ہڑتالیں ٹیکنالوجی کا راستہ نہیں روک سکتی

اﷲ تعالیٰ نے اس کائنات میں انسان اشرف المخلوقات کادرجہ دے کر اس زمین پر اتا رہ اس کو سوچنے سمجھنے غورفکرکرنے کے لئے عقل جیسی نعمت سے نوازاتا کہ اپنی آسانی سہولیات اور ضروریات کی کھوج لگا کر اپنے ساتھ دوسرے انسا نوں کے لئے بھی فا ئدے مند ثابت ہو ہر بند بشر اس کھوج کی دوڑ میں اپنی اپنی منزل کی جستجومیں ڈٹ گیا بالاآخر ہر انسان نے ایسا کچھ دریافت اور ایجادکرلیا جس کی وجہ سے ایک دوسرے کی ضروریات لین دین آسانی اور آمد نی کے ذریعے پیدا کر دیے اس طر ح معاشرے تشکیل پا ئے اور ان ہی ضروریات کی بنیا د پر ایک معا شرے سے دوسرے معا شرے کا تعلق جوڑا معاشرے کے تعلق قوموں اور پھر سلطنت اور ملکوں تک پھیل گئے پھر انسان جیسے جیسے آباد ہوتا رہا اس کی آبا دکاری کی وجہ سے اس کی تعداد میں آصافہ ہو تا گیا اورساتھ ہی ضروریات بڑھنے کے ساتھ وسائل کی بھی کمی ہونا شروع ہو گئی جس سے انسا ن نے کم وسائل میں زیاد ہ فائدے کی کھوج شر وع کر دی جس میں دن بدن ترقی کی منزل طے کر تے کرتے انسا ن زمین کے علاوہ کا ئنات میں زمین جیسے وجود کو تلاش کررہا ہے تاکہ انسان کی آبا د کاری زمین کے علاوہ کسی اورجگہ بھی ہو سکے اب اگر کروڑوں سا ل پیچھے انسا ن کی ابتدائی حیات کو دیکھا جا ئے تو ایک دور تھاکہ جب انسا ن پتھر کے دورمیں رہتا تھاجو پتوں پھلوں اور کچے گوشت کو اپنی بقاء کی خا طر اپنے طعام شامل رکھتا تھا اس کیاان چیزوں سے اکتاہٹ نے اس کو پتھر سے پتھر کو ٹکرکر اسے آگ جیسی بڑی کھوج نے اس کے مزاج کو ہی تبدیل کر دیا جس سے اس کو پکا نے جیسے فن نے کھنچ کر ایک منز ل کی جانب جانے کے راستے پر لاکھڑا کیا جس پر قدم با قدم چلا کر ایسی جگہ پہنچا دیا ہے کہ اب اس کو خود پتہ نہیں وہ اب کیا کر نے والا ہے اب اس کی ابتدائی ادوار کی سوچ نے اور کھوج نے اس کو بتا یا یہی تو سا ئنس ہے جس کی کوئی حد نہیں اب جس نے پہیہ ایجاد کیا اس کو پتہ نہیں تھا آنے والے دور میں بان ڈنلپ اس پہیہ کے اوپر ٹا ئر بھی لگا ئے گا اور اب بان ڈنلپ کو یہ پتہ نہیں تھا کہ اس پہیے اور ٹائر کے لئے میکملن سائیکل بھی ایجاد کر کے اس پہیے کو گھوما دے گا اور میکملن کو شیا ید یہ اندازہ بھی نہیں ہو گا کہ اس سا ئیکل کو پاؤں کی مشقت کی بجا ئے خود کار آلہ بھی ایجا دہوگا جس کو انجن کا نام دیا جائے گا اب اس آسانی سہو لیات اور ضروریات کی جستجوتیز سے تیز ہوتی گئی جس کی نئی شکل سائنس سے ٹیکنا لوجی اور ٹیکنا لوجی کو انفارمیشن ٹیکنا لوجی کی شکل میں تبدیل کر آج ہما رے سا منے رکھ دیا اب سائنس کی ایجادات کا سفر اور انسا نی کھوج کے متعلق راقم نے جو کچھ بیان کیا اس کا مقصد ہے کہ انسان اب سائنس وٹیکنالوجی سے انکارنہیں کر سکتا ہے اس کو اپنے آپ کو ایجادات اور وقت کے سا تھ اپنے مزاج کو بدل کر ڈھالنا ہو گیا چاہیے جتنا وہ ان سے منہ موڑ یا اس کی خلاف روکاوٹ بنے کی کوشش کر پھر بھی اس کو نہ تو روک سکتا ہے نہ ہی چھوڑ سکتا ہے سائنس و ٹیکنا لوجی جس کا آخر ی کنار ہ کس طر ف ہے اس کا تعین کرنا اب انسا ن کے اپنے بس میں نہیں رہاہے اب گزشتہ دونوں پاکستان میں ایک عجیب قسم کا اپنی نوعیت کا انوکھا احتجاج ہوا جس میں پاکستا نیوں کو دیکھنے سننے اور محضوظ ہونے سے محروم کیا گیا جس سے یہ اندازہ لگایا گیا کہ اب قوم بس پتھر کے زما نے میں چلی گئی ہے اس کو کچھ پتہ نہیں اس کے اردگرد کیا ہورہا ہے اس کا وقت کیسے پاس ہوگا اب تو بس اس کی زندگی روک گئی ہے جی ہاں آپ ٹھیک سمجھے ہیں میں پا کستان ہونے والے کیبل کی نشریات کی احتجا جی بند ش کی بات کر رہا ہوں جس پر کیبل آپریٹر ایسوسی ایشن نے ملک گیر کیبل کی بند ش ایک دن کے کی جن کا مقصد تھا حکومت DTH (ڈائرکٹ ٹو ہو م )سروس کی نیلامی کومخر کرے اور اس ہڑتال سے حکومت اور عوام کو اس بات کا احساس ہو کہ یہ بھی ایک اہم بنیا دی انسا نی ضرورت ہے اور انسا ن اس کے بغیر اندھا گو نگا ہے پر ان کو کو ن سمجھا ئے کہ جد ید ٹیکنا لوجی کے دور میں ہڑتال سے انفارمیشن تک رسائی کو نہیں روکا جا سکتا ہے اس دن سب لوگ با خبر بھی رہے اور فیملی کے ساتھ مل بیٹھ کراچھا بھی وقت گزار گیا اب تقریباً ہر کسی کے پاس موبائل فون تھری جی فورجی جیسا تیز ترین ذرائع ابلاغ ہو وہ بھلا معلو ما ت کی رسائی سے کیسے دور رہے سکتا ہے اب بھلا ان کو کیسے سمجھایا جائے کہ بلب کے ایجاد کر نے والے نے انرجی سیور ایجادکرنے والے کواپنا دشمن نہیں سمجھا ہو گا اور اس طر ح LED کے ایجاد کنندہ کو انرجی سیور والے سے کوئی ذاتی دشمنی نہیں تھی ا ب ان ہڑتا لیوں کا خیال ہے کہ DTH سے ان کا کاروبار تباہ ہو جا ئے گا اب بجائے اپنے کاروبار کو جدید کر کے اس ٹیکنا لوجی کا مقا بلہ کیا جائے یا ہڑتال سے ٹیکنا لوجی کا راستہ روکا جائے گا پاکستان ویسے بھی ٹیکنالوجی کی دوڑمیں دنیا سے بہت پیچھے ہے اب تھر ی جی فورجی ٹیکنالوجی ہم بنگلہ دیش کے بعد لے آئے اور DTH کی ٹیکنا لوجی ہم افغانستا ن سر ی لنکا بنگلہ دیش اور بھارت کے بعد لا رہے ہیں خیر پمرا نے سپرئم کورٹ سے آرڈر لے کر نومبر کے آخری ہفتے میں نیلامی کے لئے بولی کا انعقاد کرویا جس کی بولی 20کروڑ سے شر وع ہو کر 14ارب 69کروڑ40لاکھ کی کامیاب بولی پر اختتام پذیر ہوئی جس میں تین کمپنیوں نے کا میا بی حاصل کی اب ذرہ پڑوس میں بھارت کے DTHکا جا ئزہ لیتے ہیں بھارت میں کیبل کا کام 90ء کی دہائی سے پہلے شروع ہوا تو DTHکے لئے پہلی مرتبہ 1997ء درخواست دی گئی جس کو کچھ سیکورٹی وجو ہات کی بنیاد پر منسٹری آف براڈ کاسٹنگ نے مسترد کردیا اور حکومت سے معاملے پر غور خوص کرتی رہی آخر کا 2003ء میں ایک کمپنی کو DTHکا لا ئسنس جاری کر دیا گیاجس پر بھارت میں نہ تو کیبل کی ہڑتا ل ہوئی اور نہیں ہی نشریا ت کو بند کیا گیا بھارت DTHکی ٹیکنا لوجی معتارف کر وا نے والا جنوبی ایشا ء کا پہلاملک بنا اس کمپنی نے ابتدائی ایک سال کے اندر تین لاکھ 50 ہزار صارف بنا لئے DTHایک مخصوص قسم کا بکس ڈیجیٹل رسیوار کی طر ح ہوتا ہے جس کی فیس کارڈ کی ری چارج کی صورت میں ادا کر نی ہوتی ہے جس کی کیبل یعنی تار کا اور نہ ہی بجلی جا نے پر نشریات بند ہونے کا خدشہ DTHسے مرضی کے مطابق پیکج لگوا کر چینلز کی تعداد میں زیادتی اور کمی کی جا سکتی ہے اب اس وقت تک بھارت میں سات DTH سروس دینے والی کمپنیا ں میدان میں ہیں جن کے مقا بلہ بہتر سے بہترسروس اور سہولیات دی جا رہی ہیں اب صارف کے پاس ان کے چنا ؤ کا اختیا ر ہے جو پسند آئے گا اس کی سروس کو خریدا جا ئے گا اب وہاں کی حکومت نے کیبل کے کاروبار پر DTHکی وجہ سے کوئی فرق نہ پڑے تو بھارتی حکومت نے کیبل آپریٹرز کو اپنے سسٹم کو جدید خطوط پر استوار کر نے کے لئے کیبل کے سسٹم کو ڈیجیٹل کر نے کا فیصلہ کیا جس سے وہ DTH کا مقا بلہ کر کے سر وس کو سستا اور اس کے معیار پر لا کھڑا کریں ایک مخصوص عرصے کے اندار اس کیبل کو ڈیجیٹل کر دیا گیا جس میں چینلز کی تعداد کو DTHکے برابر کر کے اس ہی کی طرز پر رکھا گیا اور نیوز میوزک انٹر ٹیمنٹ کی کیٹگری میں رکھا گیا ساتھ ہی ڈیجیٹل کیبل کے ساتھ انٹر نیٹ لوکل فون کی بھی سہولت دی گئی اب کیبل کا جو نظام پا کستان میں ہے وہ اینا لاگ ہے جس پر 80 یا با مشکل سو چینل ہیں پر ان کے آخری چینلز کا رزلٹ 50 اور 60 کی تعداد کے بعد متاثر ہونا شروع ہو جاتا ہے دوسری طرف ڈیجیٹل کیبل پر ان کی تعداد دوگنی سے بھی زیادہ ہوتی ہے ڈیجیٹل کیبل کو چلا نے کے لئے ایک خا ص قسم کا رسیوار ہو تا ہے جس کو سیٹ ٹاپ بکس (set-top-box) کہا جاتا ہے اس کی کار کر دگی DTHکے رسیوار سے ملتی جلتی ہے اگر DTHکا رسیوار سیٹ لائٹ سے فرنکوسی حاصل کر کے ڈی کوڈ کرتاہے تو (set-top-box) فائبر کیبل سے فرنکوسی کو ڈی کوڈ کرتاہے اگر شاید پا کستان میں کسی کے پاس پی ٹی سی ایل کا سمارٹ ٹی وی کا رسیوار ہو یا کسی نے اس کو دیکھا ہوتو وہ بھی ایک قسم کا (set-top-box) ہی ہے جس کی کارکردگی بھی ویسی ہے جیسی کیبل کے (set-top-box)کی ہے بس فر ق یہ ہے وہ ڈائرکٹ فائبر کیبل سے اور سمارٹ ٹی وی کو فون کی تارے سے منسلک کیا جاتا ہے اب بھارت کے کیبل آپریٹرز نے اپنے کاربار کو جدید کر کے مزید بہتر کر دیا ہے اینا لاگ کی وجہ سے ایک گھر کے کنکشن پر دو یا دوسے زیادہ ٹی وی سیٹ چلائے جاتے تھے پر ڈیجیٹل سے ایک کنکشن پر ایک ہی ٹی وی سیٹ لگایا جا سکتا ہے دوسرے ٹی وی کے لئے الگ ایک اور (set-top-box) خریدنا پڑتا ہے جس کی ان کو الگ سے فیس اد کر نا ہو تی ہے اور وہ آضافی ٹی وی سیٹ اور چوری ہونے سے بھی محفوظ ہو گئے پا کستا ن کے کیبل آپر یٹر ز کو اس بات کا علم ہو نا چا ہیے کہ پا کستا ن کی زیادہ آبادی 65 فیصد تک دیہا توں میں رہا ئش پذیر ہے جس میں سے بامشکل 15 سے 20 فیصد گھروں میں کیبل کی سہولت ہوگی ان کے زیاد ہ تر آبادی شہروں میں ہے جس کی شرح کل آبادی کا 30فیصد سے زیا دہ ہے جس میں ان کے ہی صارفین ہیں اب شہروں کے چھوٹے گھروں میں بہت کم لوگ ایسے ہیں جو ڈش انٹینا لاگ کر DTH کے سگنل حاصل کریں دوسرا اس کے ریٹ جب آئے گا تو اندازہ ہو گا کہ کتنا طے کیا جا تاہے پر ایک اند ازے کے مطا بق 500 سے زیادہ ہی ہو گا اور ہو سکتا ہے اس سیکم ہو یہ تو آنے کے بعد پتہ چلے گا اب کیبل مالکان کو DTHکا مقابلہ کر نا ہے تو اپنے سسٹم کو جدید ٹیکنا لوجی سے آرستہ کر نا ہوگا کیونکہ عوام بھی ان کے کچھ سروس کی خرابی کی شکا یات پر فوری ازالہ نہ ہو نا فیلڈ ساف کا غیر ضروری سخت رویہ رزلٹ کا معیار کم ہونا غیراخلاقی حکیموں اور عا ملوں کے اشتہارات سے تنگ ہے ڈیجیٹل کرنے سے ان پر یقینی طور پر مالی بوجھ میں آضا فہ تو ہو گا پر ڈیجیٹل ہو نے کے بعد (set-top-box) لگوا کرکیبل آپرئٹرکی چوری اور مفت خورے حضرات سے جان چھوٹ جا ئے گئی فیس کی عدم وصولی تا رنہیں کا ٹی جا ئے گی بلکہ یونٹ سے ہی کنکشن منقطع کیا جا سکے گا اور سا تھ انڈونس فیس بھی وصول کرسکتے ہیں پر حقیقت میں ہڑتال کا مقصد اس آضافی بوجھ سے فرار اختیا ر کرنے کے لئے تھاڈیجیٹل کرنے کے لئے بھاری سرما یہ کدھر سے آئے گا اور اینا لاگ سسٹم نا کارہ ہو جائے گا جو کباڑمیں جا ئے گا اب DTHسے حکومت کو لائسنس کی فروخت سے اچھی خاضی رقم حاصل ہو ئی ہے اور مستقبل میں ہر کنکشن کی فیس کے ری چا رج پر ٹیکس اور رسیوار کیفروخت پر سیل ٹیکس سے قومی خزانے میں اچھی رقم جا ئے گی جسے مو با ئل فو ن کمپنیوں سے جاتا ہے مزید بھارت غیر قانونی 50لاکھ DTHکافی حدتک ختم ہو جائیں گے جن کی ما ہا نہ کڑوڑوں روپے غیر قا نونی طور پر بھارت یا پھر دوبئی سے بھارت جا تے تھے ان سے چھٹکارمل جائے گاساتھ ہی صارفین کی سہولیات اور ان کے پاس سروس کے انتخاب کا اختیار آجا ئے گا جوسستااور معیاری ہو گا و ہ ہی عوا م کے دل میں جگہ بنا ئے گا DTHکی وجہ سے میڈیا انڈسٹری اورزیادہ ترقی کی جا نب جا ئے گی جس سے نئے چینلزکی تعداد میں آضافہ ہوگا اور خاص کر انٹر ٹینمنٹ چینلز کی مانگ کی وجہ سے اور زیاد ہ چینلز آئیں گے جس سے روزگار کے نئے مواقعے پیدا ہونگے میڈیا بھی کافی حدتک حکومتی کنٹرول میں رہے گا سا تھ ہی براڈکاسٹروں کی کیبل آپریٹرز سے چینل کے نمبر تبدیل کرنے کی شکایت ختم ہو جا ئے گئی اور کو ئی بھی پاکستا نی چینل یا براڈکاسٹر کو اپنا چینل چلاوانے کے لئے حکومتی دباؤ یا آپریٹر کو رسیوار کا تحفہ نہیں دینا ہوگا اب پمر ا کو ان کیبل آپریٹروں کے بارے میں بھی سوچنا ہو گا کہ ڈیجیٹل کرنے کے اتنے بھاری اخراجات اٹھانا مشکل کام ہے ان کے ساتھ تعاون کریں یا کو ئی بلاسودآسان قرضے دے کر ان کو ڈوبنے سے بچا یا جا سکتا ہے اور DTHکو بھی صارفین کو سروس دینے کی کم سے کم قیمت اور معیاری سروس کو یقینی بنا یا جا ئے ۔اب پھر وہی بات کہ ٹیکنا لوجی کا راستہ ہڑتالیں نہیں روکا کرتی ہیں ٹیکنالوجی کا مقابلہ ٹیکنالوجی سے کیا جا تی ہے -
Abdul Jabbar Khan
About the Author: Abdul Jabbar Khan Read More Articles by Abdul Jabbar Khan: 151 Articles with 129554 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.