حضورﷺ کی سیرت وحیات مبارکہ

ارشادِ باری تعالیٰ ہے۔’’لَقَدْکَانَ لَکُمْ فِیْ رَسُوْلِ اللّٰہِ اُسْوَۃ’‘حَسَنَۃ’‘۔ ترجمہ:’’بے شک تمہیں رسول اﷲﷺکی پیروی بہترہے ‘‘۔سورۃ الاحزاب
آپﷺکی ولادت باسعادت آپﷺکے والدماجد حضرت عبداﷲ کی وفات کے بعدبارہ ربیع الاول کوہوئی ۔آپﷺکے داداحضرت عبدالمطلب کو یتیم پوتے کی پیدائش پربے حدخوشی ہوئی اورانہوں نے آپﷺکانام احمدؐرکھا۔وقت کے دستورکے مطابق آپﷺاپنی ولادت کے کچھ عرصہ بعدقبیلہ سعدکی ایک دیہاتی خاتون حضرت حلیمہ سعدیہؓ کے سپردہوئے ۔تاکہ دیہات کی کھلی فضاء میں تندرست رہنے کے علاوہ خالص عربی بولناسیکھ لیں۔کیونکہ بنوسعداپنی فصاحت میں مشہورتھے ۔اﷲ کے محبوبﷺخوداس بات پرفخرکرتے تھے کہ ان کی زبان بنی سعدکی زبان ہے۔عاشق رسول فاضل بریلوی امام احمدرضاخانؒ کی روح تڑپی اوربول اٹھے۔
تیرے سامنے تھے دبے لچے فصحاء عرب کے بڑے بڑے
گویاان کے منہ میں زباں نہیں،نہیں بلکہ جسم میں جاں نہیں

حضرت حلیمہ سعدیہ ؓ کے پاس آپﷺچارسال تک پرورش پاتے رہے۔ اس کے بعداپنی والدہ محترمہ کے پاس آگئے ۔حضرت عبداﷲ ؓ کی وفات کے بعدحضرت آمنہؓ اپنے شوہرکی قبرمبارک کی زیارت کے لئے ہرسال مدینہ جایاکرتی تھیں جب آپﷺچھ سال کی عمرمبارکہ چھ سال کی تھی۔تو آپﷺکی والدہ ماجدہ آپﷺکواپنے ہمراہ مرحوم شوہرحضرت عبداﷲؓ کی قبرکی زیارت کے لئے لے گئیں ۔واپسی مقام ابواء پرآپﷺکی والدہ بیمارہوگئیں اوروہیں انتقال فرماگئیں۔آپﷺچھ سال کی عمرمیں ماں اورباپ دونوں کی محبت وشفقت سے محروم ہوگئے ۔والدہ کے انتقال کے بعدآپﷺکے داداحضرت عبدالمطلب نے اپنے یتیم پوتے کودامن ِ تربیت میں لے لیا۔دوسال بعدآپﷺکے داداحضرت عبدالمطلب دنیا فانی سے رحلت فرماگئے ۔داداکی وفات کے بعدآپﷺکی پرورش کاذمہ جناب ابوطالب نے لے لیا۔بارہ سال کی عمرمیں آپﷺنے جناب ابوطالب کے ہمراہ شام کاتجارتی سفرکیا۔آپﷺنے اپنے چچاکے زیرسایہ پرورش پاکرآہستہ آہستہ جوانی کی عمرکوپہنچے ۔جب آپﷺکی عمرپچیس سال کوپہنچی تو جناب ابوطالب کی اجازت سے حضرت خدیجہ ؓ سے نکاح ہوااسوقت حضرت خدیجہؓ کی عمرچالیس سال تھی۔چالیس سال کی عمرمیں آپﷺنے اعلانِ نبوت کیا۔تبلیغ کایہ سلسلہ جاری وساری رہاجب کفارومشرکین نے ظلم وستم کی انتہاکردی تواﷲ تعالیٰ کے حکم سے مدینہ منورہ کوہجرت فرمائی ۔آپ ﷺنے کئی غزوات میں حصہ لیا۔ آپﷺنے زندگی میں ایک بارحج اورچارمرتبہ عمرہ کیا۔ذی قعدہ ۱۰ہجری میں آقاﷺنے حج کاارادہ کیایہ حضورﷺ کا پہلااورآخری حج تھا ۔ وہاں پرایک تاریخ سازخطبہ پیش کیاجسے تاریخ عالم میں ’’خطبہ حجۃ الوداع‘‘کے نام سے جاناجاتاہے ۔حجۃ الوداع سے فارغ ہوکرآپﷺمدینہ منورہ تشریف لے آئے۔چونکہ اب کارِنبوت تقریباًپایہ تکمیل کوپہنچ چکاتھاقرآن مجیدکی آخری آیات میں تکمیل دین کی بھی اطلاع مل چکی تھی۔بالآخر63سال کی عمرمبارکہ پانے کے بعد اس دنیاسے ظاہراًپردہ فرماکرخالق حقیقی سے جاملے ۔حضرت علیؓ ،فضل بن عباسؓاور اسامہ بن زیدؓ نے غسل دیااورحضرت طلحہؓ نے قبرانورمبارک کھودی۔آپﷺکے جسداطہرمبارک کوحجرہ عائشہ( آجکل جہاں پرروضہ مبارک ہے )میں دفن کردیاگیا۔

محسن انسانیت ،خاتم پیغمبراں ،رحمتِ ہرجہاں ،انیس بیکراں،آقائے دوجہاں سرورکائنات، فخرموجودات،نبی اکرم،شاہ بنی آدم،نورمجسم، سروردوعالم، جناب احمدمجتبیٰ محمدمصطفیﷺ کاحقیقی عشق ہی بندہ مومن کاقیمتی سرمایہ ہے۔آپﷺکی محبت سے دلوں میں نورپیداہوتا ہے۔آپﷺکاذکرقرب الٰہی حاصل کرنے کابہترین ذریعہ ہے۔ خالق کائنات،مالک ِ ارض وسماوات اﷲ سبحانہ وتعالیٰ نے آپﷺکو تمام جہانوں کے لئے باعث ِرحمت بناکربھیجا آپﷺوجہ تخلیق کائنات ہیں اورآپﷺہی کے ذکرسے یہ دنیاآبادہے آپﷺکاذکر ایساافضل ترین ذکرہے جوخالق کائنات خوداپنے نورانی فرشتوں کے ساتھ ملکرفرماتاہے۔آپﷺکی ذات بابرکات پر کثرت سے درودشریف پڑھنے سے دکھوں سے نجات ملتی ہے اورروحانی درجات بلندہوتے ہیں ۔آج کے پُرفتن دورمیں نفرتوں ،کدورتوں کے خاتمہ کے لئے ضروری ہے کہ محبت رسولﷺکے دیپ روشن کیے جائیں ۔آپﷺسے محبت کاتقاضابھی یہی ہے کہ ہم سیرت مصطفیﷺاورتعلیمات مصطفیﷺکواپنااوڑھنابچھونابنائیں۔عشق مصطفیﷺکاعملی ثبوت دینے کے لئے یہ لازم ہے کہ ہم آپﷺکے لائے ہوئے نظام ِزندگی کواپنے اوپرنافذکریں تاکہ دین دنیاوآخرت میں کامیاب ہوسکیں۔ اسلام ہمیں اخوت اوربھائی چارے کادرس دیتاہے ۔حقوق اﷲ اورحقوق العباداداکرنے کاحکم دیتاہے ۔آج کے پُرفتن دورمیں یہودی لابی طاغوتی اسلام دشمن قوتیں متحدہوکردینِ اسلام،قرآن اورمسلمانوں کے خلاف سازشیں کررہے ہیں۔استعماری سازشوں کے باوجوددنیابھرمیں دین اسلام کی مقبولیت میں دن بدن اضافہ ہوتاجارہاہے ۔جوق درجوق غیرمسلم کلمہ پڑھ کردامنِ اسلام میں پناہ لے رہے ہیں۔سیرتِ مصطفیﷺاورحیاتِ مبارکہ کامطالعہ کرنے سے یہ بات ہم پرروزِ روشن کی طرح عیاں ہوتی ہے کہ ہرمعاملہ میں حضورﷺکاطرزِعمل مبنی بررحمت اورمبنی بر شفقت رہا ہے۔آپﷺنے اپنی حیات ِ مبارکہ میں تمام کام اپنے ہاتھ اورہمیشہ محنت ومشقت سے سرانجام دیے ہیں۔اﷲ کے محبوبﷺنے اپنی حیاتِ مبارکہ میں کام کرنے میں عارمحسوس نہیں کی ۔توآج ہم کلمہ پڑھنے والے امتی کیوں عارمحسوس کرتے ہیں۔ہمیں اپنی زندگیوں کوبدل کرتعلیمات مصطفیﷺکے سانچے میں ڈھالنے ہوگا۔کیونکہ آپﷺکی حیاتِ مبارکہ میں روزمرہ کی زندگی غریبوں اورمسکینوں کی سی تھی ۔اہل خانہ کے کاموں کے علاوہ آپﷺپھٹے پرانے کپڑوں کوخودپیوندلگالیتے ۔بازارسے خودسوداسلف خریدلاتے۔ خدام اورغلاموں کے ساتھ اچھاسلوک کرتے یہاں تک کہ غلاموں کے ساتھ ایک ہی دسترخوان پربیٹھ کرکھاناتناول فرماتے ۔اوریہی حکم دیتے کہ جوخود کھاتے ہووہ انہیں بھی کھلاؤ،جیسالباس خودپہنتے ہوویساہی انہیں پہناؤ،ان کے ساتھ حسن سلوک سے پیش آؤان کی غلطیوں کومعاف کرنے کی تلقین فرمائی ۔ آپﷺاپنے خدام حضرت زیدبن حارثہ ؓ اورحضرت انس ؓ کواپنے گھرکافرد سمجھتے تھے ۔ حضرت زیدبن حارثہ غلام تھے۔آپﷺنے ان کوآزادکردیاان کے والداورچچالینے آئے اورہرقیمت اداکرنے کے لئے تیارتھے۔آپﷺنے ان کے ساتھ جانے یانہ جانے کامعاملہ زیدبن حارثہ پرہی چھوڑدیا۔ انہوں نے جانے سے انکارکردیاتھا۔اورآپﷺکے آستانہ رحمت کووالدین کے سایہ عاطفت پرترجیح دی۔اسی طرح زیدکے بیٹے اسامہ سے آپﷺ اس قدرمحبت کرتے تھے آپﷺ فرمایاکرتے تھے کہ اسامہ بیٹی ہوتی تومیں اُسے زیورپہناتاآپﷺاس کی خودناک صاف کرتے تھے۔ آپﷺ مویشیوں کی دیکھ بھال اورچارہ خودڈال لیتے ۔اوراپنی بکری کاخوددودھ دوہتے ۔جوتوں کی مرمت خودکرلیتے ۔ایک مرتبہ آپﷺکی نعلین مبارک کابندٹوٹا ہواتھاصحابہ کرام میں سے کسی نے عرض کیایارسول اﷲﷺ!مجھے عنایت فرمائیے میں اسے درست کرلوں آپﷺنے فرمایا’’میں نہیں چاہتامیں ممتازہوکر رہوں اورکسی کواپنے کام کے لئے فرماؤں‘‘۔

ایک مرتبہ آپﷺسفرمیں تھے ۔آپﷺنے صحابہ کرام علہیم الرضوان کوایک دنبہ تیارکرنے کاحکم فرمایاصحابہ کرام اٹھے اورایک کہنے لگامیں ذبح کروں گا۔دوسرے نے کہاکہ میں اس کی کھال اتاروں گا۔تیسرے نے کہامیں اسے پکاؤں گا۔پھرآپﷺنے فرمایا’’لکڑیاں جمع کرنامیراکام ہے‘‘صحابہ کرام علہیم الرضوان نے عرض کیا۔یارسول اﷲﷺہم کافی ہیں۔آپﷺکواس کی کیاضرورت ہے ۔فرمایا’’میں جانتاہوں تم کافی ہولیکن میں اسے ناپسندکرتا ہوں کہ میں تم سے ممتازوجدارہوں اورتمہارے درمیان متمیزہوکربیٹھارہوں ۔اﷲ تعالیٰ اسے ناپسندفرماتاہے کہ کوئی بندہ اپنے ساتھیوں کے درمیان ممتاز ہوکربیٹھے‘‘۔ایک روایت میں ہے کہ ’’میں پسندکرتاہوں کہ اپنے ہاتھ کی کمائی سے کھاؤں اوربیشک اﷲ کے پیغمبرداؤدعلیہ السلام اپنے ہاتھ کی کمائی سے کھاتے تھے‘‘۔آپﷺدشمنوں سے انتقام لینے کی بجائے انہیں معاف کردیتے ۔ام المومنین سیدتناحضرت عائشہ الصدیقہؓ سے روایت ہے کہ رسول ِخداﷺ نے کبھی بھی اپنے ذاتی معاملہ اورمال ودولت کے سلسلہ میں کسی سے انتقام نہ لیامگراس شخص سے جس نے اﷲ تعالیٰ کی حرام کردہ چیزوں کاارتکاب کیاتواس سے اﷲ کے لئے بدلہ لیا۔(بخاری شریف،کتاب الاداب)

آپﷺکی قوت وبرداشت اورضبط وتحمل مثالی تھاآپﷺکی پوری حیات مبارکہ عفودرگرز،رحمت ورافت،حلم وتحمل،صبروضبط،رحم وترحم اوربرداشت ورواداری سے عبارت ہے ۔صبر،بردباری اوردرگزرکرنے کی عظیم صفت نبوت کی عظیم صفتوں میں سے ہے ان صفتوں کی قوت کے بغیربارِنبوت نہیں اٹھایا جاسکتا۔ایک روایت میں ہے۔’’مَااُوْذِی نَبِیّ’‘ مِثْلَ مَآ اُوْذِیت اَوْکَمَاقَال،کسی نبی کواتنی ایذانہیں پہنچائی گئی جتنی ایذامجھے پہنچائی گئی۔یہ اس لئے کہ اﷲ کے محبوبﷺامت کے اسلام لانے پرسب سے بڑھ کرخواہشمندتھے ۔آپﷺکاسب سے زیادہ اشدوسخت صبرغزوہ احدکے موقع پرتھاجب کفار نے آپﷺکے ساتھ جنگ ومقابلہ کیااورآپﷺکوشدیدترین رنج والم پہنچایامگرآپﷺنے ان پرنہ صرف صبروعفوپرہی اکتفاکیابلکہ ان پرشفقت ورحمت فرماتے ہوئے ان کواسی جہل وظلم میں معذورگردانااور فرمایا’’اے میرے اﷲ!میری قوم کوراہِ ہدایت پرلاکیونکہ وہ جانتے نہیں‘‘ایک روایت میں ہے۔’’اے اﷲ !انہیں معاف فرمادے ‘‘صحابہ کرام علہیم الرضوان نے عرض کیایارسول اﷲﷺ!کاش آپ ان کے لئے بددعافرماتے کہ وہ ہلاک ہوجاتے ۔ آپﷺ نے فرمایا’’میں لعنت کے لئے مبعوث نہیں ہوابلکہ میں حق کی دعوت اوجہان کے لئے رحمت بن کرمبعوث ہواہوں‘‘۔

ایک مرتبہ عمروبن ہشام نے حضرت عمرفاروقؓ کی مجلس میں احنف بن قیس کومخاطب کرکے کہاتھا’’ایک وہ وقت تھاجب ہم دونوں جہالت کی دنیامیں بستے تھے اس وقت عزت کامستحق وہ سمجھاجاتاتھا۔جوزیادہ جاہل اوروحشی ہوتااورجہالت یہ تھی کہ ہم نے تمہاراخون بہایااورتمہاری عورتوں کوقیدی بنایاآج ہم اسلام کے گھرمیں بیٹھے ہیں آج عزت کاوہ مستحق ہے جوزیادہ بُردباراورحلیم ہے پس اﷲ تعالیٰ ہمیں اورتمہیں معاف فرمائے‘‘۔حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ ایک دن رسول اﷲ ﷺاپنی مجلس مبارک سے اٹھے توہم بھی اٹھ کھڑے ہوئے توکیا دیکھتے ہیں کہ حضورﷺکے قریب ایک اعرابی آیااس نے حضورﷺکی گردن مبارک سے چادرکواس سختی سے کھینچاکہ چادرکی درشتی سے آپﷺکی گردن مبارک چھیل گئی پھرحضورﷺنے اس اعرابی کی طرف نظراُٹھائی کہ وہ کیا کہتاہے اس نے کہامیرے پاس دواونٹ ہیں اس پرمال لادوکیونکہ میں بال بچے رکھتاہوں اورآپ نہ اپنامال لادیں گے اورنہ اپنے باپ کا۔اس پر حضورﷺنے فرمایا’’میں ہرگزاس وقت تک مال نہیں دوں گاجب تک مجھے اس چادرکی گرفت سے نہ چھوڑے گاجسے تونے کھینچے رکھاہے‘‘۔اعرابی نے کہا’’خداکی قسم!میں ہرگزچادرکوڈھیل نہ دوں گاجب تک آپ میرے ان دونوں اونٹوں کونہ لدوادیں گے‘‘۔پھرحضورﷺنے کسی شخص کوبلاکرفرمایا’’اس کے ایک اونٹ پرکھجوریں اورایک اونٹ پرجولاددو‘‘۔(ابوداؤد)حضرت انسؓ سے روایت ہے فرماتے ہیں کہ میں حضورﷺکے ساتھ جارہاتھااورحضورﷺ کی گردن مبارک میں نجرانی سخت حاشیہ دارچادر تھی۔ایک اعرابی نے قریب آ کر چادر کو پکڑ کر حضورﷺ کوکھینچااورچادرکوسخت لپیٹنے لگا۔حضرت انسؓ فرماتے ہیں کہ میں نے نبی کریمﷺ کی گردن مبارک کی طرف دیکھاتو سخت حاشیہ دارچادرکی لپیٹ نے آپﷺکی گردن مبارک کوچھیل دیاتھااس کے بعداعرابی کہنے لگا۔’’اے محمدﷺ!خداکے اس مال میں سے جوآپﷺ کے پاس ہے مجھے دینے کاحکم فرمادیں پھرحضورﷺنے اس کی طرف ملاحظہ فرمایااورتبسم فرمایااورمجھے اس کے دینے کاحکم فرمایا‘‘(بخاری)آپﷺنے لبیدبن الاعصم کوجس نے جادوکیاتھااور اس یہودیہ کوخیبرکی تھی جس نے زہرآلودبکری کی ران دی تھی معاف فرمادیا۔ایک مرتبہ آپﷺ قیلولہ فرمارہے تھے کہ جب اپنی چشم مبارک کھولی تودیکھاکہ ایک اعرابی تلوارکھینچے آپﷺکے سرہانے کھڑاہے اورکہہ رہاہے کہ آپﷺکوکون بچائے گا۔اورمجھ سے آپﷺکوکون محفوظ رکھے گا۔آپﷺنے فرمایا’’اﷲ‘‘اس کے بعداس کے ہاتھ سے تلوارگر پڑی اورحضورﷺنے تلواراٹھالی اورفرمایا ’’اب بتا!تجھے کون بچائے گا‘‘پھروہ کانپنے اورلرزنے لگاآپﷺنے اسے چھوڑدیااورمعاف فرمادیا۔اس کے بعدوہ اپنی قوم میں آیااورکہنے لگاکہ میں تمہارے پاس سب سے بہترشخص کے پاس سے آیاہوں۔

رئیس المنافقین عبداﷲ بن ابی کے بیٹے کوجومخلص مسلمان تھے اپنے باپ کے ساتھ بھلائی کرنے کاحکم فرمایاتھا۔جب وہ مرگیاتوحضورﷺ نے اپناپیرہن مبارک جسم اطہرسے اُتارکراس کوکفن بنایااورنمازِ جنازہ پڑھنے کاارادہ کیااس وقت حضرت عمربن خطاب ؓ نے آپﷺ کا دامنِ اقدس پکڑکرعرض کیا۔ یارسول اﷲﷺ!ایسے منافق پرنمازپڑھ رہے ہیں۔جوتمام منافقوں کاسردارتھا۔اس پرحضورﷺنے اپنا دامنِ اقدس چھڑاکرفرمایا۔’’اے عمرؓ!تم دوررہو‘‘۔ تب سورۃ التوبہ کی 84نمبریہ آیت کریمہ نازل ہوئی۔’’اے محبوبﷺ!آپ کسی منافق کی موت پرکبھی نمازنہ پڑھیں اورنہ ہی اس کی قبرپرکھڑے ہوں‘‘۔ اس وقت آپﷺنے یہ ارادہ ترک فرمایاکیونکہ بارگاہ الٰہی سے ممانعت جوآگئی۔بعض علماء کرام فرماتے ہیں کہ عبداﷲ بن ابی منافق کوقمیص مبارک پہنانااس بناپرتھاکہ اس نے آپﷺکے چچاحضرت عباسؓ کواس وقت قمیص پہنائی تھی کہ جب وہ بدرکے قیدیوں میں برہنہ اسیرہوئے تھے ان کے جسم پر طویل القامت ہونے کی وجہ سے کوئی قمیص نہ آسکی۔(مدارج النبوت)عبداﷲ بن ابی الحسماء ؓ بیان کرتے ہیں کہ بعثت سے پہلے میں نے حضورﷺسے کوئی چیزخریدی تورقم باقی رہ گئی ۔میں نے حضورﷺسے وعدہ کیاکہ اسی جگہ رقم لیکرحاضرہوتاہوں۔پھرمیں بھول گیاتین دن کے بعدمجھے یادآیاجب میں وہاں پہنچاتوکیادیکھتاہوں کہ حضورﷺ اُسی جگہ تشریف فرماہیں۔ حضورﷺ نے مجھ سے فرمایا’’تم نے مجھے مشقت میں ڈال دیاتین دن سے اسی جگہ انتظارکرتارہا ہوں‘‘۔ (ابوداؤد)آپﷺاپنی ازواج مطہرات کے ساتھ بہت بہترسلوک فرماتے ان کی پاسداری کرتے ان کے ساتھ استراحت فرماتے اورانصارکی بچیوں کوحضرت عائشہ ؓ کے پاس چھوڑدیتے ۔ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ ؓ ایک مرتبہ گھرمیں تشریف فرماتھیں کہ حضرت ام سلمہ ؓ نے کھانابھیجا۔حضرت عائشہ صدیقہؓ کاہاتھ کھانے کے برتن میں لگ گیااوربرتن گرکرٹوٹ گیااورکھانازمین پربکھرگیاحضورﷺنے برتن کے ٹکڑوں کوچنااورکھانااٹھاکربرتن میں رکھااورمعذرت خواہی کے طورپرحاضرین سے کہا’’ہمیں تمہارے اس رشک کے معاملے میں افسوس ہے ‘‘بیتابی کااظہارہواپھرحضرت عائشہ صدیقہؓ کے گھرسے درست پیالہ لیکراورایک روایت میں ہے کھانابھی لیکران کے گھرخادم کے ہاتھ بھجوایااورفرمایا’’پیالہ کے بدلہ میں پیالہ اورکھانے کے بدلے میں کھاناہے‘‘۔اسی طرح دیہاتیوں میں ایک شخص جس کانام ’’زاہر‘‘تھاوہ کبھی کبھی آپﷺکی بارگاہ اقدس میں دیہات کی ایسی ترکاریاں ہدیہ میں لایاکرتاتھاجوحضورﷺ کوپسندتھیں اورحضورﷺاس کی واپسی پرشہرکی چیزیں(کپڑاوغیرہ)عنایت فرمایاکرتے تھے ۔آپﷺاس کودوست رکھتے تھے اورفرمایاکرتے تھے کہ ’’زاہر‘‘سے ’’ہمارادوستانہ ہے‘‘۔ہم اس کے شہری وہ ہمارادیہاتی دوست ہے۔ایک مرتبہ آپﷺبازارتشریف لے گئے توحضرت ’’زاہر‘‘کووہاں موجود دیکھا آپﷺنے اس کی پشت سے اپنادست ِ مبارک اس کی آنکھوں پر رکھااوراپنی جانب کھینچااورلپٹالیااپناسینہ مبارک اس کی پشت سے ملادیاوہ آپﷺکونہیں دیکھ سکاتھاکہنے لگایہ کون ہے؟جب آپﷺ کوپہچان لیاتوا س نے اپنی پشت کوحضورﷺکے سینہ مبارک سے اورملادیااورنہیں چاہاکہ وہ جداہوں ۔پھرآپﷺنے فرمایاکہ کوئی ہے جواس غلام کوخریدے ۔زاہرؓ نے عرض کیایارسول اﷲﷺ!آپ نے مجھے کھوٹااورکم قیمت مال تصورکرلیاہے ۔ آپﷺنے فرمایا’’تم خداکے نزدیک کھوٹے تونہیں ہواورنہ کم قیمت بلکہ گراں بہاہو۔

آپﷺکے حیاء کی یہ شان تھی کہ کسی کے چہرے پربھرپورنظرنہ ڈالتے تھے۔آپﷺلوگوں کی دلجوئی فرماتے ۔جوکوئی آپﷺکادستِ مبارک تھام لیتا توآپﷺاپنادست مبارک ڈھیلاچھوڑدیتے ۔ایک مرتبہ حضورﷺبغیرپالان کے درازگوش پرسوارہوکرقباکی طرف تشریف لیے جارہے تھے اورحضرت ابوہریرہؓ پیدل رکاب میں تھے ۔آپﷺنے فرمایا ’’اے ابوہریرہؓ میں تمہیں سوارکرلوں ‘‘عرض کیایارسول اﷲﷺجیسے آپ کی مرضی ہو۔فرمایا’’سوار ہوجاؤ‘‘انہوں نے سوارہونے کے لئے زقندلگائی مگرچنگل آپﷺپرلگااوردونوں زمین پرآگئے ۔پھرآپﷺسوارہوئے اورفرمایا’’کیامیں تمہیں بھی سوارکرلوں‘‘عرض کیا۔یارسول اﷲﷺجیسے آپ کی مرضی ہو۔وہ پھرسوارہونے کی قدرت نہ پاسکے اورآپﷺسے چمٹ گئے اوردوبارہ پھر زمین پردونوں آگئے ۔جب تیسری مرتبہ آپﷺنے سوارہونے کے لئے ان سے کہاتووہ عرض کرنے لگے قسم ہے اس خداکی جس نے آپﷺکوحق کے ساتھ بھیجا۔اب میں نہیں چاہتاکہ حضورﷺکوتیسری مرتبہ سواری سے زمین پرلاؤں۔(بحوالہ طبری)آپﷺکی قوت وبرداشت ،ضبط وتحمل ، عفودرگرز،رحمت ورافت،حلم وتحمل،صبروضبط،رحم وترحم اوربرداشت ورواداری کے یہ چندواقعات ہیں ورنہ اس پہلوسے سیرت طیبہ کادامن بھراپڑاہے۔میرے مسلمان بھائیو!ہم نے آپﷺکی حیات ِ مبارکہ کاان واقعات سے بغورمطالعہ کرلیاہے۔ا ب ہم اپنے گریباں میں جھانکیں اوردیکھ لیں کہ ہم عشق مصطفیﷺکے دعویدارتوہیں کیاحقیقت میں بھی آپﷺکی تعلیمات پرعمل پیراہیں یانہیں۔کیونکہ ان واقعات کوپڑھ کاانسان ورطہ حیرت میں پڑجاتاہے اورتسلیم کئے بغیرکوئی چارہ نہیں کہ طاقت اورظاہری وباطنی اختیارات کی بلندترین چوٹی پرفائزہونے کے باوجوداس قسم کے صبروتحمل کامظاہرہ اﷲ کریم کامحبوب اورفرستادہ ہی کرسکتاہے کسی دوسرے انسان کے بس کاروگ نہیں ۔اﷲ پاک ہم سب کوعمل پیراہونے کی توفیق عطافرمائے ۔آمین بجاہ النبی الامین
 
Hafiz kareem ullah Chishti
About the Author: Hafiz kareem ullah Chishti Read More Articles by Hafiz kareem ullah Chishti: 179 Articles with 269547 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.