قول وفعل میں مطابقت

پہلے اپنے پیکر خاکی میں جاں پیدا کر ے
جنوب مشرقی ایشیا میں اسلامائزیشن اور جمہوریت کا چولی دامن کا ساتھ رہا ہے۔ بہت سے لوگ کہتے ہیں کہ اسلام اور جمہوریت ساتھ ساتھ نہیں چل سکتے مگر انڈونیشیا اور ملائشیا نے ثابت کیا ہے کہ ایسا نہ صرف یہ کہ ممکن ہے بلکہ قابل رشک حد تک قابل قبول بھی ہے اور اسلام کو سیاست میں شامل رکھنے کی ہر کوشش ناکام نہیں رہی۔ میں نے اپنے کئی مضامین میں یہی بتانے کی کوشش کی ہے سیاست کواسلام سے جدا کرکے نہ دیکھاجائے بلکہ شاعرمشرق حکیم الامت علامہ اقبال نے تونصف صدی پہلے یہ فرمایا تھا کہ’’جداہودیں سیاست سے تورہ جاتی ہے چنگیزی‘‘۔اب سوال یہ ہے کہ مغربی دانشور یا سیاستدان اس معاملے کو کس حد تک قبول کرتے ہیں۔

سوال صرف یہ ہے کہ بات نظریے کی ہو یا عمل کی، اسلام اور سیاست شرعیہ کا چولی دامن کا ساتھ رہا ہے۔ بہت سے مسلم معاشروں نے اس معاملے میں خاصی مزاحمت دکھائی ہے۔ مغرب میں یہ تصور اب راسخ ہوچکا ہے کہ مذہب کو سیاست کے معاملات میں مداخلت نہیں کرنی چاہیے یعنی یہ کہ دینی تعلیمات کو بنیاد بناکر ریاست کے امور انجام تک نہیں پہنچائے جاسکتے۔ اس حوالے سے سوچنے اور لکھنے والوں میں اختلاف رہا ہے۔ ترکی اور تیونس میں سیکولر عناصر نے دین کو سیاست سے الگ رکھنے کی بھرپور کوشش کی ہے۔ مزاحمت اس قدر بڑھ گئی کہ اب یہ دونوں ممالک بہت سے معاملات میں حوالے کا درجہ رکھتے ہیں۔
دنیا بھر میں کسی بھی مذہب کو ریاستی امور انجام دینے کے معاملے میں کلیدی کردار کا حامل خیال نہیں کیا جاتا۔ لوگ دین اور سیاست کو الگ الگ خانوں میں رکھتے ہیں۔ ہندو ازم ہو یا بدھ ازم، عیسائیت ہو یا یہودیت، تمام ہی مذاہب یا ادیان کے پیروکار اس بات کو پسند نہیں کرتے یا زیادہ اہمیت نہیں دیتے کہ دین کو سیاسی امور میں مداخلت کا موقع دیا جائے۔ وہ دین کو سیاست سے اس قدر الگ رکھتے ہیں کہ اس فرق کو صاف محسوس کیا جاسکتا ہے۔ اسلام کا معاملہ بہت مختلف ہے۔ متعدد ریاستوں میں اسلامی تعلیمات کو ریاستی امور کی انجام دہی اور قوانین پر مؤثر عمل یقینی بنانے کے لیے بروئے کار لایا جاتا رہا ہے۔ بعض مسلم معاشروں نے مزاحمت بھی کی ہے مگر اس سے یہ نتیجہ اخذ نہیں کیا جاسکتا کہ اسلامی دنیا مجموعی طور پر دین کو سیاست سے الگ رکھنے پر غیر متزلزل یقین رکھتی ہے۔ میں نے اپنی کئی مضامین میں اِسی نکتے پر بحث کی ہے یعنی یہ کہ اسلام اس اعتبار سے منفرد ہے کہ اس کی تعلیمات کو بنیاد بناکرنہ صرف قوانین مرتب کیے جاسکتے ہیں بلکہ ریاستی امور کو بہتر طریقے سے انجام دیا جاسکتا ہے۔بھلا رب کائنات سے بہترکون جان سکتاہے کہ اس کی سب سے بہترین تخلیق انسان کیلئے انفرادی اوراجتماعی زندگی گزارنے کیلئے کون ساطریقہ قانون بہترین اورفطری طورپرانسان کی کامیابی کیلئے نفع بخش ہے۔

مشرق وسطیٰ میں اسلام اور سیاست کے تعلق کی جو بھی کیفیت ہے اسے تسلیم تو کرنا ہی پڑے گا۔ یہ الگ بحث ہے کہ ہماری قبولیت کی کیا صورت ہوسکتی ہے۔اگر کہیں مذہب اور سیاست کے درمیان تناؤہے تو وہاں جمہوریت کو لبرل ازم پر ترجیح دی جارہی ہے۔ لوگوں کو سیکولر یا لبرل بننے پر مجبور کرنے کی کوئی سبیل تلاش کرنے کی ضرورت نہیں۔ یہ معاملہ سراسر ان کی ترجیح اور پسند و ناپسند کا ہے۔ اگر لوگوں کو مجبور کیا جائے تو یہ امریکا میں دائیں بازو کا سرپرستانہ انداز سمجھا جائے گا۔ اگر اوباما کہتے ہیں کہ امریکا کے لوگ ایک خاص تناظر کے تحت لبرل اور ڈیموکریٹک ہیں تو پھر یہ بات ماننا پڑے گی کہ اردن، مصر یا پاکستان کے لوگ بھی ایک خاص تناظر میں وہ ہیں، جو وہ سیاسی طور پر ہیں اوران کے زندگی گزارنے کے بنیادی طریقہ کارپرامریکایامغرب کوکوئی اعتراض نہیں ہوناچاہئے۔

دنیا بھر میں لوگ اس بات سے خوف زدہ رہتے ہیں کہ ان پر کوئی ماڈل مسلط کیا جائے گا۔ کسی بھی دوسرے معاشرے یا خطے کا کوئی سیاسی و معاشی ماڈل جوں کا توں اپنایا نہیں جاسکتا۔ ہر چیز اپنے حالات کی پیداوار ہوتی ہے۔ اگر کوئی ماڈل مسلط کیا جائے تو فطری طور پر مزاحمت تو کی ہی جاتی ہے۔ ہر طریقِ سیاست اور ہر سیاسی نظام کسی خاص پس منظر کا منطقی نتیجہ ہوتا ہے۔ بہت سے ممالک میں ترکی کو ایک ماڈل کے طور پر پیش کیا جاتا ہے مگر اس حوالے سے خوف زدہ رہنے والوں کی بھی کمی نہیں۔ ترک ماڈل میں کچھ لوگوں کے لیے اگر تحریک تھی تو کچھ دوسرے لوگوں کے لیے تھوڑی بہت مایوسی بھی تھی۔
اسلامی دنیا میں مشرق وسطیٰ سے بھی ہٹ کر بعض اچھی مثالیں اور نمونے موجود ہیں۔ انڈونیشیا اور ملائشیا کو اس حوالے سے روشن مثال کے طور پر پیش کیا جاسکتا ہے۔ ان دونوں معاشروں میں رواداری بھی ہے، شائستگی بھی اور دوسروں کو خوش دِلی سے قبول کرنے کا جذبہ بھی۔ ان دونوں ممالک میں اردن، تیونس اور مراکش سے زیادہ شرعی قوانین و ضوابط موجود اور نافذ ہیں۔ بیشتر معاملات میں انہوں نے شریعت کے اصول اپنائے ہیں۔

انڈونیشیا کے اسکالر رابن بش کہتے ہیں کہ انڈونیشیا کے قدامت پسند علاقوں میں شرعی اصولوں پر مرتب کیے جانے والے قوانین اور ضوابط نافذ ہیں۔ طالبات اور سرکاری ملازمت کی خواہاں خواتین کے لیے اسکارف لازم ہے۔ جامعہ میں داخلے اور شادی کے اندراج کے لیے لازم ہے کہ چند قرآنی آیات سنائی جائیں۔ جکارتہ میں قائم واحد انسٹی ٹیوٹ نے تحقیق کے بعد بتایا ہے کہ انڈونیشیا میں یہ لازم نہیں کہ اسلامی قوانین پر وہی جماعتیں زور دیں جو اسلام کی بات کرتی ہیں بلکہ سیکولر جماعتیں بھی اسلامی قوانین پر عمل کو اہمیت دیتی ہیں۔ مثلا جن صوبوں میں گولکر جیسی سیکولر جماعت کی پوزیشن مستحکم ہے وہاں بھی اسلامی قوانین کے نفاذ ہی پر زور دیا جاتا ہے۔ اس کا بنیادی سبب یہ ہے کہ معاشرے میں اسلامی تعلیمات کے تادیبی کردار کے لیے قبولیت موجود ہے۔ لوگ چاہتے ہیں کہ ان کی زندگی میں اسلام قوانین کے ذریعے بھی موجود اور متحرک رہے۔ سیاسی جماعتوں کے نظریات اور پالیسیاں اپنی جگہ مگر حقیقت یہ ہے کہ زیادہ سے زیادہ لوگ زندگی میں اسلام چاہتے ہیں۔ یہی سبب ہے کہ سیاسی جماعتیں بھی مذہب کو نظر انداز کرنے کی پوزیشن میں نہیں۔

ایسا نہیں ہے کہ انڈونیشیا اور ملائشیا میں اسلام کا نفاذ کوئی چھوٹا مسئلہ تھا۔ ایک بنیادی سہولت البتہ یہ تھی کہ مذہب سیاست میں لانے سے پیدا ہونے والے مسائل کا حل موجود تھا اور ہے۔ اسلام کی تمام تعلیمات پر عمل سے دورِ حاضر میں یقینی طور پر چند ایک مشکلات پیدا ہوتی ہیں اور اس کا سبب یہ ہے کہ اب بگاڑ بہت بڑھ گیا ہے۔ دین کی تعلیمات بگاڑ کو ختم کرنا چاہتی ہیں۔ جن کا مفاد بگاڑ کے برقرار رہنے سے وابستہ ہے وہ تو لازمی طور پر مزاحمت ہی کریں گے۔ کسی بھی بگاڑ کو دور کرنے میں ہر مذہب کی تعلیمات کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ لوگوں کے لیے ذاتی مفادات ترک کرنا آسان نہیں ہوتا۔ انڈونیشیا اور ملائشیا میں آسانی یہ رہی ہے کہ معاشرہ اسلامی تعلیمات کو دبوچنے یا محدود کرنے کے بجائے بہت حد تک انہیں قبول کرنے پر آمادہ تھا۔

عرب دنیا اور دیگر اسلامی ممالک میں اشرافیہ نے ہمیشہ اس بات کی مخالفت کی ہے کہ اسلام کی تعلیمات کو سیاست کے میدان میں لاکر قوانین کی توضیع و تنفیذ میں کوئی کردار ادا کرنے کا موقع دیا جائے۔ وہ اسلامی تعلیمات کو صرف عبادات اور مساجد تک محدود رکھنا چاہتے ہیں یعنی لوگ علمائے کرام سے خطابات سنیں اور اسی پر بس کر کے مطمئن ہو کر رہیں۔ یہی سبب ہے کہ شرعی قوانین کی توضیع اور نفاذ کی نہ صرف یہ کہ حوصلہ افزائی نہیں کی جاتی بلکہ باضابطہ مخالفت کی جاتی ہے، اس راہ میں روڑے اٹکانے سے بھی گریز نہیں کیا جاتا۔ مجموعی کیفیت یہ ہے کہ جہاں ضروری ہو وہاں دین کو گلے لگایا جاتا ہے اور جہاں اپنے یعنی ذاتی مفادات پر ضرب پڑتی ہو ،وہاں دین کو خیرباد کہنے میں ذرا بھی ہچکچاہٹ محسوس نہیں کی جاتی۔ انڈونیشیا اور ملائشیا میں ایسا نہ تھا۔ دونوں ممالک میں عوام اسلام کو عملی زندگی میں بھی قبول کرنے کے لیے اس قدر تیار تھے کہ اشرافیہ میں شرعی قوانین کے خلاف جانے کی ہمت پیدا نہ ہوئی۔

ایک اہم بات یہ ہے کہ بیشتر اسلامی ممالک میں اسلام کی بات کرنے والی سیاسی جماعتیں بہت مضبوط توہیں لیکن ان میں آپس کی فرقہ وارانہ کشمکش ہی ختم نہیں ہوتی۔ وہ ایک دوسرے سے برسر پیکار رہتے رہتے کمزور ہوجاتی ہیں۔ انڈونیشیا اور ملائشیا میں ایسا نہ تھا۔ ان دونوں ممالک میں اسلام کا پرچم لے کر چلنے والی جماعتیں بہت مضبوط نہ تھیں اور پھر اسلام کی بات کرنے کا مکمل اختیار چند ایک سیاسی جماعتوں کے پاس نہ تھا۔ ہر جماعت اسلامی قوانین کی حامی تھی۔ اسلام کی بات کرنے والوں کو سیکولر عناصر سے مدد درکار تھی لیکن اسلام پسندافراداورجماعتوں نے سیکولرعناصر سے کوئی بغض یاعنادرکھنے کی بجائے ان سے مکمل طورپرتعاون کیااوراپنے عملی کردارسے نہ صرف ان کے ساتھ تعاون کیابلکہ خودایک مثال بن کران کوقائل کیا ۔اس طرح عوام میں پائی جانے والی قدامت پسندی ان دونوں سیاسی عناصر کے درمیان رابطے کا کردار ادا کرتی رہی ہے۔ خاص بات یہ ہے کہ دونوں ہی ممالک میں قدامت پسندی خاصی غیر متنازع رہی ہے۔ اس میں انتہا پسندی آئی نہ تشدد۔ یہی سبب ہے کہ قدامت پسندی کو قبول کرنے میں کبھی کسی نے کوئی قباحت محسوس نہیں کی۔

جنوب مشرقی ایشیا میں اسلام عملی سطح پر سیاست کا حصہ ہے۔ اسلامی قوانین محض وضع نہیں کیے جاتے بلکہ ان پر عمل بھی کیا جاتا ہے۔ مگر مغرب میں اس معاملے پر زیادہ توجہ نہیں دی گئی۔ اسلامی دنیا میں اسلامی تعلیمات اور قوانین پر عمل کی بات سے بدکنے والے مغرب کو جنوب مشرقی ایشیا میں اسلامی قوانین پر عمل سے کوئی خاص چڑ نہیں ہونی چاہئے۔ اس کا بنیادی سبب یہ ہے کہ مغرب کی اجتماعی حکمت عملی میں یہ خطہ ان کابہترین معان ثابت ہوسکتاہے لیکن مسائل اس وقت بڑھتے ہیں جب مغربی معاشرہ کے گنتی کے چندمفادپرست اسلام کواپنے عوام کے درمیان ایک ظالمانہ ، قدامت پسنداورغیرفطری نظام زندگی کے طورپرمتعارف کرواتے ہیں۔یہی وجہ ہے کہ مغرب میں بیشترنومسلموں کی یہ متفقہ رائے ہے کہ جب ہم نے اسلام کاتنقیدی نقطہ سے مطالعہ شروع کیاتوہم پریہ منکشف ہواکہ مغرب کے وہ مٹھی بھرعناصراسلام کی جوتصویردکھاتے ہیں وہ کلی طورپرایک تعصب کی بنیادپر،مبنی پرفریب پروپیگنڈہ کے سواکچھ نہیں لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ اپنے ان نظریات کوصحیح اورسچ ثابت کرنے کیلئے مسلمانوں کے درمیان ایسی تنظیموں ، گروہوں کوایک باقاعدہ منظم منصوبہ بندی کے تحت میدان میں اتاراگیاہے جنہوں نے اسلام کے نام پرایک ایسا گھناؤناکھیل رچایاہے جس سے نہ صرف مغرب بلکہ ان ممالک میں جہاں مسلمانوں کی اکثریت آباد ہے وہاں فرقہ وارانہ بنیادپرقتل وغارت کا بازار گرم کررکھاہے بلکہ اب توآئندہ سالوں میں مغربی سازشوں اورچالوں کی بنیادپرمسلمان ملکوں میں فرقہ وارایت کی آگ پرتیل چھڑک کرایک دوسرے سے دست وگریباں کرکے ان کی آئندہ نسلوں کوتہہ تیغ کرنے کے منصوبے پرعملدرآمدکیاجائے گا۔

اس کیلئے اب ضروری ہوگیاہے کہ ملائشیااورانڈونیشیاکے ماڈل کوسامنے رکھ کراسلام کواپنی زندگی میں عملی سطح پرقبول کرنے کاچلن رائج کیاجائے کیونکہ ہم دیکھ رہے ہیں کہ انڈونیشیا اور ملائشیا میں عوام نے اسلام کو اپنی زندگی میں عملی سطح پر قبول کرلیا ہے اور وہ اسلام کے وسیع تر کردار کومزید اپنی زندگی کا حصہ بنانا چاہتے ہیں جس کی وجہ سے وہاں نہ صرف معاشرتی ترقی اورامن وامان کی صورتحال بہترین ہے بلکہ ایک وقت آئے گاکہ وہاں کے معاشرے قابل رشک بھی کہلائے جائیں گے لیکن اس کے برعکس مشرق وسطیٰ میں اب تک ایسا نہیں ہو پایا ہے۔ ہم لوگ اسلام کی باتیں تو بہت کرتے ہیں مگر اسے اپنی زندگی میں عملی سطح پر قبول کرنے اور اپنانے کے لیے تیار نہیں۔جب تک ہمارے قول و عمل کاتضاددورنہ ہوگاہم دین اسلام کی رحمتوں سے مستفیذنہ ہوپائیں گے اور دنیاتوبربادہوہی رہی ہے لیکن آخرت کی سرخروئی سے محرومی کے آثاربھی نمایاں نظرآرہے ہیں۔
Sami Ullah Malik
About the Author: Sami Ullah Malik Read More Articles by Sami Ullah Malik: 531 Articles with 349221 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.