منصور ہ احمد ،طلوع سے غروب تک

رات کیسی ہے یہ
بیتتی ہی نہیں
سارے پچھلے حوالے بھی زندہ ہوئے
کیسا میلاسا یا دوں کا اس میں لگا
’’رات کیسی ہے یہ‘‘ منصورہ احمد کی وہ نظم ہے جو سہ ماہی مونتاج کے ۲۰۰۸؁ء کے شمارہ نمبر ۶ میں،میں نے پہلی بار پڑھی تھی ۔ آج جون ۲۰۱۱؁ء کو جب یہ نظم میں نے دوبارہ پڑھی تو اسکی تفہیم میں مجھے بہت آسانی ہوئی ۔ میرے ذہن میں بھی یادوں کا میلا سالگ گیا۔ اگست ۲۰۰۳؁ء میں منصورہ احمد اور احمد ندیم قاسمی سے میری پہلی اور آخری ملاقات مجلس ترقی ادب لاہور کے دفتر میں ہوئی تھی۔ اس ملاقات کے لئے میں نے احمد ندیم قاسمی صاحب اور منصورہ احمد سے وقت لے رکھا تھا۔ میں نے ان دونوں کے ساتھ تقریباً پورا دن گزارا۔ دوپہر کے کھانے کے بعد آم کھانے کی باری آئی تو قاسمی صاحب نے آم کھانے سے معذرت کی لیکن منصورہ احمد کے استفسار پر وہ آم کھانے پر آمادہ ہوئے ۔ پھر میں نے باپ اور بیٹی کا پیار دیکھا۔ منصورہ نے آم کا گودا نکالا اور پلیٹ میں رکھ کر اس کو اچھی طرح Mashکیا اور اس کے بعد اپنے ہاتھوں سے اپنے بابا کو کھلایا۔ منصورہ احمد قاسمی صاحب کی منہ بولی بیٹی تھی لیکن اس نے سگی بیٹی بن کر احمد ندیم قاسمی کی خدمت کی جس کی ایک مثال درج بالا و اقعہ ہے جس کامیں چشم دیدگواہ ہوں۔

اسی طرح کے کئی اور واقعات بھی پڑھنے سننے کو ملتے ہیں مثلاً چند روز قبل انتظار حسین نے اپنے ایک کالم میں احمد ندیم قاسمی صاحب اور منصورہ احمد کے اس باہمی رشتے کو ان الفاظ میں بیان کیا۔ ’’بے شک اس بی بی نے قاسمی صاحب کے لواحقین کو شکایت کے مواقع فراہم کئے تھے مگر خدا لگتی کہیں گے اور سنی سنائی نہیں بلکہ آنکھوں دیکھی کہ اس منہ بولی بیٹی نے باپ کی خدمت گذاری بہت جی لگا کر کی تھی ۔ قاسمی صاحب نے اسے بلاوجہ تو بیٹی نہیں بنایا تھا‘‘۔ منصورہ احمد کے بارے میں اسی طرح کے خیالات کا اظہار مسعود اشعر صاحب نے بھی کیا ۔ وہ فرماتے ہیں ’’احمد ندیم قاسمی نے اسے منہ بولی بیٹی بنایا تھا اور اس نے بیٹی بن کر دکھادیا۔ احمد ندیم قاسمی صاحب کے آخری تیس پینتیس سال اس نے ان کی ایسی خدمت کی کہ کیا کرے گی کوئی بیٹی بھی ‘‘ ۔خود احمد ندیم قاسمی صاحب نے پروفیسر فتح محمد ملک کے نام ایک خط میں جو فتح محمد ملک کی کتاب ’’ندیم شناسی‘‘ میں شامل ہے، منصورہ احمد کے بارے میں ان خیالات کا اظہار کیا ’’اگر میری منصورہ بیٹی میری بھر پور خدمت نہ کر رہی ہوتی تو میری سالگرہ کے بجائے آپ میری برسی منا رہے ہوتے ‘‘۔

منصوورہ احمد اور احمد ندیم قاسمی کے اس باہمی رشتے کے متعلق ان تمام حوالوں کی ضرورت اس لئے پڑی کہ بعض لوگ اس رشتے پر معترض تھے اور وہ سمجھتے تھے کہ منصورہ احمد نے احمد ندیم قاسمی کو ’’ہائی جیک‘‘ کر رکھا ہے حالانکہ ایسا ہرگز نہیں تھا۔ اہلِ ادب کو منصورہ احمد کا مشکور ہونا چاہیے کہ کہ اس نے ادب کے اس برگد کی مرجھانے تک آبیاری کی۔ یقیناََ احمد ندیم قاسمی نے بھی منصورہ احمد کو اپنی زندگی میں بہت کچھ لوٹایا مگر اپنے بابا احمد ندیم قاسمی کی وفات کے بعد منصورہ اپنے آپ کو بالکل تنہا محسوس کرنے لگی تھی اور اپنے اس دکھ کا اظہار اس نے اپنی نظموں میں بھی کیا ۔ اس ضمن میں منصورہ احمد کی نظم ’’حیرت‘‘ کا ایک بند ملا حظہ ہو۔
میرا شہرت کا سنگھاسن گر پڑا
اور میری دنیا میں اندھیرا ہو گیا
تو میں نے دیکھا
وہ سارا شہر سونا ہو گیا تھا
جوکل تک
دوستی کے دعویداروں سے بھرا تھا

احمد ندیم قاسمی کی وفات کے بعد منصورہ احمد کو ایک نئی دنیا نئے شہر اور نئے لوگوں سے واسطہ پڑا ۔ وہی شہر جس میں اس نے ایک عمر گزاری اس کے لئے اجنبی ہو گیا تھا ۔وہی لوگ جو قاسمی صاحب کی زندگی میں اس سے دوستی کے دعویدار تھے اب اپنے نئے چہروں کے ساتھ اس کے سامنے موجود تھے۔ اداسی کے کٹھن سفر نے اسے آلیا تو منصورہ احمد نے اس کرب کی ہمراہی میں سہ ماہی ’’مونتاج ‘‘ نکالنے کا ارادہ کیا ۔ کئی ماہ کی رہ نور دی کے بعد اس نے ۲۰۰۷؁ء کے اوائل میں مونتاج کا ضیخم ’’ندیم نمبر‘‘ شائع کر کے ندیم صاحب سے قرابت داری کا حق ادا کیا۔ اس ادبی جریدے کے اجرا ء پر کسی نے مونتاج کو فنون کا نیا جنم قرار دیا تو کسی نے اسے خواہ مخواہ تنقید کا نشانہ بنایا۔

منصورہ احمد کی تنہائیوں اور کرب میں اضافہ ہوتا چلا گیا۔ مونتاج کے پانچ شمارے مارکیٹ میں آگئے لیکن چھٹے شمارے سے قبل یعنی ۷ فروری ۲۰۰۹؁ء کو منصورہ احمد کو نمونیے کا شدید حملہ ہوا جس نے دل کو بھی اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ حملہ شدید تھا اس لیے ڈیڑھ ماہ تک منصورہ احمد کو انتہائی نگہداشت کے وارڈ میں رہنا پڑا۔ بعد ازاں اسے اپنے ڈاکٹر بھائی کے پاس گجرات لے جایا گیا جہاں وہ چھ ماہ تک زیر علاج رہی ۔ طبیعت سنبھلنے پر اس نے دوبارہ لاہور کا رخ کیا اور ایک بار پھر مونتاج کی اشاعت کے لئے کمرکس لی لیکن وہ اندر سے ٹوٹ چکی تھی۔ بلڈ پریشر اور فالج کے حملے سے وہ ریت کی دیوار کی طرح بھر بھری ہوچکی تھی۔ مونتاج کے دسویں شمارے کی کاپی مجھے موصول ہوئی تو میں نے شکریہ ادا کرنے کے لئے اسے فون کیا ۔ اس کی آواز میں لکنت کے ساتھ ساتھ نقاہت بھی آچکی تھی ۔ اس دن اس کا لہجہ بہت کمزور اور مایوس کر دینے والا تھا ۔ اس کے بعد مونتاج کا گیارہواں شمارہ مارکیٹ میں آیا اور چند دن بعد یعنی ۸ جون کو ناصر بشیر خبر رساں ایجنسی کے توسط سے منصورہ احمد کی موت کی خبر بھی عام ہو گئی۔
وقت کا ہاتھ بھی کتنا سفاک ہے
سوچ تک کو وہ جھریوں سے بھر دیتا ہے
مسکراہٹ کو بھی زخمی کر دیتا ہے

منصورہ احمد خاموشی سے کوچ کر گئی ۔ کسی ٹی وی چینل پر کوئی فوری خبر نشر نہ ہوئی ۔ کسی اخبار نے اس کے تخلیقی کام کو سراہنے کے لئے کوئی ایڈیشن نہ نکالا اور نہ ہی کوئی قابل ِذکر تعزیتی ریفرنس منعقد ہو ا۔ ’’طلوع ‘‘ اس کا پہلا شعری مجموعہ تھا اور اب اس کا نیا شعری مجموعہ ’’آسمان میرا ہے‘‘ زیر ترتیب تھا جس میں ’’طلوع‘‘ کے بعد کی نظمیں اور غزلیں شامل تھیں لیکن اس سے قبل کہ وہ آسمان کو اپنا بناتی زمین نے اسے اپنا بنا لیا ۔ کل وہ اپنے بابا سے مخاطب تھی کہ
یہ کیسا کل یُگ ہے بابا
تم جو رنگوں کے ریسا تھے
خوشبو والی اوڑھنی اوڑھے
مٹی نیچے جا سوئے ہو

اور آج وہ خود منوں مٹی کے نیچے جا سوئی ہے ۔ سارا منظر بے رنگی کے رنگ میں ڈوب گیا۔ منصورہ احمد کے فن کا سورج غروب ہو گیا لیکن آسمانِ سخن پر اس کی روشنی دیر تک لَودیتی رہے گی۔
Khalid Mustafa
About the Author: Khalid Mustafa Read More Articles by Khalid Mustafa: 22 Articles with 50837 views Actual Name. Khalid Mehmood
Literary Name. Khalid Mustafa
Qualification. MA Urdu , MSc Mass Comm
Publications. شعری مجموعہ : خواب لہلہانے لگے
تحق
.. View More