میری زندگی پہ کتاب اور کتب خانے کے اثرات

میری زندگی پہ کتاب اؤر کتب خانے کے اثراتجب سے ہوش سنبھالا ہے کتاب کو دیکھنا اور پڑھنا شروع کیا ہے، بچپن میں جب اسکول گیا اور حرؤف سے پیھچان ہوہئ تو ٹیکسٹ کتابیں پڑھنا شرؤع کئیں۔۔۔ اٰس کے علاوہ گھر پہ بہت سے کتب و رسائل آتے تھے اٰن میں سے کچھ رسالؤں کے نام یاد آرہے ہیں، گلشن، نونہال، اخبارے جہاں وغیرہ،اٰور بہت سی کتابیں جو کہ میرا کزن لے کہ آتا تھا مین اٰن سے لے کے پڑھتا اٰؤر پھر واپس کردیتا تھا۔۔۔۔اٰن دنوں میں کتاب سے ایسی دوستی ہوئی کہ اپنے مضمون کے علاوہ اخبار، جاسوسی ڈائجیسٹ اٰور اسلامئ کتابیں پڑھنے کا شوق سر چڑھ کر بولنے لگا۔۔۔۔
جب سے ہوش سنبھالا ہے کتاب کو دیکھنا اور پڑھنا شروع کیا ہے، بچپن میں جب اسکول گیا اور حرؤف سے پیھچان ہوہئ تو ٹیکسٹ کتابیں پڑھنا شرؤع کئیں۔۔۔ اٰس کے علاوہ گھر پہ بہت سے کتب و رسائل آتے تھے اٰن میں سے کچھ رسالؤں کے نام یاد آرہے ہیں، گلشن، نونہال، اخبارے جہاں وغیرہ،اٰور بہت سی کتابیں جو کہ میرا کزن لے کہ آتا تھا مین اٰن سے لے کے پڑھتا اٰؤر پھر واپس کردیتا تھا۔۔۔۔اٰن دنوں میں کتاب سے ایسی دوستی ہوئی کہ اپنے مضمون کے علاوہ اخبار، جاسوسی ڈائجیسٹ اٰور اسلامئ کتابیں پڑھنے کا شوق سر چڑھ کر بولنے لگا۔۔۔۔

اس شدت کا احساس کالج میں جاکر اٰور زیادہ بڑھ گیا، شاعری کی کتابیں اٰور بہت سی کتابیں پڑھ کر اپنی سوچ میں ایک پُختگی اٰور زندگی کو سمجھنے میں آسانی ہوئی۔۔۔۔۔ جس کی وجہ سے میں نے یہ طے کر لیا کہ اب اپنی زندگی کو کتب خاںوں کے لیئے وقف کر دونگا۔۔۔۔ اُسی شوق نے پڑھائی میں اِتنی جدت پیدا کی کہ اپنے والد محترم سے پوچھا کہ کتب خانوں میں کام کرنے کے لئیے کس قسم کی تعلیم چاہیئے ھوتی ہے۔۔۔ ان سے گائیڈ لینے کے بعد کالج کی تعلیم مکمل کی تو بی-اے اردو میں داخلا لیا، جہاں اردو ادب کی تاریخ پڑھنے کو ملی، جس سے مزید مطالعٰ کرنے کے لیئے اردو ادب کی کتابیں دوست بن کر تاریخ کو کھول کر سمجھانے لگیئں، جس سے معلوم ہوا کہ اردو ادب ایک بہت وسیع تاریخ ہے۔۔۔جس میں نظم، غزل اور نثر وغیرہ سمندر کی گھرائی کی طرح ہیں،جس کو پڑھنا کھوجنا لفظوں میں بیان کرنا کتابوں کے بغیر آساں نہ تھا۔ تقریباً یہ ساری کتابیں سیمینار لا ئیبریری سے مل جاتی تھیں،

بی-ایےاردو کرنے کے بعد میں نے ماسٹر آف لائیبریری اینڈ انفارمیشں سائنس میں داخلا لیا، جس میں مجھے کتب خانوں اور کتاب کی تاریخ کو پڑھنے کا موقع ملا۔اس کے باعد کتابوں کا مطالع کرتے کرتے ایم، ایل، آ، ،ایس بھی مکمل کر لیا۔۔ اور لائیبریری کے پروفیشن کی زندگی میں قدم رکھ لیا۔۔ بچپن سے لے کے اب تک کتابوں کا ایک وسیع ذخیرہ میرے پاس موجود تھا، اُس سارے مواد سے اپنی ایک پرسنل لائیبریری بنا ڈالی۔۔جس میں مختلف اقسام کی کتابیں موجود ھیں۔۔۔جن مین سے اکثر نثرنگاری، اردو ناول، نظم اور ٖغزل وغیرہ رکھی ہیں، اس کے علاوہ اپنے مضمون سے منسلک ریسرچ کی کتابیں بھی موجود ہیں۔۔۔

آج کل کے دور میں ریسرچ ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہے، کیوںکہ تحقیق نئ نئ انفارمیشن پر منحصر ہے، جس کے لئیے تحیقق دان آج کل کے دور میں انٹرنیٹ کے وسیع جال سے فاعدہ اُٹھاتے ہیں کتب اور کتب خاںوں سے مدد لیتے نظر آتے ہیں۔۔۔ وہاں کتب خانوں میں لائیبریرن تحیقق دانوں کی تعلیمی پیاس بھجانے کے لیے کوشاں نظر آتے ہیں۔۔۔۔ اگر اُن کی لائیبریری میں تحقیق دان کا مطلوبہ مواد موجود نہیں تو وہ کسی اور لائیبریری سے منگوا کے دیتے ہیں،لائیبریرن عام طورپر ریسرچرز کے لئیے ببلیوگرافی، انڈیکس اور ایبسٹریکٹس وغیرہ تیار کرتے ہیں جس کی وجہ سے تحقیق دان آسانی سے اپنی تحقیق کو مکمل کرتے ہیں۔۔۔ ایک اچھی اور مکمل تحقیق بغیر لائیبریری اور لائیبریرن کے ممکن نہیں ہوسکتی۔۔۔ ایک ترقی اور جمہوری ملک میں ترقی کا دارو مدار اُس کی تعلیم اور تحقیق پر ہوتا ہے۔ جہان ترقی پسند معاشرہ ہو وہاں ترقی اور تحقیق آسان ہو جاتی ہے۔۔۔۔۔

میری نظر میں کتب خانہ ایسی جگہ ہے جہاں ایک مثبت انفارمیشن مہیا کی جاتی ہے، جہاں تحقیق کو آسان کرنے میں کتب خانہ بہت اہم اور سماجی کردار ادا کرتے نظر آتے ہیں۔۔۔
Aijaz Akhter Ahmedani
About the Author: Aijaz Akhter Ahmedani Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.