فاران کلب میں الطاف حسن قریشی کی کتاب ،، ملاقاتیں کیا کیا،، کی تقریب پزیرائی

یہ تقریب سیاست، صحافت اور ادب کا حسین امتزاج تھا۔ سینئر صحافی مجیب الرحمن شامی،جماعت اسلامی کے معراج الہدیٰ صدیقی،سینئر صحافی سجاد میر، معروف شاعرہ فاطمہ حسن،اینکر انیق احمد،کالم نویس صحافی روف طاہر، وفاقی سیکریٹری ارشاد احمد کلیمی اور الطاف حسن قریشی کا اظہار خیال
 فاران کلب کی اکثر تقریبات کراچی شہر میں علم عرفان ،سماجی رابطے، علمی مباحث اور شعر و شاعری سے سجی ہوتی ہیں۔ ایسی ہی ایک یادگار تقریب گذشتہ دنوں ہوئی تو یوں لگا جیسے کراچی علم و ادب ، شعر و سخن کا مرکز و محور بن گیا ہو۔ اس تقریب میں شہر ہی نہیں بلکہ بیرون شہر سے بھی علم و ادب کے شناور شریک تھے۔ ہفتہ کی شب ہونے والی اس تقریب میں بڑی تعداد میں ادیب ، صحافی ، شعراء، ادب نواز شریک ہوئے، یہ تقریب تھی سینئر صحافی الطاف حسن قریشی کی کتاب ’’ملاقاتیں کیا کیا‘‘ کی تقریب پذیرائی کی۔ جس میں سینئر صحافی مجیب الرحمن شامی،جماعت اسلامی کے معراج الہدیٰ صدیقی،سینئر صحافی سجاد میر، معروف شاعرہ فاطمہ حسن،اینکر انیق احمد،کالم نویس صحافی روف طاہراور وفاقی سیکریٹری ارشاد کلیمی، الطاف حسن قریشی کے پوتے عارف حسن نے اظہار خیال کیا۔ یہ تقریب سیاست، صحافت اور ادب کا حسین امتزاج تھا۔ وزیر اعظم کے مشیر عرفان صدیقی نے تقریب میں کتاب اور صاحب کتاب سے زیادہ حکومت کی صفائی اور حکمران مخالف پر لب کشائی کی۔ ان کا کہنا تھا کہ آپریشن ضرب عضب سے دہشت گردی میں کمی ہوئی ہے اور دہشت گردی جلد ختم ہو جائے گی۔ملک میں آئین پر عملدرآمد کھلونا بن گیا ہے۔عوام کے ووٹوں سے منتخب ہونے والے پارلیمنٹ میں نہیں آتے بلکہ مسائل کا حل ڈی چوک کو سمجھتے ہیں۔مسائل کا حل پارلیمنٹ ہے ڈی چوک نہیں ہے۔ آئین اور قانون راہ پر چلتے رہتے تو آج بہت آگے کھڑے ہوتے۔وزیر اعظم کے مشیر کا کہنا تھا کہ کچھ لوگ اس لئے پارلیمنٹ میں نہیں آتے کے وزیر اعظم متنازعہ ہیں۔ اختلاف کرنا حزب اختلاف کا حق ہے لیکن مسائل کا حل ڈی چوک نہیں پارلیمنٹ ہے۔ انہوں نے کہا کہ ماضی میں دیکھیں تو محرومیوں کی ایک طویل داستان ملتی ہے ،ملک کی 70 سالہ تاریخ کا طویل حصہ مارشل لاء کی نظر ہوگیا۔افسوس کہ ہماری تاریخ سیاہ ضرور ہے لیکن کوشش کر کے اس کے اثرات کو روکا جا سکتا ہے۔انہوں نے کہا کہ ہمارے ملک میں توانائی بحران سے زیادہ ذہنی ،علمی اور فکری بحران بڑا ہے جو سنگین ہوتا جا رہا ہے۔معاشرے میں برداشت ا ور روداری ختم ہو گئی ہے اور گفتگو کے سلیقے کو فراموش کر دیا ہے۔انہوں نے الطاف حسن کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے کہا کہ الطاف حسن قریشی نے انٹرویوز کو تخلیقی ادب کا حصہ بنا دیا ہے ان کے کئے گئے انٹر ویوز میں ادب لطیف کی تمام اصناف کا مکمل عکس ملتا ہے۔انہوں نے کہا کہ میڈیا کو اپنی سمت درست کرنے کی ضرورت ہے صحافت میں آنے والے نوجوانوں کی تربیت کے لئے اکیڈمی قائم ہونی چاہیے۔مجیب الرحمن شامی نے اپنی تقریر میں علامہ اقبال کی یوم اقبال کی تعطیل ختم کرنے کے فیصلے پر سخت تنقید کی اور کہا کہ یوم اقبال کی تعطیل کو اگر پیپلز پارٹی ختم کرتی تو ن لیگ کی حکومت اس کا حشر نشر کردیتی ۔ اور آج اس چھتی کوبحال کر دیتی۔چھٹی بحال کرنے کے معاملے پر مریم نواز سے بات ہوئی تو انہوں نے کہا تھا کہ ہم نے چھٹی بحال کر دی ہے لیکن نہیں ہوئی ،وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان نے بتایا کہ چھٹی میں نے ختم کرائی ہے تاکہ تعلیمی اداروں میں طلبہ علامہ اقبال کے فلسفے کو جان سکیں۔انہوں نے کہا کہ امید ہے کہ آئندہ سال یوم اقبال کی چھٹی بحال ہوگی۔ورنہ چھٹی تو سب کی ہوسکتی ہے۔انہوں نے کہا کہ آئین اور منتخب حکومت کو کسی بھی صورت فوجی طاقت کے ذریعے ختم نہیں ہونا چاہیے۔بار بار مارشل لاء نہ لگتا تو آج ملک میں دہشت گردی اور فرقہ واریت نہ ہوتی۔ملک کا نظام دستور کے تحت چلنا چاہیے۔خبر لیکس سے اتنا نقصان نہیں ہوا ہے جتنا اس کے بعد کئے گئے پروپیگنڈے سے ہوا ہے۔ امیر جماعت اسلامی صوبہ سندھ معراج الہدیٰ صدیقی کا ایک وصف یہ بھی ہے کہ وہ قومی اخبارات و جرائد میں شائع ہونے والے کالم کمال دلچسپی سے مطالعہ کرتے ہیں اور اپنی رائے سے کالم نگاروں کو بھی مطلع کرتے ہیں، اس کی رسید دیتے ہوئے مجیب الرحمن شامی نے کہا کہ ان کے کمنٹس سب سے پہلے آتے ہیں اب یہ بات معلوم نہیں کہ وہ کالم پڑھتے بھی ہیں یا نہیں۔ اس موقع پر معراج الہدی صدیقی نے کہا کہ الطاف حسن قریشی کی کتاب تاریخ پاکستان ہے ،جس کو پڑھ کر اندازا ہوتا ہے کہ الطاف حسن قریشی کا مطالعہ کتنا وسیع ہے۔یہ انٹر ویوز کی نہیں بلکہ تاریخ کی کتاب ہے۔آج ہمارے میڈیا کو تعلیم یافتہ اور مہذب ہونے کی ضرورت ہے۔ میر مجلس الطاف حسن قریشی نے اپنی تقریر میں حکومت کو بھی آئینہ دکھا یا ، اور کہا کہ اگر حزب اختلاف کے لوگ پارلیمنٹ میں نہیں آتے تو وزیر اعظم کا بھی پارلمنٹ سے کیا سلوک ہے، مہینوں بلکہ سال سال بھر اجلاس میں نہیں آتے، کشمیر ایشور پر پارلمنٹ میں شریک ارکان کی تعداد صرف 26 تھی۔اس سے زیادہ شرمناک بات اور کیا ہوگی ۔انہوں نے کہا کہ پارلیمنٹ میں وزیر اعظم سمیت کئی وزراء بھی نہیں جاتے حکومت بھی اپنی کار کردگی پر توجہ دے۔صرف ایک جانب کی بات نہیں ہونی چاہیے۔ انھوں نے کہا کہ 1956 میں دائیں اور بائیں جماعتوں کے اتفاق سے بننے والے آئین کو ختم کر دیا گیا یہ آئین سب کو متحد رکھنے کی عمارت قائم ہو سکتی تھی۔انہوں نے کہا کہ ایوب خان کے مارشل لاء دور میں محترمہ فاطمہ جناح سے انٹر ویو کیا تھا جو مارشل لاء کی وجہ سے کسی اخبار میں شائع نہ ہوسکا تاہم کتاب کے آئندہ شمارے میں شامل ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ محترمہ شہید بے نظیر بھٹو صحافتی آزادی کے معاملے میں اپنے والد سے زیادہ سمجھدار ثابت ہوئی۔انہوں نے کہا کہ آج کل ٹی وی شو پر نشر ہونے والے ٹاک شو کے ذریعے بے یقینی کا کلچر تقویت پا رہا ہے۔صحافی سجاد میر نے کہا کہ الطاف حسن ہماری صحافت کے داتا گنج ہجویری ہیں،اگر الطاف ھسن قریشی نہ ہوتے تو ہم سے کوئی بھی نہ ہوتا۔ یہ جو انجمن آج یہاں نظر آرہی ہے، ان میں سے بیشتر کا تعلق کسی نہ کسی صورت الطاف حسن قریشی سے رہا ہے۔صحافی روف طاہر نے کہا کہ ایک آمر ایوب خان تھا تو ملک میں ذولفقار علی بھٹو کی بھی آمریت اس ملک میں رہی ہے۔ جب حق بات کرنا اور حق لکھنا ایک جرم تھا، الطاف حسن قریشی نے اس دور میں جرات تحریر سے کام لیا۔وفاقی سیکریٹری ارشاد کلیمی نے اپنے مخصوص انداز میں خیالات کا اظہار کیا اور تاریخ کے کئی دریچے وا کر دیئے۔اینکر انیق احمد نے الطاف حسن کی کتاب سے مجیب الرحمن کے انٹرویو کے اقتباسات ڈرامائی انداز میں پڑھ کر سنائے۔ فاطمہ حسن ایک طویل مضمون میں کتاب کے انٹرویوز کا جائزہ لیا۔ آخر میں ندیم اقبال نے کہا کہ فاران کلب معاشرے میں کتاب کی اقدار کو فروغ دے رہا ہے۔ اور فاران کلب لائبریری اس وقت بہترین لائبریوں میں شمار ہوتی ہے۔
Ata Muhammed Tabussum
About the Author: Ata Muhammed Tabussum Read More Articles by Ata Muhammed Tabussum: 376 Articles with 386519 views Ata Muhammed Tabussum ,is currently Head of Censor Aaj TV, and Coloumn Writer of Daily Jang. having a rich experience of print and electronic media,he.. View More