فتح اﷲ گولن کی خدمت تحریک ، داعش اور رجب طیب اردوان

ترکی سے ہمارے تعلقات بہت درینہ ہیں،یہ تعلقات رجب طیب اردوان کے مرہون منت نہیں ،ترکی سے ہمارے اس وقت بھی دوستانہ اور برادرانہ تعلقات مثالی تھے، بس بیچ میں جنرل ضیا الحق کی ذوالفقار علی بھٹو کو سزائے موت دینے کی ہٹ دھرمی کے باعث سرد مہری کا شکار رہے،بالکل اسی طرح جیسے شام ،الجزائرلیبیا سے ہمارے تعلقات کچھ وقت کے لیے دسمبر کی ٹھنڈی راتوں جیسے ہوئے تھے۔ یہ وہ دور تھا جب ترکی کے سیاہ سفید کے مالک بلند انجویت ہوا کرتے تھے، اور پاکستان پر آمر ضیا ئالحق کی آمریت پوری قوت سے اپنے پنجے پاکستان کی قومی سلامتی ،جمہوریت کے ناتواں جسم پر گاڑھ چکی تھی اور پاکستان کو ایٹمی طاقت بنانے والے بھٹو کی سزاء موت ختم کرنے ک ی اپیلیں پوری دنیا کر رہی تھی لیکن آمر ضیاء بھٹو کو پھانسی پر لتکانے پربضد تھا، ترکی کے وزیر اعظم بلند انجوت بھی سزائے موت ختم کرنے کی اپیل کرنے والے عالمی راہنماؤں میں شامل تھے۔

ترکی کے صدر عزماب رجب طیب اردوان پاکستان کا دورہ کرکے وطن بھی لوٹ چکے ہیں لیکن ان کے دورے سے پیدا شدہ صورتحال سنگینی کی جانب بڑھ رہی ہے، عزماب رجب طیب اردوان کی پاکستان آمد سے قبل حکومت پاکستان کی جانب سے (اپنی مرضی سے یا معزز مہمان کی شرط پر )پاک ترک سکولز کے ترک اساتذہ کو تین چند دن کے نوٹس پر پاکستان چھوڑنے کا حکم نامہ جاری ہونے پر ان سکولز کے طلباء سڑکوں پر آگئے اور ان کے والدین سراپا احتجاج بنے ہوئے ہیں۔پاک ترک سکولز کے اساتذہ نے حکومت پاکستان کے اس حکم نامے کے خلاف عدالت کے دروازے پر دستک دی ہے، ابھی کیس کی سماعت کا ٓآغاز نہیں ہوا ۔

اطلاعات میں بتایا گیا ہے کہ پاک ترک سکولز کے اساتذہ کو ملک بدر کرنے کے فیصلے سے ترکی کے بہت سے سرمایہ کاروں نے پاکستان میں سرمایہ کاری کرنے سے معذرت کرلی ہے،اس معزرت کے نتیجہ میں ہم پاکستانی کروڑوں ڈالرز کی سرمایہ کاری سے محروم ہوگئے ہیں، فقط ایک فرد کی خوشنودی کے حصول میں ہم نے اتنا بڑا نقصان قبول کرکرنے پر آمادگی کا اظہار کردیا اور اس کے مضمرات پر ایک لمحہ کے لیے بھی غور نہیں کیا،وزیر اعظم نواز شریف نے پاک ترک سکولز کے اساتذہ کو پاکستان بدر کرنے کی فرمائش کے آگے سر تسلیم کرنے میں آمر جنرل مشرف کوبھی مات دیدی ہے، امریکی حکومت نے تو جنرل مشرف کو ’’تڑی ‘‘لگائی تھی کہ اسے ہمارے دشمن اور ہم میں سے کسی ایک کے ساتھ کھڑے ہونا پریگا ‘‘اور جواب ہاں یا ناں‘‘ میں طلب کیا گیا تھا ،لیکن اپنے دوست ترکی کی جانب سے تو ایسی کوئی ’’ تڑی‘‘ نہیں لگائی گئی تھی، اگر کوئی ایسی بات ہے تو وزیر اعظم نواز شریف کو اسے پاکستانی عوامی اور پارلیمنٹ کے سامنے رکھنی چاہٗیے بقول سپریم کورٹ وزیر اعظم کوئی فیصلہ کرنے میں بااختیار نہیں ہیں۔

ترک صدر رجب طیب اردوان نے دہشت گردی اور مسلہ کشمیر پر ہمارے موقف کی تائید و حمایت کی ہے اس کے لیے ہم پاکستانی ان کے مشکور و ممنون ہیں، لیکن مسلم امہ کے مشترکہ دشمن اسرائیل سے پیار کی پینگیں بڑھانا قرین قیاس نہیں، اسرائیلی صدر ریوریولین بھارت کے دورہ پر ہیں اور آپ نے بھی اسرائیلی حکمران کو ترک پارلیمنٹ سے خطاب کرنے کا موقعہ فراہم کیا تھا ……اس تناظر میں دیکھا جائے تو یہ مسلم امہ سے کیسی دوستی ہے کہ یذید سے بھی دوستی اور حسین کو بھی سلام،۔وزیر اعظم نواز شریف اپنے ذاتی اثر و رسوخ کو استعمال کرتے ہوئے ترک حکومت سے اسرائیل کے ساتھ تعلقات پر نظرثانی کرنے کی فرمائش کریں پھر دیکھیں کہ ترک صدر مسلم امہ اور ٓاپ کے جذبات و احساسات کی کیسے قدر کرتے ہیں۔
ترک صدر کے دورہ کے دوران وزیر اعظم نے ترکی میں فوجی بغاوت کو ناکام بنانے کی جس جرآت و بہادری کا ذکر کرتے ہوئے ترک عوام کو تھپکی دی ہے اس شعوری بیداری میں فتح اﷲ گولن کی ’’خدمت تحریک‘‘ کا کلیدی کردار ہے،اب دیکھنا یہ ہے کہ فتح اﷲ گولن کی خدمت تحریک کے تحت دنیا میں جہاں بھی ادارے کام کر رہے ہیں وہاں یہ ادارے خیر کا سبب ہیں یا دنیا کے لیے سکھ چین کے لیے خطرات کا باعث بن رہے ہیں؟ ابھی تک تو دنیا کے کسی حصے سے بھی ایسی اطلاعات منظر عام پر نہیں آئیں کہ ’’خدمت تحریک‘‘ نے فلاں ملک میں شر اور بدامنی کے بیج بوئے اور وہاں کی حکومت نے اسے کام کرنے سے روک دیا ۔

ترک صدر رجب طیب اردوان نے گولن تحریک کو داعش اور القاعدہ سے ملا کر بہت بڑی زیادتی کی ہے کیونکہ القاعدہ اور داعش کے کرتوت پوری دنیا کے سامنے ہیں ان دونوں تنظیموں نے دنیا کا خصوصا مسلم ممالک کا امن سکون برباد کرنے کے علاوہ انہیں کھنڈرات میں تبدیل کیا، مسلم ممالک کی وحدت اور مسلمانوں کے اتحاد پر کاری ضرب لگائی ہے، گولن تحریک یا فتح اﷲ گولن کی خدمت تحریک کی جانب سے پاکستان کے اندر کسی قسم کا نفرت انگیز لتریچر تقسیم نہیں کیا اور نہ ہی اس نے پاک ترک سکولز کے طلبہ کو کسی خاص تحریک یا جماعت سے وابستگی اختیار کرنے کی ترغیب دی ہے۔ اس حوالے سے بھی اگر حکومت کے پاس کسی قسم کے ثبوت اور شواہد موجود ہیں تو عوام کو ااگاہ کیا جائے بصورت دیگر یہ نا انصافی قہر الہی کو آواز دینے کے مترادف ہوگی کیونکہ اﷲ ناا نصافی کو پسند نہیں کرتا۔

ترک صدر رجب طیب اردوان نے فتح اﷲ گولن کی تحریک کو داعش اور القاعدہ سے مماثلت کیوں دی؟ یہ سوال ترک صدر اپنے پیچھے پاکستان میں چھوڑ گئے ہیں جس پر بحث ہونا فطری بات ہے حکومت پاکستان ( حکومت پاکستان کی اصطلاح اسٹبلشمنٹ استعمال کرتی ہے جس کا مطلب ہے اسٹبلشمنٹ ہے) بے نظیر بھٹو شہید اپنے پہلے دور حکومت میں چین کے دورے پر وہاں پہنچیں تووہاں کی انتظامیہ سے مذاکرات کے دوران بے نظیر بھٹو وزیر اعظم پاکستان نے کہا کہ حکومت پاکستان کی یہ پالیسی ہے تو اس وقت کے وزیر خارجہ صاحبزادہ یعقوب علی خان نے فوری کہا کہ ’’نہیں میڈم یہ پالیسی آپکی ہو سکتی ہے، حکومت پاکستان کی نہیں‘‘) اس امر کی وضاخت کرے کہ ترک صدر نے گولن کی خدمت تحریک سے وابستہ اساتذہ کو پاکستان سے نکالنے کی شرط اپنے دورہ سے کیوں مشروط کی؟ترک صدر کو پاکستان میں اس کے خلاف کارروائی کروانے کی ضرورت کیوں پیش آئی؟ میری دانست میں تو اسکا سیدھا سادھا جواب ہے کہ فتح اﷲ گولن اور ان کے لیڈر نورسی کی تحریک کے باعث ترکی عوام نے جدید ترکی کے بانی اتاترک کے ترکی کو آزادی دلانے میں اہم کردار ادا کیا ہے اور خود رجب طیب اردوان کی کامیابی اسی تحریک کے ورک کی بدولت ہے اور انہیں یہ فکر دامن گیرہے کہ ان کی غیر متوازن پالیسیوں کے لیے اگر کوئی خطرہ کا باعث بنتی ہے تو وہ فتح اﷲ گولن کی تحریک ہے اس لیے تحفظ ماتقدم کے طور پر انہوں اس تحریک کا گلہ دبانے کا فیصلہ کیا۔

ابھی کل کی بات ہے کہ جس بغاوت کو ناکام بنانے کی دنیامیں دھوم مچی ہوئی ہے اس میں فوجیوں سے زیادہ ججز،وکلاء،اساتذہ اور طلباء کی تعداد ہے ، یہ گرفتاریاں رجب طیب اردوان کی فتح اﷲ گولن اور انکی خدمت تحریک کی بڑھتی ہوئی مقبولیت سے خوفزدہ ہونے کی جانب اشارہ کرتی ہیں۔ مسلم لیگ نواز کی حکومت کو فتح اﷲ گولن اور اسکی تحریک کے ضمن میں خوفزدہ ہونے کی ضرورت نہیں ۔
Anwer Abbas Anwer
About the Author: Anwer Abbas Anwer Read More Articles by Anwer Abbas Anwer: 203 Articles with 144023 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.