رحمۃ للعالمین ﷺ کی صنف ِنازک پر شفقت و رحمت

بسم اللّٰہ الرحمٰن الر حیم
نحمدہٗ ونصلی ونسلم علٰی رسولہ الکریم

حضور رحمۃ للعالمین ﷺ کی شفقت و رحمت سے دنیا کی کوئی شے محروم نہ رہی……آپ کی رحمت اور آپ کے اخلاق عالیہ نے ہر ایک کو اپنی آغوش رحمت میں لیا …… اخلاق ِعالیہ‘ آپ کی صفت ہی نہیں آپ ﷺ کی رحمت کا ایک جز بھی ہے…… آپ ﷺ نے مسلمان مردوں کی اصلاح و تربیت کے ساتھ ساتھ عورتوں کی تربیت کے لیے بھی حضرت فاطمۃ الزہرا رضی اﷲتعالیٰ عنہا کو نصیحت فرمائی تھی کہ:
’’عورت کا ایک بڑا فرض شوہرکی اطاعت اور فرمانبرداری ہے‘‘۔

حضرت فاطمۃ الزہرا رضی اﷲ عنہانے اپنے نکاح کے بعدایک روز سرکارِدو عالم ﷺسے عرض کیا کہ یا رسول اﷲ! بعض قریش کی عورتیں مجھے طعنہ دیتی ہیں کہ تمہاراخاوند توخودفقیر ہے۔ اس پرحضورانورﷺ نے فرمایا کہ:
’’ بیٹی! تیرا باپ فقیر ہے نہ تیراخاوند فقیرہے۔ خدا کی قسم میں سچ کہتاہوں کہ تیرا شوہر اسلام کے لحاظ سے تمام صحابہ میں اول ہے، علم میں ان سب سے افضل ہے اورتحمل اور نرمی میں ان سب سے بلند ہے۔اﷲ نے اہل بیت میں سے دو اشخاص کوپسند فرمایاہے، ایک تیرے باپ کو اور دوسرے تیرے خاوند کو، ہرگز تواس کی نافرمانی نہ کرنابلکہ فرمانبرداری بجا لانا ‘‘۔

اس کے بعد آپ ﷺ نے حضرت علی رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کو طلب فرمایا اورپھر انہیں فرمایاکہ:
’’اے علی! فاطمہ میری لختِ جگر ہے اس کو خوش رکھنا‘ مجھے خوش رکھنے کے مترادف ہے ‘‘۔
خاتونِ جنت حضرت فاطمہ رضی اﷲتعالیٰ عنہا گھر میں سخت مشقت فرمایا کرتیں، آگ و دھوئیں کے سامنے بیٹھ کر روٹی پکاتیں‘ گھرمیں خودجھاڑو دیتیں،خودچکی سے آٹا پیستیں یہاں تک کہ آپ کے دست مبارک میں چھالے پڑ جاتے۔ ایک روزتھکاوٹ سے پریشان ہو کر بے قراری میں نبی کریم ﷺ کی خدمت میں اپنی پریشانی عرض کرتے ہوئے ایک خادمہ کی درخواست کی تو سرکارِ دوعالم ﷺ نے فرمایا:
’’ میں تمہیں خادم عطا کروں یا خادم سے بہتر کوئی شے ؟ ‘‘
حضرت فاطمہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہا نے تعجب سے دریافت کیا:
’’ خادم سے بہتر کیا شے ہو سکتی ہے؟ ‘‘
سرکارِ دوعالم ﷺ نے یہ رحمت بھرا جواب ارشاد فرماکر ان کی بے قراری پل بھر میں کافور فرمادی، فرمایا:
’’ہاں! وہ یہ ہے کہ ہر روز ۳۳؍ مرتبہ سبحان اﷲ،۳۳؍ مرتبہ ا لحمدﷲ ،۳۳؍ مرتبہ اﷲ اکبر اور ایک مرتبہ
لاَ اِلَہَ اِلَّاﷲُ وَحْدَ ہٗ لَاشَرِیْکَ لَہ ٗ لَہُ الْمُلْکُ وَلَہُ الْحَمْدُ وَھُوَعَلٰی کُلِّ شَیْءٍ قَدِیْر
پڑھ لیا کرو یہ تمام ۱۰۰؍ کلمات ہو جائیں گے، اس کے بدلے میں تم قیامت کے روز ضرورایسی نیکیاں اپنے نامۂ اعمال میں لکھی پاؤ گی کہ اپنے حساب کے پلے کو بھاری محسوس کرو گی ‘‘۔
حضرت علی رضی اﷲتعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ اس کے بعد حضرت فاطمہ نے تادمِ مرگ کسی بات سے سرتابی نہیں کی اور نہ مجھے ناراضگی کاموقع دیا اورمیں نے بھی کبھی اُن کو آزُردہ خاطر نہ ہونے دیا……حضوررحمۃ للعالمین ﷺ کی شہزادی‘ خاتونِ جنت کا یہ طرز عمل سب خواتین کے لیے مثال ہے اور آخرت کے لیے ذر یعہء نجات بھی‘کہ تکلیف کتنی ہی بڑی ہو‘ ہر حال میں صبر و شکر بجا لانا چاہیے۔
اعلیٰ حضرت امام احمد رضا محدث بریلوی رحمۃ اﷲ علیہ نے ایک حدیث شریف نقل کی ہے کہ حدیث میں ہے :
ایک زن خثعمیہ نے حضور رحمۃ للعالمینﷺ کی خد مت اقدس میں حاضر ہوکر عرض کیاکہ یارسول اﷲ! مجھے بتائیں کہ شوہر کا عورت پرکیا حق ہے‘ کیونکہ میں زنِ بے شوہر ہوں، اس کے ادا کی اپنے میں طاقت دیکھوں گی تو نکاح کروں ورنہ یوہیں بیٹھی رہوں ۔
فرمایا:…… بیشک شوہر کا زوجہ پر یہ حق ہے کہ عورت کجاوہ پر بیٹھی ہو اور مر داُسی سواری پر اس سے نزدیکی چاہے تو انکارنہ کرے، اور مردکا عورت پرحق ہے کہ اس کی بے اجازت کے نفل روزہ نہ رکھے اگر رکھے گی تو عبث بھوکی پیاسی رہی‘ روز ہ قبول نہ ہوگا ، اور گھر سے بے اذنِ شوہر کہیں نہ جائے اگرجائے گی تو آسمان کے فرشتے ، زمین کے فرشتے ، رحمت کے فرشتے‘ عذاب کے فرشتے سب اس پر لعنت کریں گے‘ جب تک پلٹ کر آئے۔
یہ ارشاد سن کر اُن بی بی نے عرض کیا :…… ٹھیک ہے تو پھر میں کبھی نکاح نہ کروں گی‘‘(اس کا یہ جواب سن کر حضوراکرم رحمۃ للعالمین ﷺ نے خاموشی اختیار فرمائی)۔
ایک اورحدیث شریف میں ہے کہ:
’’ ایک بی بی نے دربار رحمۃ للعالمین صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم میں حاضر ہو کر عرض کیا کہ میں فلاں ہوں اور فلاں کی بیٹی ہوں۔ حضور رحمۃ للعالمینﷺ نے فرمایا:……ہاں میں نے پہچان لیا، اپنا کا م بتاؤ؟
اس بی بی نے عرض کی:…… مجھے اپنے چچا کے بیٹے‘ فلاں کے حوالے سے کام ہے۔
فرمایا:…… میں نے اسے بھی پہنچا ن لیا ۔(یعنی اب تم اپنا مطلب بیان کرو)
اس بی بی نے عرض کی :……یا رسول اﷲ!ا س نے مجھے پیام دیا ہے ، تو حضور میں چاہتی ہوں کہ آپ یہ ارشاد فرمائیں کہ شوہرکا عورت پرکیا حق ہے! اگر وہ کوئی چیز میرے قابو کی ہو تو میں اس سے نکاح کرلوں۔
حضور رحمۃ للعالمینﷺ نے فرمایا:…… مرد کے حق کا ایک ٹکڑ ایہ ہے کہ اگر اس کے دونوں نتھنے خون یا پیپ سے بہتے ہوں اور عور ت اسے اپنی زبان سے چاٹے تو شوہر کے حق سے ادا نہ ہوئی ،اور اگر انسان کو آدمی کا سجدہ روا ہوتاتو میں عورت کو حکم دیتا کہ شوہر جب باہر سے اس کے سامنے آئے تو اسے سجدہ کرے‘ کہ خدا نے مرد کو فضیلت ہی ایسی دی ہے۔
یہ جواب سن کر وہ بی بی بولیں:…… قسم اس کی جس نے حضور کو حق کے ساتھ بھیجا‘ میں رہتی دنیا تک نکاح کا نام نہ لوں گی‘‘۔(اس کایہ جواب سن کر حضور رحمۃ للعالمینﷺ خاموش رہے )
ایک اورحدیث شریف میں آتا ہے کہ:
’’ایک صحابی اپنی صاحبزادی کو حضور رحمۃ للعالمینﷺ کی خدمت میں لے کر حاضر ہوئے اور عرض کیا کہ یا رسول اﷲ! میری یہ بیٹی نکاح کرنے سے انکا رکرتی ہے ۔
حضور رحمۃ للعالمینﷺ نے اس لڑکی سے فرمایا:…… اپنے باپ کا حکم مانو۔
اس لڑکی نے عرض کی:…… قسم اس کی جس نے حضور کوحق کے ساتھ بھیجا‘ میں اس وقت تک نکاح نہ کروں گی جب تک حضورآپ یہ نہ بتائیں کہ خاوندکا عورت پر کیا حق ہے !
اس کا جواب سن کر حضور رحمۃ للعالمینﷺ نے فرمایا:……شوہر کا عورت پر یہ حق ہے کہ اگر اُس کے کوئی پھوڑا ہوجائے‘ اورعورت اسے چاٹ کر صاف کرے ، یا اُس کے نتھنوں سے پیپ یا خون نکلے‘ عورت اسے نگل لے تومرد کے حق سے ادا نہ ہوئی۔
یہ سن کر اُس لڑ کی نے عرض کیا:…… قسم اس کی جس نے حضورآپ کوحق کے ساتھ بھیجا‘ میں کبھی شادی نہ کروں گی۔ حضور رحمۃ للعالمینﷺ نے عورتوں پر رحمت و شفقت فرماتے ہوئے فرمایا:…… عورتوں کانکاح نہ کرو جب تک ان کی مرضی نہ ہو۔(فتاوٰی رضویہ ،قدیم،جلد:۵،مطبوعہ بمبئی،ص:۵۸۴۔۵۸۵ملخصاً)
حضرت اسماء بنت ِزید رضی اﷲتعالیٰ عنہانے ایک مرتبہ حضور رحمۃ للعالمینﷺ سے مَردوں اورعورتوں میں فرق کے حوالے سے سوال کیا کہ بعض ثواب کے کام وہ ہیں جو صرف مرد ہی کرتے ہیں تو کیا ہم عورتیں مردوں کے ساتھ اس اجروثواب میں شریک نہ ہوں گی؟
اس پر حضور رحمۃ للعالمینﷺ نے شفقت بھرے جواب میں فرمایا کہ:
’’ اگرعورت اپنے شوہرکی رضاجوئی اورموافقت وفرمانبرداری کرتی ہے اورفرائض زوجیت ادا کرتی ہے تو اُس کو بھی مرد کے برابر ثواب ملے گا ‘‘۔
معلوم ہوا کہ شوہرکی فرمانبرداری سے عورت‘ شوہر کے ہر نیک کام میں اس کے برابر ثواب کی مستحق بن جاتی ہے یعنی شوہر کی رضا جوئی میں ثواب بھی ہے اوردنیاوی واُخروی نجات بھی…… پھر نبی کریم ﷺنے یہ بھی فرمایا ہے کہ:
’’ اگرمیں خداکے سواکسی اورکو سجدے کا حکم دیتا توعورت کوحکم دیتا کہ وہ اپنے شوہرکوسجدہ کرے‘ خداکی قسم عورت اپنے رب کا حق ادا نہ کرے گی جب تک شوہر کے کل حقوق ادا نہ کرلے‘‘۔
حضور رحمۃ للعالمینﷺ نے بیوی کے لیے شوہر کی رضا مندی کی اہمیت واضح کرتے ہوئے فرمایا ہے کہ :
’’جب تک شوہراس سے راضی نہ ہو‘ اﷲتعالیٰ اُس عورت سے ناراض رہتا ہے‘‘۔
یہ سب باتیں پڑھ کر عورتیں گھبرائیں نہیں!اسلام مساوات کادرس دیتاہے سو ایسا ہرگزنہیں کہ حقوق زوجین کی بات ہو توفرائض صرف بیوی کے ذمہ ڈال دیے جائیں اور مرد حضرات فارغ!……نہیں‘نہیں! حضور رحمۃ للعالمینﷺ نے اگر عورت کوبحیثیت بیوی اُس کے فرائض کی ادائیگی کی تاکیدفرمائی تو اُسے شوہر سے ملنے والے حقوق کی خوش خبری بھی سنائی ہے……چنانچہ حضور رحمۃ للعالمینﷺ کا یہ ارشاد بھی ہے کہ:
’’تم میں اچھے لوگ وہ ہیں جوعورتوں سے اچھی طرح پیش آئیں ۔ مسلمان مرد‘مومنہ عورت کومبغوض نہ رکھے اگراُس کی ایک عادت بُری معلوم ہوتی ہے تو دوسری پسند ہوگی یعنی سب عادتیں خراب نہ ہوں گی جبکہ اچھی بُری ہرقسم کی باتیں ہوں گی تومردکو یہ نہ چاہیے کہ خراب عادتیں ہی دیکھتا رہے بلکہ بُری عادات سے چشم پوشی کرے اوراچھی عادت کی طرف نظر رکھے‘‘۔
حضور رحمۃ للعالمینﷺ کی یہ شفقت و رحمت‘ صنف ِنازک کے لیے بڑا ا عزازہے کہ اُن کے شوہرمحض اُن کی خامیوں کی بنیاد پرانہیں اپنی زندگی سے بے دخل نہیں کرسکتے بلکہ حضور رحمۃ للعالمینﷺ کے فرمان کے پیش نظر اُن کی برائیوں سے صرف نظر کر کے اچھائیوں پرنظررکھنا اور اُن کی طرف مائل بہ محبت ر ہنا حکم نبوی ہے……اگر ہر مسلمان مرد سچے دل سے اس روش کو اپنا لے تو کوئی وجہ نہیں کہ ہر گھر میں خوشحالی کا ڈیرہ ہو…… بے شک حضور رحمۃ للعالمینﷺ کی شفقت و رحمت سے صنف ِنازک بھی فیضیاب ہیں اور کیوں نہ ہوں کہ آ پ ﷺ رحمۃ للعالمین جو ہیں۔بے شک
ابر جود و عطا کس پہ برسا نہیں
تیرا لطف و کرم کس نے دیکھا نہیں
کس جگہ اور کہاں تیرا قبضہ نہیں
ایک میرا ہی رحمت پہ دعویٰ نہیں
شاہ کی ساری اُمت پہ لاکھوں سلام
Dr Iqbal Ahmed Akhtar Al Qadri
About the Author: Dr Iqbal Ahmed Akhtar Al Qadri Read More Articles by Dr Iqbal Ahmed Akhtar Al Qadri: 30 Articles with 42444 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.