شبلی، مکاتیبِ شبلی اور ندوۃ العلما

جب سے شبلی اور حالی کی وفات کے سو برس مکمل ہوئے، وہ پھر سے تنقید و تحقیق اور علمی مباحث کے مرکز میں نظر آرہے ہیں اوردونوں بزرگ توجہ کے ساتھ غور وفکر کا حصّہ بنائے جانے لگے ہیں۔ اس دوران حالی اور شبلی دونوں کے کارناموں کا جائزہ علی گڑھ تحریک اور سر سید کے رفیقِ محض کے طور پر نہیں بلکہ ہندستان میں نئی بیداری کے عَلَم برداروں کی حیثیت سے لینے کی کوشش ہوئی۔یہ بھی سچّائی ہے کہ شبلی کی خدمات پر زیادہ سنجیدگی سے مضامین لکھے گئے اور متعدد کتابیں بھی شایع ہوئیں۔ دارالمصنفین کا بھی جمود ٹوٹا اور نئے انداز سے شبلی نعمانی کی کتابیں اور ان سے متعلق اہم تحریروں کی اشاعتِ نو کا سلسلہ قائم ہوا۔ ملک کے گوشے گوشے میں جو سے می نار اور مذاکرے ہوئے، ان کا ایک لازمی نتیجہ یہ بھی ہوا کہ شبلی کے قدر شناس بزرگوں کے بعد نئی نسل میں بھی پیدا ہونے لگے اور نئی نسل کے درمیان شبلی ایک قابلِ توجہ موضوع کی طرح سامنے آئے۔ اسے شبلی شناسی کے لیے نیک فال سمجھنا چاہیے کیوں کہ اس سے شبلی کی شخصیت اور کارناموں کو سمجھنے والوں کا دائرۂ کار وسیع تر ہوا۔
اپنے عہد میں شبلی ایک معنوں میں خوش نصیب تھے کیوں کہ انھیں شاگردوں کا ایک بڑا لائق حلقہ میسر آیا اور خاص طور سے سید سلیمان ندوی کی وجہ سے یہ صورت سامنے آئی کہ یہ بات مثال کے طور پر پیش کی جانے لگی کہ مثالی شاگرد ہو تو ایسا ہو۔ سید سلیمان ندوی نے شبلی شناسی کے وسیع دائرۂ کار کے تعین میں بنیادی کارنامہ انجام دیا اور اس سلسلے سے ذہن کشا آفاق روشن کیے۔ ’حیاتِ شبلی‘ جیسی اہم سوانح حیات کی تصنیف سے شبلی شناسی کی ٹھوس علمی بنیادیں قائم ہوئیں۔ ’حیاتِ شبلی‘ کو فنِ سوانح نگاری کے اصولوں سے پرکھنے کی کوشش کی جائے تو معلوم ہوگا کہ تحقیقی نقطۂ نظر سے اس کا پایۂ استناد نہایت اعلا ہے۔ سید سلیمان ندوی نے حیاتِ شبلی کی تصنیف سے پہلے ’مکاتیبِ شبلی‘ کی دو جلدیں شایع کردی تھیں۔ ’حیاتِ شبلی‘ کا بنیادی مواد سیّد سلیمان ندوی نے شبلی کے خطوط سے اخذ کیا تھا۔ اس سے پہلے سوانحی نوعیت کی ایسی کوئی کتاب شاید ہی مکمل ہوئی ہو جس میں خطوط کا اس بڑے پیمانے پر بنیادی ماخذ کے طور پر استعمال کیا گیا ہو۔
جب سے برطانوی سامراجیت کی نبضیں سُست پڑیں، تحقیق کے ذرائع کے استعمال میں بھی کچھ بنیادی تبدیلیاں سامنے آئیں۔ ایک زمانے تک حکومت کے فرمان کو ہی دستاویزی حیثیت حاصل رہی تھی۔ رفتہ رفتہ تحقیقی ذرائع کے طور پر بہت ساری غیر رسمی چیزوں کے استعمال کا بھی ایک سلسلہ شروع ہوا۔ مورخین نے ذاتی رکارڈس کے طور پر خطوط کو قابلِ توجہ ماخذ کی حیثیت عطا کی۔ شبلی کے سلسلے سے سید سلیمان ندوی نے خطوط کے بالاستیعاب مطالعے کا جو شعور عطا کیا، اس کے اثرات گوناگوں رہے۔ اس دوران شبلی کے بہت سارے بھولے بسرے خطوط بھی وقتاً فوقتاًسامنے آتے رہے۔ محمد امین زبیری، سید محمد حسنین، محمد الیاس الاعظمی کی کوششوں سے ’مکاتیبِ شبلی‘ کے بعد شبلی کے خطوط کا ایک بڑا سرمایہ پھر سے جمع ہوگیا۔ شبلی صدی کے موقعے سے ’شبلی کی آپ بیتی‘ عنوان سے خالد ندیم کی کتاب سامنے آئی اور اسی سلسلے کی ایک کڑی میں ڈاکٹر عمیر منظر کی کتاب ’شبلی، مکاتیبِ شبلی اور ندوۃ العلما‘ کا بھی شمار کیا جاسکتا ہے۔ یہ خوش آیند ہے کہ سید سلیمان ندوی سے سیکھ کر ہمارے محققین نے اب موضوعاتی جہت سے ’مکاتیبِ شبلی‘ کا جائزہ لینا شروع کیا ہے۔
ڈاکٹر عمیر منظر کی کتاب اس اعتبار سے خاص اہمیت رکھتی ہے کیوں کہ شبلی کے اِن خطوط سے بیسویں صدی کے ابتدائی چودہ پندرہ برسوں کی انجانے طور پر ایک ایسی تاریخ رقم ہوگئی ہے جس میں ملک کے عالی دماغ اصحاب الرائے کا کسی ایک موضوع کے تعلق سے غور و فکر اور اس کے نتائج سامنے آجاتے ہیں۔ علی گڑھ مسلم یونی ورسٹی یا مدرستہ العلوم کے تعلیمی تجربے سے شبلی کی نااتفاقی کے ساتھ ساتھ یہ یاد رکھنا چاہیے کہ دارالعلوم ندوۃ العلما جسے شبلی علی گڑھ کے شکستِ خواب کے تدارک کے طور پر دیکھتے تھے اور اسی لیے وہ علی گڑھ کالج چھوڑ کر ندوہ آگئے تھے۔ ڈاکٹر عمیر منظر نے اپنی کتاب کی پشت پر 1901ء اور 1914ء کے ایک ایک خط سے چند سطریں شایع کر دی ہیں تاکہ پڑھنے والوں کو فوری طور پر اس بات کا اندازہ ہوجائے کہ ان چودہ برسوں میں قومی زندگی اور بالخصوص ندوۃ العلما کے تصورات میں کس طرح بعدِ مشرقین پیدا ہوا اور آخر کا رشبلی کو اپنے خوابوں کی جنت ندوۃ العلما سے زندگی کے آخری لمحوں میں با دل ناخواستہ رخصت ہونا پڑا۔
عمیر منظر نے طول طویل تجزیہ کرنا اور ایک عالَم پر فردِ جرم عائد کرنا یا تاریخ کے ملزمین کی خبر لینا جیسے کاموں کو اس کتاب کی تالیف کے دوران زیادہ اہمیت نہیں دی۔ اس سے ان کی کتاب کا تحقیقی اور علمی اعتبار بڑھا ہے۔ انھوں نے خطوط کے ضروری اقتباسات ترتیب وار طریقے سے پیش کردیے۔ جو باتیں روزِ روشن کی طرح عیاں ہیں اور تاریخ کی کسوٹی پر کَسی جانے کے لیے تیار ہیں؛ اُن پر زیادہ راے اور صلاح یا تنقیدی تجزیے کی ضرورت نہیں تھی۔ سید محمد محسن نے ’سعادت حسن منٹو اپنے آئینے میں‘ عنوان سے جو کتاب ترتیب دی تھی، اس میں منٹو کی تحریروں کے صرف اقتباسات شامل کیے گئے تھے۔ منٹو کے اقتباسات کی بنیاد پر انھوں نے اپنی کتاب کے ابواب متعین کیے اور پچانوے فی صدی باتیں منٹو کی زبانی ہی کہہ ڈالیں۔ عمیر منظر نے بھی یہی اسلوب اختیار کیا۔ مختصر مقدمہ ہے جس میں اس وقت کی بدلتی ہوئی صورتِ حال کا نقشہ پیش کیا گیا ہے۔ اس سے کتاب کی پیش کش کے مقاصد بھی از خود واضح ہوجاتے ہیں۔
ایسا نہیں ہے کہ عمیر منظر نے تحقیقی سہل پسندی سے کام لیا اور خطوط کو ترتیب سے پیش کرکے مصنف اور مرتب ہونے کا دعوا مکمل کر دیا۔ سچائی تو یہ ہے کہ مرتب کی محققانہ استعداد ان کے مقدمے سے بڑھ کر ان کے حواشی میں ابھر کر سامنے آتی ہے۔ چھوٹی سے چھوٹی بات کو بھی انھوں نے حقیقت کی ایک کڑی کے طور پر سمجھا اور اپنی سطح سے اس کی جانچ پرکھ کی کوشش کی۔ مکتوب الیہ حضرات کا تعارف اور مکتوبات میں جن اہم اشخاص کا ذکر آیا ہے، ان کے احوال کتاب میں درج کرنا مشقّت بھرا کام تھا جسے عمیر منظر نے بہ طریقِ احسن انجام دیا ہے۔
سرسری طور پرا س کتاب کا مطالعہ کیا جائے تو بعض نتائج ایسے بھی سامنے آسکتے ہیں جن کی بنا پر اس کتاب کو معاندانہ تحقیق کی بنیاد سمجھ لیا جائے۔ اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ ان خطوط سے ندوۃ العلما اور شبلی کے رشتوں میں بہ تدریج جو رکاوٹیں پیدا ہوتی گئیں، ان کی شبلی کے حوالے سے تفصیل سامنے آگئی ہے۔ اس کا دوسرا پہلو بھی ممکن ہے۔ اِن اختلافات میں دوسرے فریقین کی باتیں بھی قابلِ غور ہوسکتی تھیں۔ آیندہ کے محققین کے لیے یہ موضوع اہم ہونا چاہیے کہ ندوۃ العلما کی ابتدائی دو دہائیوں میں فکری طور پر جو آویزشیں ہوئیں، ان کا معروضی انداز میں جائزہ لیا جائے۔ عمیر منظر نے اپنے دائرۂ کار میں صرف شبلی کے خطوط تک خود کو محدود رکھنے کی کوشش کی لیکن اچھے محقق کی یہ شان ہوتی ہے کہ اپنے موضوع کے آس پاس کے ضروری امور بھی ضمنی طور پر ہی سہی، اپنی گفتگو میں شامل کر لیتے ہیں۔ عمیر منظر نے مولانا سید ابوالحسن علی ندوی کی خودنوشت ’کاروانِ زندگی‘ اور مولانا سید محمد الحسنی کی ’سیرتِ مولانا سید محمد علی مونگیری‘ جیسی کتابوں کے مختصر اقتباسات سے عرفِ عام میں فریقِ ثانی کے نقطہ ہاے نظر کو بھی پڑھنے والوں کے سامنے پیش کردیا۔ چند جملوں میں ان پر تبصرہ کرکے اپنا نقطۂ نظر واضح کردیا لیکن اسے مرکزی موضوع نہیں بنایا۔
حقیقت میں یہ مختصر سی کتاب آج سے سو برس پہلے کی ایک ایسی تاریخ ہے جس سے ہم اندازہ کرسکتے ہیں کہ ہمارے ملک کے مسلم دانش وران علمی و ادبی اعتبار سے مشرقیت کو بنیاد میں رکھ کر نئی تعلیم اور زندگی کا خاکا کھینچنے کے مرحلے میں کن نتائج تک پہنچ رہے تھے۔کیا ان کا دانش ورانہ سفر خطِ مستقیم پر چل رہا تھا یا طرح طرح کی رکاوٹوں سے ٹیرھے میڑھے راستے تیّار ہو رہے تھے۔ شبلی نعمانی علی گڑھ کالج کی بڑی حیثیت والی لکچر شب چھوڑ کر ندوۃ العلما میں غریبانہ زندگی بسر کرنے کے لیے پہنچ جاتے ہیں۔ اسلامی تعلیم کی نئی بنیادیں قائم ہوتی ہیں۔ شبلی ہندستان میں مدارسِ اسلامیہ کی ایک نئی دنیا دیکھنا چاہتے تھے۔ ندوۃ العلما انھیں اس کے لیے سب سے موزوں جگہ معلوم ہوئی۔ سرسید کے تعلیمی نظریے کے شبلی پورے طور پر کبھی قائل نہیں تھے اور اس کی خامیوں کا بَرملا اظہار کرتے تھے۔ اس لیے جیسے ہی ندوۃ العلما کے قیام کا سلسلہ شروع ہوا، شبلی نے ابتدائی دور میں علماے کرام کی ذہن سازی اور پھر ادارے کے قیام کے سلسلے سے کچھ اس طور پر کوششیں شروع کیں جن کے سبب یہ قومی سطح کی مہم بن گئی۔
عمیر منظر کی اس کتاب میں شبلی کے اس سلسلے سے سب سے پُرانے دو خطوط ہیں جو ۱۹۹۵ء میں مولانا محمد علی مونگیری کے نام لکھے گئے ہیں۔ ان خطوط سے ندوہ کے قیام کے لیے جگہ کے انتخاب کی سب سے اہم بحث سامنے آتی ہے۔ ۱۸۹۹ء کے دو خطوط جو مولانا حبیب الرحمان خاں شروانی کے نام لکھے گئے ہیں، ان میں قوم کے آپسی مسائل اور بنتے بگڑتے حالات اپنے آپ سمجھ میں آجاتے ہیں۔ ۱۸؍ جون کو شبلی نے صاف صاف لکھا: ’ندوہ کی بیماری لاعلاج ہے‘۔ ۱۳؍اکتوبر کے خط میں حبیب الرحمان شروانی کو لکھا: ’اگر آپ یہ چاہتے ہیں کہ ندوہ کی خدمت کرسکوں تو دس پندرہ دن کے لیے لکھنؤ میں آکر قیام کیجیے۔ میں کارروائی اور طرزِ عمل کا نقشہ پیش کروں گا‘۔ اس وقت ندوہ کے جو احوال تھے، ان سے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے اسی خط میں شبلی نے یہ بھی لکھا: ’اس میں شریک ہونا میں قومی گناہ سمجھتا ہوں‘۔ حالات کی تبدیلی کے ساتھ ۱۹۰۱ء سے جو خطوط ملتے ہیں، ان سے یہ اندازہ ہوتا ہے کہ شبلی کی شکایتیں رفع ہوناشروع ہوئی ہیں۔ دسمبر ۱۹۰۱ء میں ابوالکلام آزاد کے نام ایک خط میں لکھا: ’میں نے مصمم ارادہ کرلیا ہے کہ سب چھوڑ چھاڑ کر ندوہ کے آستانے پر آبیٹھوں اور اپنی تمام عمر اس کی خدمت میں صرف کروں‘۔ ۱۹۰۲ء میں مولانا حبیب الرحمان شروانی کو قدرے اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے لکھتے ہیں: ’ندوہ اب راہ پر آتا جاتا ہے․․․ خیر بعد از خرابی بسیار سہی، اب ندوہ میں رہنے کو جی چاہتا ہے‘۔
حیدر آباد حکومت کی ملازمت کو بالآخر شبلی نے چھوڑ دیا اور مستقل طور پر ندوہ میں اس کے انتظامات کے ذمے دار مقرر ہوئے۔ شبلی نے ندوۃ العلما کے وسائل میں اپنی ملک گیر کوششوں سے جو اضافے کیے، اس کی تفصیل تو اس کتاب کے دائرۂ کار سے باہر ہے لیکن ان خطوط سے اس کی ایک ابتدائی جھلک ضرور ملتی ہے۔ چودہ پندرہ برسوں میں شبلی نے اس ادارے کو ترقی کے مدارج تک پہنچانے کے لیے کیا کیا نہیں کیا، یہ تاریخ کا سنہرا باب ہے۔ اس وجہ سے شبلی ندوۃ العلما کے سب سے بڑے محسنین میں شمار ہوتے ہیں۔ ان کاموں سے کسی کو زیادہ اختلاف یا نکتہ چینی کا موقع شاید ہی ہاتھ آسکتا ہے۔
سچائی یہ ہے کہ شبلی ندوہ کو عمارت اور بھیڑیا تماشے کے طور پر نہیں دیکھ رہے تھے۔ ان کا ذہن بالکل صاف تھا۔ وہ مسلمانوں کی نئی تعلیم کا خاکا تیار کرنا چاہتے تھے جس کے لیے ندوہ میں انھوں نے اپنی زندگی کے آخری چودہ پندرہ برس وقف کیے۔ ندوہ کے اراکین سے شبلی کا اختلاف یا شبلی سے اراکینِ ندوہ کا اختلاف حقیقت میں دو طرح کے طریقہ ہاے تعلیم کے رواج کے سلسلے سے ذہنی رکاوٹوں کا اعلانیہ ہے۔ شبلی بار بارلوگوں کو یاد دلاتے ہیں کہ ندوہ کے مقاصد بہت واضح ہیں۔ ندوہ سے علاحدگی کے دور میں بھی،جب داخلی سطح پر وہاں کے کاموں میں بہت ساری تبدیلیاں آنے لگی تھیں، شبلی اپنے واضح اختلافات پیش کرتے ہیں۔ حبیب الرحمان شروانی کو ایک خط میں نصابِ تعلیم کے اہداف میں تبدیلی پر اعتراض کرتے ہوئے بڑی صاف گوئی سے شبلی نے یہ لکھ دیا کہ اگر اسی طرح کی تعلیم کا تصور تھا تو ندوہ قائم کرنے کی ضرورت کیا تھی اور دارالعلوم دیوبند میں کیا خرابی تھی کہ ایک نئے ادارے کی داغ بیل رکھی جائے۔ ان خطوط سے یہ پورے طور پر واضح ہو جاتا ہے کہ شبلی ندوۃ العلما سے جس بڑے کام کی توقع کرتے تھے اور مسلمانوں کے نظامِ تعلیم میں جس انقلاب آفریں تبدیلی کے خواہش مند تھے، اس سے انھیں رفتہ رفتہ مایوسی ہونے لگی تھی جس کے نتیجے کے طور پر ایسے حالات پیدا ہوگئے کہ وہ ندوہ سے الگ ہو جائیں اور پھر موت کے چند مہینوں پہلے انھیں اپنے وطن اعظم گڑھ واپس ہونا ہوا۔ حالاں کہ وہ پھر سے ایک نئے ادارے ’دارالمصنفین‘کا خواب دیکھنے لگے لیکن اس کے قیام سے پہلے ہی اجل نے انھیں لپک لیا۔بعد میں سید سلیمان ندوی اور شبلی کے دوسرے شاگردوں نے بہ طریقِ احسن اس خواب کو تکمیل تک پہنچایا۔
اس کتاب میں جو خطوط جمع ہیں، ان میں شبلی کی نئی تعلیم کی جستجو اور ندوہ میں اس کے نفاذ کے سلسلے سے جو رکاوٹوں اور طرح طرح کی حجّتوں کا دور جاری رہتا ہے۔ دراصل ندوۃالعلما کے جو اغراض ومقاصد متعین ہوئے، یا جو شبلی متعین کرنا چاہتے تھے اور جن کے ہاتھوں میں ندوہ کی باگ ڈور تھی؛ ان سب کے تصورات اورعملی اقدامات میں اتنی دوریاں نظر آتی ہیں جس سے صاف نظر آتا ہے کہ اس وقت ندوہ کسی نظریاتی دوراہے پر کھڑاہے۔ دار العلوم دیوبنداور علی گڑھ مسلم یونی ورسٹی کے تعلیمی تجربوں سے قوم نے جو کچھ سیکھا تھا اور اس زمانے میں مسلمانوں کے دینی تعلیم کے جو اَطوار متعین کئے جاسکتے تھے؛ اس موضوع پر شبلی نعمانی سے زیادہ فکر مندشاید ہی کوئی اور شخصیت نظر آرہی ہو۔ اسلامی تعلیم کے علمی معیار کے سلسلے میں بھی شبلی کی نگاہ اس وقت کے دیگر علما سے زیادہ گہری اور کشادہ تھی۔شبلی کی ادبی اور علمی خدمات یا قومی سطح پر واضح شناخت اور علی گڑھ کالج کی پروفیسری کے امتیازات ایسے امور تھے جن کی وجہ سے وہ اپنے دیگر معاونین ، ہم جلیسوں اور ہم عصروں سے ذرا نکلتے ہوئے معلوم ہوتے ہوں گے۔ پورے ملک میں ان کی اہمیت کا سکّہ چلتا تھا۔جس کے سبب ندوہ کو ابتدائی دور میں اہلِ دول حکمراں طبقے اورملک بھر کے دانش وروں سے زبر دست فائدہ پہنچا لیکن شبلی کی یہی شناخت ندوۃ العلمامیں ان کے لیے زنجیربن گئی تھی۔ بے وجہ رخنے پیدا کیے گئے اور سمجھ بوجھ کر یہ کوشش کی گئی کہ نصابِ تعلیم کی اصلاح کے چکر میں نہ پڑاجائے یعنی عربی کا وہی پرانا گھِسا پٹا نصاب یہاں بھی رائج ہو اور نئی تعلیم کی دھمک سنائی نہ دے۔ یہ اختلافات بنیادی نوعیت کے تھے، اس لیے شبلی کو دارالعلوم کی معتمدی کے دوران بھی بڑے پاپڑ بیلنے پڑے اور نوبت یہاں تک پہنچ گئی کہ شبلی کو ندوہ سے استعفیٰ دے کر اپنے وطن چلے جانا ہوا۔
اس کتاب میں شامل شبلی کے خطوط کے اقتباسات حقیقت میں ایک ایسا کولاز ہیں جن میں ایک سلسلہ سرگر میوں اور ہل چل سے بھرا ہے لیکن دوسرا حصّہ نا امیدیوں، شکست خوردگی اور جھنجھلاہٹوں سے مکمل ہوا ہے۔عمیر منظر نے یہ اچھا کیا کہ تاریخی ترتیب سے خطوط کو پیش کرنے کا ارادہ کیا اور مکتوب الیہم کو اضافی اہمیت نہ دی۔ اسی لیے ابتدا ئی دور سے ہی رسّاکشی اور شدید باہمی اختلافات یا شبلی کی بے اطمینانی کے نقوش واضح ہو جاتے ہیں لیکن سب سے صبرآزما مراحل 1913 اور1914کے خطوط میں سامنے آتے ہیں۔ اس دوران شبلی ندوہ سے مستعفی ہو کرعلاحدگی اختیار کرتے ہیں۔اس طرح ایک ساتھ اقبال کے لفظوں میں یہ صورت پیدا ہوتی ہے: ’’سوزوسازودردو داغ وجستجو وآرزو ‘‘۔خطوطِ شبلی سے اس سلسلے سے چند اقتباسات ملاحظہ ہوں جن سے یہ بات ثابت ہوجائے کہ عمیر منظر نے خطوط کے جمِّ غفیر سے کیسے گہرہاے آب دار چن کر پڑھنے والوں کے سامنے رکھ دیے ہیں تا کہ ہر پہلو روشن ہو جائے۔ چند اقتباسات ملاحظہ ہوں:
< حقیقت یہ ہے کہ ندوہ کی حالت دیکھ کر ہمت ٹوٹ جا تی ہے، بوسیدہ ارکا نوں کا تو یہ حال ہے کہ اس دفعہ بھی شرح عقائد نفسی، ہدیہ سعیدیہ، نورالانوار، درس میں تجویز کی گئی ہے اور مولوی حفیظ اﷲنے کی ہے۔ بیچارے نے ان کتابوں کے سوا اور نام بھی تو نہیں سنے ہیں۔ [بہ نام مولانا حبیب الرّحمان شروانی؍ 1901]
< ندوہ کے لیے یہ بڑا نازک موقع ہے۔ نظامت کی خلو سے بہت سے نا مستحق اشخاص امیدوار ہو گئے ہیں۔ حقانی اور ملا عبدالقیوم کی طرف انگلیاں اٹھ رہی ہیں۔ دونوں میں سے کوئی ہوا تو ندوہ کا خاتمہ ہے۔ ارکان سے خط وکتابت کیجیے اور اس موقعے کو سنبھالیے۔ مولوی مسیح الزماں اوروں سے بہتر ہیں، شاہ سلمان تک بھی مضایقہ نہیں۔ بہر حال یہ موقع سستی اور بے پروائی کا نہیں ہے۔ [بنام مولانا حبیب الرّحمان خاں صاحب شروانی؍1901]
< ندوۃ العلما کی طرف سے میری ایڈ یٹری میں ایک ماہوار علمی رسالہ نکلنے والا ہے۔ انشاء اﷲ زور کا پرچہ ہوگا۔ آپ کبھی کبھی اس میں اظہارِ خیالات فرمائیں [بنام صیف الدّولہ حسام الملک نواب سید علی حسین خاں؍1902 ]
< ندوہ کی نسبت ہمیشہ میرایہی خیال رہا اور سچ یہ ہے کہ صرف ندوہ کے لیے میں نے کالج چھوڑا تھا۔ گوواقعات اتفاقی کی وجہ سے اس کاموقع نصیب نہ ہوا۔ [حبیب الرحمان خاں شروانی؍1902]
< یہ تو میری حالت ہے، اب آپ لوگوں کی کیفیت یہ ہے کہ جس کام پر میں نے برسوں غور کیا، اس کے سامان بہم پہنچائے ہیں، اس کو اچھی طرح کر سکتا ہوں، اس میں بھی آپ ہاتھ لگانے نہیں دیتے۔ رسالہ ندوہ اور نصابِ تعلیم دونوں چیزیں میرے خاص مذاق کی تھیں اور شاید میں اس کام کو کسی قدر انجام بھی دے سکتا تھا۔ دونوں سے آپ نے مجھے الگ رکھا۔ مجھ کو ان کی شرکت سے عزت وناموری مقصود ہوتی تو اس کے لیے علی گڑھ سے بہتر میدان نہیں تھا۔مقصود یہ تھا کہ یہ کام اچھی طرح انجام پائے لیکن آپ لوگ ایسا ڈرتے ہیں کہ میں شریک ہوا اور میں نے مذہب کو اور طرزِ تعلیم کو الٹ دیا، بہرحال مجھ کو کسی کے ظن اور خیال پر اعتراض نہیں لیکن جب یہ کیفیت ہے تو بے فائدہ دخل در معقولات سے کیا حاصل مجھ کو اب ندوہ سے معاف کیجیے مجھ سے صرف نقارچی کا کام لینامقصود ہے تو اور بھی بہت لوگ ہیں، افسوس ہے کہ ہم مسلمانوں کے قلوب کی یہ کیفیت رہ گئی ہے۔[ مولانا حبیب الرّحمان خاں شروانی؍1902]
< میں مدتِ قیامِ لکھنؤ میں ہرروز کسی فن پر طلبہ کے سامنے لکچر بھی دوں گا، قدما کے طریقے پر۔ [مولانا حبیب الرّحمان خاں شروانی1902]
< نصابِ تعلیم میں برسوں غور کر چکا ہوں۔ مصر کی اصلاحات کو دیکھتا ہوں، وہاں سے جدید کتابیں جو اب تک کسی کے پاس نہیں پہنچیں،ان کو منگوایاہے۔ باوجود اس کے، میں اس کمیٹی سے خارج رکھا گیا ہوں۔ رسالے میں مجھ کو دخل نہیں تو کیا مجھ سے دعاگوئی اور طبل نوازی کا کام لینا مقصود ہے مجھ کو یہ پسند نہیں کہ ایک مذہبی مجلس میں شریک ہو کر جوڑ توڑ کروں، اپنا اثربڑھاؤں، مخالف کو شکست دوں۔ اس جنت سے تو دوزخ بھلی، اس مردی سے نا مَردی بہتر۔ [بنام مولانا حبیب الرّحمان خاں شروانی؍1902]
< میرا ہر روز معتد بہ وقت ندوہ کے ادھیڑ بن میں صرف ہوتا ہے۔ ندوہ اب تک کیوں کامیاب نہیں ہوا، اس کی وجہ یہ ہوئی کہ ہم میں سے کسی نے اپنے آپ کو زندہ نہیں سمجھا۔ مین امرتسر مین ندوے پر ایک جلسہ میں اعتراض کررہا تھا، اس پر آبزرورنے ٹوکا، یہ کس پر اعتراض ہے خود اپنے آپ پر۔[حبیب الرحمان خاں شروانی؍1903]
< یورپ میں قاعدہ ہے کہ جب کوئی علمی رسالہ نکالنا چاہتے ہیں تو قریباََ سال بھر کے لیے مضامین تیار کر لیتے ہیں، تب نکالتے ہیں۔ ’الندوہ‘ کے لیے بھی یہ ہونا چاہیے اور وقّت چھپنے کی ہے، اس لیے میری تو یہ ر اے ہے کہ دو تین مہینے کا ذخیرہ اس طرح چھپوالیا جائے کہ صرف ٹائٹل پیج اور علمی خبروں کے اضافہ کردینے کے بعد رسالہ بن جائے۔ میں نے ایک چھوٹا سا مضمون فن تفسیر پر، ایک ریویو منطق پر جس میں یونانی منطق کی غلطیاں بتائی ہیں، ایک فرنچ عالِم کے ایک مضمون کا جو اسلام پر ہے، ترجمہ کرلیا ہے۔ مثنوی مولوی روم پر تقریظ کا ایک وسیع سلسلہ شروع کیاہے۔ آپ بھی اسی طرح جستہ جستہ مضامین لکھ چلیے۔ صحابہ کے اخلاق سے شروع کیجیے اور جو جو خیال میں آتا جائے۔ [بنام مولانا حبیب الرّحمان خاں شروانی؍1903]
< جلسۂ انتظامیہ میں تو یہ اصولاََ طے ہو گیا تھا کہ کسی علم کو مخلوط کرکے نہ پڑھایا جائے، اس سے شروع مسلم وغیرہ خود خارج ہوتی ہیں۔ اس کے علاوہ میں تو یہ کہتا ہوں کہ آپ یہ کیوں نہیں کرتے کہ مثلاََ کتب ذیل کی نسبت تمام ممبروں سے پوچھیے کہ درس میں رکھی جائیں یا نہیں: شافیہ، فضول اکبری، شرحِ مل، ملا حسن، میرزاہد، ملا جلا ل وغیرہ۔
تمہید میں یہ وجہ لکھیے کہ زمانۂ درس کا اختصار ضروری ہے۔ اسی کے ساتھ ہر فن کی ایسی کتابیں جو تمام مسائل کو حاوی ہوں اور اس میں دوسرے علوم کی بحثیں بیچ میں نہ آئیں۔ میں پوچھتا ہوں کہ آخر جب ندوہ بھی دیوبند ہے تو قوم کا روپیہ کیوں تباہ کیا جا رہا ہے۔ [بنام مولانا حبیب الرّحمان خاں شروانی؍1903]
< میں نے نواب محسن الملک کے خط کے جواب میں ان کو جو لکھا ہے، وہ یہ ہے کہ 200 روپے ماہوار کالج پر خواہ مخواہ ایک بار ہے۔ اس لیے میری خواہش یہ ہے کہ میں کالج میں آکر بلا معاوضہ کام کروں۔ البتہ یہ چاہتا ہوں کہ سال میں میرے قیام کی مدتِ لازمی صرف چارپانچ مہینے قرار دیے جائیں، باقی اختیاری۔ اس صورت میں ندوہ میں کام کرنے کا موقع اچھی طرح ملے گا۔ میں نے صراحتاََ یہ بھی لکھ دیا ہے کہ ہر حال میں ندوہ سے عملی تعلّق رکھوں گا۔ ہاں آپ نے مکان ندوہ کے لیے لکھ دیا کہ نہیں۔ مدرسہ دیہات میں اٹھ جائے گا تو وہاں رہنے کا لطف ہے۔[بنام مولانا حبیب الرّحمان خاں شروانی؍1904]
< مدت کی پریشان گردی کے بعد لکھنؤ میں اب قدم ٹکے ہیں۔ ندوہ بہت ابتر ہو گیا تھا، اس کو سنبھالنا اور ٹھیک رستے پر لانا چاہتا ہوں ۔ اسی کی مصروفیت کی وجہ سے الندوہ بھی معطل پڑا ہے، وہ بھی اب جدید نظم ونسق اختیار کرے گا۔[ بنام مولوی سید ولی الحق؍1905]
< ندوہ ایسی حالت میں ہے کہ برسوں اس کی چول بیٹھے گی ، اس لیے مدت تک اس سے جدا نہیں ہو سکتا۔ باقی علی گڑھ تو اس کا چھوڑنا بھی ممکن نہیں۔ جس طرح ہو سکے گا، سال میں دوچار با وہاں بھی جاناہوگا۔ آج کل پروفیسری کے لیے معقول تنخواہ پر بلایا ہے لیکن میں نے اس لیے انکار لکھا کہ میں اب نوکری نہ کروں گا۔[ بنام مولوی سید ولی الحق؍1905]
< سخت افسوس ہے کہ ندوہ کی بدولت الندوہ اور الندوہ کی بدولت ندوہ کو نقصان پہنچتا ہے۔ کوئی ہاتھ بٹانے والا نہیں۔ میں اب صرف ہمت ہی ہمت رہ گیا ہوں۔ آپ دیکھیں گے تو ذرا دیر کے بعد پہچانیں گے۔ روز بروز گھلتا چلا جاتا ہوں۔[ بنام ایم مہدی حسن؍ 1906]
< ندوہ کا مقصد اسلام کی حمایت اور علومِ دینی کی بقا ہے لیکن نہ اس طرح کہ جو پُرانے خیال کے مولوی چاہتے ہیں۔ پس گویا ندوہ مذہبی تعلیم کی اصلاحی صورت ہے۔[بنام عطیہ بیگم فیضی صاحبہ؍1908]
< آپ خوش ہوں گے کہ گورنمنٹ نے بھی اب ندوہ کو عنایت کی نگاہوں سے دیکھنا چاہا۔ ڈائرکٹر تعلیمات نے ہم سے پوچھا کہ آپ ہم سے کچھ مدد لینا پسند کرتے ہیں۔ ہم نے زور کے ساتھ ایڈ کی خواہش کی اور کا میابی کی امید ہے۔[بنام منشی امین؍1908]
< نہایت خوش منظر اور وسیع زمین دی، اب بنیاد قائم ہو گئی۔ عمارت بنی اور سب کچھ ہو گیا۔[بنام ایم مہدی حسن؍1908]
< اس وقت سب سے مقدم جلسۂ سنگِ بنیاد کی کا رروائی ہے۔ آپ کی شرکت تو ضروری اور یقینی ہے۔لیکن آپ کی ذات سے صرف اسی قدر توقع نہیں۔ بلکہ یہ بھی امید ہے کہ آپ کے اثر سے آپ کے بہت سارے احباب شریک ہو سکیں گے اور اور بھی جلسہ کے متعلق آپ کی وجہ سے کامیابیاں ہونگی۔ ابوالکلا م آزاد بھی آئیں گے۔ مولاناحالی معہ نظم تشریف لائیں گے۔ نواب وقار الملک بہادر اور علی گڑھ اور اودھ کے تمام تعلقدار اور رؤسا شریک ہوں گے۔ بہر حال جلسہ کے ابتدائی آثار اچھے آتے ہیں۔ آیندہ کا میابی خدا کے ہاتھ ہے۔ [ بنام خواجہ حسن نظامی؍1908]
< اب کی متعصب مولویوں سے پالی لڑنی پڑی۔ جلسۂ انتظامیہ میں نائب سکریٹری، ندوہ نے جو اپنے آپ کو سکریٹری کہتے اور لکھتے ہیں، تجویز پیش کی کہ شبلی کوالگ کردیا جائے، یعنی اس کا عہدہ ہی توڑ ڈالا جائے۔ یارانِ قدیم علی گڑھ نے طعنہ دیا کہ ’’اور مولویوں میں گھسو‘‘۔ میں نے کہا: میں نے یہ سمجھ کر میدان میں قدم رکھا تھا۔ بہرحال یہ لوگ نہ ہوتے تو ندوہ کی حاجت ہی کیا تھی۔ یہ لوگ تو میرے دعوے کے لیے بیانِ تحریری ہیں۔ قاضی صاحب تو آگئے، دیکھیے ہم لوگوں میں رہ کر ہم سے بنتے ہیں، یا اپنا سا بناتے ہیں۔ دو چار روز بعد لکھنؤ واپس جاؤں گا۔ مدت کے بعد گھر کی صورت دیکھی ہے۔ [بنام ایم مہدی حسن؍1909]
< دارالعلوم کی تعمیر شروع ہوگئی۔ عجیب مست اور فرحت انگیز موقع ہے۔ روز دیکھنے کو جی چاہتا ہے․․․اب کی مولوی خلیل الرحمان وغیرہ نے جلسۂ انتظامیہ میں میری علاحدگی کی تجویز پیش کی۔ اس لیے کہ جب سے میں ندوہ میں آیا، لوگوں کی توجہ کم ہوگئی اور ندوہ کو نقصان پہنچ رہا ہے۔ کیوں، آپ بھی اس راے سے متفق ہیں یا نہیں؟ افسوس ہے کہ ان کے ووٹ نہیں آئے۔ [بنام مولانا ابوالکلام آزاد؍1909 ]
< ․․․دارالعلوم اس قدر بھر گیا کہ مجھ کو بھی کچھ کمرے دینے پڑے۔ کچھ لڑکے باہر کرایہ کے مکانوں میں ہیں۔[بنام مولانا ابواکلام آزاد؍1909]
< ندوہ کے موادِ فاسد کو ہر دفعہ اوپر سے لیپ پوت کردی جاتی ہے اور اندر اندر مواد پکتا رہتا ہے، اس لیے ہمیشہ خلجان رہتا ہے۔ اگر واقعی ندوہ کا درد ہے(اور ضرور ہے) تو ایک ہفتہ کے لیے آئیے۔ اصل یہ ہے کہ منشی احتشام علی صاحب اور مولوی خلیل الرحمان صاحب بلکہ مولوی عبدالحئی صاحب کو کسی قدر یقین ہے کہ میں ان لوگوں کے اختیارات میں دست اندازی کرتا ہوں اور ان کے کرنے کا کام خود کرتا ہوں اور اس طرح وہ نمایاں نہیں ہوتے۔ اس لیے آکر میری اور ان کی سنیے اور دیکھیے کہ کیا واقعہ ہے۔[بنام مولانا حبیب الرحمان خاں شروانی؍1910]
< ہاں اب ’الندوہ‘ یوں چلتا نظر نہیں آتا۔ پھر تم اپنے ہاتھ میں لے لو۔ جو شرطیں پیش کروگے، منظور کروں گا۔ مجھ کو ’الندوہ‘ سے کوئی غرض نہیں، لیکن وہ در حقیقت ندوہ کا ایک اعلان ہے، اس کو مٹانا نہیں چاہیے۔[بنام سید سلیمان ندوی؍1911]
< خط مطبوعہ پہنچا۔ ندوہ سخت اصلاح طلب ہے اور اس سے بڑھ کر کوئی مقدم کام نہیں ہے لیکن کامیابی کی کوئی امید نہیں۔[بنام عبدالباری؍1912]
< آپ کا اور ہم سب لوگوں کا ندوہ سے ایک معمولی مدرسہ مقصود نہ تھا مگر خانہ جنگیوں نے وہ سب منصوبے غلط کردیے۔[بنام مولانا حبیب الرحمان خاں شروانی؍1912]
< جن ممبروں نے میری مخالفت میں عَلم جہاد بلند کیا، انھوں نے باوجود دولت مندی، اس وقت تک ایک حبہ ندوہ کو نہیں دیا ہے۔ کاغذات سب میرے پاس ہیں، عندالموقع دکھاؤں گا۔ [بنام منشی محمد امین زبیری؍1913]
< ․․․اتنے ہی دنوں میں ندوہ کی یہ حالت پہنچی کہ گورنمنٹ نے انسپکٹر بھیجا اور اس نے چھے صفحوں کی سخت رپورٹ لکھی اور یہ الفاظ لکھے کہ ایسی ردی حالت کے ساتھ اعانت سرکاری دیر جاری نہیں رہ سکتی۔ لیکن یہاں کے خود غرضوں کا یہ حال ہے کہ جب تک ندوہ کو پورا برباد نہ کرلیں گے، چھوڑنا نہیں چاہتے۔[بنام منشی محمد امین زبیری؍1913]
< ․․․لطف یہ کہ مولوی خلیل الرحمان موجودہ مدعیِ نظامت خود لکھ پتی ہیں لیکن آج تک ۲۵؍برس میں ان سے ایک پیسہ بھی چندہ ندوہ کو نہیں ملا۔[بنام منشی محمد امین زبیری؍1913]
< مولانا (مولانا محمد علی مونگیری غالباً) اور شاہ صاحب (مولوی شاہ سلیمان پھلواروی) کسی کام کو چلنے نہیں دیتے۔ خیر خدا مالک ہے۔ آپ کی یاد مدرسہ کے در و دیوار تک کو نہیں بھولی: ’’عالم میں تجھ سے لاکھ سہی تو مگر کہاں‘‘۔ [بنام مفتی شیر علی؍1913]
< بہر حال ندوہ سے میں نے استعفا دے دیا اور معززین دے چکے۔ اب ندوہ مولوی خلیل الرحمان صاحب کا نام ہے، خیر یہ بھی دیکھ لیجیے۔[بنام مولانا حبیب الرحمان خاں شروانی؍1913]
< باوجود استعفیٰ، میری زندگی کا مرکز ندوہ ہی رہے گا اور آپ لوگوں کی خدمت نہ صرف دل سے بلکہ ہاتھ سے بھی کر سکوں گا۔ [بنام طلباے دارالعلوم؍1913]
< پورے چار برس گزرے۔ بجز اس کے کہ ہر کام میں مخالفت کی گئی اور کیاہوا، اس بنا پر میں ندوہ کو کیا فائدہ پہنچا سکتا ہوں۔ دو ایک برس بھی آزادی سے کوشش کرسکتا تو ندوہ کو کچھ ترقی دے سکتا۔[بنام مولوی عبداﷲ مہتمم و اساتذہ و طلبہ؍1913]
< دو آدمیوں نے ندوہ کو بالکل ذاتی چیز بنا لیا ہے۔[بنام مولوی سید نواب علی؍1913]
< ․․․ندوہ سے تعلق منقطع ہونا تو محال ہے لیکن یہ وہیں آکر فیصلہ ہوسکتا ہے کہ تعلق کی نوعیت کیا ہو۔ لوگ تو لکھتے ہیں کہ ابھی سے حالت بالکل بدل گئی ہے۔درحقیقت اب وہ محض لونڈوں کا مکتب رہ جائے گا۔[بنام مولوی مسعود علی ندوی؍1913]
< ․․․مولوی ابوالکلام صاحب آجکل لکھنؤ میں ہیں۔ ندوہ کی حالت دیکھ کر بہت متاسف ہیں کہ اس قدر جلد کیوں کر حالت ہوگئی۔ مسٹر مظہر الحق گئے تھے، بہت اثر لے کر آئے۔ لڑکے تو اس قدر غمزدہ ہیں گویا ماتم کدہ میں ہیں لیکن پھر وہی تقدیر۔[بنام مولانا سید سلیمان ندوی؍1913]
< لڑکے ہمیشہ مجھ سے کوئی نہ کوئی سبق پڑھا کرتے تھے۔ اب یہ حکم دے دیا ہے کہ کوئی شخص نہ پڑھنے پائے اور جو پڑھتے ہیں، ان کے نام خارج کردیے جائیں۔ [بنام منشی محمد امین؍1914]
< آپ کو معلوم ہوگا کہ ندوہ کی حالت بہت افسوس ناک ہوگئی اور اس کا یہاں تک اثر ہوا کہ گورنمنٹ نے اس پر نوٹس لیا اور بھوپال سے 250 جو مقرر تھا، وہ اس شرط پر روک لیا گیا کہ حالتِ موجودہ کی اصلاح کی جائے۔[بنام مولوی سید ممتاز علی؍1914]
< بھائی وہ لوگ دارالمصنّفین ندوہ میں بنانے کب دیں کہ میں بناؤں۔ میری اصلی خواہش یہی ہے۔ لیکن کیا کیا جائے، حالاں کہ اس میں انھی کا فائدہ ہے۔ [بنام مولوی مسعود علی ندوی؍1914]
< ․․․ندوہ کی عرضداشت بنام حضور سرکار عالیہ الہلال نے چھاپی۔ یہ لوگ جھوٹ بولنے میں کس قدر دلیر ہیں۔ کہتے ہیں کہ سب نقائص شبلی کے زمانے کے ہیں۔ ہاں بے شک لیکن نقائص کی اصلاح کس کے ہاتھ میں تھی؛ناظم یا نائب ناظم۔ میں سرے سے ناظم یا نائب ناظم نہ تھا۔ البتہ معتمد دارالعلوم تھا جس کو قانون میں کچھ اختیار نہ تھے۔ اس لیے ۴؍برس تک مجالس انتظامیہ میں ان نقائص کا اظہار کرتا رہا۔ کسی نے نہیں سنا بلکہ صرف میری دشمنی کی تدبیروں میں مصروف رہے، آخر مجبور ہوگیا۔[بنام منشی محمد امین؍1914]
عمیر منظر کا شمار نئے لکھنے والوں میں ہوتا ہے۔ تنقید، تحقیق اور تخلیقی ادب جیسے متنوع شعبوں میں ان کی جستہ جستہ کارکردگی رسائل کے اوراق میں نظر آتی ہے۔ ہماری یونی ورسٹیوں میں درسی ضرورت سے تحقیق کرنے والوں کی بھیڑ جمع ہے لیکن اس کے بعد پتا نہیں کیوں اُن سے اکثر و بیش تر وہ ذوقِ تحقیق چھن جاتا ہے اور بہت کم ایسے لوگ سامنے آتے ہیں جو نئے نئے موضوعات پر غور و فکر کریں اور اپنی تحقیق سے کچھ نئے سنگ ہاے میل تلاش کریں۔ عمیر منظر ایسے ہی نئے لکھنے والوں میں شامل ہیں جن کے شوقِ تحقیق کو ہماری یونی ورسٹیوں نے سلایا نہیں بلکہ انھیں اس لائق بنادیا تاکہ وہ آنے والے وقت میں نئے نئے اور غیر درسی موضوعات پر دادِ تحقیق دے سکیں۔ یہ کتاب ان کے اسی ذوق و شوق اور انفرادی تلاش و جستجو کی بنیاد پر موضوعِ تحقیق منتخب کرنے کا واضح اعلانیہ ہے۔ انھوں نے اپنے بزرگ محققین کی تحریروں کو بہ غور پڑھا اور تحقیق کے اصول و ضوابط پر بھی سنجیدہ اور باریک نگاہ ڈالی۔ نئی نسل میں سے ایسے لکھنے والوں کا سامنے آنا ہمارے لیے قابلِ توجہ امر ہے۔
یہ کتاب صرف شبلی کے خطوط سے اقتباسات نقل کرکے نہیں تیار کی گئی ہے۔ عمیر منظر کے ذہن میں یہ بات صفحۂ اوّل سے تھی کہ اس مسئلے میں حق اور صداقت کا رُخ کس طرف ہے۔ تاریخ میں ایسا بار بار ہوا ہے کہ سچ کی میعاد مختصر ہو اور کِذب کا دائرۂ کار وسیع تر ہوجائے۔ ندوۃ العلما کے ابتدائی پندرہ برس کے بعد شبلی سے مختلف رخ سے بڑھنے کا دور ایک سو برسوں پر محیط ہے۔ شبلی تو ندوہ کی تاریخ میں ماضیِ بعید ہیں لیکن عمیر منظر ان دونوں کا ایمان، خلوص اور ہوش مندی سے جائزہ لیتے ہیں اور مولانا سید ابولحسن ندوی کی خود نوشت سے ایسے معرکے کے جملے بہ طورِ اقتباس پیش کردیتے ہیں جن سے سب کچھ آئینہ ہوجاتا ہے۔ یہاں یہ ظاہر ہوجاتا ہے کہ سوچ سمجھ کر ندوۃ العلما میں شبلی کے اثرات کو ’مٹانے‘ کی باضابطہ کوششیں کی گئیں۔ عمیر منظر کی اس کتاب کی سطور اور بین السطور سے حقائق اور ساری سیاستیں اپنے آپ سامنے آجاتی ہیں۔
عمیر منظر نے خطوط کے حواشی اور نوٹس کچھ ایسے سلیقے سے رقم کیے ہیں جیسے کوچۂ تحقیق میں وہ برسوں سے سرگرداں رہے ہیں۔ مکتوبِ الیہ کے تعارف میں بھی عمومی کے بجاے خصوصی امور پر نگاہ رکھنا یہ ثابت کرتا ہے کہ وہ ایک سلیقہ مند محقق ہیں۔ آج تحقیقی کتابوں میں حشو و زوائد کی بھیڑ ہوتی ہے۔ عمیر منظر نے غیر ضروری طور پر ایک جملہ یا ایک اطلاع کو بھی یہاں شامل نہیں رکھا۔ بنیادی ماخذ پر نگاہ رکھی اور تحقیقی کوتاہیوں سے بچتے ہوئے منصبِ تحقیق کا پاس رکھا۔ مجھے یقین ہے کہ نسلِ نو کے ایک فرزند کی یہ مرتبہ کتاب ہندستانی مسلمانوں کی تاریخ سے واسطہ رکھنے والے افراد توجہ کے ساتھ ملاحظہ کریں گے اور شعور کی رو میں شاید یہ سوچنے پر بھی مجبور ہوں گے کہ اگر ندوۃ العلما نے شبلی کی راہ کو اختیار کیا ہوتا تو شاید گذشتہ سو برسوں میں اس کا فیضان اور علمی معیار وقیع اور گراں مایہ ہوتا۔ یہ بھی ممکن تھاکہ ہندستانی مسلمانوں کی علمی اور مذہبی دونوں انداز کی قیادت ندوۃ العلما کے پاس ہوتی اور ہم سب آج سے بہتر ماحول میں جیتے ہوتے۔ عمیر منظر کی اس کتاب کی تیاری اور پیش کش کا شاید یہی موزوں تر جواز ہے۔
Safdar Imam Qadri
About the Author: Safdar Imam Qadri Read More Articles by Safdar Imam Qadri: 50 Articles with 136833 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.