بے تو قیری کے خلاف آواز بلند کرکے اہم قو می خدمت انجام دی ۔ آزادی کے بعد اس خطے کے حالات کی کایا پلٹ گئی ۔ ادیبوں نے زندگی کی حقیقی معنویت کی تفہیم اور زندگی کے راز ہائے سر بستہ کی جستجو کو بہت اہم قرار دیا۔ ان کی تخلیقی فعالیت زندگی کے حقیقی شعور کو اپنے دامن میں سمو ئے ہوئے ہے۔ ادیبوں کو اس بات کا شدت سے احساس تھا کہ جب تک قو م میں زندگی کی حقیقی معنویت کا شعور اُجاگر نہیں کیا جاتا اس وقت تک حالات میں تبدیلی ناممکن ہے۔ا فراد کی داخلی کیفیت کو بدلنے کے لیے یہ امر ناگزیرہے کہ اُنھیں زندگی کے اسرار و رموز کے بارے میں مکمل آگہی فراہم کی جائے ۔ پاکستانی ادیبوں نے پس نو آبادیاتی دور میں تخلیقِ ادب کے سماجی حوالوں پر خاص توجہ دی۔ اس عہد کی تخلیقات میں نظری سے زیادہ حریت فکر کے جبلی عنصر کا غلبہ ہے۔ فطرت کے مقاصد کے نگہبانی کر تے ہوئے ادیبوں نے زندگی کے داخلی اور خارجی حقائق کوجس انداز میں پیرایۂ اظہار عطاکیا ۔ اس سے ادب کی عمرانی افادیت کو چار چاند لگ گئے ۔ جبر کے ماحول میں حبس کی عقوبت و اذیت کے باعث طائرانِ خوش نوا بھی اپنے آشیانوں میں جان کنی کے عالم میں ہوتے ہیں۔ اس قسم کے مسموم ماحول میں نوا ہائے دل کشا اور فکر پرور تخلیقات پژمردگی دُور کر کے دلوں کو ایک ولولہ ٔ تازہ عطا کرنے کا وسیلہ ثابت ہوتی ہیں ۔ آزادی کے بعد پا کستان کے ابتدائی بائیس سال اس اعتبار سے نہایت ا ہم ہیں کہ ان صبر آزما حالات اور ابتلا کے دور میں پا کستانی ادیبوں نے اپنے اشہبِ قلم کی جولانیاں دکھا تے ہو ئے نہ صرف نوآزاد مملکت کے باشندوں کے کردار اور اعمال وافعال کو موضوع بنایا ہے بل کہ روشنی کے اس سفرکی تاریخی رودادبھی محفوظ کی ہے جو نوے سال کی بھیانک رات کے خاتمے کے بعد شروع ہوا تھا۔پاکستانی ادیبوں نے تخلیقی فعالیت کو ایک ایسے معجزنما طبعی فن کے طور پر اپنے عمل کی اساس بنایاجس کا مواد حیات وکائنات اور انسانیت کو درپیش مسائل سے حاصل کیا گیا ۔ اس عہد کی تخلیقا ت میں ادیبوں نے سیاسی اورمعاشرتی زندگی کے حالات کا اس گہرائی سے مطالعہ کیا کہ غیر جانب دارانہ اور بے باکانہ تحلیل و تجزیہ کا کر شمہ دامن دل کھینچتا ہے ۔ معاشرے کے مختلف طبقات اور مقتدر حلقوں کے حالات کا موازنہ ، کھر ے کھوٹے میں امتیا ز اور بے لاگ انداز میں زندگی کے تلخ حقائق کے بارے میں فیصلہ کن انداز میں اظہارِ خیال حریت فکر کے علم بردارادیبوں کے اسلوب کا نمایاں وصف رہا۔ پاکستانی ادیبوں نے جوکچھ لکھا وہ تپاکِ جاں سے لکھا یہی وجہ ہے کہ ان کی تحریر یں قارئین کے باطن میں سما کر روحانی کیفیت و مستی سے سر شار کر دیتی ہیں ۔ تعمیر و ترقی کی سوچ نے تخریب کے مسموم اثرات اور بے عملی کے تار عنکبوت ملیا میٹ کردیئے ۔
پاکستانی ادیبوں نے آمریت کے دور میں ہر قسم کے جبر کا صبر و تحمل،استقامت اور خندہ پیشانی سے مقابلہ کیا۔ادیبوں نے سیاسی،سماجی،معاشرتی،تہذیبی اور ثقافتی زندگی کے جُملہ نشیب و فراز کے بارے میں اپنے تجربات و مشاہدات کو پُوری دیانت ،خلوص اور دردمندی کے ساتھ پیش کرتے رہے۔ معاشرے میں زندگی بسر کرتے ہوئے افرا دکو اس حقیقت کا احساس وادراک ہو نا چاہیے کہ زندگی محض منفعت اور خسارے کا نام نہیں بل کہ یہ جوئے شِیر و تیشہ و سنگِ گراں سے عبارت ہے۔کو ہ کن کی کُٹیا جو طوفانِ نوح ؑ کی باقیات میں سے معلوم ہوتی ہے وہاں روشنی کی ضیا کوہ کن کے ہاتھ میں تھامے ہوئے تیشے کے شرر کی مرہونِ منت ہے ۔حریتِ فکر کے علم بردار ادیبوں نے مراعات یافتہ استحصالی طبقے کے مکر کی چالوں کا پردہ فاش کیا۔ان جری تخلیق کاروں نے معاشرے کے پس ماندہ ،مفلوک الحال اور آلامِ روزگار کے پاٹوں میں پِسنے والے طبقات کے مصائب،آلام،اذیتوں ،عقوبتوں اور دُکھوں کا جونقشہ الفاظ میں کھینچا ہے اُسے پڑھ کر قاری کی آنکھیں ساون کے بادلوں کی طرح بر سنے لگتی ہیں ۔پاکستانی ادیبوں نے جذبۂ انسانیت نوازی سے سرشار ہو کر عدل و انصاف ،انسانی مساوات اور سلطانی ٔ جمہور کاجو خواب دیکھا تھااس کی تعبیر کے لیے سعی ٔ پیم نا گزیر ہے ۔ پاکستان کے ممتاز ادیبوں نے ارباب ِ اختیار کی توجہ اس جانب مبذول کرانے کی کوشش کی کہ قیام پاکستان کے بعد اس نو آزاد مملکت کے باشندوں کو آزادی کے ثمرات سے مستفیض ہونے کے مواقع فراہم کیے جائیں۔اس عہد کے ادیبوں کے قلب کی گہرائیوں سے نکلنے والی بات قاری کی روح کو مسخر کر لیتی ہے اور روحانی کیف و مستی سے سرشار کرنے کا وسیلہ ثبت ہوتی ہے ۔ان ادیبوں کے ذوقِ سلیم نے تہذیب و تمدن اور ثقافت و معاشرت کو جس رفعت اور بلند آہنگ سے آشناکیا وہ اپنی مثال آ پ ہے۔قلزم ِزیست کی روانیوں کے مانند ان ادیبوں کی زندگی کی تلاطم خیز جو لانیوں میں بھی محروم طبقے کی الم ناک کہانیوں کا احوال مذکور ہے ۔ان ادیبوں نے سیلِ زماں کے مہیب تھپیڑوں ، استحصالی طبقے اور سادیت پسنددرندوں کے لذت ایذا کے عجیب بکھیڑوں کواِس بے ساختہ انداز سے پیش کیا ہے کہ یہ لفظی مرقع نگاری قاری کے لیے ایک منفرد تجربے کی صور ت اختیار کر لیتی ہے ۔جبر کے ہر طریقے اور استبداد کے ہر انداز کو پائے استقامت سے ٹھکراتے ہوئے پاکستانی ادیبوں نے یہ ثابت کر دیا کہ اگر طاقت کے بل بوتے پر تخلیق کار کو متاعِ لوح و قلم سے محروم کر دیا جائے تو پِھر بھی وہ خونِ دِل میں اپنی فگار اُنگلیاں ڈبو کر معاشرتی زندگی کی حالتِ زار کے متعلق اپنے تاثرات پُوری دیانت اور جرأت کے ساتھ پیش کرنے کا حو صلہ رکھتا ہے ۔صبح پرست ادیبوں کا ہمیشہ سے یہی مسلک رہا ہے کہ قلم تھا م کر ید بیضا کا معجزہ دکھایا جائے اور جبر کے حصار کو تیشۂ حرف سے منہدم کرنے میں انہماک کا مظاہر ہ کیا جائے۔اگر ظالم و سفاک جابر قوتوں کو یہ گمان ہے کہ پرورشِ لوح وقلم کا فریضہ انجام دینے والے ادیبوں کے ہاتھ قلم کرنے سے حریتِ فکر اور ضمیر کی للکار سے نجات مِل سکتی ہے تو یہ ان کی خام خیالی ہے ۔جری تخلیق کار اپنے دِل کے افسانے نگاہوں کی زباں سے سُنانے پر بھی قادر ہیں۔
قیامِ پاکستان کے بعد حالات نے عجیب صور ت اختیار کر لی۔مغربی حصے میں وحدت مغربی پاکستان کا حکم جاری ہوا اور مشرقی پاکستان کو اس کے مساوی درجہ دیا گیا۔پورے ملک کی قومی زبان اُردو قرار پائی۔اکثر لوگوں کا خیال تھا کہ اردو وہ زبان ہے جو زیادہ تر پنجاب،یوپی،سی پی،حیدر آباد اور بہار میں بولی اور سمجھی جاتی ہے ۔پاکستان کی علاقائی زبانوں کو اس طرح نظرانداز کر دینامصلحت کے خلاف تھا۔ مشرقی پاکستان میں بنگالی زبان کے ادبیات عالیہ کی صدیوں پرانی روایات ا س قدیم زبان کی مقبولیت کی دلیل سمجھی جاتی تھیں۔ بیسویں صدی میں رابندر ناتھ ٹیگور (Rabindranath Tagore) نے اپنی تخلیقی کامرانیوں سے بنگالی زبان و ادب کی ثروت میں بے پناہ اضافہ کیا۔ رابندر ناتھ ٹیگو ر (1861-1941)بنگالی زبان کا وہ یگانہ ٔروزگار جید عالم اور تخلیق کار تھا جس کے افکار نے اس خطے کی تہذیب و ثقافت پر دُور رس اثرات مرتب کیے ۔وہ زبان جس نے سرت چندر ا (Sarat Chandra Chattopadhyay) جیسا افسانہ نگار اور ناول نگار پید اکیا اُس کی ادبیت کے بارے میں دو رائیں نہیں ہو سکتیں۔بیسویں صدی میں سرت چندرا (1876-1938)نے بنگالی باشندوں کے غم و آلام،طرزِ حیات اور معاشرت کے بارے میں نہایت حقیقت پسندانہ انداز میں قلم اُٹھایا۔اس عہد میں اصل مسئلہ یہ تھا کہ پاکستان کی قومی زبان کی درخشاں روایات مشرقی پاکستان کے عوام کے لیے مکمل طور پر اجنبی تھیں ۔مقتدر طبقے کی ضعف بصارت کایہ عالم تھا کہ ریگ ِصحرا اور گرد اُڑاتی ہو ئی آندھی کو بھی یہ گھنگھور گھٹاکا نام دیتے تھے۔اپنے ذاتی مفادات کی خاطر یہ طبقہ قو می مفادات کو پس پشت ڈالنے میں کوئی عار محسوس نہ کرتا ۔ مقتدر طبقے کے حامی اپنی ہر خامی کو تقدیر کا لکھا سمجھ لیتے ۔ یہ بات روزِ روشن کی طرح واضح تھی کہ مشرقی پاکستان میں پائی جانے والی بے چینی کو مغربی پاکستان کا مقتدر حلقہ سنجیدگی سے سمجھنے کی کوشش نہیں کررہا تھا۔مارشل لا(1958) کے نفاذ کے بعد پاکستان میں صدر محمد ایوب خان کی آمریت کے خلاف مزاحمت چیونٹی کی رفتا ر سے چل رہی تھی۔مشرقی پاکستان کے طول و عرض میں سیاسی بے چینی مسلسل اضافہ ہو رہا تھا اور عوام میں بیگانگی کا احساس بڑھ رہا تھا ۔ان حالات میں مغربی پاکستان ہائی کورٹ کے چیف جسٹس رستم کیانی (Malik Muhammad Rustam Kayani) نے غاصب حکمرانوں کو آئینہ دکھانے میں کبھی تامل نہ کیا۔جسٹس رستم کیا نی (پیدائش :1902،وفات:1962)نے سرکاری ملازمت میں ہونے کے باوجود حریت ِ ضمیر سے جینے کی را ہ اپنائی۔جسٹس رستم کیانی جب مغربی پاکستان کے چیف جسٹس (1958-1962) کے منصب پر فائز تھے تو انھوں نے عدلیہ کی آزادی کو بر قرار رکھنے کے لیے نہایت جرأت مندانہ فیصلے کیے۔مارشل لا کے زمانے میں جبر کے ماحول میں جسٹس کیانی نے جرأت اظہار کی جو مثال قائم کی وہ آنے والی نسلوں کے لیے روشنی کا مینار ثابت ہو گی۔صدر محمد ایوب خان کے زمانے میں پاک بھارت جنگ (1965)کے بارے میں ادیبوں نے کھل کراپنا موقف پیش کیا ۔یہ جنگ سترہ روز (06-09-1965 To 23-09-1065)روز جاری رہی جس میں دونوں پڑوسی ممالک کا بہت جانی اور مالی نقصان ہوا۔اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل اوتھان(U Thant)کی فوری مداخلت سے جنگ بند ہو گئی۔ اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل اوتھان (عہدہ:1961-1971)نے قیام امن کی کوششوں پر زور دیا اور دونوں ممالک کے سر براہوں کو گفت و شنید کے ذریعے مسائل حل کرنے پر آمادہ کیا۔ روسی حکومت کے سر براہ کو سی جن (Alexei Kosygin) کے مشورے سے صدر محمد ایوب خان اور بھارت کے اس وقت کے وزیر اعظم لا ل بہادر شاستری نے تاشقند میں ملاقات (چار جنوری 1966تا دس جنوری1966)کی اور جنگ بندی کا معاہدے پر دستخط ہو گئے۔حبیب جالبؔ نے اس جنگ پر اپنے خیالات کااظہار کرتے ہوئے لکھا ہے :
یہاں جب جانسن نے مات کھائی
تو کو سی جن سے اپنی سُر مِلائی
ہزاروں میل سے اوتھان آیا
پیام ِصلح اپنے ساتھ لایا
ہوئے خوش تاشقند اعلان پرہم
رہی چشم گل و لالہ میں شبنم
ہوا کشمیر اک بُھولی کہانی
شہیدوں کا لہو گو یا تھا پانی
یہی خوں مال پر ہم نے بہایا
یہی خوں انتقام خوں بھی لے گا
ستم گر کی کلائی موڑ دے گا
حبیب جالبؔ نے اپنی شاعری میں مقتدر طبقے کے کردار اور ملک کے سیاسی وسماجی حالات کو بڑی جرأت اور بے باکی کے ساتھ ہدفِ تنقید بنایا۔حبیب جالبؔ کی جو نظمیں اپنے عہد میں بہت مقبول ہوئیں ان میں بد بخت سیاست دانو،جمہوریت ،امریکہ کالی دیوار،اپنی جنگ رہے گی،بھیک نہ مانگو،یہ وزیران کرام،قصہ خوانی کے شہیدوں کی نذر اور وطن کوکچھ خطرہ نہیں شامل ہیں۔مارشل لا کے دور میں حبیب جالبؔ کو خوف زدہ کرنے کی خاطران پر کئی جعلی مقدمات قائم کیے گئے مگر حبیب جالبؔ اپنے موقف پر ڈٹے رہے اور جبر کے سامنے سِپر انداز ہونے سے انکار کر دیا۔ ان مقدمات میں کئی سلطانی گواہ بھی آفت ِ نا گہانی بن کر وارد ہوئے مگر حبیب جالبؔ اس سے پریشان نہ ہوئے اور صعوبتوں کے سفر سے دِل برداشتہ نہ ہوئے۔حبیب جالبؔ کی محترمہ فاطمہ جناح کی انتخابی مہم میں شرکت آمر کے دِل میں کانٹے کی طرح کھٹکتی تھی ۔ محترمہ فاطمہ جناح کے جلسوں میں حبیب جالبؔ کی شرکت سیعوام کا جوش و خروش مسلسل بڑھنے لگا ۔ حکومت نے حبیب جالبؔ کو ایک خود ساختہ اور جعلی مقدمے میں گرفتار کرلیا ۔اس من گھڑت مقدمے میں جو الزامات عائد کیے گئے اُن میں ایک شخص کا بیس ہزار روپیہ قرض ادا نہ کرنا ، اس پر چاقو سے قاتلانہ حملہ کرنا اور تھیلے میں شراب سے بھر ی ہوئی دو بوتلیں رکھنا شامل تھا ۔ اس عہدِ ستم کے کرب ناک حالات کے بارے میں حبیب جالبؔ نے لکھا ہے :
فرضی مقدمات ہیں چھوٹی شہادتیں
ہم پھر بھی لکھ رہے ہیں جنوں کی حکاتیں
مجرم کی اب نشاں دہی کو ن کرسکے
اب تک ہیں بند اہلِ قلم کی عدالتیں
زنجیر ِپا جو توڑ رہے ہیں قفس نصیب
ہیں اہلِ آشیاں کی نظر میں بغاوتیں
آیا ہی چاہتا ہے اب اہلِ خرد کا دور
مسند نشیں رہیں گی کہاں تک جہالتیں
بر طانوی سامراج سے نجات حاصل کرنے کے بعدپاکستانی ادیبوں نے ہمیشہ آزادی ٔ اظہار پر اپنی توجہ مرکوز رکھی۔وہ تیزی سے بدلتے ہوئے حالات کے چیلنج سے عہدہ بر آ ہونے کا حوصلہ رکھتے تھے۔وہ جانتے تھے کہ ممالک کی تعمیر و ترقی اور اقوام کی تقدیر کا راز اس قوم کے افراد کی نیک نیتی میں مضمر ہے ۔ انسان کی نیّتِ طیبہ جواس کے خانۂ لا شعور میں ضو فشاں ہوتی ہے اسی سے خیر و فلاح اور انسانی ہمدردی کے سوتے پھوٹتے ہیں۔ادب کی آفاقی اقدار کی ترویج و اشاعت اور جذبہ ٔ انسانیت نوازی کی نمو اور بقا میں انسان کی نیّت کا گہرا عمل دخل ہے ۔آمریت کا دور مسلط کرنے میں فردِ واحد کی نیّت کا فتور شامل ہے ۔ دنیا بھر میں آمر اسی نوعیت کا طرزِ عمل اختیار کرتے ہیں۔ اس قسم کی بد نیتی کی ایک مثال چلی کی ہے ۔ چلّی میں ایک فوجی جر نیل اگستو پنوچٹ (Augusto Pinochet)نے امریکہ کی آ شیر باد سے 11ستمبر 1973کو چلّی کے صدر سلواڈور ایلنڈے (Salvador Allende) کی جمہوری طور پر منتخب حکومت کا تختہ اُلٹ کر اقتدار پر قبضہ کر لیا اور مسلسل سترہ برس تک (1973-1990) ملکی اقتدار اور ملک کی مسلح افواج کی کمان پر غاصبانہ قبضہ جمائے رکھا۔ چلّی میں رونما ہونے والے واقعات اور سیاسی بے چینی کا ذکر کرتے ہوئے نوم چومسکی نے کہا تھا :
"I wasn,t there long enough to get much of and impression ,but it,s very clearly a country under military rule.We call it a democracy ,but the military sets very narrow bounds on what can happen.You can see it in peopl,e attitudes---they know there are limits they can,t go beyons,and in private they tell you ,that with many personal examples.(42)
کسی ملک میں جب فوج اقتدار پر قبضہ کرتی ہے تو پُورا جمہوری عمل درہم بر ہم ہو جاتا ہے ۔فوجی ڈکٹیٹر کو اپنے ملک کی مسلح افواج پر مکمل کنٹرول ہوتا ہے اس لیے وہ بے خوف و خطر مسلح افواج کواپنے اقتدار کو مستحکم کرنے کے لیے استعما ل کرتا ہے۔عسکری ماہرین کا خیال ہے کہ جب بھی کوئی مہم جُو جرنیل جمہوری حکومت کا تختہ اُلٹ کر اقتدار پر قبضہ کرتا ہے تو اُس کی تما م قوت ،ہیبت اور جاہ و جلال کا دار ومدار ملک کی مسلح افواج ہی پر ہوتا ہے ۔مسلح افواج کے کئی بڑے عہدے دار تو اپنی مدت ملازمت پُوری کرنے کے بعداپنے گھر کو سدھار سکتے ہیں مگر فوجی انقلاب لانے والاجر نیل اپنی جگہ پر موجود رہتا ہے۔اگر ضرورت پڑے تو مزید اختیارات حاصل کرنے کی خاطر وہ ہنگامی حالات نافذ کرکے چام کے دام چلا سکتا ہے ۔ اس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ قومی تعمیر و ترقی کے تمام منصوبے اور عوامی فلاح و بہبود کے سب دعوے طاقِ نسیاں کی زینت بن جاتے ہیں۔ پاکستان کے ممتاز اہل ِ قلم نے پس نو آبادیاتی دور میں جبر کے لرزہ خیز واقعات سے مایوس ہونے کے بجائے یہ واضح کیا کہ معاشرتی زندگی میں کامیابی اور کامرانی کے جھنڈے گاڑنے کے لیے محنت شاقہ،حب الوطنی،انسانی ہمدردی اور حریتِ فکر و عمل نا گزیر ہے ۔ جین شارپ(Gene Sharp) نے کسی بھی ملک میں رونما ہونے والے فوجی انقلاب کے بارے میں لکھا ہے:
"A military coup d'e'tata against a dictatorship might appear to be relatively one od the easiest and the quickest ways to remove a particularly repugnant regime.However , there are very serious problems with that techinique.Most importantly ,it leaves in place the existing maldistribution of power between the populatuion and the elite in control of the government and its military forces. (43)
آمریت کے دور میں معاشرتی زندگی کا امن و سکون ،اُمنگیں اور آرزوئیں اور بلند نصب العین کی جد و جہد کے جذبات ختم ہو جاتے ہیں۔سلطانی ٔ جمہور کی بساط لپیٹ کر فردِ واحد تواپنی مانی کرنے لگتا ہے مگر اسے محکوم باشندوں کے مسائل کا کوئی احساس نہیں ہوتا۔ وہ جلتے روم کو دیکھ کر نیرو کے مانند چین کی بانسری بجانے میں مصروف رہتا ہے ۔مسلسل شکستِ دِل کی جان لیوا کیفیت اور اعصاب شکن ماحول کو دیکھ کر جب آرزوئیں دِل میں مات کھا کر رہ جاتی ہیں تو محکوموں کی سب توقعات ہی اُٹھ جاتی ہیں۔ان حالات میں بے حسی کا عفریت چار سُو منڈلانے لگتا ہے ۔کسی بھی قوم کے لیے یہ بہت بُرا شگون ہے جس کے نتیجے میں وہ قوم کردار کی متاعِ بے بہا،شحصیت کے حسن اور دل آویزی اور سعی ٔ پیہم کی آئینہ دار ستیز سے محروم ہو جاتے ہیں۔آمریت کے مسلط کردہ حبس میں فکر و خیال اور جہد وعمل کے سب زاویے کج فہمی اور بے سمتی کے باعث سرابوں کے تباہ کن عذابوں میں نیست و نابُود ہو جاتے ہیں۔آئین اور قانون کی بالا دستی کو حریتِ فکر کے علم بردار ادیبوں نے ہمیشہ سلطانی ٔ جمہور کی جد جہد کو اپنا نصب العین بنایا ۔پس نو آبادیاتی دور میں پاکستانی ادیبوں نے جہد و عمل کو شعار بنایا۔ جدید دور کے ممتا نقاد ژاک دریدا( ( Jacques Derrida ,1930-2004 نے اپنی تصنیف(The Acts Of Religion)میں شامل اپنے ایک اہم مضمون قانون کی قوت(The Mystical Foundations Of Authority)قانون کی بالا دستی کے بارے میں کئی چشم کشا صداقتوں کی جانب متوجہ کیا ہے ۔ اس کا خیال ہے کہ آئین و قانون کے صریحی اختیارات کا تاج محل روحانیت اور تصوف کی اساس پر استوار ہے۔آئین و قانون کی بالادستی کے بارے آمر ہمیشہ غیر واضح اندازِ فکر اپناتے ہیں جب کہ آئین و قانون کی حکمرانی معروضی حقائق کی امین ہے ۔اپنے اس مضمون میں ژاک دریدا نے لکھا ہے :
" I have published my self ,recourse to the word "force" is both very frequent and , in strategic places,I would even say decisive,but at th same time always or almostalways accompanied by an explict reserve ,a warning [miseen grade].I have often called for vigilance,I have recalled myself to it,to the risks spread by this word ,whether it be the risk of an obsecure,substabtialist,occulttomystic concept or risk of of giving authorization to violent,unjust,arbitrary force."(44)
پس نو آبادیاتی دور میں پاکستانی ادیبوں نے حریت فکر و عمل کی مظہر اپنی تخلیقات کو اسلوب ، ہیت اور فکر وخیال کے جمالیاتی عناصر سے مزین کرکے ان کی اثر آفرینی کو چار چا ند لگا دئیے ۔ نئے خیالات ، منفرد اسالیب اور جو ش و جذبہ کی فراوانی کو ان ادیبوں کی جا نفشانی کا ثمر سمجھا جاسکتا ہے۔مضامین کا تنوع ، اسلوب کی شگفتگی اور ندرت ، سماج اور معاشر ے کی فکری سطح کی تفہیم ، حیات و کائنات کے مسائل کی حقیقی ترجمانی اور ہر قسم کے جبر کے خلاف آواز بلند کر نا ادیبوں کا ادبی مسلک رہا ۔ آمریت کے خلاف جد و جہد میں ادیبوں نے جس فہم فراست ،غور و فکر تدبر و حکمت اور خلوص و درد مند ی کو اپنے اسلوب کی اساس بنایا اس سے دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی علاحد ہ ہو تا چلا گیا ۔پا کستا نی ادیبوں نے پس نو آبادیاتی دور میں معا شرتی اصلاح اور قو می تعمیر و ترقی کو ہمیشہ اوّلیت دی ۔معا شرتی زندگی میں پائی جانے والی قباحتوں، بے ہنگم تضادات اور شقاوت آمیز ناانصافیوں کے خلاف لکھتے وقت کبھی مصلحت کی پروانہ کی ۔ حریت فکر کے مجاہدوں نے جبر کے خلاف ہمیشہ کھل کر لکھا ۔ ظلم کے خلاف لکھتے وقت الفاظ کو کبھی فرغلوں میں لپیٹ کر پیش نہ کیا بل کہ جو بات کہی وہ ببانگ دہل کہی ۔ حق گوئی ، بے باکی اور صداقت نگاری کے عصا سے سب مار آستین مارڈالے ۔ اس تخلیقی فعالیت نے قارئین کو ذہنی فعالیت اور روحانی مسرت سے متمتع کیا۔
سیلِ زماں کے مہیب تھپیڑے تخت و کلاہ و تاج کے سب سلسلوں اور سطوتِ کوہ ہمالہ کو بھی خس و خاشاک کے مانند بہا لے جاتے ہیں۔ صدر ایوب خان کی حکومت 1965 میں گردش ایام کی زد میں آگئی ۔ اس کے بعد آمریت کا یہ دور اپنے منطقی انجام کی طر ف بڑھنے لگا۔ اس عرصے میں پاکستانی ادیبوں نے حریتِ فکر کا علم بلند رکھا۔حریت فکر و عمل کا تخیل کے ساتھ نہایت گہر ا تعلق ہے ۔ ندرت تخل کے معجز نمااثر سے ہمیشہ نئے تصورات نمو پاتے ہیں ۔ جدت اور تنوع کی شان لیے یہ تصورات فرد کے جذ بات، واحساسات اور تاثرات کو نئی جہت سے آشنا کر نے کا موثر وسیلہ ثابت ہو تے ہیں۔ما ضی کے تجربات کو پیشِ نظر رکھتے ہو ئے حریت فکر کے مجاہد بدلتے ہوئے حالات کے تقاضوں کے مطابق افکارِ تازہ کی مشعل تھا م کر جہانِ تازہ کی جانب سر گرم سفر رہے ہیں۔ اپنے اَبنائے وطن کی بے داری ، ذہنی تجدیداور جہد و عمل کی تحریک میں ان کا کردار مسلمہ ہے ۔مواد ، موضوعات ، تاثرات ، تجربات ، مشاہدات اور تصورات کے اعتبار سے یہ شاعری گنجینہ معانی کا طلسم ہے ۔ اس کی اثر آفرینی کا جادو سر چڑھ کر بولتا ہے ۔ تخلیق کار کے تخیل کی جولانیوں کا کرشمہ دامنِ دل کھینچتا ہے۔ تخلیقات کا ظاہر ی اور معنوی حسن قلب و نظر کو مسخر کر لیتا ہے ۔ اسلوب کی جاذبیت اور دل کشی اپنی مثال آپ ہے۔ وطن اور اہلِ وطن سے قلبی وا بستگی نے عشق کی حدوں کو چھو لیا ہے ۔ اس عشق کی قوت سے وہ ذرے کوآفتاب بنا نے کی آرزو کر تے ہیں ۔ ذہن و ذکاوت کو روبہ عمل لا تے ہوئے عزائم کو سینوں میں اسی طرح فعال اور بیدار کر تے ہیں کہ خودی کے بحر بے کرا ں کی غواصی کر کے ضربِ کلیم کی نمو کی صلاحیت بیدار ہو نے کے امکانات سامنے آتے ہیں ۔ یہ جذبہ انسان کو بے خطر آتش نمرود میں کو د پڑنے کا حوصلہ عطا کر تا ہے ۔
بر صغیر کے مسلمانوں سے اقتدار چھین کر غاصب برطانوی سامراج نے نوے سال تک برصغیر کے باشندوں کو اپنا غلام بنائے رکھا ۔ 1947 کے بعد برصغیر کے مسلمانوں کواپنے خوابوں کی تعبیر کی صورت میں ایک آزاد وطن پاکستان نصیب ہوا۔ خواب نے جب حقیقت کا رُوپ دھا لیا تو پاکستانی قو م نے یہ طے کر لیا کہ آزادی کی نعمت کی قدر ضروری ہے ۔ پاکستانی زبانوں کے ادیبوں نے ذہنی اور اخلاقی طور پر قو م کو یہ باور کرانے کی کوشش کی کہ جغرافیائی آزادی ملنے کے بعد پس نو آبادیاتی دور میں بر طانوی سامراج کی ذہنی اسیری سے نجات حاصل کرنا بے حد ضروری ہے ۔پاکستانی زبانوں کے ادیبوں نے اپنے ذاتی مسائل اور پر یشانیوں کے بجائے معا شرتی زندگی کا سکون غارت کرنے والی حشر سامانیوں کی اصلاح پر توجہ دی ۔ اپنے جذبات ، احساسات ، تجربات اور مشاہدات کو حقیقت پسندانہ انداز میں نئی نسل کو منتقل کرکے ادیبوں نے اہم قو می خدمت کا فریضہ انجام دیا۔ خود غرضی اور افراتفری کے مظہر ہوسِ زر اور مادیت پسندی کے اس پُرہنگام دور میں حریتِ فکر کے علم بردار ادیبوں نے جبر کے خلاف جس جرأت کے ساتھ آواز بلند کی اس نے در کسریٰ کو ہلا کر رکھ دیا ۔ آمریت کے دور میں معا شرتی زندگی میں جبر واستبداد ، خوف و ہراس اور ظلم و ستم کی ایسی مسموم فضا پیدا ہوگئی تھی جس نے اخلاقیات کی نو خیز کلیوں کو بُری طرح جھلسا دیا تھا۔ ہلاکت آفرینی کے اس دور میں اربابِ اختیار نے سماجی زندگی کے گمبھیرمسا ئل او ر سیاسی مدو جزر کا سنجیدگی ، خلوص اور درد مندی سے جائز ہ لینے کی کوئی کوشش نہ کی ۔ حالات کی سنگینی کو دیکھتے ہوئے ادیبوں نے نہایت دل کش اور پُر جوش انداز میں روح ِعصر کی ترجمانی کر تے ہوئے حرف ِصداقت لکھنا اپنا شعار بنایا ۔ ہوس زر ، جلبِ منفعت ،اقربا پروری ، جاہ و منصب کی بے تاب تمنا ، خود غرضی ، انتشار اور زندگی کی مر گ آفریں قوتوں کے غلبے کے باعث معاشرتی زندگی میں بے حسی خوف ناک حد تک بڑھنے لگی ۔ سب سے بڑھ کر المیہ یہ ہوا کہ بنیادی انسانی حقوق کی پامالی، اِنصاف کُشی، فرد کی بے چہرگی اور عدم شنا خت کے مسئلے نے تشویش نا ک صورت اختیار کر لی ۔ آزادی کے بعد کے پہلے بائیس برسوں میں پاکستانی ادیبوں نے اپنی تخلیقی فعالیت کاذہن و ذکاوت، گرد و پیش کے حالات ، ارتعاشات اور تغیر و تبدل سے انسلاک کر کے جس تدبر کا ثبوت دیا وہ ان کی مستحکم شخصیت کی دلیل ہے۔
اس عالمِ آب وگِل میں سکون کی جستجو لا حاصل ہے ۔لالہ و گُل سے پیمانِ وفا باندھنے والی عنادِل کو یہ علم نہیں ہوتا کہ وہ شاخ جس پر گل ہائے صد رنگ کی عطر بیزی مسحور کر دیتی تھی اگلی صبح وہاں خاروں،خشک سوکھی پتیوں کے سوا کچھ نہ ہو گا۔قصرِ فریدوں کے سامنے ایک شخص نے صد الگائی یہاں کوئی ہے یا نہیں ؟ لاہور کی نواحی بستی شاہ درہ کے ایک وسیع باغ میں وہ مطلق العنان بادشاہ آسودۂ خاک ہے جس نے سونے کی زنجیر عدل لٹکا ئی تھی کچھ فاصلے پر ملکہ نور جہاں کی آخری آرام گاہ ہے جہاں دِن کو بھی شب کی تاریکی کاسماں دیکھ کر اس عبرت سرائے دہر کے حالات چونکادیتے ہیں۔آج اس پُر فضا مقام پر سیاح ،نوجوان لڑکے اورحسین وجمیل دوشیزائیں پکنک منانے چلے آتے ہیں۔ اپنے مستقبل سے بے خبر حسن و رومان کی وادی میں مستانہ وار گھومنے کے رسیا یہ نادان نو جوان جب یہاں زور زور سے قہقہے لگاتے ہیں تو مر قدِ شاہ کے مینار لرز جاتے ہیں۔تین جنوری 1965کو جب صدارتی انتخابات کے نتائج سامنے آئے تو معلوم ہوا کہ صدر محمد ایوب خان کو 49647ووٹ ملے جب کہ محترمہ فاطمہ جناح کے حق میں 28345ووٹ تھے۔اس طر ح صدر محمد ایوب خان 21302ووٹوں کی اکثریت سے صدارتی انتخاب جیت گئے۔صدارتی انتخابات میں اپنی کامیابی پر حکمران جماعت نے ملک کے بڑے شہروں میں جشن فتح یابی کی صورت میں جلوس نکالے۔5۔جنوری 1965کوکراچی میں ایک جلوس نکالا گیا۔کراچی میں اس جلوس کے دوران لیاقت آباد اور کئی دوسرے علاقوں میں صدر محمد ایوب خان کے حامیوں اور محترمہ فاطمہ جناح کے حامیوں میں تصادم ہو گیا۔اس کے بعد حکمران جماعت کے مسلح کارکن اپنے نہتے سیاسی مخالفین پر ٹُوٹ پڑے اور مشتعل افراد نے ان بے گناہوں کے گھروں پر دھاوا بول دیا۔ ان خونریز جھڑپوں میں سیکڑوں نہتے لوگ لقمۂ اجل بن گئے۔فیض احمد فیض ؔ نے اس سانحہ کے بارے میں لکھا ہے :
لہو کا سراغ
کہیں نہیں ہے کہیں بھی نہیں لہو کا سُراغ
نہ دست و ناخنِ قاتِل نہ آستیں پہ نشاں
نہ سُرخی ٔ لب و خنجرنہ رنگِ نوکِ سناں
نہ خاک پر کوئی دھبّا،نہ بام پر کوئی داغ
کہیں نہیں ہے کہیں بھی نہیں لہو کا سُراغ
نہ دیں کی نذرکہ بیعانہ ٔ جزا دیتے
نہ رزم گاہ میں برسا کہ کہ معتبر ہوتا
کِسی عَلم پہ رقم ہو کے مشتہر ہوتا
پُکارتا رہا بے آسرا،یتیم لہُو
کِسی کو بہرِ سماعت نہ وقت تھا نہ دماغ
نہ مدّعی نہ شہادت،حساب پاک ہوا
یہ خُونِ خاک نشیناں تھا رِزقِ خاک ہوا
المیہ یہ ہوا کہ حکمران طبقے نے سرکاری خرچ پر قریہ قریہ جشن بپا کر رکھا تھا جب کہ مظلوم انسان شہر بہ شہر صفِ ماتم بچھائے ظلم کی معیاد کے خاتمے کی دعا مانگ رہے تھے۔ ان انتخابات میں حکمران جماعت نے محترمہ فاطمہ جناح کے خلاف جس عامیانہ اورجابرانہ انداز میں اپنی انتخابی مہم چلائی،اس کے بعد صدر محمد ایوب خان کا زوال شروع ہو گیا۔ باطنِ ایام کے رمز آ شنا اہلِ نظر نے انتخابی عمل ،نتائج اور جشنِ فتح کو مسموم ماحول میں سمے کے سم کا حنظل جیسا ثمر قرار دیا اور یہ پیشین گوئی کر دی کہ اب صدر ایوب کا جانا ٹھہر گیاہے۔ ایوانِ اقتدار کایہ سب کروفر ، جاہ و جلال اور ٹھاٹ باٹھ کوئی دِن کا مہمان ہے ۔ مختلف آمر جب عوامی غیظ و غضب کے سامنے بے بس ہو کر بے نیلِ مرام اپنے گھر کا رُخ کرتے ہیں تو سادہ لوح عوام کے ذہن میں کئی سوال پیدا ہوتے ہیں۔ وہ سوچتے ہیں ایسے کون سے حالات و واقعات تھے جن سے مجبور ہو کر ایک مطلق العنان آمر بے بسی کی تصویر بن گیا ۔کن قوتوں نے آمریت کے قصر و ایوان کو پاش پاش کر دیا اور آمر کا اقتدار نیست و نابود کر دیا۔وہ کون سے اسباب تھے جن کے باعث ایک آمر جس کی قوت و ہیبت جہاں گیر تھی گم نامیوں کی بھینٹ چڑھ گیا۔ تاریخ کے مسلسل عمل پر گہری نظر رکھنے والے تجزیہ کاران استفہامیوں کا جواب دیتے ہوئے اکثر یہی بات کرتے ہیں کہ معتمد ساتھیوں اور مشیروں کی نمک حرامیوں ،فیصلوں کی خامیوں اور اندر کی مخبری کرنے والے پیامیوں کی ریشہ دوانیوں کے باعث بڑے بڑے نامیوں کے نشان تک مِٹ جاتے ہیں اور وہ تاریخ میں عبرت کی مثال بن جاتے ہیں۔ وہ شہنشاہ جن کے قدموں کی مٹی رعایا کی آ نکھ کا سُرمہ بنتی تھی اُن کی آنکھیں خنجر سے نکال کر دُور پھینک دی گئیں۔ گردشِ ایام کے بکھیڑے اور سیلِ زماں کے تھپیڑے جاہ و حشمت کے سفینے غرقاب کر دیتے ہیں۔ پس نو آبادیاتی دور میں پاکستان کے سیاسی حالات میں بھی یہی کچھ ہوتا رہا۔
اس عرصے میں اردو زبان کے شعرا نے حرفِ صداقت لکھنے کی روایت کو برقراررکھا ۔جبر ،حبس، سخت تعزیری قدغنوں اور اذیت وعقوبت سے لبریز ماحول میں حریتِ فکر و عمل کو شعار بناتے ہوئے حریتِ ضمیر سے جینے کی خاطر اسوہ ٔ شبیر پر عمل پیرا ہونابڑے حوصلے کی بات ہے ۔فسطائی جبر کے خلاف سینہ سپر ہونا ،تیشہ ٔحر ف سے جابر سلطان کے عشرت کدے کو منہدم کرنے کی سعی کرنا،سلطانی ٔ جمہوراور انسانیت کے وقار اور سر بلندی کی خاطر میدانِ عمل میں جانفشانی کا مظاہرہ کرنا در اصل اپنے خون سے ہولی کھیلنے اور دُکوں کے کالے کٹھن پہاڑ اپنے سر پر جھیلنے کے مترادف ہے ۔بر طانوی سامراج کے خاتمے کے بعد پاکستان میں پس نو آبادیاتی دور میں ادیبوں نے اپنی تخلیقی فعالیت کو اس مثبت انداز میں رو بہ عمل لانے کی سعی کی کہ زبان و بیان واسلوب کی جدت،تنوع،حیرت،ستیزاور زندگی کی حرکت و حرارت سے معمورفعالیتوں کو مہمیز کر کے افراد کی ذہنی صلاحیتوں کو صیقل کیا جا سکے ۔ عہدِ رفتہ کی تاریخ کی امینحریت ِ فکر کی مظہر شاعری رنگ ،خوشبو،مفاہیم و معانی ،اصلاح و مقصدیت اور حسن و خوبی کے دِل کش استعاروں سے آراستہ ایسی سر سبز وشاداب پُھلواڑی ہے جس میں کِھلے ہوئے سدا بہار گُل ہائے صد رنگ کی عطر بیزی سے قریہ ٔ جاں مہک اُٹھتاہے۔ اشعار کی یہ مہکتی کلیاں جوقلب اور وح کی اتھاہ گہرائیوں میں اُتر جانے والی حیران کُن اثر آفرینی سے لبریزہیں،آلامِ روزگار کے مسموم بگولوں اور خزاں کے سیکڑوں مناظر میں بھی اپنی تازگی او رشگفتگی بر قرار رکھتی ہیں۔وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ان کی تازگی اورعطر بیزی میں اضافہ ہوتا چلا جا رہاہے ۔قاری یہ اشعار پڑھ کر آگے بڑھتا ہے تو گہری سوچ میں پڑ جاتا ہے کہ وہ کِس قدر جری،باوقار اورصابرو شاکر تخلیق کار تھے جوکٹھن زندگی گزار کر راہِ جہاں سے گزر گئے ۔قناعت اور صبر وتحمل کی بہارِبے خزاں کے موسم میں اپنے غم کا بھید اپنے سینے میں چُھپائے،ستائش اورصلے کی تمنا سے بے نیاز،اپنی دُھن میں مگن اور اﷲ کے بھروسے پر سدا سر اُٹھاکر چلتے رہے اور کبھی درِ کسریٰ کے سامنے سر جُھکا کر مدد کی صدا نہ لگائی۔اُنھیں اِس بات کا یقینِ کامل تھا کہ حریتِ فکر کے مجاہد صعوبتوں کا سفر طے کر کے منزل مقصود پر پہنچ کر دم لیتے ہیں۔ظلم کاپرچم بالآخرسر نگوں ہو جاتا ہے اور دائمی نفرتیں اور حقارتیں ظلم کا مقدر بن جاتی ہیں۔۔فطرت کی تعزیریں نہایت سخت ہوتی ہیں اور ہر آمر حالات کی زد میں آکر اپنے انجام کو پہنچ جاتا ہے ۔اُسی زمانے میں کیوبا کے آمر فیدل کاسترو(Fidel Castro) کی آمریت کے ہر سُو چرچے تھے۔فیدل کاسترو(B:13-8-1926,D:25-11-2016)نے کیوبا کو آمریت کے شکنجے میں جکڑ دیاتھا ۔ فیدل کاسترو کی یک جماعتی آمریت نے نصف صدی تک کیوبا پر اپنی مطلق العنان حاکمیت بر قرا رکھی ۔فیدل کاسترو کی آمریت کا طویل دور(وزیراعظم:1959-1976،صدر:1976-2008)اپنے منطقی انجام کو پہنچ گیا ۔علالت کے باعث فیدل کاسترو نے اقتدار اپنے بھائی کے سپر د کر دیا تھا۔ آمریت کی حریت فکر کے مجاہدوں کے ساتھ محاذ آرائی،جنگ و جدال اور جبر و استبداد کے ایک بھیانک دور کے خاتمے کے بعد طلوعِ صبحِ بہاراں کے امکانات روشن تر ہوتے چلے گئے۔فیدل کاسترو نے کیوبا میں نصف صدی پر محیط دنیا کی طویل ترین آمریت مسلط کر کے عوام کو مطلق العنان حکومت کے رنج سے اس قدر خوگر کر دیاکہ محکومی کی بے بسی ان کے لا شعور میں رچ بس گئی اور وہ آزادی سے محرومی کے قلق سے بے نیاز ہوگئے اور اُن کے دِلِ زار کے سبھی اختیار بھی دم توڑ گئے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ کیوبا میں اکثر لوگ فیدل کاستر وکو کیوبا اور کیوبا کو کاسترو سمجھنے لگے تھے۔ کیوبا کے عوام نے فیدل کاسترو کی آمریت کے غم سے اس لیے سمجھوتہ کر لیا تھا کہ ان کے خیال میں فیدل کاسترو کی مثال ایک ایسے ڈیوڈ کی تھی جو مظلوم انسانیت اور غریب اقوام کے درپئے پندار غراتے ہوئے امریکی استعمارکے گولائتھ کے جبڑے میں پتھر مار کر اسے منھ کے بل گرا کر اس کا کام تمام کر نے کا حوصلہ رکھتا ہے۔پاکستانی عوام کو بھی شاید یہی گمان تھا کہ جاگیرارانہ اور سرمایہ دارانہ نظام کے چنگل سے نجات دلانے میں آمر مسیحائی کر سکتے ہیں۔
یہ ایک مسلمہ صداقت ہے کہ صلیب و دار کے موسم ہمیشہ اپنے منطقی انجام کو پہنچ جاتے ہیں۔آمریت کے دور میں بنیادی انسانی حقوق کا کوئی تصور ہی نہیں۔یہ تاریک دور اس قدر نا خوشگوار،عفونت زدہ اور مجموعی اعتبار سے ناقابل اعتماد ہوتا ہے کہ عوام اس سے پناہ مانگتے ہیں۔ تاریخ کے ہر دور میں مطلق العنان آمر عدم کی بے کراں وادیوں کی جانب سدھار جاتے ہیں اور دائمی گم نامی ان کا مقدر بن جاتی ہے اوران کا دور ِ سِتم تاریخ کے طوماروں میں دب جاتاہے ۔حریتِ فکر کے مجاہدوں نے ان مطلق العنان حکمرانوں کے مسلط کردہ جبر کے اعصاب شکن ماحول میں خون ِدِل میں اُنگلیان ڈبو کر جو موثر تخلیقات پیش کیں وہ ابد آ ٓشنا صداقتوں کا بیش بہا مخزن ہیں۔پاکستان کے قومی مسائل کے بارے میں خلوص اور دردمندی، شعور کی بالیدگی ،طرزِ احساس کی ندرت اور پاکیزگی اس عہد کے باشعور ادیبوں کی تخلیقی فعالیت میں نمایاں ہے۔پس نو آبادیاتی دور میں اردو زبان کے جری تخلیق کاروں نے ذہن و ذکاوت کی تطہیر و تنویر کی طرف توجہ دی۔وہ جانتے تھے کہ اگر دِلوں میں مایوسیوں ،محرومیوں ،حسرتوں اور غموں کی جان لیوا ظلمتیں چھا جائیں تو ان کے مسموم اثرات کو کافور کرنے میں صدیاں بیت جاتی ہیں۔
اس عہد کی شاعری کے یہ ایسے انمول دُرِ نایاب اور لعل و جواہر ہیں جن کی ضیا پاشیاں اور تابانیاں ابلقِ ایام کے سُموں کی گرد میں کبھی اوجھل نہیں ہو سکتیں۔وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ان کی ہمہ گیر تابانیوں اور ضو فشانیوں میں اضافہ ہوتا چلا جا رہا ہے ۔قلب اور روح کی اتھاہ گہرائیوں اور سر چشمہ ٔ صداقت و حریت سے نمو پانے والی یہ شاعری بلا شبہ ساحری کی ایسی معجز نما صورت ہے جسے لمحے نہیں بل کہ صدیاں سُنیں گی۔ ان ادب پاروں کو محفوظ رکھا وقت کا اہم ترین تقاضا ہے ۔اس شاعری کی باز گشت ہر عہد میں سنائی دے گی۔
آٖفاق صدیقی(1928-2012)
جب تک ترے جمال کی رعنائیاں رہیں
کیا کیا نہ میری حوصلہ افزائیاں رہیں
یاد آئی جب کبھی ترے لہجے کی نغمگی
دھیمے سروں میں گونجتی شہنائیاں رہیں
آفاقؔ وہ نہیں ہے تو کیا رونق حیات
کہنے کو لاکھ انجمن آرائیاں رہیں

----------------------------------------------
آنس معین(1960-1986)
جیون کو دکھ ،دُکھ کو آگ اور آ گ کو پانی کہتے
بچے لیکن سوئے ہوئے تھے کس سے کہانی کہتے
پتھر ہیں سبھی لوگ کریں بات تو کِس سے
اِس شہرِ خموشاں میں صدا دیں تو کسے دیں
میر ی قامت سے ڈر نہ جائیں لوگ
میں ہوں سُورج مجھے دیا لکھنا
حیرت سے جو یوں میری طرف دیکھ رہے ہو
لگتا ہے کبھی تم نے سمندر نہیں دیکھا
سب لوگ سوالی ہیں سبھی جِسم برہنہ
اور پاس ہے بس ایک رِدا دیں تو کِسے دیں
وہ جو پیاسا لگتا تھا سیلاب زدہ
پانی پانی کہتے کہتے ڈُوب گیا
عجب انداز سے یہ گھر گِراہے
مِرا ملبہ مِرے اُوپر گِرا ہے
---------------------------------------------------
ابن انشا(شیرمحمد خان)(1927-1978)
یا تو یہ شخص
خیر اب خارِ مغیلاں کو ہی مژدہ ، یعنی
قسمتِ قیس ہے، پھر دشتِ تمنا لوگو !
یہ اسی گیت کی بخشش ہے کہ شب ہم نے سُنا؟
درد ِبے نام کہ تھا مے نہیں تھمتا لو گو !
رشتہ ٔ جذب میں زنجیر تو کر نا چاہیں
پر یہ موتی کہ رہے دُور ڈلکتا لو گو!
یا تو یہ شخص سرابوں کا سا دھوکا ہوگا
یاکوئی تال سمند ر سے بھی گہر ا لوگو!
(1969)
-------------------------------------------------------------
احسان دانش (احسان الحق)(1914-1982)
پِھر تا ہوں کا ش کوئی شناسا دِکھا ئی دے
دُنیا ہے، اِس میں کوئی کوئی تو اَپنا دِکھا ئی دے
دِیوانے اس بہار کو کیا نام دیں کہ جب
صحرا تما م خون کا دریا دکھائی دے
---------------------------------------------
احمد راہی(غلام احمد)(1923-2002)
میں ہو ں اپنی شکست کی آواز
اب نہ کعبے کی تمنا ، نہ کسی بُت کی ہوس
اب تو روتا ہوں کسی مرکز اِنساں کے لیے
خود کو بیچا ، اُنھیں بیچا ، جو کبھی بِک نہ سکے
قصرِ سلطان کے لیے ، تختِ سلماں کے لیے
------------------------------------------
احمدظفر(1926-2001)
موت میرے سر پہ جب منڈلائے گی
ناؤ ساحل پر بھنور بن جائے گی
وہ کلی کیا مسکرائے گی ، جسے
صحن گلشن سے خزاں لے جائے گی
(فنون ،لاہور: جولائی 1963)
----------------------
احمد مشتاق(پیدائش :1933)
آج روکر تو دِکھا دے کوئی ایسا رونا
یادکر اے دِلِ خاموش وہ اپنا رونا
اب منزلِ صدائے سفر کر رہے ہیں ہم
یعنی دِلِ سکوت میں گھر کر رہے ہیں ہم
اب نہ بہل سکے گا دِ ل اب نہ دئیے جلائیے
عشق و ہوس ہیں سب فریب آپ سے کیا چُھپائیے
---------------------------------------
احمد فراز (سید احمد شاہ)(1931-2008)
زندگی کے خواب
آنسوؤں کی جِھیل دو پہروں کی لو
جسم شل ، اِحساس مُردہ ، دِل لہو
چار جانب ریت کے ٹِیلے رواں
کوئی نوحہ گر ، نہ کوئی چشمِ نم
صرف ہم۔ تو بھی کہاں میں بھی کہاں
جیسے ویرانے میں لاشیں بے اماں
بے کفن ، بے زار ، رزقِ کر گساں
(فنون ،لاہور: جنوری1968)
-------------------------------------------------
اداجعفری (عزیزجہاں)(1924-2015)
ہم سفر
ہم محبت کے پیامی ہیں ہمیں ڈر کِس کا
قتل گاہوں میں محبت کے علم لے کے چلو
غیر کیا شے ہے مقدر سے بھی ٹکر لے لیں
راہ میں آئے جوپتھر اُسے ٹھکراتے چلو
گھر پہنچ کر نہ مسافر کہیں لُٹنے پائے
ہا تھ میں ہاتھ رہے ہاتھ نہ چُھٹنے پائے
(فنون ،لاہور: اکتوبر1965)
--------------------------------------------------------------
احمد ندیم قاسمی(پیدائش:بیس نومبر1916،وفات:دس جولائی2006)
آج کے دور میں انصاف کے یہ معنی ہیں
روح مر جائے ، مگر جسم بچایا جائے
آج انا الحق سے بڑی کوئی حقیقت ہی نہیں
مو منو دار پہ کس کس کو چڑھا یا جائے
نئے انسان سے تعارف جو ہوا تو بولا
میں ہوں سقراط مجھے زہر پلایا جائے
(جون 1966)
-----------------------------------------------------
احمد ہمیش(پیدائش:یکم جولائی1937،وفات:آٹھ ستمبر2013)
بیٹی انجیلا کے لیے ایک نظم
میری بیٹی! تم نے لالٹینوں کے ماضی کو نہیں دیکھا
جن میں ہر رات کوئی نہ کوئی عورت روشن ہوتی اور پھربجھ جاتی ہے
اور بجھی ہوئی عورت دوبارہ کبھی روشن نہیں ہوئی
اگر کوئی بجھی ہوئی عورت دوبارہ روشن ہو جاتی تو محبت اس کے پیڑ اور اس کی پر چھائیوں کو ایک جا کر کے ایک نئی دنیا بنائی جا سکتی تھی
میری بیٹی !ہر ندی کا انتظار کرتے ہوئے سمندر میں اُتر جا
سمندر میرا دل ہے اس دل میں کچھ گھڑی رک کے ذرا دیکھو
کہ تجھ میں اب تک کتنا میں زندہ ہوں
اس سے پہلے کہ میں تیرے دیکھتے دیکھتے مر جاؤں
سمندر میں اُتر جا
---------------------------------------------------------
اقبال ساجد (محمد اقبال)(1932-1988)
گڑے مُردوں نے اکثر زندہ لوگوں کی قیادت کی
مری راہوں میں بھی حائل ہیں دیواریں قدامت کی
نئی کرنیں پُرانے آسماں میں کیوں جگہ پائیں
وہ کافر ہے کہ جس نے چڑھتے سورج کی عبادت
(فنون ،لاہور: اپریل 1968)
----------------------------------------------
امجد اسلا م امجد (پیدائش: لاہور،4 ۔اگست1944)
جمود
اپنے چہروں سے نقا بیں نوچ لو
مو ت ہے سب کا مقدر مو ت کا آنا اٹل
موت لیکن اختتام قصۂ آدم نہیں
بند کمروں میں نہ گُھٹ گُھٹ کر مرو
موت سے ایسے مِلو
دستکِ شبنم پہ جیسے پُھول سے خوشبو مِلے
(فنون ،لاہور: اپریل 1968)
-----------------------------------------------------
انور شعور (انور حسن خان)(پیدائش:11۔اپریل1943)
دھوکا کر یں، فریب کریں ، یا دعا کریں
ہم کا ش دوسروں پہ نہ تہمت دھرا کریں
رکھا کریں ہر ایک خطا اپنے دوش پر
ہر جُرم اپنی فرد عمل میں لکھا کریں
-------------------------------------------------
ایس ۔ اے ۔ رحمان (شیخ عبدالرحمٰن)(1903-1990)
دفتروں میں رشوتوں کی داستانیں ہیں عجیب
تان لیں اپنوں نے ہم پر جو سنائیں عجیب
دن بدن بڑھتا گیا سرمایہ ٔ سرمایہ دار
چشمِ ناداری ہے تصویر ِ مزار ِ انتظار
تنگ نظری ، تنگ ظرفی ، بے اصولی عام ہیں
بے حسی ہے یا س ہے اور کچھ غمِ بے نام ہیں
باغبانوں نے کیا تاراج خود اپنا چمن
ہوگئے ہم ’’ ننگِ انساں ، ننگِ دیں ، ننگِ وطن‘‘
(سفر ، مجموعہ کلام : 1964)
---------------------------------------------
باقی صدیقی (محمدافضل قریشی)(پیدائش راول پنڈی ، 20دسمبر1908،وفات:8جنوری1972)
داغِ دِل ہم کو یاد آنے لگے
لوگ اپنے دئیے جلانے لگے
خود فریبی سی خود فریبی ہے
پاس کے ڈھول بھی سہانے لگے
اب تو ہوتا ہے ہر قدم پہ گماں
ہم یہ کیسا قدم اُٹھانے لگے
ایک پل میں وہاں سے ہم اُٹھے
بیٹھنے میں جہاں زمانے لگے
اپنی قسمت سے ہے مفر کِس کو
تیر پر اُڑ کے بھی نشانے لگے
-------------------------------
ایسا وار پڑا سر کا
بھول گئے رستہ گھر کا
زیست چلی ہے کس جانب
لے کرکا سہ مرمر کا
کیا کیا رنگ بدلتا ہے
وحشی اپنے اند ر کا
اب تو وہ جی سکتا ہے
جس کا دل ہو پتھر کا
(فنون ، لاہور : جولائی 1963)
------------------------------------------------
بشیر منذر
اس قدر اپنی مایوسیاں بڑھ گئیں
زندگی کے حقائق بھی سپنے لگے
(نقو ش ، لاہور : اکتوبر ، نومبر ، دسمبر1966)
-----------------------------------------------------
پر وین سید فنا (پیدائش:3۔ستمبر 1936،لاہور)
فریب
رنگ اور نور سے بہکی ہوئی اس دنیا میں
میں نے گمبھیراُداسی کا بسیرا دیکھا
کھلکھلا تے ہوئے چہروں کی صباحت میں چھپے
کتنی سو چوں کے اُلجھتے ہوئے افسانے تھے
یہ بہ ظاہر جو تمھیں اپنے نظر آتے تھے
اصل میں اپنی حقیقت سے بھی بے گانے تھے
(فنون ، لاہور : مئی جون 1967 )
---------------------------------------------------------
تاب اسلم
روشنی حد نظر سے دُور ہے یاروابھی
رات کا دِل ظلمتوں سے چُور ہے یارو ابھی
ہا ں جلاؤ آنسو ؤں سے رہ گزاروں میں چراغ
منزل ِصبحِ درخشاں دُور ہے یارو ابھی
(ادب لطیف ، لاہور : جولائی 1959)
--------------------------------------------------------
تبسم کا شمیری
حجرہ ٔ ہفت بلا
حجر ہ ہفت بلا سے نکلے لمبے سائے
سب رستوں پہ برس رہی ہے خوف کی کالی بارش
سب کھیتوں میں اگ آئی ہے شعلہ بنتی آگ
سب رستوں پہ الفت پہ آفت آفت ۔ ساری راہیں گنگ
سب جھیلوں میں پانی کا ہے قطرہ قطرہ ساکت
سارے بادل سو کھ گئے ہیں بو ند نہیں ہے برسی
موسم کب سے دیکھ رہے ہیں کاموشی کا کھیل
(ادب لطیف ، لاہور : سالنامہ 1968)
--------------------------------------------------------
توصیفؔ تبسم (محمد احمد توصیف:پیدائش ،سہسوان بدایون،3۔اگست1928)
وہ اک خلش کہ دشمنِ جاں تھی بنی ہوئی
بڑھ کر وہی قرار بنی ، زندگی ہوئی
کا نٹا بھی چاہتا ہے وہی اک لہو کی بوند
فیض ِبہار سے جو چمن میں کلی ہوئی
(فنون ، لاہور : اکتوبر 1963)
-----------------------------------------------
جعفر شیرازی
گزرے جہاں جہاں سے خزاؤں کے قافلے
تاراج ہوگئے ہیں چمن ۔ گرد گرد پھول
کچھ ان کا بھی خیال کر اے لیلیٰ ٔ بہار
پھر تے ہیں تیری دُھن میں جو صحرا نورد پھول
(ہو ا کے رنگ ، مجموعہ کلام : 1962)
------------------------------------------------
جمیل الدین عالی (1925-2015)
تھر تھر کا نپے کا غذ اور سیا ہی اڑتی جائے
سچ کا بوجھ ترازو جھوٹی کتنی دیر اٹھائے
(لا حاصل ، مجموعہ کلام: 1984)
کیا جانے یہ پریت کی آگ بھی کیا کیا اور جلائے
عالی جیسا مہا کوی بھی بابُو جی کہلائے
با بُو گیری کرتے ہو گئے عالی کو دو سال
مُرجھایا وہ پُھول سا چہرہ بُھورے پڑ گئے بال
دھیرے دھیرے کمر کی سختی کُرسی نے لی چاٹ
چُپکے چُپکے من کی شکتی افسر نے دی کاٹ
کس کو خبریہ ہنس مُکھ عالی کیاکیاچُھپ کر روئے
جیسا ساتھی من ڈھونڈے تھا ویسا مِلا نہ کوئے
گھنی گھنی یہ پلکیں تیری یہ گرماتا رُوپ
تُو ہی بتااو نار میں تجھ کو چھاؤں کہوں یا دُھوپ
میٹھی میٹھی کسک تھی دِل میں نا کوئی غم نہ سوگ
دو ہی دِن کے بعد مگر یہ پریت تو بن گئی روگ

---------------------------------------------------
جمیل ملک (1928-2001)
فغاں لبوں سے اُتر کر کدھر گئی ہوگی
مقامِ سود و زیاں سے گزر گئی ہوگی
فغانِ نِیم شبی ماورائے کون ومکاں
حدوں کو پھا ند کے بے بال و پر گئی ہوگی
(ہفت روز ہ لیل و نہار، لاہور : ستمبر 1959)
---------------------------------------------------
جون ایلیا (1931-2002)
اے شجرِ حیاتِ شوقِ ، ایسی خزاں رسیدگی
چادرِ برگ و گُل تو کیا ، جسم پہ چھال بھی نہیں
غارتِ روز و شب تو دیکھ ، وقت کا یہ غضب تو دیکھ
کل تو نڈھال بھی تھا میں ، آج نڈھال بھی نہیں
(فنون ، لاہور : مئی ،جون 1967)
-------------------------------------------------
حسن اختر جلیل
نبھاؤ اب اسے ،جو وضع بھی بنالی ہے
وگرنہ دہر تو اہل وفا سے خالی ہے
افق سے گرد چھٹے توخبر ملے شاید
سحر طلوع ہوئی ہے کہ ہونے والی ہے
-------------------------------------------
حفیظ ہو شیار پوری (عبدا لحفیظ)(1912-1973)
ہمیں اس دور میں بھی یہ جرات
رات کو رات ، دن کو دن کہنا
(17 مارچ 1963)
ہر قدم پر ہم سمجھتے تھے کہ منزل آ گئی
ہر قدم پر اِک نئی درپیش مشکل آ گئی
یا خلا پر حکمراں یا خاک کے اندر نہاں
زندگی ڈٹ کر عناصر کے مقابل آ گئی
ٹُوٹتے جاتے ہیں رِشتے جوڑتا جاتا ہوں میں
ایک مشکل کم ہوئی اور ایک مشکل آ گئی
------------------------------------------
حمایت علی شاعر(پیدائش :14جولائی 1926)
انتباہ
کہہ دو یہ ہوا سے کہ وہ یہ بات نہ بھولے
جم جائیں تو بن جاتے ہیں اک کوہ گراں
ویرانوں میں اڑتے ہوئے خاموش بگولے
--------------------------------------------
خالد احمد (1943-2013)
صبح کی چاہ میں پتھر ا گئیں میری آنکھیں
ایک آزاد مجھے دیدۂ بیدار ہوا
کل حقیقت ہے فسانوں کی طرح بھول نہ جائے
گم فسانوں میں اگر آج کا فن کار ہوا
-------------
بات سے بات نکلنے کے وسیلے نہ رہے
لب رسیلے نہ رہے نین نشیلے نہ رہے
پُھول سے باس جُدا،فِکر سے اِحساس جُدا
فرد سے ٹُوٹ گیا فرد قبیلے نہ رہے
------------------------------------------------
خاطر غزنوی (ابراہیم خاطر غزنوی) (1925-2008)
اُلجھے اُلجھے ، دھاگے دھاگے سے خیالوں کی طرح
ہوگیا ہوں ان دنوں تیرے سوالوں کی طرح
یہ میرا احساس ہے یا جبرِ موسم کا اثر
اب کی رت مہکے نہیں گل ، پچھلے سالوں کی طرح
عصرِحاضر کی جبیں پر تلخیاں کندہ ہوئیں
گِردد اپنے تن گئے حالات جالوں کی طرح
------------------------------------------
رام ریاض (ریاض احمد شگفتہ)
کسی نے دور سے دیکھا کوئی قریب آیا
امیر شہر میں جب بھی کوئی غریب آیا
بر یدہ دست ، بر ہنہ بدن ، شکستہ پا
ترے دیار میں کیاکیا نہ بد نصیب آیا
کسی کو اب نہ ستائے گی مر گِ نامعلو م
چراغِ دار جلا ، موسم ِصلیب آیا
-------------------------------------
رضا ہمدانی (1910-1991)
یہ کس مقام پہ ٹھہرا ہے کاروانِ وفا
نہ روشنی کی کِرن ہے کہیں نہ تازہ ہو ا
ہوئی ہے جب سے یہاں نطق و لب کی بخیہ گری
سوائے حسرتِ اِظہار ، دِل میں کچھ نہ رہا
صحرائے خیال کا دیا ہوں
ویرانۂ شب میں جل رہا ہوں
یہ دورِ مسرت یہ تیور تمھارے
اُبھرنے سے پہلے نہ ڈُوبیں سِتارے
--------------------------------------------
روحی کنجاہی (امر الٰہی)
ہر شخص ترے شہر میں کیوں شعلہ بپا ہے
کیااس کے تعاقب میں کوئی سیل بلا ہے
تسکین کی خواہش سے ہوا کوئی نہ آزاد
کشکول لیے ہاتھ میں ہر شخص بلا ہے
-----------------------------------------
زہرا نگاہ (پیدائش:14مئی1937)
دیکھ تو خرام پا فگاراں
کانٹوں کی زباں پہ گل کھلے ہیں
ہر ظلم کی وسعتوں کے آگے
ہر درد کے کتنے حوصلے ہیں
آندھیاں آئیں کئی رنگ اُبھرے
آگ برسی تو کئی پُھول کِھلے
نغمے آنکھوں سے اُبھر آئے ہیں
تِیر پیوست گلو جب بھی ہوئے
-------------------------------------
ساقی جاوید
حصار شب
تیرگی ! تیرگی ! ہر طرف تیرگی!
روزن و بام پر سقف و دیوار پر
شہرِ جاں کی فصیلِ شب آثار پر
ظلمتوں کے خداؤں کے معتوب ہم
شب کے زِنداں میں آکر مقفل ہوئے
کوئی بادِ صبا کوئی بوئے سمن
ان حصاروں کو چُھو کر گزر جائے گی
صبح کے دیوتا کی سنہری ہنسی
ریگ زاروں میں جاکر بکھر جائے گی
-------------------------------------------
سجاد باقر رضوی (1928-1992)
سر تھے تو دار پر بھی انا الحق کا شور تھا
اب سر نہیں تو دار و رسن بولنے لگے
میں اور شورشِ غم ِپنہاں خدا پناہ
ایسی گُھٹن کہ تارِ بدن بولنے لگے
(فنون لاہور،اپریل 1963)
----------------------------------------
سحر انصاری ڈاکٹر(پیدائش:1939)
تاریکیوں کا حساب
۔۔۔ ہر اندھیرے پہ ہے روشنی کا نقاب
اک ہوا ہے کہ جس کی نگاہوں میں ہے
شہر کے دِل کی تاریکیوں کا حساب !
شہر کے شب زدہ پیرہین میں کہیں
کہکشاں کی طرح روشنی تو نہیں !
پیرہن میں سیاہی کے ہر داغ پر
اور اس شہر کے دِل کی قندیل پر
روشنی کی لکیروں کے در بند ہیں
---------------------------------------
سراج الد ین ظفر (1928-1972)
اک عشق ہے آزاد سزا اور جزا سے
ہر شے کے لیے ور نہ سز ا بھی ہے جزا بھی
بیٹھے ہوں اگر دست درازانِ خرابات
کنجوں سے دبے پاؤں گزرتی ہے قضابھی
----------------------------------------
سلیم احمد (1927-1983)
منزل بے جہت کی خیر ، سعی ٔسفر ہے رائیگاں
اہلِ وفا کے قافلے پھر بھی تو ہیں رواں دواں
اپنی حدودِ ذات سے اپنی ہی سمت ہوں رواں
آپ ہی میرِ کارواں ، آپ ہی گردِ کارواں
---------------------------------------------
سیف زلفی (سیّدمحمد ذوالفقار حسین رضوی)(1934-1991)
اوڑھی ردائے درد بھی حالات کی طرح
تاریکیوں میں ڈُوب گئے ، رات کی طرح
شیوہ نہیں کہ شعلہ ٔ غم سے کریں گریز
ہر زخم ہے قبول نئی بات کی طرح
کیا بستیوں کا ذکر کہ احساس کی تپش
جنگل جلاگئی ، مر ے جذبات کی طرح
(فنون لاہور ،اکتوبر 1963)
---------------------------------------
شان الحق حقی(1917-2005)
مرے آ شیاں کا کیا ہے ،مرا آسماں سلامت
ہیں مرے چمن کی رونق ،یہی برق و باد و باراں
نہ سہی پسند حکمت،یہ شعارِ اہلِ دِل ہے
کبھی سر بھی دے دیا ہے ،بہ صلاح ِ دوست داراں
(فنون لاہور ،اکتوبر 1963)
--------------------------------------------------
شہاب جعفری(1930-2000)
کہاں دورِ شباب اپنا ،کہاں اسباب جینے کے
یہ دنیا ہے یہاں غم بھی نہیں ملتے قرینے کے
حوادث کیا ہیں رن پڑتا ہے اسبابِ حوادث سے
ہمار مرنا جینا ہے ،نہ مرنے کے نہ جینے کے
(ادب لطیف ،لاہور ستمبر 1959)
-----------------------------------------------
شہزاد احمد (1932-2012)
آشوب
مگر صبح تک کون جانے
کہ سورج کی پہلی شعاعیں ۔۔کسے کون سے رنگ میں دیکھ پائیں
پُرانے درختوں سے چمٹے ہوئے زرد پتے کہاں خاک اُڑائیں
خدا جانے وہ لمحہ کب آ ئے۔۔۔جو آخر ی ہو
(فنون لاہور ،جولائی 1963)
---------------------------------------------
صادق نسیم(سردار غلام صادق نسیم ،پیدائش:ٹیکسلا،1924)
یوں تو ہر ایک شخص ہی طالب ثمر کا ہے
ایسا بھی کوئی ہے کہ جِسے غم شجر کا ہے
اس اہتمام سے پروانے پیش تر نہ جلے
طوافِ شمع کریں اور کسی کے پر نہ جلے
-----------------
کلیوں کے چٹکنے کی صدا سے بھی ڈروں میں
اے شدت احساس کہاں جاکے رہوں میں
کوئی بھی سر دار چراغاں نہیں کر تا
اور سب کی تمنا ہے کہ منصور بنوں میں
(فنون ، لاہور : اکتوبر 1965 )
-----------------------------------------------
صہبا اختر (اختر علی رحمت )(1931-1996)
کب تک بہ نامِ فِکر نہ پُھوٹے گی روشنی
محرومِ نطق ہیں کئی نغمے شنیدنی
صہبا غریبِ شہرِ سخن ہے مگر سنو
پھر کس سے سُن سکو گے سخن ہائے گُفتنی
(ماہ نو ،کراچی: اگست 1959)
------------------------------------------
ضمیر جعفری سیّد (1916-1999)
یہ کِس بازار میں بِکنے کی خاطر آگیا ہوں
کہ ہر قیمت پہ گویا اپنی قیمت پا گیاہوں
جو سنگ و خِشت پر گزری وہی مجھ پر بھی گزری ہے
حویلی کی منڈیروں کی طرح دُھندلا گیا ہوں
(نقو ش ، لاہور : اگست 1969)
------------------------------------------
ظفر اقبال (پیدائش:1932)
کنارِ دشت پہ دیوار سا کھڑا ہے ابھی
بلائے خوابِ سفر کا خطر ہمارے لیے
کیا ہلاک ہمیں دشمنوں نے رستے میں
سجے ہوئے تھے یہاں بام ودر ہمارے لیے
(فنون ، لاہور : اپریل 1963)
------------------------------------------
ظہور نظر (1923-1981)
دیپک راگ ہے چاہت اپنی کاہے سنائیں تمھیں
ہم تو سُلگتے ہی رہتے ہیں کیوں سُلگائیں تمھیں
ترکِ محبت،ترکِ تمناکر چُکنے کے بعد
ہم پہ یہ مشکل آن پڑی ہے کیسے بُھلائیں تمھیں
------------------
اب کے زنداں میں بہار آئی تو محسوس ہوا
اپنا دل بھی خم دیوار سے مانوس ہوا
جانے کس قریہ بے نام کی ہے دل کوتلاش
شہر میں خوش نہ تھا صحرا سے بھی مایوس ہوا
(نقوش ، لاہور : نومبر 1964)
----------------------------------------
ظہیر کاشمیری (دستگیر ظہیر)(1919-1994)
جب خامشی ہی بزم کا دستور ہو گئی
میں آدمی سے نقش بہ دیوار بن گیا
اے دِل ستم ظریفی ٔ حالات دیکھنا
جو حرفِ مدعا تھا وہی دار بن گیا
(نقوش لاہور ،اکتوبر ۔دسمبر1966)
--------------------------------------------
عابد علی عابد سید(1906-1971)
آج کل وقت کے ہیں یہ اطوار
جس طرح زہر میں بُجھی تلوار
موجِ خونِ وفا ہے موجہ ٔ رنگ
سیلِ دشتِ بلا ہے سیلِ بہار
رات رنگین ہے نہ دِن روشن
ننگِ شمس وقمر ہیں لیل و نہار
(عابد علی عابد ،بریشم عود،1966)
----------------------------------------
عارف عبدالمتین
مانا کہ میں باغی ہوں ،قدح خوار ہوں ،مجھ کو
قانون کا کچھ ڈر ہے ،نہ کچھ خوفِ خدا ہے
لیکن یہ رہے یاد ہوں اُس قوم سے جس میں
مے پینا تو ہے جُرم ،لہُو پینا روا ہے
(آتشِ سیّال :1962)
-----------------------------------
عزیزحامد مدنی(1922-1991)
نہ فاصلے کوئی نکلے،نہ قربتیں نِکلیں
وفا کے نام سے کیا کیا سیاستیں نکلیں
وہ حرفِ شک ہے کہ اہلِ یقیں نہیں سمجھتے
دماغِ کفر سے کیا کیا حقیقتیں نکلیں
(فنون لاہور ،جولائی1963)
-----------------------------------------------
عبدالرؤف عروج(1932-1990)
بہار آئے گی تو پِھر کبھی نہ جائے گی
فضاسہی بُری بھی ،نگر نگر ،گلی گلی
ہر ایک صبحِ زر نگار آفتاب کا غبار
کنول بُجھے نہ شب ڈھلی ،نگر نگر ،گلی گلی
(ہفت روزہ لیل و نہار،لاہور اتوار 13ستمبر1959)
---------------
آج یادوں نے عجب رنگ بکھیرے دِل میں
مسکراتے ہیں سرِ شام سویرے دِل میں
جادۂ مے پہ گُزرخوابوں کا
مُڑ گیا سیل کِدھر خوابوں کا
زندگی عظمتِ حاضر کے بغیر
اِک تسلسل ہے مگر خوابوں کا
--------------------------------------------------------
غلام مصطفی تبسم صوفی(پیدائش:امر تسر،یکم اکتوبر1898،وفات:لاہور،سات فروری1978)
کیا ہوا جوستارے چمکتے نہیں ،داغ دِل کے فروزاں کرو دوستو
صبحِ عشرت پریشاں ہوئی سو ہوئی شامِ غم تو نہ ویراں کرو دوستو
ناشناساؤں کی طُرفہ غم خواریاں ،غم کے ماروں کا سب سے بڑا روگ ہے
دردِ اُلفت کی چارہ گری ہو نہ ہو ،پہلے اس دُکھ کا درماں کرو دوستو
(ہفت روزہ لیل ونہار ،لاہور ،اتوار 25۔اکتوبر 1959)
---------------------------------------------------------------
فارغ بخاری(احمد شاہ)(پیدائش:پشاور،گیارہ نومبر 1917،وفات:پشاور،تیرہ اپریل 1997)
زخمِ احساس
گُو نجتی سنسناتی خاموشی
نغمہ ٔ ساز ِ خود فراموشی
دُور تک لرزہ خیز تنہائی
نگہتِ آرزو بھی گہنائی
زخم ِاحساس کتنا گہرا ہے
سارا ماحول بہرا بہرا ہے
دِل ترستا ہے اِک صد اکے لیے
کوئی آواز دو خد اکے لیے
(نقوش ،لاہور اگست 1969)
-----------------------------------------------
فہمیدہ ریاض(پیدائش:اٹھائیس جو لائی1946)
زادِ راہ
طویل رات نے آنکھوں کو کر دیا بے نُور
کبھی جو عکسِ سحر تھا سراب نِکلا ہے
سمجھتے آئے تھے جِس کونشان منزل کا
فریب خوردہ نگاہوں کا خواب نکلا ہے
تھکن سے چُور ہیں آگے بڑھیں کہ لوٹ آئیں
( شعری مجموعہ :پتھر کی زباں)
------------------------------------------------------------
قتیل شفائی(محمد اورنگ زیب)(پیدائش:24دسمبر1919،وفات:11جولائی2001)
دستِ عوام ہو کہ گریبانِ شہر یار
اِس دورِ ناسپاس میں دونوں ہیں بے وقار
کانٹوں سے کیا شکایتِ بے گانگی کریں
پُھولوں نے خود ہی کھول دیا رازِ نو بہار
(فنون لاہور،اکتوبر1963)
-----------------------------------------------
قیوم نظر (خواجہ عبدالقیوم )(1914-1989)
شہرآشوب
آدمی آدمی سے کوسوں دُور
ہر طرف یوں ہجوم پِیر و جواں
کاٹتی ہے ضمیرِ انساں کو
سر و سامانِ آرزو کی زباں
سرد مہری کی دُھوپ کھلتی ہے
پیار کی چھاؤں کھیلتی تھی جہاں
( نقوش لاہور ، شمارہ 106اکتوبر۔دسمبر1966)
-----------------------------------------
کرم حیدری( پروفیسرملک کرم داد حیدری)(1915-1994)
واعظ!خطا معاف کہ رِندانِ مے کدہ
دِل کے سِواکِسی کا کہا مانتے نہیں
طوفانِ برق و باد میں ان سر پِھروں کی خیر
جو نا خدا کو اپنا خدا جانتے نہیں
ہے رِند و محتسب میں تو روزِازل سے بیر
اے اہلِ شہراِتنا بھی تم جانتے نہیں
(نقوش،لاہور، شمارہ 106،اکتوبر ۔دسمبر1966)
-------------------------------------------------------------
کسریٰ منہاس
جذبہ ٔ پنہاں کی وہ آتش بیانی اب کہاں
وہ نشاطِ زندگی کی کامرانی اب کہاں
پُھول سی نازک اُمیدیں ہیں خزاں سے ہم کنار
وہ بہارِ جذبہ ٔ ذوقِ نہانی اب کہاں
( نقوش لاہور ،شمارہ 101،نومبر1964)
--------------------------------------
کشور ناہید(پیدائش :1940)
سب شکلوں کی ایک ہی صورت،سب باتوں کاایک ہی رنگ
دِن رنگوں کے چولے بدلے پرراتوں کا ایک ہی رنگ
ہر آ ہٹ،ہرسایہ آخر ذہن کا پاگل پن نکلا
قریہ قریہ وِیرانی ہے سب گھاتوں کا ایک ہی رنگ
خون میں شعلۂ غم کی حِدت،جِسم میں چُھپ کے رہ نہ سکے
آنکھ سے ٹپکے لہو کی صُورت،سو غاتوں کاایک ہی رنگ
(فنون،لاہور،جنوری۔فروری1968)
------------------------------------------------------
گُل نارآفرین(مختا ر النسا بیگم)(پیدائش :15۔اگست1942)
میرے گھر کے بھی در وبام کبھی جاگیں گے
دُھوپ نکلے گی کبھی تومیرے بھی آنگن میں
عہدِ رفتہ کی تمنا کا فسوں زندہ ہے
دِلِ ناکام ابھی تک تیری ہر دھڑکن میں
--------------------------------------
گوہر نوشاہی
نئے سال کا نوحہ
اے زمیں میری محبت بے ثمر
خاک اندر خاک میری خواہش
جسم اندر جسم میری ظلمتیں
چشم اندر چشم رنگوں کے طلسم
رنگ اندر رنگ پنہاں لاکھ اسم
لفظ آوارہ معانی در بدر
(ادب لطیف ، لاہور : سالنامہ 1968)
-------------------------------------
گوہر ہوشیار پوری
پہنچے ہیں جو دُکھ اب تیرے آلام کشوں کو
یاد آئیں تو روتے ہیں پرانی خلشوں کو
یہ لو گ بھی اُونچے انھیں اکرام بھی اُونچا
نیزوں پہ سرافراز کرو حق روشوں کو
(فنون ، لاہور : جولائی 1968)
------------------------------------------
مجید امجد(1914-1974)
ہوٹل میں
چھت پر ، بارش ، نیچے ، اُجلے کالر ، گدلی اَنتڑیاں
ہنستے مُکھ ، ڈکراتی قدریں ، بُھوکی مایا سب کے مان
باہر ۔۔ ٹھنڈی رات کا گہر ا کیچڑ ۔۔ درد بھر ے آدرش
چلو یہاں سے ہمیں پکارے ننگی سوچوں کا رتھ بان !
(فنون ، لاہور : اپریل 1963)
------------------------------------------------
محسن احسان (احسان علی) (1932-2010
نگارِ فن پہ حریفانِ شعر کی یلغار
نیامِ حرف کہاں ہے خیال کی تلوار
ہوا کچھ ایسی چلی دشتِ نامرادی کی
اُجڑ کے بس نہ سکے پھر کبھی دِلوں کے دیار
( فنون ، لاہور : جولائی 1963)
------------------------------------------------
محمد منور (1927-2000)
کرکے ہم صرف خزاں خون جگر جاتے ہیں
دے کے گلشن کو بہاراں کی خبر جاتے ہیں
( 1958 مشمولہ :غبار تمنا ، شعری مجموعہ : جنوری 1974)
-------------------------------------------
مختار صدیقی (1917-1972)
نزع مسلسل
اور حالات کا یہ حکم ۔۔ کہ اک مر دنی
اک نزع مسلسل ہی
مری زیست کا حاصل ٹھہر ے
میرے بے سمت شب و روز کی منزل ٹھہر ے
اور نہ حالات ہی بدلیں ، نہ مرا دل ٹھہر ے
(فنون ،لاہور : اپریل 1963)
---------------------------------------
مرتضیٰ برلاس (پیدائش:30۔جنوری1934)
میں تو کہتا ہوں کہ تم ابر کرم ہولیکن
کاش صحر ا مرے الفاظ کی تائید کرے
پہلے ہر فرد گریبان میں اپنے جھانکے
پھر بہ صد شوق کسی اور پہ تنقید کرے
میں ہی اب زہر پیے لیتا ہوں سچ کی خاطر
کوئی تو سنتِ سقراط کی تجدید کرے
(فنون ، لاہور: جولائی 1968)
-------------------------------------------
مشفق خواجہ (خواجہ عبدالحئی)(1935-2005)
وہ تغافل ہو، توجہ ہو ، ستم ہو ، کچھ ہو
ہم کو اندازہ بر بادیٔ جاں ہو تا ہے
دل کی تنہائی میں ویران اُمیدوں کا ہجوم
جیسے اک قافلہ ٔ نوحہ گراں ہوتا ہے
(ادب لطیف، لاہور: نومبر 1959)
----------------------------------
مصطفےٰ زیدی سیّد (1930-1970)
کس وقت اُجالا پھیلے گا
کس وقت اُجالا پھیلے گا اے صبح و مسا کی تِیرہ شبی
کب آئے گا دورِ ساغرِ دِل ، اے کوثرِ جا ں کی تشنہ لبی
سب سنگ بہ جیب تھے ، سر ہی نہ تھا ، زخموں کا کوئی خوگر ہی نہ تھا
ہر شخص میں تھی درماں طلبی ، کیا کج کلہی ، کیا کم لقبی
ہم بات کریں تو کس سے کریں ، بنیاد رکھیں تو کس پہ رکھیں
اے اہلِ ہنر کے عجزِ سخن ، اے زندگیوں کی بے سببی
سنسان پڑی ہیں بر سوں سے سب رُشد و ہدایت کی راہیں
اس عہد میں ہم سب اپنے امام ، اس دور میں ہم سب اپنے بنی
میں سفلگیوں سے کھیلا ہوں، مٹی کی تہوں سے لایا ہوں
تہذ یب کا یہ معیارِ نظر ، اخلاق کی یہ عالی نسبی
(کوہ ِ ندا، شعر ی مجموعہ )
آندھی چلی تو نقشِ کفِ پا نہیں مِلا
دِل جِس سے مِل گیا وہ دوبارہ نہیں مِلا
اب جی حدودِ سُود و زیاں سے گُزر گیا
اچھا وہی رہا جو جوانی میں مر گیا
روکتا ہے غمِ اظہا رسے پِندار مجھے
میرے اشکوں سے چُھپا لے میرے رُخسار مُجھے
مظفر وارثی (محمد مظفر الدین صدیقی)(1933-2011)
ایک سے حالات آئے ہیں نظر ہردور میں
رُک گئے میرے قدم یا وقت نے گردش نہ کی
دفن ہوں حالات کی صدیوں پرانی قبر میں
زندگی اِک زخم ہے اور زخم بھی تازہ نہیں
(فنون ،لاہور : جولائی 1968)
-------------------------------------------
منیر نیازی (منیر احمدنیازی) (1928-2006)
جبر کا اختیار
تاج پہن کر شاہ بنوں یا گلیوں کا رہ گیر
دیا بنوں اور جلوں ہوا میں یازہریلا تیر
میرے بس میں ہے، اب سب کچھ موت ہے مری اسیر
آسما ں مرے پاؤں تلے ہے مٹھی میں تقدیر
مجھ کو گھائل کر نہیں سکتی چاہت کی شمشیر
اب میں ہوں اور سامنے میری اپنی ہی تصویر
(لیل و نہار ، لاہور: ستمبر 1959)
------------------------------------------
منظور حسین شور
انتقام
چیر کر دیکھا ہے کس نے ماہ و انجم کا ضمیر
کیا خبر باقی ہیں کتنے وقت کے ترکش میں تیر
ہو تو ہو رخسارِ دوراں پر اندھیرے کا نقاب
شب کی ظلمت سے تو ٹکراتے رہیں گے آفتاب
(دیوار ابد ، شعر ی مجموعہ : 1966)
-----------------------------------------
منظور عارف (1924-1980)
زندان و گلستان میں بہت فاصلہ نہ تھا
بادِ صبا پیام نہ لائی کمال ہے
دستِ صبا کالطف ہے پابندِ گلستاں
دشتِ وفا تک اس کا پہنچنا محال ہے
(فنون ، لاہور : مئی ، جون 1965)
------------------------------------
ناصر کاظمی (سید ناصر رضا کا ظمی) (1925-1972)
جہاں تنہائیاں سر پھوڑ کے سو جاتی ہیں
اُن مکانوں میں عجب لو گ رہا کرتے تھے
کردیا آج کسی غم نے انھیں بھی مجبور
کبھی یہ لو گ مرے دکھ کی دوا کرتے تھے
اتفاقات زمانہ بھی عجب ہیں ناصرؔ
آج وہ دیکھ رہے ہیں جو سنا کرتے تھے
(ماہ نو، کراچی : اگست 1959)
---------------------------------------
نظیر صدیقی (پروفیسر محمد نظیر صدیقی)(1930-2001)
اس سے زیادہ راہزن کرتے بھی مجھ پہ کیا ستم
مال و منال لے گئے ، فکر مآل دے گئے
دیدہ وروں کی راہ پر کون ہوا ہے گامزن
وہ مگر اپنی ذات سے ایک مثال دے گئے
(فنون ، لاہور: جولائی 1968)
-------------------------------------
نعیم صدیقی (1916-2002)
یہ علم کے چراغ یہ دانش کی مشعلیں
روشن ہوئی نہ پھر بھی شبِ تارِ زندگی
آبادیاں اُجاڑ سکیں جو تباہ کا ر
ایسے ہی لوگ بنتے ہیں معمارِ زندگی
(نقوش ، لاہور: اکتوبر ، نومبر ، دسمبر1966)
-------------------------------------
وزیر آغاڈاکٹر(پیدائش:18۔مئی1922،وفات:7۔ستمبر2010)
چمکتا لمحہ
یہ لمحہ خود ان گنت ساعتوں سے مرتب ہوا ہے
یہ لمحہ کہ صورت بدل کر شب وروز میں ڈھل گیا ہے
شب و روز ۔۔۔ اک دوسرے کے تعاقب میں بڑھے
مہ و سال کی ایک لمبی سی مالا بنے ہیں
(فنون ، لاہور : اپریل 1963)
----------------------------------------
یوسف ظفر
شخصیت اور روایت
اک دن میرے جسم کا سایہ تھک کر پتھر بن جائے گا
میرا جسم بھی پتھر ہوگا
دونوں پتھر قبر میں ہو ں گے
لیکن باہر ، بند دریچو ں کا یہ سایہ
چلتے وقت کو ٹھہر ا دے گا
(فنون ، لاہور : جنوری ، فروری : 1968)
-----------------------------------------------------
یوسف کامران(پیدائش:9۔اکتوبر1938،وفات:9۔مارچ1984)
اوجھل ہوا ہے جب سے وہ چہرہ بہار سا
عالم تمام لگنے لگا ہے غبار سا
وہ کیا اُٹھا یقین زمانے سے اُٹھ گیا
وہ تھا تو اِس زمانے پہ تھا کچھ اعتبارسا
--------------------------------------------
بر صغیر میں نو آبادیاتی دور کے خاتمے کے بعد پاکستان میں ایک نئے دور کا آغاز ہوا۔پس نو آبادیاتی دور اپنے ساتھ متعدد مسائل بھی لایا جن کے باعث عوام کی اکثریت آزادی کے ثمرات سے محروم رہ گئی۔ سیاست دانوں کی ہوسِ اقتدار ،نا اہلی ،ایک دوسرے کی کردار کُشی اور باہمی رسہ کشی کے باعث آمریت کو کھل کھیلنے کا موقع مِل گیا۔اس کا لرزہ خیز نتیجہ یہ نکلا کہ اس نو آزاد اسلامی مملکت میں جمہوریت کو پِنپنے کا موقع ہی نہ مِل سکا۔پاکستان میں سیاسی عدم استحکام پیدا کرنے کے لییعالمی سامراج کی سازشوں کا سلسلہ جاری رہا۔سیاسی انتشار اور جبر کے ماحول میں بھی پاکستانی ادیبوں نے معاشرتی زندگی میں نکھار لانے ، سماجی روّیوں میں بہتری اور مادی جدوجہد کے سلسلے میں زندگی کی اقدارِ عالیہ کے تحفظ پر اصرار کیا۔ ان کا خیال تھا کہ ان اقدارِ عالیہ اور درخشاں روایات کو اپنے دل میں جگہ دے کر اگر قومی تعمیر و ترقی کے سفر کا آغاز کیا جائے گا تو قو م منزل مقصود پر جاکر دم لے گی اور اس کے معجزنما اثر سے قو می تشخص کو پروان چڑھایا جا سکے گا ۔ یہ انداز فکر تہذیبی اورثقافتی میراث کی حٖفاظت اور سعی ٔ پیہم پر مائل کرتا ہے ۔زندگی اقدارِ عالیہ در اصل انسانیت کے وقار اور سر بلندی کی مظہر ہیں اور پُور ی دنیا میں ان کی اہمیت وافادیت مسلمہ ہے ۔دنیا کے ترقی یافتہ ممالک میں زندگی کی درخشاں اقدار اور مستحکم روایات کو معاشرے کی اجتماعی حیات ، پاکیزہ جذبات واحساسات اور مثبت خیا لات کی نمو کے لیے ناگزیر سمجھا جاتا ہے ۔ باطنِ ایام پر نظر رکھنے والے دانش وروں کا خیال ہے کہ زندگی کی اقدارِ عالیہ کا تحفظ قو می تعمیر و ترقی ، استحکام اور مذہب کے معاملات کو مقاصد کی رفعت کے اعتبار سے ہم دوش ثریا کر دیتا ہے۔
اپنے تخیل اور شعور کے اعجاز سے پاکستانی ادیبوں نے اپنی ادبی تخلیقات کو اس طرح نکھارا کہ قارئین کو عصری آگہی سے متمع کرنے میں مد د ملی ۔ اس عہد کی شاعری معاشرتی زندگی کے حالات میں رونما ہونے والی برق رفتار تبدیلیوں کے بارے میں حقیقی صورت حال سامنے لاتی ہے ۔ آزادوطن میں رہتے ہوئے معاشرتی زندگی کی مصروفیات ، معمولات اور مشاہدات کوا پنے تجربات کی اساس بناتے ہوئے پاکستانی ادیبوں نے تخلیقی فعالیت کو جس جہت سے آشنا کیا ، وہ محض ان کی ذاتی سوچ کی مظہر نہیں بل کہ اسے زندگی کی ایسی لفظی مر قع نگاری سے تعبیر کیا جاسکتا ہے جس میں تاریخ کے مسلسل عمل کی دستک زنی کو محسوس کیا جاسکتا ہے ۔ ان ادب پاروں کے مطالعہ سے قاری کو اس عہد کی معاشرتی زندگی کے نشیب وفراز کا علم ہوتا ہے ۔ قاری کے شعور میں ایک مدوجزر پیدا ہوتا ہے جو یہ ظاہر کرتا ہے کہ عہد رفتہ میں اس خطہ کے باشندوں کو کس نوعیت کے صبر آزما حالات کا سامنا کر نا پڑا۔ طلوعِ صبحِ بہاراں، فروغِ گلشن وصوتِ ہزار کاموسم دیکھنے کی تمنا اپنے دل میں لیے کتنے لوگ زینہ ہستی سے اُتر کر عدم کی بے کراں وادیوں کی جانب سدھار گئے ۔ ان جری تخلیق کار وں نے ثابت کردیا کہ حریتِ فکرو عمل کے مجاہدوں کو جبر استبداد کے ذریعے تابع نہیں بنایا جاسکتا ۔ ادب اور فنونِ لطیفہ سے وابستہ پاکستان کے محبِ وطن تخلیق کاروں نے ہر قسم کی جابرانہ قدغنوں،آمرانہ پا بندیوں اور یاس و ہراس پھیلانے والے ضابطوں کو پائے استقامت سے ٹُھکراتے ہوئے آزادی ٔ اظہار ،جبر کے خلاف پیکار اور ستیز کی مظہر ضمیر کی للکارکو اپنا شعار بناتے ہوئے حرفِ صداقت لکھنا اپنا مطمحِ نظر ٹھہرایا۔ وقت کے فراعنہ نے اپنے زیر تسلط مخدوش جنگل میں حریت ِ فکر کے آبلہ پا مسافروں کی راہ میں جنگل کے کالے قوانین کے جو خار مغیلاں بکھیر دئیے تھے اور حریت ضمیر سے جینے والوں پر عرصۂ حیات تنگ کرنے کے لیے جو اژدہا چھوڑ رکھے تھے ان کا سر کُچلنے کے لیے پا کستانی ادیبوں نے اپنے قلم کو عصا بنایا اوراپنی خودی کی غواصی کر کے ضرب کلیمی کے وار سے جبر کے اژدہا کا سر کچل دیا۔
تاریخ کا مسلسل عمل اس جانب متوجہ کرتا ہے کہ سیلِ زماں کے تھپیڑے تخت و کلاہ و تاج ،جاہ و جلال اور دنیاوی کر وفر کے سب سلسلوں کو خس و خاشاک کے مانند بہا لے جاتے ہیں ۔ فطرت کے مقاصد اور تقدیر کے سر بستہ رازوں کے بارے میں آگہی رکھنے والوں پر یہ بات روزِ روشن کی طرح واضح ہے کہ تاریخ کا ایک عبرت ناک سبق یہ بھی ہے کہ آج تک کسی نے تاریخ سے سبق سیکھنے کی کوشش ہی نہیں کی۔ معاشرتی زندگی میں افراد کو اقوام کے مقدر کا ستارہ سمجھتا جاتا ہے ۔ حیران کن بات یہ ہے کہ افراد جب ترقی اور خو ش حالی کو محض اپنی ذات تک محدود کر لیں تو یہ اقدام معاشرے کے استحصال پر منتج ہوتا ہے ۔ آزادی کے بعد پاکستانی ادیبوں نے معاشرتی زندگی میں نکھار پیدا کرنے کے لیے دِلوں میں جذبہ ٔ ایثار پیداکرنے پر زور دیا ۔ ان کا خیال تھا کہ جس طرح بھی ممکن ہو قومی تعمیر و ترقی کا سلسلہ جاری رکھا جائے ۔ معاشرتی زندگی کوبلند معیار اور وقار عطا کرنے کے لیے ادیبوں نے اپنی تمام صلاحیتں بروئے کا ر لانے میں جس خلوص کا مظاہرہ کیا وہ تاریخِ ادب میں ہمیشہ قدر کی نگاہ سے دیکھا جائے گا ۔ ادیبوں کی یہ تحریریں محض زندگی کے حالات کی آئینہ دار نہیں بل کہ یہ زندگی کے تمام واقعات کی مظہر اور حقیقی ترجمان بن کر سامنے آتی ہیں اور قاری کے قلب و نظر کو مسخر کرلیتی ہیں ۔ حریت ِفکر کی مظہر شاعری قلب و نظر میں جلوہ گر جذبات و احساسات اور وجدان و ادراک کی ہمہ گیر کیفیات کو اپنے دامن میں سموئے ہو ئے ہے ۔ زندگی کے متعدد خارجی مظاہر ایسے ہیں جن سے عام آدمی بالعموم کوئی تعلق نہیں رکھتا ۔ تخلیقی فعالیت کا مطالعہ کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ ایک حساس تخلیق کار جامد و ساکت پتھروں ، سنگلاخ چٹانوں ، بے حِس مجسموں ،حنوط شدہ لاشوں،چلتے پِھرتے ہوئے مُردوں اور کھنڈرات سے بھی تخلیقی مواد حاصل کرسکتا ہے ۔ اپنی تخلیقی بصیرت کو رو بہ عمل لاتے ہوئے وہ انتشار میں وحدت او رتکثیریت میں مرکزیت کی صورت تلاش کر نے پر قادر ہے ۔ تخلیقی فعالیت کا یہ تجربہ ادب کو معانی اور ہئیت کے نئے آہنگ سے آشنا کر نے کا وسیلہ ثابت ہوتا ہے۔
جدیددور میں فنونِ لطیفہ بالخصوص ادبیات کا بہ نظر غائر جائزہ لینے سے یہ حقیقت معلوم ہوتی ہے کہ پا کستانی ادیبوں نے اپنی قو می تاریخ ، تمدن ، تہذیب و معاشرت اور اقدار و روایات میں نئے طرز احساس کو نمو بخشنے میں گہری دلچسپی لی۔ انھوں نے پاکستانی قو م کو یہ باور کرانے کی کوشش کی کہ وطن او ر اہلِ وطن سے والہانہ محبت او ر قلبی وابستگی ہی حب الوطنی کی پہچان ہے۔ ارضِ پاکستان ، یہاں کے باشندوں کے قلب اور روح سے وابستہ ایک پُختہ یقین اور منزلِ مراد ہے۔ معاشرتی زندگی میں قومی تعمیر و ترقی ، افراد کی خوش حالی ، اطمینان ِقلب ،عزت و تکریم ، مسرت وانبساط ، خوداری اورخود انحصاری کے سوتے یہیں سے پھوٹتے ہیں ۔ معاشرتی زندگی میں اخلاقیات کے بلند پایہ معیار تک رسائی کے لیے ادیبوں نے حق و صداقت اور عد ل انصاف کا علم بلند رکھنے پر زور دیا ۔ ظلم و استبداد ، جورو ستم اور انصاف کُشی کسی بھی معاشرے میں اخلاقی اقدار کوتہس نہس اور زندگی کی اقدارِ عالیہ اور درخشاں روایات کہ ملیا میٹ کرنے کا باعث بن جاتی ہے ۔ حریت فکر و عمل کے علم بردار ادیبوں نے واضح کر دیا کہ ظلم کو نوشتہ ٔ تقدیر سمجھ کر سہہ لینا اور شقاوت آمیز ناانصافیوں کے خلاف آواز بلند نہ کرنابہ جائے خود ایک اہانت آمیز اور مہلک غلطی ہے جس کے باعث ظالم کو مشقِ ستم جاری رکھنے میں کوئی امر مانع نہیں رہتا۔
صدر محمد ایوب خان کے عہدِ حکومت میں پاکستان اور بھارت کی مسلح افواج کا پاکستان کی مشرقی سرحدوں پر مسلح تصادم ہوا ۔اس سترہ روزہ جنگ کے نتیجے میں پورے علاقے کا امن و سکون ختم ہو گیا۔ سرحدی علاقوں کے باشندوں پر جو کوہِ ستم ٹُوٹا اس سے جو جانی اور مالی نقصان ہوا اس کے نتیجے میں جفاکش کسانوں کی اُمیدوں کی فصل غارت ہو گئی اور صبحوں شاموں کی محنت اکارت چلی گئی۔پاکستانی زبانوں کے ادبیات پر بھی اس کے دُور رس اثرات مرتب ہوئے۔ پاکستان کے جری تخلیق کاروں نے جبر کا ہر انداز لائقِ استرداد ٹھہراتے ہوئے مظلوم انسانیت کے مصائب و آلام کی جو لفظی مرقع نگاری کی ہے اسے پڑھ کر قاری دِ ل گرفتہ ہو جاتا ہے ۔ اس جنگ کے دوران رزمیہ شاعری کے ذریعے اردو کے جن ممتاز شعرا نے جذبہ ٔ حب الوطنی سے سرشار ہو کر پاکستانی قوم کو خود اس کی پہچان دی اور دِلوں کو ایک ولولہ ٔ تازہ عطا کیاان میں سے کچھ اہم نام درج ذیل ہیں:
آسی ضیائی رام پوری،آٖفاق صدیقی، آفتاب نقوی، احمد ندیم قاسمی، احسان دانش،احمد تنویر،احمد راہی،احمد فراز ، امیر اختر بھٹی، ارشاد گرامی،انورسدید،باقی صدیقی ، بشیر سیفی ،بیدل پانی پتی، تنویر نقوی،جعفر طاہر سیّد،جوش ملیح آبادی،حبیب جالب، حافظ لدھیانوی ،حکمت ادیب، خالد احمد، خادم مگھیانوی ، خادم رزمی، ڈاکٹر وزیر آغا،رام ریاض، رب نواز مائل ،رفعت سلطان ، سیف الدین سیف ،سیف زلفی ، شبنم شکیل ، شبنم رومانی ،شورش کاشمیری، شاد گیلانی، شیر افضل جعفری ،شفیع ہمدم، شفیع بلوچ، شفیع عقیل ، شہزاد احمد، صابر آفاقی ، صابر کلوروی ،ضمیر جعفری ،طفیل ہو شیار پوری، ظہیر کا شمیری، عطا شاد،عبیر ابوذری ، غلا م جیلانی اصغر، غفار بابر ،غلام مصطفیٰ تبسم صوفی،فیض احمدفیض ،فیروز شاہ، کرم حیدری، کبیر انور جعفری ،مجید امجد،محسن احسان، محسن نقوی ،مصطفی زیدی، معین تابش، مظفر علی ظفر ،مظہر اختر ، میرا جی ،نعیم صدیقی، ن م راشد، نذیراحمدشیخ
جنگ کی تباہیوں کے بارے میں دنیا کے مشہور ادیبوں نے اپنی تخلیقات کے ذریعے عوام میں مثبت شعور و آ گہی پروان چڑھانے کی سعی کی ہے ۔ٹی ایس ایلیٹ(1888-1965) نے اپنی چار نظموں میں دوسری عالمی جنگ کے نتیجے میں ہونے والی تباہیوں پر اپنے رنج وکرب کا اظہار کیا ہے ۔یہ تخلیق (The Four Quartets) جو چار نظموں پر مشتمل ہے اس میں 1936سے لے کر 1942تک کے عرصے میں جنگ سے متاثر ہونے والے دنیا بھر کے مظلوم انسانوں کے ناقابل اندما ل صدمات کا احوال بیان کیا گیا ہے ۔یہ نظم جو سال 1943میں کتابی صورت میں منصۂ شہود پر آ ئی وہ ٹی ایس ایلیٹ کے منفرد اسلوب کی عمدہ مثال ہے ۔دنیا بھر میں امن پسند اقوام جنگ کی تباہیوں سے پناہ مانگتی ہیں ۔جنگ کی تباہیاں امن پسند عوام کے لیے اذیت و عقوبت کا سبب بن جاتی ہیں۔ویت نام کی جنگ میں 58ہزار انسان لقمۂ اجل بن گئے اور اس جنگ میں معذور ہونے والے افراد کی تعداد 350000تھی۔اس جنگ میں جنگی قیدی بنائے جانے والے ہزاروں انسانوں کی زندگی کی تمام رُتیں بے ثمر کر دی گئیں ۔یہی وجہ ہے مہذب دنیا جنگ سے شدید نفرت کرتی ہے ۔ نعیم صدیقی کی نظم ’’آخری شہید ‘‘جنگ کے نفسیاتی اثرات پر روشنی ڈالتی ہے ۔ جنگ کے صدمات، بیتے لمحات ، اس کے مسموم اثرات اور مستقبل میں اس کے اثرات کے بارے میں یہ نظم گہری معنویت رکھتی ہے :
آخری شہید
ہم سپاہیوں کا کام
لا ل خان!
فیصلوں کا احترام
کیوں سیاسیات میں دخل دیں بہ عقلِ خام
پِھر بھی اِک سوا ل ہے دِ ل میں وجہ ِاضطراب
روح کے لیے عذاب
کون سُن رہا ہے یاں !ایک میں ہوں ،ایک تم!
دے سکو گے تم جواب؟
نا گہانی امن یہ ،جِیت ہے کہ ہار ہے؟
نُور ہے کہ نار ہے ؟
کچھ بتاؤ لال خان ؟کِس لیے لڑے تھے ہم ؟کیوں یہ سب تباہیاں !
کیا تھا اپنا مدعا؟
کاشمیر مِل گیا؟
جنگ کے گہرے اثرات اور شدید گھاؤ رروح کو زخم زخم کر کے دلوں کو کِرچی کِرچی کردیتے ہیں۔تاریخ گواہ ہے کہ دنیا میں کہیں بھی جنگ سے مسائل حل نہیں ہوئے بل کہ جنگوں کے نتیجے میں انسانیت کو بے پناہ مصائب وآلام اور پیچیدہ نوعیت کے سیاسی اور معاشی مسائل کا سامنا کر نا پڑا ۔ مختلف اقوام کے مابین محاذ آرائی ، کشیدگی اور جنگوں کے نتیجے میں علاقائی ، نسلی ، لسانی ، مذہبی ، ملی ، قو می اور ملکی عصبیتں پروان چڑھنے لگتی ہیں۔ باہمی تعصب اور منافر ت کا یہ رجحان مسلسل تقویت پانے کے بعد دہشت گردی کا روپ دھا ر لیتا ہے جس نے موجودہ زمانے میں پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے۔ بعض لوگوں کی رائے ہے کہ سائنسی انداز فکر اپنانے سے معاشرتی زندگی میں سد ھار لایا جاسکتا ہے ۔ یہاں یہ بات قا بل توجہ ہے کہ سائنس اورسائنسی انداز فکرجنھیں جذباتیت اور عصبیت سے بے نیاز اور حقیقت پسندی پر مبنی سمجھا جاتا ہے ۔ ان کا دامن بھی جنگ و جدال کی عصبیتوں ،ہلاکتوں اور خونریزیوں سے آلودہ ہو گیا اور سائنس کی عقلیت پسندی اور غیر جانب داری پر بھی سوالیہ نشان لگ گیا ۔ یہ امر پوری انسانیت کے لیے لمحہ ٔ فکریہ ہے کہ ہر ملک میں سائنس دان اپنی تجربہ گاہوں میں ایسے ہلاکت آفریں اسلحہ کی تیاری میں ہمہ وقت مصروف ہیں جو مخالف ممالک کے نہتے با شندوں کے کشتوں کے پشتے لگادیں ،شہر سنسان ہوجائیں ، آبادیاں تہس نہس ہو جائیں اور نسل در نسل تباہیاں اور بربادیاں ان مظلوم اور بے گناہ انسانوں کا مقدر بن جائیں ۔ قیام پاکستان کے بعد سیاسی اور معاشرتی زندگی کے نشیب و فراز اور عملی زندگی کے تجربات کی روشنی میں پاکستانی ادیبوں نے اپنی تخلیقی فعالیت کو ایسے مفاہیم عطا کیے جن کا قومی مفادات اور مستقبل کے لائحہ عمل سے گہر ا تعلق ہے۔ طا ئرِ خیال کو حبس کے موسم سے نکال کر عقابی روح عطا کرنا ان کا نصب العین رہا ۔ وہ چاہتے تھے کہ اِنسانیت کے وقار ، عظمت اور تکریم میں اضافہ کو یقینی بنایا جائے تاکہ نظامِ خیال کو اَوج ِکمال تک پہنچایا جاسکے ۔ امن اور جمہوریت کے دور میں ادیبوں کے اسلوب میں شگفتگی ، تسلسل ، حسن و دل کشی اور رومان کا گمان گزرتاہے جب کہ جنگ اور آمریت کازمانہ امن پسند انسانوں کے لیے مصائب و آلام کا فسانہ بن جاتا ہے ۔ اس عہد ناپُرساں میں ادیبوں کے اسلوب میں تلخی ، تُرشی ، کرب اور اُکتاہٹ اور بیزارکن مایوسی و اضطراب کے خلاف پیکار اور ضمیر کی للکارنمایاں رہتی ہے ۔ جنگی جنون میں مبتلا اقوام کی میدانِ جنگ میں محاذ آ رائیاں بے بس اور نہتے عوام کے لیے بڑے پیمانے پر تباہیاں لاتی ہیں ۔ مظلوم اور دُکھی انسانیت کی توہین،تذلیل،تضحیک اور بے توقیری کے لرزہ خیز اور اعصا ب شکن واقعات بڑھ جاتے ہیں۔نفسیاتی اعتبار سے اس انتہائی پریشان کُن صورت ِحال سے عوام کو نجات دلانے کی خاطر شعرا حوصلے اور ہمت کا پیغام دیتے ہیں اورقوم کو نئے ولولے کے ساتھ کٹھن حالات کا مردانہ وار مقابلہ کرنے کی راہ دکھاتے ہیں۔اس قسم کی رزمیہ شاعری ہر عہد میں دِلوں کو مرکزِ مہر و وفا کرنے کا وسیلہ ثابت ہو گی۔ اُردو زبان کے ممتاز شاعر کیپٹن(ر)سید جعفر طاہر (پیدائش:اُنتیس مارچ1917،وفات:پچیس مئی 1977)کی نظم ’’ایک سو سپاہی ‘‘بھی منفر اسلوب کی حامل ہے :
لاہور کی حفاظت مولا علیؑ کرے گا
دشمن کرے بُرائی داتا بھلی کرے گا
یہ صر صرِ اَجل ہے یہ گردِ خانقاہی
یہ ایک سو سپاہی،یہ شیر دِل الٰہی
جنگ پُوری انسانیت کو ناقابلِ اندمال صدمات سے دو چار کر دیتی ہے اور قوموں کے مسلح تصادم کے نتیجے میں دُکھی انسانیت کے مسائل اور مصائب و آلام میں بے پناہ اضافہ ہو جاتا ہے ۔تاریخ ،نفسیات اور علم بشریات کے حوالے سے دیکھا جائے تویہ حقیقت معلوم ہوتی ہے کہ جنگ کے پس پردہ جو عوامل کا ر فرما ہوتے ہیں ان میں سیاسی قیادت کالا لچ ،خود غرضی،ہوس ملک گیری،اخلاقی زوال،بے بصری کا مظہر
جنگی جنون شامل ہیں۔جب بھی کسی قوم پر جنگ مسلط کر دی جائے تو وہ قوم اپنے وطن کے دفاع کے لیے سینہ سپر ہو جاتی ہے ۔اس قوم کے غیور، بہادر ،وفادار ،بے لوث اور محب وطن سپاہی اپنی جان پر کھیل کر مادرِ وطن کا دفاع کرتے ہیں۔جنگ کی زد میں آنے والے مماک میں ضروریاتِ زندگی نا پید ہو جاتی ہیں اورزرعی اجناس کا قحط پڑ جاتا ہے ۔ جنگ زدہ علاقوں میں معاشرتی زندگی میں خوف و اضطراب کے باعث غیر یقینی صورتِ حال پیدا ہو جاتی ہے اورخون ریزی کے باعث عوام کی زندگی اجیرن ہو جاتی ہے ۔ جنگ کی تباہ کاریوں کے نتیجے میں معاشرتی زندگی کا انتشار عوام کو ایسے ذہنی دباؤ کا شکار بنا دیتا ہے جس کی وجہ سے فکر و خیال کی وادی اور گلشنِ ادب پر خزاں کے سائے چھا جاتے ہیں۔اس مسموم ماحول میں بھی حریتِ فکر کے مجاہدوطن اور اہلِ وطن سے وفا کی شمع فروزاں رکھتے ہیں۔ جنگ کے موضوعات پر پاکستانی شعرا نے نہایت فکر پرور اور بصیرت افروز انداز میں رخشِ حیات کی روانی کی حقیقی کہانی کی لفظی مرقع نگاری کی ہے ۔امن اور جنگ کے حالات کی تصویر کشی کرتے وقت اردو شعرا نے عصری آگہی کو پروان چڑھانے کی خاطر جس مہارت ،تدبر ،حب الوطنی ،فہم و فراست،جرأت و استقامت اور انسانی ہمدردی کا ثبوت دیاہے وہ اپنی مثال آ پ ہے ۔پاکستانی زبانوں کے شعرا نے بالعموم اور اردو زبان کے شعرا نے بالخصوص جنگ کے مسموم اثرات کے بارے میں جو حقائق منکشف کیے ہیں وہ قاری کے فکر و خیال کے نئے دریچے وا کرکے جہد وعمل کی متعدد نئی راہیں دکھاتے ہیں ۔ پاکستانی شعرا نے دفاعِ وطن اور جذبہ ٔ شوق شہادت کے موضوع پر جو ولولہ انگیز شاعری کی ہے ،اس کی معجز نما اثر آفرینی کی بنا پر یہ صریر ِ ِخامہ نوائے سروش کی ایک صورت سمجھی جاتی ہے ۔ ان تخلیقات کا مطالعہ کرنے سے یہ حقیقت سامنے آ تی ہے کہ اس دور کے شعرا نے نو آبادیاتی دور کے تلخ تجربات ،پس نو آبادیاتی دور کے سانحات اور مستقبل کے امکانات کو پیشِ نظر رکھا ہے ۔یہ شاعری آئینہ ٔ ایام میں اپنی ادا دیکھنے پر مائل کرتی ہے اور مستقبل میں امن و آشتی کی فضا پیدا کرنے پر قائل کرتی ہے ۔ اس شاعری میں مذہب کی روحانی قوت ، زندگی اقدارِ عالیہ اور درخشاں تہذیبی و ثقافتی روایات کے ساتھ قلبی وابستگی کا عنصر کلیدی اہمیت کا حامل ہے ۔ اس جنگ کے دوران اردو کے جن شعرا کی نظموں نے قوم کو حوصلے اور ہمت کی نوید سنائی ان میں سے چند درج ذیل ہیں :
احمد ندیم قاسمی کی نظم ’’کھنڈر‘‘،احمد فراز ؔکی نظم ’’ خون بہا‘‘، جوش ملیح آبادی کی نظم ’’وارثانِ حیدرؑخیبر شکن‘‘،حبیب جالبؔ کی نظم’’لہرا کے رہو پر چم‘‘سیف زلفی کی نظم ’’اے زمینِ وطن‘‘،شورشؔ کاشمیری کی نظم ’’میرا سب کچھ میرے وطن کا ہے ‘‘ شبنم رومانی کی نظم ’’شہر آشوب کراچی ‘‘،ظہیر کا شمیری کی نظم ’’آج کا کھیل‘‘،صوفی غلام مصطفٰی تبسمؔ کی نظم ’’بھنور بھی ہے کنارہ‘‘فارغ ؔبخاری کی نظم’’ہم ایک آوا زبن گئے‘‘،فیض احمد فیضؔ کی نظمیں ’’لووصل کی ساعت آ پہنچی‘‘ ’’یہاں سے شہر کو دیکھو‘‘، ’’بلیک آؤٹ ‘‘ ، ’’ایک شہر آشوب کاآغاز‘‘،مصطفٰی زیدی کی نظم ’’رشتۂ جام و سبو‘‘،نعیم صدیقی کی نظم ’’آخری شہید ‘‘
نوے سالہ غلامی کے عقوبت ناک دور کے خاتمے کے بعدپس نو آبادیاتی دور میں پاکستانی ادیبوں کے سامنے تیزی سے بدلتے ہوئے حالات کا ایک نیا اور انوکھا منظر نامہ تھا۔بر طانوی استعمار نے طویل عرصہ تک اپنی اس نو آبادی کے باشندوں کو بنیادی انسانی حقوق سے محروم رکھا اور ان کی زندگی اجیرن کر دی۔ عالمی سامراج کی سازشوں کے نتیجے میں آزادی کے صرف گیارہ برس بعدیہ نو آزاد مملکت آمریت کے شکنجے میں جکڑ دی گئی۔اس عرصے میں پاکستانی ادیبوں نے لفظ کی حرمت کو ملحوظ رکھتے ہوئے تخلیقِ فن کے لمحوں میں جبر کے خلاف بھر پور مزاحمت کی اور حریت ِ ضمیر سے جینے کی راہ اپناتے ہوئے حریتِ فکر کا علم بلند رکھا ۔نئے سیاسی حالات کے تقاضوں کے مطابق نئے تخلیقی اور فنی تجربات کو پیشِ نظر رکھا۔اس طرح حریتِ فکر و عمل کے معجز نما اثر سے نئے امکانات کی جستجوکا ولولہ پیدا ہوا ۔جمہوریت اور آمریت کے دور میں تخلیق کار کی شخصیت پر جو اثرات مرتب ہوتے ہیں وہ کسی سے پوشیدہ نہیں۔ایک زیرک تخلیق کار کی شخصیت کی انفرادیت کا راز حریت فکر میں پنہاں ہے۔یہاں اس امر پر بھی توجہ دینا ضروری ہے کہ تخلیق ِفن کے دوران ادیب نے تہذیبی اور ثقافتی عوامل کو کس قدر اہمیت دی ہے ۔ زیوڈی باربو ( Zevedei Barbu ,B:1914 ( نے جمہوریت اور آمریت کے بارے میں لکھا ہے :
Since in democracy the pattern of individuation is flexible ,the character of uniqueness is strongly emphasized;there the whole pattern of lifefavours th eindividual,s tendency to be himself.On the other hand ,in a totalitarian way of life ,the pattern of individuation creates,categories, rather than individual personilities;there every thing leads to Gleichschaltung,to the stereo type of mind.The ascent does not fall on,to be oneself,but to be ,prototype,a concentration of a set of mental traits existing in a diluted form in the members of one,s own group.This determines the value as well as political andsocial roleof a personality.(45) "
عہدِ غلامی اور آمریت کی مسلط کردہ بیزارکُن یکسانیت کے مسموم اثرات کو زائل کرنے کے سلسلے میں پاکستانی ادیبوں نے نہایت استقامت کا مظاہرہ کیا۔ پاکستانی ادیبوں کی تخلیقات کا تجزیاتی مطالعہ کرنے سے اس حقیقت کا ادراک ہوتا ہے اس عالمِ آب و گِل میں حیات وممات،تہذیب و ثقافت کے ارتقا،تاریخ کے مسلسل عمل ،سماجی اور معاشرتی زندگی کے مسائل اور اپنے وطن کے آئینی اور سیاسی حوالوں پر سدا اُن کی گہری نظر رہی ہے ۔انھیں اس بات کا شدت سے احساس ہے کہ ہر با شعور شخص کے دِل میں یہ تمنا ہوتی ہے کہ وہ ملک وملت ،اہلِ وطن اور انسانیت کے وقار ،سر بلندی اورفلاح کے لیے کوئی قابلِ قدر کام کر سکے۔خودداری ،عزت نفس اور انا کا بھرم برقراررکھتے ہوئے عجز و انکسار اوروقار کے ساتھ زندگی بسر کرنا ہر با ضمیر شخص کا خواب ہوتا ہے ۔اس خواب کی تعبیر کے لیے وہ اپنی تمام صلاحیتیں بروئے کار لاتا ہے۔ تاریخ کے مسلسل عمل پر نگاہ ڈالنے سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے صعوبتوں کے سفر میں رہنے والے حریتِ فکر کے مجاہدوں اوراہلِ وفا کے حالات تو جوں کے توں رہتے ہیں مگر استحصالی عناصر اور اہلِ جور کی ہمیشہ پانچوں گھی میں رہتی ہیں ۔ عملی زندگی میں صرف کردار بدلتے ہیں اورمراعات یافتہ استحصالی طبقہ چہرے اور رُوپ بدل کر نئے انداز میں ہر سُودُکھوں کے جال بچھانے میں مصروف رہتا ہے۔تخلیقی فعالیت کے دوران ادیب کے فکر و خیال کے سوتے اقدار و ر وایات سے پُھوٹتے ہیں۔پاکستانی ادیبوں نے حریت ِفکر کی روایت کو پروان چڑھاتے ہوئے نئے حالات میں اپنے دبنگ اور منفرد لہجے اور اسلوب کی گھن گرج سے در کسریٰ کے درو دیوار پر لرزہ طاری کر دیا ۔
آمریت کا مسموم ماحول افراد کی نفسیاتی کیفیات پر گہرے اثرات مرتب کرتا ہے ۔آمریت میں تمام اختیارات فردِ واحد کی ذات میں مر تکز ہو جاتے ہیں ۔اس نظام میں عوام اور دوسرے سب انتظامی ادارے آمر کے سامنے کٹھ پتلی کا کردار ادا کرتے ہیں۔آمر اس قدر قوی ہوتا ہے کہ اس کے سامنے باقی سب کچھ ہیچ ثابت ہوتا ہے اور کم زور لوگ اس کے اشاروں پر ناچتے ہیں ۔اختیارات کا یہ عدم توازن عوام میں آمر یت کے خلاف بیزاری پید اکرتا ہے۔ سیاسی اور معاشرتی زندگی کے چیلنج اس امر کے متقاضی ہیں کہ آمریت کے خلاف جد و جہد کے دوران پھونک پھونک کر قدم اُٹھایا جائے ۔ جب آمریت کے ستم حدسے بڑھنے لگتے ہیں تو محلاتی سازشوں اور فوجی انقلاب کی راہ ہموار ہو جاتی ہے ۔ اس الم ناک صورت حال سے بچنے کے لیے مناسب احتیاطی تدابیر نا گزیر ہیں ۔ مطلق العنان حکمرانوں کے دور میں وسعتِ نظر،صبر و تحمل،عفو و درگزر،ایثار ،خلوص و درد مندی کے عنقا ہو جانے کے باعث معاشرتی زندگی میں مختلف عصبیتیں سراُٹھانے لگتی ہیں۔اِحتسابِ ذات کا تصور نا پید ہو جاتا ہے اور عالی ظرفی ختم ہوجاتی ہے ۔آمریت سے قومی تشخص ، ملی وقار اور قومی کردار کی مثبت انداز میں نمو کی مساعی کو شدید ضعف پہنچتا ہے ۔نوبت یہاں تک پہنچتی ہے کہ اخلاقی انحطاط کے سائے بڑھنے لگتے ہیں اور سُورج سوا نیزے پر محسوس ہوتا ہے۔قومی مسائل کے بارے میں مطلق العنان آمر کا روّیہ بالعموم غیر سنجیدہ اور غیر دانش مندانہ ہوتا ہے ۔پاکستانی ادیبوں نے آمریت کے تکلیف دِہ ماحول میں آثار مصیبت کے بارے میں احساس کو پروان چڑھایا اور بے حسی سے نجات دلائی۔آمریت کے دور کا سب سے بڑا عذاب یہ ہے کہ ہر مطلق العنان آمر رعایا کو اُن کی ذات کے حصار میں مقید رکھنے کے لیے کوشاں رہتا ہے۔ان پُر آشوب حالات اور آمریت کی پید اکردہ دشواریوں پر قابو پانے کے لیے حریت ِ فکر کے مجاہد اپنے روز و شب کے معمولات میں اُلجھنے کے بجائے تخیل کی جو لانیاں دکھاتے ہوئے وسعتِ افلاک کا احاطہ کرنے پر اصرار کرتے ہیں ۔ آمریت کے باعث رونما ہونے والی معاشرتی زبوں حالی سے نجات حاصل کرنے کے لیے پاکستانی ادیبوں نے اسی جذبے سے کام لیا ہے جو جدو جہد آزادی کے دوران موجود تھا ۔
حریت فکر و عمل کے ذریعے افراد کی سیرت و کردار میں داخلی تبدیلی لانا پاکستانی ادیبوں نے افکار تازہ کی مشعل تھام کر آمریت کی مسلط کردہ سفاک ظلمتوں کو کافور کرنے کی سعی کی۔ جان لیوا سکوت اور مہیب سناٹوں میں یہ آواز بانگ درا کی حیثیت رکھتی ہے۔ پاکستانی ادیبوں نے اپنی تخلیقی فعالیت سے سلطانی ٔ جمہور کی راہ ہموار کرنے کی مقدور بھر کوشش کی ان کی تخلیقات کا بہ نظر غائر جائزہ لینے سے یہ حقائق سامنے آتے ہیں کہ آمریت کی ظلمت میں جب افراد کی پریشان حالی ، درماندگی ، یاس و ہراس ، بے عملی اور بے حسی بڑھنے لگی تو ان کھٹن حالات میں پاکستانی ادیبوں نے حق گوئی اور بے باکی کو شعار بنایا اور ہوائے جور و ستم کے مہیب بگولوں میں خلوص درد مندی اور ایثار و وفا کی ایسی شمع فروزاں کی جس نے اذہان کی تنویر کا اہتمام کیا اور منزلوں کی جستجوکا ولولہ عطا کیا۔ اپنے اہل وطن کی زندگی کے داخلی اور خارجی پہلوؤں پر توجہ دے کر پاکستانی ادیبوں نے فکر وخیال کے نئے پہلو سامنے لانے کی کوشش کی ۔ اس عہد کی شاعری جہاں تخلیق کاروں کے قو ی مشاہدات اور داخلی تجربات کی آئینہ دار ہے وہا ں معاشرے کی حقیقی کیفیات اور افراد کی مجموعی نفسیات کا احوال بھی اس کا اہم موضوع ہے ۔ معا شرتی زندگی میں جبر کے ماحول کے منفی اثرات پر بھی ادیبوں نے اپنے ردعمل کا اظہار کیا۔تاریخ کے ایک نازک دور میں حریت فکر کے علم بردار شاعروں نے جس بے باکی کے ساتھ قو م کے جذبات و احساسات کی ترجمانی کی ۔ اس سے ایک زندہ قوم کے قومی کلچر کی حقیقی تصویر سامنے آتی ہے۔ ادیبوں نے واضح کر دیا ہر پاکستانی شہری کی عزت و تکریم ارض وطن کی سلامتی سے وابستہ ہے ۔ذہن و ذکاوت اور فکر و خیال کی آزادی معاشرتی زندگی کی کایا پلٹ سکتی ہے ۔ جغرافیائی آزادی کے تحفظ اور استحکا م میں ذہنی آزادی کا کردار مسلمہ ہے۔ پاکستانی ا دیبوں نے ذہنی آزادی کے بارے میں عوام میں مثبت شعورو آگہی پیدا کرنے کی سعی کی ۔ بر طانوی استعمار کی نوے سالہ غلامی کے بعد یہاں کے باشندوں کی قبائے وقار کو چاک کردیا تھا ۔ پاکستانی ادیبوں نے اسے رفو کرنے کی کو شش کی ۔وہ تاریخ کے مسلسل عمل کو بہت اہمیت دیتے تھے ،انھیں معلوم تھا کہ تاریخ سے نابلد شخص کی مثال ایندھن کے لیے رکھی اس خشک شاخِ بریدہ کی سی ہے جسے یہ معلوم نہیں کہ وہ ماضی میں کس شجرِ سایہ دار کے تنے کا حصہ رہ چُکی ہے ۔جب کوئی قوم حقائق کی تکذیب اور صداقتوں کی تمسیخ کووتیرہ بنالے اور تاریخ کے نشیب و فراز کو ذہن سے محو کرنے کی ٹھان لے تو اس کی کور مغزی اور بے بصری کا مظہر یہ مہلک اقدام اس کے مکمل انہدام پر منتج ہو تا ہے ۔ یاد رکھنا چاہیے ہر اِنسان کے دلِ حزیں کی کیفیات اور اس کے نتیجے میں اس کے تنِ نا تواں کی حرکات سے یہ تاثر قوی ہوجاتا ہے کہ انسانی زندگی کی تاریخ بھی داخلی اور خارجی حقائق سے عبارت ہے ۔ تاریخ کو بھی حسن ورومان کی ایک صورت قرار دیا جاتا ہے جس میں مو رخ اپنے افکار کی جولانیوں سے سیلِ زماں کی طغیانیوں کا احوال پُوری دیانت کے ساتھ اس لیے زیب قر طاس کر تا چلاجاتا جاتا ہے کہ وہ سمجھتا ہے کہ مستقبل کے لیے لائحہ عمل مرتب کرتے وقت ماضی کا مطالعہ ناگزیر ہے ۔
تاریخ کے مسلسل عمل کے رمز آشنا جا نتے ہیں کہ اس مدو جزر کا احوال آنے والی نسلوں کے لیے ہمیشہ مشعلِ راہ ثابت ہوتا ہے۔ ادب اور فنونِ لطیفہ سے وابستہ تخلیق کار ہی اپنے عہد کی تہذیبی و ثقافتی اقدار کو نئی نسل تک منتقل کر نے کے ذمہ دار ہیں ۔ اگر یہ اپنی ذمہ داری کو ادا کر نے سے قاصر رہیں تو تاریخی تسلسل کو جاری رکھنے کی مساعی ثمر بار نہیں ہو سکتیں ۔ پاکستانی ادیبوں نے تاریخ کے مسلسل عمل کو صحیح سمت میں آگے بڑھایااور حریت فکر کو زاد ِ راہ بنانے پر اصرار کیا ۔ان ادیبوں کے شعلۂ نوا کو ایک ایسی قندیل سے تعبیر کیا سکتا ہے جس نے طوفانِ حوادث میں بھی اپنی ضیا پاشیاں اور تابانیاں بر قرار رکھیں۔یہ کہنا غلط نہ ہو گا کہ آمریت کے دور میں حریتِ فکر کے مجاہدوں نے حرفِ صداقت کا جو تخم اپنی کِشتِ جاں میں بویااُس کے ثمر بار ہونے کا زمانہ آنے والی نسلوں نے دیکھا۔ان رجحان ساز ادیبوں کی تخلیقات کا انسلاک عہدِ رفتہ کے واقعات اور مستقبل کے امکانات سے کیا جا سکتا ہے ۔تاریخی صداقتوں اور بصیرتوں کا امین یہ ادب جہاں انفرادیت کی شان لیے ہوئے ہے وہاں یہ اجتماعی شعور کا ترجمان بھی ہے ۔صحت مند اذہان سے متمتع قارئین کے لیے یہ ادب ید بیضا کا معجزہ دکھانے کی صلاحیت سے لبریز ہے ۔پاکستان کی سیاسی ،معاشرتی،تہذیبی اور ثقافتی میراث سے کشید کیے گئے اجتماعی نوعیت کے وقیع ادبی مواد کی اساس پر استواریہ ادبی خزینہ زندگی کی اقدارِ عالیہ سے محبت کرنے والے فطین قارئین کے لیے ایک ایسے معدن کی حیثیت رکھتا ہے جس میں آفاقیت کے ترفع سے مزین بیش بہا لعل و جواہرکی فراوانی ہے ۔جری تخلیق کاروں کی انفرادی کاوشوں سے معطر یہ گل ہائے رنگ رنگ قریۂ جاں کو معطر کر دیتے ہیں۔حریتِ فکر و عمل کے مجا ہدوں کی یہ ابد آ شنا تخلیقات لمحے نہیں بل کہ صدیاں سنیں گی ۔اس جامِ جہاں نما میں نہ صر ف اس عہد کی تصویر دکھائی دے گی بل کہ آ ئینہ ٔ ایام میں مستقبل کے سارے مناظر بھی جلوہ گر ہوں گے۔
6 ستمبر 1965کو شروع ہونے والی سترہ روزہ پاک بھارت جنگ سے ملکی معیشت کو شدید دھچکا لگا۔ عالمی برادری کی مداخلت سے جنگ بندی ہوئی اور10 جنوری 1966 کو معاہد ہ تاشقند پر پاکستان کے صدر محمد ایوب خان اور بھارت کے وزیر اعظم لال بہادر شاستری نے دستخط کیے ۔ پاکستان اور بھارت کی مسلح افواج میں ہونے والی سترہ روزہ جنگ (6 ستمبر 1965تا23ستمبر(1965 کے شعلے اقوام متحدہ کی مداخلت سے عارضی طور پر بجھ گئے مگر یہ دبی چنگاریاں سلگتی رہیں اور ان کے شرارے دہکتے رہے ۔ دس جنوری 1966کو معاہدہ تاشقند پر دستخط ہونے کے بعد دونوں ممالک کی مسلح افواج محاذِ جنگ سے واپس ہو گئیں ۔ سر حدی تنازعات کے باعث جنگ اور سیاسی کشیدگی کے باعث نمو پانے ولے نفرت کے جذبات وقتی طور پر دب گئے مگر انھیں ٹھنڈا انہ کیا جا سکا۔عالمی برادری کی مداخلت سے جنگ تو بند ہو گئی مگر جنگ کے نتیجے میں بڑھتی ہوئی گرانی اور سیا سی بے چینی نے عوام کا نا طقہ بند کر دیا ۔ 26 ۔ اپریل 1967 کو وزیرخارجہ ذوالفقار علی بھٹو نے اس معاہدے کے خلاف استعفیٰ دے دیا ۔صدر محمد ایوب خان پاکستان کے تیزی سے بگڑتے ہوئے سیاسی حالات اور امن و امان کی ابتر صورت حال سے پریشان تھے ۔ 29جنوری 1968 کو صدر ایوب کو دل کا شدید دورہ پڑااور وہ ایوان صدر تک محدودہوکر رہ گئے او ر صدر مملکت کا پاکستان کے عوام ،کابینہ او ر مشیروں سے رابطہ تقریباً ختم ہوگیا۔ آمریت کے خلاف پاکستانی قوم کی جد و جہد زوروں پر تھی مگر سیاسی قیادت نے اس کے لیے کوئی واضح اور قابلِ عمل منصوبہ سازی نہیں کی تھی۔ البرٹ آئن سٹائن انسٹی ٹیوشن کے بانی جین شارپ (Gene Sharp, B:1928)نے لکھا ہے ۔
"It should be remebered that against a dictatorship the objective of the grand strategy is not simply to bring down the dictator but to install democratic system and make the rise of a new dictator impossibale." (46)
آئین کے مطابق صدر کی شدید علالت یا ملک سے باہر چلے جانے کے صورت میں قو می اسمبلی کا پیکر صدر کے فرائض انجام دیتا ہے مگر اس وقت کے قومی اسمبلی کے سپیکر عبدالجبار خان کو بالکل اعتماد میں نہ لیا گیا۔ مشرقی پاکستان میں سیاسی بے چینی بڑھنے لگی، شیخ مجیب الرحمن کو مئی 1966 ڈیفنس آف پاکستان رولز کے تحت جیل میں بھیج دیا گیا۔ جنوری 1968 میں اگر تلہ سازش کیس میں مجیب الرحمن کے خلاف ایک اورمقدمہ درج ہوا ۔ 29 جنوری 1968 کو صدر ایوب کو دل کا دورہ پڑا اور مکمل آرام کے لیے معا لجین نے صدر کو بستر علالت تک محدود کر دیا۔10 مارچ 1968 کوکا بینہ کے مختصر اجلاس میں صدر کی ایک جھلک دیکھی گئی۔7 نومبر 1968 کو راول پنڈی میں طلبا نے حکومت مخالف مظاہر ے کیے،ان مظاہروں میں پولیس کے تشدد سے ایک طالب علم لقمہ ٔ اجل بن گیا ۔ اگلے روز ایک اور احتجا جی جلوس میں پولیس کے تشدد سے مزید دو افرادزینۂ ہستی سے اتار دئیے گئے۔ ملک بھر میں تشدد کی جو لہر آئی اس نے ایوانِ اقتدار کے در و دیوار ہلا کر رکھ دئیے۔11نومبر 1968کو پشاور میں صدر محمد ایوب خان پر قاتلانہ حملہ ہوا ۔ 13نومبر 1968کو خان عبدالولی خان اور ذوالفقار علی بھٹو کو ڈیفنس آف پاکستان رُولز کے تحت پابندِ سلاسل کر دیا گیا۔پاکستان میں بڑھتی ہوئی سیاسی بے چینی ،ملک کے تما م بڑے شہروں میں حکومت کے خلاف پُر تشدد احتجاجی مظاہروں اور لاقانونیت کے خاتمے کے لیے حکومت نے مخالف سیاسی جماعتوں سے مذاکرات کا فیصلہ کیااور 17فروری 1969کو گول میز کا نفرنس میں شرکت کے لیے سیاست دانوں کو دعوت نامے ارسال کر دئیے گئے۔اس گول میز کا نفرنس کا پہلا اجلاس 26فروری 1969کو ہوا جب کہ دوسر ا اجلاس 10مارچ1969کو ہوا۔ملک میں سیاسی رسہ کشی اس قدر بڑھ چکی تھی کہ یہ گول میز کانفرنس کسی نتیجے یا مفاہمت پر پہنچے بغیر ہی ختم ہو گئی۔ملک میں انتظامیہ کے قابو سے باہر ہوتی ہوئی انتہائی کشیدہ صورت ِحال کی اصلاح کی خاطر حکومت نے کچھ اقدامات کیے جن میں سیاسی اسیروں کی رہائی،اگر تلہ سازش کیس کا خاتمہ اور سیاست دانوں سے مسلسل رابطہ شامل ہیں۔21 فروری 1969صدرمحمد ایوب خان نے آئندہ انتخابات میں حصہ نہ لینے کا اعلان کیا ایوانِ صدر سے کیے گئے ان اعلانات کے باوجود سیاسی بے چینی ، پر تشدد ہنگاموں اور ہڑتالوں کی شدت میں کوئی کمی واقع نہ ہوئی ۔ملک میں سیاسی عدم استحکام اور پر تشدد ہنگاموں پر پاکستانی فوج کے سپہ سالار جنرل یحیٰی خان کی کڑی نظر تھی مگر اس نے سِول انتظامیہ کے کام میں کوئی مداخلت نہ کی بل کہ خاموش تماشائی بن کر حالات دیکھتا رہا ۔
25 مارچ 1969 کو صدر محمد ایوب خان نے صدر کے عہدے سے استعفیٰ دے دیا اور اقتدار بری فوج کے سر براہ جنرل یحیٰی خان کو سونپ دیا۔اُسی روز جنرل یحیٰی خان نے پاکستان میں مارشل لا نافذ کر دیااور چیف مارشل لا ایڈمنسٹریٹر کا عہدہ سنبھال لیا۔ 31مارچ 1969کو جنرل یحییٰ خان نے صدر مملکت کے منصب پر بھی خود کو فائز کر لیا۔ تاریخ نے اپنے آ پ کو د ہرایا اورایک آمر کے رخصت ہونے کے بعد اس کی جگہ دوسرے آمر نے لے لی۔ہزارہا تکالیف بر داشت کرنے کے بعدپاکستانی عوام کے دِل میں جب اس بات کی اُمید بندھنے لگی کہ ہزارہ اور کالا باغ کا عرصہ اب کوئی دم کا مہماں ہے تو سارا منظر نامہ ہی بدل گیا۔ایک نیا نجات دہندہ منظر ِعام پر آ گیا جو سبز باغ دکھا کر پُرانا آمو ختہ دہرا رہا تھا کہ اب یہاں ہُن برسے گا۔اس نئے نجات دہندہ نے مستقبل کے بارے میں جن عزائم کا اظہار کیا ان کی حقیقت سے پردہ اُٹھاتے ہوئے نکہت بریلوی نے لکھا ہے :

نکہت بریلوی(پیدائش:1935)
آموختہ
جو آتا ہے
اُجالے کی نویدِ عِشرت آگیں لے کر آتا ہے
جو آتا ہے
یہی کہتا ہے اب دورِ مصائب بِیت جائے گا
نِکھر جائے گا صِحنِ گُلستاں خوش رنگ پُھولوں سے
مہک ہر سمت پھیلے گی
کسی دِیوار سے ،در سے نہ اُٹھے گا کوئی منظر
فسردہ خاطری لے کر
نہیں باقی رہے گی اب فضائے گَرد آلُودہ
دِلوں کی کِشت سے فصلیں غموں کی اب نہ اُٹھیں گی
نہ آ نکھوں سے کسی کی اَشک بن کر درد ٹپکے گا
جو آتا ہے
یہی کہتا ہے اور اُس وقت تک کہتا ہے
جب تک اُس کے رُخصت ہونے کی نو بت نہیں آ تی
مگر وہ جب بھی جاتا ہے
تو کوئی دوسرا آکر
یہی آموختہ دہرانے لگتا ہے
مطلق العنان آمر اپنے عرصۂ اقتدار میں جس بے دردی سے مظلوم انسانوں کے چام کے دام چلاتے ہیں وہ تاریخ کا لرزہ خیز باب ہے ۔تاریخ کے پیہم رواں عمل کا بہ نظر ِ غائر جائزہ لینے سے یہ حقیقت کُھل کر سامنے آتی ہے کہ ہر عہد کی تاریخ مطلق العنان حکمرانوں کی خود غرضی ،ہوسِ اقتدار اور قوت و ہیبت کے فسانوں اور جنس و جنوں کے احمقانہ واقعات سے لبریز ہے۔تاریخ کے بارے میں یہ تاثر عام ہے کہ اس کا اہم ترین ،ناقابلِ فراموش اور ناقابلِ تردید سبق تو یہی ہے کہ کسی آمر نے آج تک تاریخ میں مذکور دارا و سکندر،قیصر و کسریٰ ،اور ہٹلر و مسولینی کے انجام سے کوئی سبق نہیں سیکھا ۔ماضی کی تاریخ کے متعدد حادثات،سانحات اور مناقشات سے تجزیہ کار جو نتائج اخذ کرتے ہیں ان سے شِپرانہ چشم پوشی وقت کے فراعنہ کا وتیرہ بن جاتا ہے ۔ تاریخ اپنے آپ کو اس لیے بھی دہراتی ہے کہ شاید اس بار اس کی یادہانی صدا بہ صحرا ثابت نہ ہو اور تاریخ کی تنبیہہ کی بازگشت کا یہ عمل نصیحت نیوش ثابت ہو۔ ظلمت کدۂ دہر کو منور کرنے کے لیے ضروری ہے کہ بُتانِ وہم و گُماں کویقین کے عصا سے پاش پاش کر دیا جائے ۔یقین کی یہ قوت تاریخ کے مطالعہ کی مرہونِ منت ہے جو افراد کو خود شناسی اور خود آ گہی کی متاعِ بے بہا سے متمتع کرتی ہے ۔ تاریخ کا عمیق مطالعہ کسی بھی عہد کے آمروں کے کردارکی تفہیم کی کلید ہے ۔سیلِ زماں کے تھپیڑوں کی زد میں آ کر نیست و نابود ہو جانے والی آمریت کے بارے میں تاریخ جن غیر متبدل واقعات کو سامنے لاتی ہے وہ چشم کشا صداقتوں سے لبریز ہیں۔ جو اقوام ماضی کی تاریخ کو فرامو ش کر کے عہدِ رفتہ کی ہولناک غلطیوں اور کو تاہیوں کا ازالہ کرنے کی کوشش نہیں کرتیں وہ اپنی تباہی ،بربادی اور تخریب کی خود ذمہ دار ہوتی ہیں اور ان کا جغرافیہ بدل جاتاہے ۔ ممتاز شاعر حسن حمیدی نے اپنی نظم’’تاریخ کی عدالت‘‘ میں آمریت کے جبر کے خلاف آواز بلند کی اور جمہوری حقوق سے محروم پاکستانی عوام کا مقدمہ تاریخ کی عدالت میں پیش کر دیا۔
حسن حمیدی
تاریخ کی عدالت
کبھی تو تاریخ کی عدالت میں
تم بھی آؤ گے ہم بھی آئیں گے
حلف اُٹھانے کی رسم سے بے نیاز لمحے
تمام مفلوج عدل گاہوں کی مصلحت کیش بے زبانی
لہو فروشی کے کُل دلائل
دفاتر ِمنصفی پہ تحریر کررہے ہیں

کبھی تو تاریخ کی عدالت میں تم بھی آؤ گے ہم بھی آئیں گے
تم اپنے سار ے حلیف لانا
قصیدہ خوانوں کا مجمعِ بے ضمیر لانا
خمیدہ سر مصلحت پسندی کے زہر آلُودتِیر لانا
تم اپنی مانگی ہوئی شکستہ سی تیغ لانا
صلیب لانا
اذیتوں کے نصاب لانا
ہر ایک پُشتِ بشر پہ تحریر وحشتوں کی لکیر لانا
کبھی تو تاریخ کی عدالت میں تم بھی آؤ گے ہم بھی آئیں گے
ہم اپنے ہم راہ زندہ لفظوں کے پُھول لے کر
ہر ایک دامن کی دھجیوں کی دھنک میں پو شیدہ
زندگی کے اصول لے کر
ہزارہا سر کشیدہ کِرنوں کانُور لے کر
ہم اپنی اُن بیٹیوں کی مانگوں کا حُسن لے کر
کہ جِن کے سیندور کو کُھرچ کر
تم آج بارُود کی سُرنگیں بِچھا رہے ہو
ہم اپنی دھرتی کے ذرّے ذرّے میں شعلہ افشاں جلال لے کر
ضرور آئیں گے
جلد آئیں گے
وہ دَور اب دُور تو نہیں ہے
کہ وقت جب مُنصفی کرے گا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مآخذ
1. Ahmad Shuja Pasha: Pakistan a Political Profile Page 183
2۔قدرت اﷲ شہاب : شہاب نامہ صفحہ 697
3. Safdar Mehmud (Dr) : Constiutuional Foundations of Pakistan , Jang Publishers Lahore, April 1990 , Page 23
4 ۔ قدرت اﷲ شہاب : شہاب نامہ صفحہ 697
5 ۔ لزلی وولف فلپس :’’قانون ضرورت کا ایک مطالعہ‘‘مشمولہ تیسری دنیا ،وسائل و مسائل، مرتبہ الطاف گوہر صفحہ161
6.Hans Kelsen:General Theory Of Law And State,Translated by:Anders Wedberg,Harvard University Press ,1949 ,Page,18.
7 ۔ لزلی وولف فلپس :’’قانون ضرورت کا ایک مطالعہ‘‘ صفحہ 166
8 ۔احمد سلیم : ٹوٹتی بنتی اسمبلیاں صفحہ263
9۔احمد سلیم : ٹوٹتی بنتی اسمبلیاں صفحہ 262
10۔ علی حسن : پا کستان جرنیل اور سیاست ، صفحہ 265
11.I.A Richards: Principles Of Literary Criticism,Routledge,London,2001,Page,24
12.Will Durant:The Story Of Civilization,Simon and Schuster,New York,1942,Page 25

13.Herodotus:The History Of Herodotus,Translated in English by ,G.C Macaulay,Macmilan,London,1914,Page,34
14 ۔فیروز خان نون : چشم دید، فیروز سنز لمیٹڈ، لاہور ، بار اول ، جولائی 1967 صفحہ 430
15.Edward W Said:Orientalism,Vintage Books New York,1979,Page,249
16.Hans Kelsen:Pure Theory Of Law,Translated by Max Knight,5th Printing,The law book exchange limited New Jersey , 2008.Page,92
17۔محمد اصغر خان: صدائے ہوش ، جنگ پبلشرز ، لاہور ،با ر اول 1975 صفحہ 77
18۔محمد ۔ایچ۔آر تلک دار(مرتب ): سہروردی کی سیاست بیتی ، اردو ترجمہ وجاہت مسعود ، جنگ پبلشرز ، لاہور ، اشاعت اول 1992 ، صفحہ 84
19 ۔محمدشیر علی خان (میجر جنرل ریٹائر ڈ):پاکستان اور ہندوستان میں سیاست اور سپاہ گری کی روداد ، مکتبہ کارواں ، لاہور ، بار اول 1983 ، صفحہ 143

20۔محمد ایچ آرتلک دار:سہروردی کی سیاست بیتی، صفحہ101
21۔احمد سلیم:سیاست دانوں کی جبری نااہلیاں،جنگ پبلشرز ،لاہور، اشاعت اول 1991، صفحہ 4
22 ۔ اشفاق احمد: ’’صدر مملکت کے ساتھ چند لمحے‘‘ ،ہفت روزہ لیل و نہار،لاہور ،جلد9،شمارہ43،اتوار25اکتوبر1959, صفحہ 9
23۔محمدایوب خان:جس رزق سے آتی ہو پرواز میں کو تاہی، صفحہ 31
24.Hamid Yousaf:Pakistan in search of Democracy,Afrasia Publications,Lahore,1980,Page, 53
25۔فاطمہ جناح :میرا بھائی،اُردو ترجمہ ،اشرف تنویر،آتش فشاں پبلی کیشنز،لاہور،فروری 1988، صفحہ90
26.Mushtaq Ahmad:Government And PoliticsIn Pakistan,Royal Book Company,Karachi,1988,Page 179
27۔غلام نبی ملک:داغوں کی بہار،سنگِ میل پبلی کیشنز،لاہور، 1988، صفحہ346
28.Omar Noman: Pakistan A Political And Economic History Since 1947,Kegan Paul, London,1988,Page 29
29۔افضل توصیف:الیکشن جمہوریت مارشل لا،نگارشات ،لاہور ، سال اشاعت ،1990، صفحہ21
30۔جمیل درانی:بیادِ شورش، مکتبہ انجم،لاہور، اشاعت اکتوبر 1986 صفحہ 227
31۔جمیل درانی: بیاد شورش، صفحہ226
32۔عبدالرحمٰن خان منشی:کتابِ زندگی،جاوید اکیڈمی ،ملتان شہر، اشاعت اول ،1982، صفحہ 155

33۔تنویر ظہور:’’ حبیب جالب سے مکالمہ‘‘ مشمولہ سہ ماہی ادبیات ،اسلام آباد،جلد 7،شمارہ,27,28,29,30، 1994، صفحہ 668
34.Hassan Askri Rizvi:The Military And Politics In Pakistan, Progrssive Publishers,Lahore,1986, Page 87
35.Hassan Askri Rizvi:The Military And Politics In Pakistan, Page 86
36۔محمدایوب خان: جس رزق سے آتی ہو پروا ز میں کو تاہی صفحہ307
37.Safdar Mahmood Dr. :Constitutional Foundations Of Pakistan, Page,23

38۔محمداصغر خان:صدائے ہوش، صفحہ83
39۔محمداصغر خان:صدائے ہوش، صفحہ83
40۔احمدسلیم :سیاست دانوں کی جبری نا اہلیاں، صفحہ867
41۔قدرت اﷲ شہاب:شہاب نامہ صفحہ772
42.Noam Chomesky:How The World Works,U.S.A ,2011, Page 264
43.Gene Sharp:From Dictatorship To Democracy,Albert Einstein Foundation,U.S.A,2002,Page 5
44.Jacques Derrida:Acts Of Religion,Routledge,London,2002, Page 234

45.Zevedei Barbu:Democracy and Dctatorship,New York Grove Press,1956,Page,Page 265
46.Gene Sharp:From Dictatorship To Democracy,Albert Einstein Institution,U.S.A, 2002,Page,49
------------------------------------
Ghulam Ibn-e- Sultan
About the Author: Ghulam Ibn-e- Sultan Read More Articles by Ghulam Ibn-e- Sultan: 277 Articles with 606264 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.