خواہشات کا عروج

اس میں کوئی شک نہیں کہ جدید دور میں لوگوں میں ضروریات کی بجائے خواہشات کا رجحان بہت تیزی سے بڑھ ریا ہے اور لوگ زیادہ سے زیادہ مادہ پرست ہوتے جا رہے ہیں ۔ یورپ کی پیروی کرتے ہوئے ہم اپنی تہذیب و روایات کو بھولائے بیٹھے ہیں ، ورنا اسلام ہمیں اسراف اور ریا کاری کا درس نہیں دیتا بلکہ اعتدال کی راہ دکھاتا ہے ،ایسی راہ جس پر چل کر انسان فلاح پا جائے․․․․․․․ نہ کہ ایسی راہ جو مادہ پرستی کی دنیا میں پھنسا دے اور فرد دنیاداری کی ہی فکر میں اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے ․․․بقول شاعر !
عمر بھر ہم یوں ہی غلطی کرتے رہے غالب ․․․․․․․․
دھول چہرے پہ تھی اور ہم آئینہ صاف کرتے رہے

یہ امر بھی کسی سے چھپا ہوا نہیں ہے کہ ماضی میں لوگوں کی ضروریات محدود تھیں۔وہ اپنا گزر بسر کم وسائل میں بھی کر لیتے تھے کیونکہ ان کے اخراجات ان کے وسائل سے کم تھے ۔ایک وجہ یہ تھی کہ وہ سادگی پسند تھے دوسری وجہ یہ تھی کہ وہ سمجھدار تھے اور اپنے وسائل اور اخراجات میں توازن کرنا جانتے تھے ۔یہ بھی ایک تلخ حقیقت ہے کہ جب ایک شخص خواہشات کی تکمیل میں لگ جاتاہے تو وہ ایک مشین کی سی حیثیت اختیار کر لیتا ہے ۔ مثال کے طور پر انسان ایک چیز کی تمنا رکھتا ہے اور بلا ضرورت ہی اس کے حصول کی جستجو میں لگ جاتا ہے تو اسے یہ بات ذہن نشین رکھنی چاہیے کہ یہ صرف اور صرف ایک دنیوی معاملہ ہے جبکہ موجودہ دور کا انسان یہ بات بھُولا بیٹا ہے کہ یہ دنیا فانی ہے اور اگر یہاں انسان خواہشات کی تکمیل میں لگ گیا تو اگلے جہاں کیلئے کیا سرمایا بچا کر رکھے گا ۔ اس کی حالت ایسی ہو گی کہ
زندگی بھر ملعون
بعد از موت بھی نہ سکون

اب بھی اگر انسان باز نہ آئے تو خدا تعالیٰ بھی اس کی مدد نہیں کرتا جو اپنی مدد آپ نہ کرے ۔ خواہشات کے پیچھے بھاگنے والو !کیا تمہیں اسلام میں کوئی مثال نہیں ملتی کہ اپنے نفس کو قابو میں رکھو ؟ کیا تمہیں کبھی کسی نے نہیں بتلایا کہ یہ دنیا ختم ہونی ہے اس کی ہر چیز فانی ہے؟ کیا انجام ہے تمہارا آخرت میں،کبھی سوچا ہے یہ تم نے ؟ ہر شخص کو ہر ہر چیز کا حساب دینا پڑے گا ۔ اب سوچو کہ جب تم نے خالی ہاتھ ہی دنیا سے جانا ہے تو کس کام کی تمہاری یہ خواہشات اور ان سے حاصل شدہ چیزیں ․․․․․․․․․لے جاؤ گے ان کو قبروں میں؟ مرنے کے بعد تو تم کو اپنے جسموں پر بھی اختیار نہ ہو گا کہ اسے حرکت دے سکو !!!!!!
سنو!!! دین اسلام نے جو راہ بتلائی ہے اس کی طرف آؤ․․․․․․․․․اپنی زندگی کے اصل مقصد کی طرف آؤ․․․․․․․․․حق کی طرف آؤ ․․․․․․․․․سچائی کی طرف آؤ ․․․․․․․․․․ابدیت کی طرف آؤ ․․․․․․․اسلام کی طرف آؤ
اب سوال یہ ہے کہ کیا ملے گا یہ خواہشات پال کر ؟ انہی خواہشات کی وجہ سے آج کا انسان احساس کمتری کا شکار ہے ۔ انسان اگر تعلیم بھی حاصل کرتا ہے تو صرف اس غرض سے کہ ایک دن وہ اپنی تمام خواہشات پوری کرنے کے قابل ہو گا۔کیا آج کے انسان کیلئے خواہشات کو پورا کرنا ہی اس دنیا میں آنے کا مقصد ہے ؟ یہ جملہ زبان زدِ عام ہے کہ آپ کیا بننے کے خواہش مند ہیں ؟․․․․․․․․․ ایسا کیوں ہے ؟ ہم نے کیوں اپنے آپ کو ان خواہشات کا غلام بنایا ہوا ہے؟ کہا ہمیں یہ نہیں پتا کہ ہر قوم کو کسی نہ کسی آزمائش سے گزرنا پڑا ہے ․․․․․․․․․․․․․․․ اگر عقلی اعتبار سے دیکھا جائے تو اس قوم کی آزمائش پیسہ ہے ۔

اب یہ فرد پر ہے کہ وہ کس طرح اپنی ذات کو ، اپنے خاندان کو ، اپنے ملک کو ، اپنے معاشرے کو خواہشات کی اس مہلک بیماری سے محفوظ رکھ سکتا ہے ۔ اﷲ رب العزت ہم سب کو اپنے نفس پر قابو پانے کی توفیق عطا فرمائے․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․․ ( آمین)۔
Mehek Rizwan
About the Author: Mehek Rizwan Read More Articles by Mehek Rizwan: 7 Articles with 7033 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.