آؤ محبوب کی باتیں کریں!!

میری جان ،میری آنکھوں کی ٹھنڈک میرے دل کے چین ،میری آسوں و امیدوں کے محور وہ جنھوں نے ظلمت و تاریکی کے گھٹاٹوپ اندھیروں کوشعور وآگاہی کا نور بخشا۔ وہ جنھوں نے بے سہاروں کو سہارابخشا۔جن کے فیض نور کی بدولت جہالت ،غفلت ،حماقت ،عداوت ،زلت و زلالت کو شکست ملی ۔حق صداقت ،عدالت و شرافت کی جیت ہوئی ۔وہ جنھوں نے انسانیت کو سلیقہ حیات دیا ۔وہ جنھوں نے اب ،تب ،کیوں اور کب ،سب پیداہونے والے سوالات کے جوابات عطافرمادیے ۔جو ہوا ،جو ہورہاہے اور جو ہوگا سب سے مطلع تھے مطلع ہیں اور مطلع رہیں گے ۔

قارئین !عاشق کو تو میری باتوں سے سکون مل رہا ہوں اور بعض و کینہ رکھنے والے کی تکلیف ہورہی ہوگئی ۔دیوانے تو مچل رہے ہوں گے کہ میں ایسے ہی اُس پیارے کی باتیں کرتاچلوں تو دیوان کے دیوان بھرتے چلے جائیں ۔کیوں کہ اس ذات کی صفات کا اداراک ممکن نہیں ۔بس عاشق محبوب کا اپنے ظرف اور اپنی اوقات کے مطابق ذکر کرتاچلاجاتا ہے ۔
آئیے میں قرآن سے اس پیارے کی شان بتاتاہوں ۔
ارشادِ باری تعالیٰ ہے :
قُلْ اِنْ کَانَ اٰبَآؤُکُمْ وَاَبْنَآؤُکُمْ وَ اِخْوٰنُکُمْ وَاَزْوٰجُکُمْ وَعَشِیْرَتُکُمْ وَ اَمْوٰلُ اقْتَرَفْتُمُوْہَا وَتِجٰرَۃٌ تَخْشَوْنَ کَسَادَہَا وَمَسٰکِنُ تَرْضَوْنَہَآ اَحَبَّ اِلَیْکُمْ مِّنَ اﷲِ وَرَسُوْلِہٖ وَجِہَادٍ فِیْ سَبِیْلِہٖ فَتَرَبَّصُوْا حَتّٰی یَاْتِیَ اﷲُ بِاَمْرِہٖ وَاللّٰہُ لَایَہْدِی الْقَوْمَ الْفٰسِقِیْنَ (پ۱۰،سورۃالتوبۃ ،آیت۲۴)
ترجمہ کنزالایمان:’تم فرماؤ اگر تمہارے باپ اور تمہارے بیٹے اور تمہارے بھائی اور تمہاری عورتیں اور تمہارا کنبہ اور تمہاری کمائی کے مال اور وہ سودا جس کے نقصان کا تمہیں ڈر ہے اور تمہارے پسند کے مکان یہ چیزیں اللّٰہ اور اس کے رسول اور اس کی راہ میں لڑنے سے زیادہ پیاری ہوں تو راستہ دیکھو یہاں تک کہ اللّٰہ اپنا حکم لائے اور اللّٰہ فاسقوں کو راہ نہیں دیتا ‘‘

محترم قارئین:دیکھا میری جان میری آنکھوں کی ٹھنڈک میرے دل کے چین کا ذکر قرآن میں کس طور پر کیاگیا ۔سبحان اﷲ !

آپ کو بتاؤں یہ ہستی مجھے اپنی جان ،اپنی اولاد اپنے مال سب سے زیادہ پیاری ہے ۔یہ بات صرف کہنے کی حد تک نہیں بلکہ دل و جان سے ان سے پیار کرتاہوں اور مجھے جو بھی ملا اور جو ملے گا وہ انہی کے طفیل ملا۔تو بھلامیں اپنے محسن سے اس قدر پیار کیوں نہ کروں ۔

کیا خیال ہے آپ کا؟

یہ عظیم المرتبت ہستی جن کے لیے ان کے رفقاء تڑپ اُٹھتے یہاں تک کے ان کے تلووں میں ایک کانٹے کا چبھنا بھی گوارا نہیں کرتے تھے۔میری امیدو میری آسوں کا محور عزت مآب ہستی صلی اﷲ علیہ وسلم کی حفاظت میں ان کے اپنے جسم تیروں سے چھلنی ہو جاتے تھے لیکن وہ یہ نہیں برداشت کر سکتے تھے کہ ان کے جیتے جی سب اعلی و بالا ہستی کا بال بھی بیکا ہو۔ مرد تو مرد، عورتوں تک کے جذبات کا یہ حال تھا کہ وہ اپنے بیٹے اور شوہر اور باپ اور بھائی سب کو قربان کر کے بھی محسن انسانیت صلی اﷲ علیہ وسلم کی سلامتی کی آرزوئیں رکھتی تھیں۔

اور بتاؤں اپنے محبوب سے محبت کی باتیں ۔بتاتا چلا جاؤں گا ۔مجھے اپنے محبوب کا ذکر کرتے ہوئے بہت سکون ملتاہے ۔ایسا سکون کے جو کسی طور پر بھی کسی اور کام سے نہیں مل سکتا۔کیوں نہ ہو آخر عاشق کس کا کہوں ۔دیوانہ کس کا ہوں ۔مستانہ کس کا ہوں ۔گداگر کس کے در کا ہوں ۔وہ در وقت کے بادشاہ جہاں گداگری کو معراج جانیں ۔

محترم قارئین :
موجودہ انسانی مصائب سے نجات ملنے کی واحد صورت یہی ہے کہ میرے محبوب کو اپنا رہبر و رہنما بنا لیں انھوں نے جو فرمایا وہ اس کو اپنا لیں ۔جس سے منع کیا اس سے منع ہوجائیں دنیا جنّت کا منظر پیش کرے گی ۔امن سکوں ،سکھ چین مل جائے گا۔میں بتا نہیں سکتا میرے محبوب کتنے پیارے ہیں ۔کتنے اچھے ہیں کتنے عظیم ہیں ۔میری جان ہیں ،میرا مان ہیں ،میراایمان ہیں ۔

آج کا کالم لکھتے ہوئے اک اپنا ہی سرور ہے ۔ایک اپنا ہی رنگ ہے ۔ربیع الاوّل کا مہینہ ہے ۔ہر طرف خوشیوں کا سماں ہے ۔خود بتاو مجھے کتنے خوشی ہوگی ۔یہ سب میرے محبوب کی ولادت کی خوشی میں ہورہا ہے ۔یہ سب دیوانے بھی میرے محبوب ہی کے دیوانے و مستانے ہیں ۔یہ بھی میری طرح ان کی یاد میں تڑپتے مچلتے ،بلکتے ہیں ۔

یہاں ایک بات بتاؤں میرے تو محبوب ہیں ۔میری تو کل کائنات ہیں میرا تو سب کچھ ہیں لیکن وہ جو ان کے نہیں ہیں ۔وہ بھی میرے محبوب کی شان بیان کرتے ہیں ۔

میرے محبوب کی عظمت و رفعت کا برملا اعتراف اور آپ کی عمدہ تعریف بڑے بڑے دانشوروں ،مفکروں و سیاست دانوں ،سائنسدانوں نے بھی کی ۔جس میں کارلائل ، نپولین ، رائٹر ، ٹالسائی ، گوئٹے، لینن پول اور دیگر بیشمار ہندو دانشورسب ہی میرے محبوب کی شان میں رطب اللسا ن ہیں۔

محترم قارئین ۔میرے محبوب کے چاہنے والے میرے محبوب کی عظمت و صفت ، حرمت و تقدس ، رفعت وناموس کیخلاف کسی بھی قسم کا سمجھو تہ یا چپ سادہ لینا تو دور کی بات ہے بلکہ حقیقت حال یہ ہے کہ آپ کی شان کے خلاف سوچ کا ایک لمحہ بھی ہماری دینی حمیت و غیرت کے منافی ہونے کے ساتھ ساتھ کسی مسلمان کا دائرہ کفر اور ارتداد میں داخلہ کیلئے کافی ہوتا ہے۔

قارئین!کیسی لگیں میرے محبوب کی باتیں ۔آپ بھی میرے محبوب کے محب ہو ۔آؤ یہ عہد کریں کہ ہم وہی کریں گے جو ہمارے محبوب نے کرنے کا حکم دیا اور اس سے دور رہیں گئے جس سے ہماری عزت و شان ،ہماری آن ،بان ،ہماری دل و جان ہمارے محبوب نے منع فرمایا۔
لاکھوں اربوں کھربوں درود وسلام میرے محبوب پر اور ان کی آل پر۔
DR ZAHOOR AHMED DANISH
About the Author: DR ZAHOOR AHMED DANISH Read More Articles by DR ZAHOOR AHMED DANISH: 380 Articles with 542202 views i am scholar.serve the humainbeing... View More