موسمیاتی تبدیلیاں اور تیسری جنگ عظیم

موسمیاتی تبدیلیاں آجکل دنیا بن چکا ہے جس نے دنیا کے تمام مکتبحہ فکر، ساسندانوں ماہرین کو سر جوڑ کر سر جوڑ کر بیٹھنے پر مجبور کر دیا ہے۔ بدلتا موسوم، پڑھتی ماحولیاتی آلودگی، روزبروز کے زلزے اور سمندری طوفان، تباہ کن سیلاب، برف باری، قحط سالی، گلیشرز کا پگھلنا، لینڈ سلاءیڈنگ، زمین کے درجہ حرارت کا بڑھنا یہ سب وہ ءناصر ہیں جو موسمیاتی تبدیلیاں کے سبب ہوتے ہیں۔ گزشتہ برسوں سے موسمیاتی تبدیلیوں سے متاثرہ ممالک کی فہرست میں چوتھے نمبر پر ہے۔ پاکستان میں گزشتہ کئ برسوں سے ہزاروں افراد متاثر ہوءے۔ اربوں کھربوں روپے مالیت کی کھڑی فصلیں، مکانات اور انفراسٹرکچر تباہ ہو گیا۔ واضح رہے کہ ملک کی تاریخ میں اس قسم کا سب سے زیادہ تباہ کن سیلاب ٢٠١٠ میں آیا یہ جولاءی اور اگست میں ہونیوالی طوفانی بارشوں کا نتیجہ تھا۔

ماہرین کے مطابق اگر زمین کے درجہ حرارت میں یوں ہی اضافہ ہوتا رہا تو ان قریب بہت سے ممالک کے ڈوب جانے کا اندیشہ ہے۔ ایک رپورٹ کے مطابق بحیرہ ءرب کی سطح سمندر میں اضافے سے کراچی اور ملیر کے ڈوب جانے کا خطرہ ہے۔ دوسری جانب بین الا قوامی اداروں نے بھی خبردار کیا ہے کہ کراچی کے مزید حصے کو سمندر برد ہو نے سے بچانے کیلیے اگر فوری اقدامات نہ کیے گءے تو مستقبل میں ساڑھے ٣سے ٤ کروڑ افراد ‘ ماحولیاتی مہاجرین‘ بن سکتے ہیں۔ انٹرنیشنل کلاءمٹ چینج کانفرس کے مطابق اگر دنیا سب چلتا رہا تو مسمیاتی تغیرات تیسری جنگ ءظیم کا سبب بن سکتی ہیں

دراصل قدرت نے دنیا میں ہر چیز کو ایک نظام کے تحت بنایا ہے۔ کاءنات کا نظام قدرت جو ایک بڑی منتظم اور محکم ہستی چلا رہی ہے اس میں جب کبھی حضرت انسان اپنی فرضی ءقل استعمال کرتے ہوے اس میں دخل اندازی کرے گی تو اس کا نتیجہ خالق کاءنات کے غیض و غضب کی صورت میں ہمیں برداشت کرنا پڑے گا۔ یہ موسمیاتی تغیرات بھی انہی کا نتیجہ ہیں۔ ان میں سے کچھ تبدیلیاں قدرتی ہوتی ہیں اور کچھ مصنوءی۔ اب سوچنے کی بات تو یہ کہ یہ تبدیلیاں مصنوی کیسے ہو سکتی ہیں؟ کیا کوءی مصنوءی طریقے سے ایسی موسمیاتی تبدیلیاں پیدا کر سکتا ہے؟ کیا کوءی ایسی خفیہ طاقت ہے جو اسے کنٹرول کر رہی ہے؟ کیا یہ سب جنگ کا آغاز ہے؟ یہ سب سوالات وہ ہیں جو ان صورت حال کو مدنظر رکھتے ہوے کسی کے ذہہن میں بھی آ سکتے ہیں

دنیا میں آبادی کے بڑھنے کے ساتھ ساتھ وساءل کی کمی اور صاف پانی کی فراہمی کے لیے مختلف اقدامات کی کوششیں کیں جا رہی ہیں۔ اس ضمن میں ءالمی طاقتیں بھی اپنے اپنے ملکوں کو استحکام کرنے کےلیے بھرپور کوششوں میں ہیں۔ ءالمی طاقتیں جدید ترقی اور ساءنسی ٹیکنالوجی کی دوڑ میں بہت آگے نکل گیں ہیں۔ ساءینس اور ٹیکنالوجی نے اس حد تک ترقی کر لی ہے اب انسان قدرتی وساءل پر بھی قابو پانے کی کوشش کر رہا ہے۔ انسان ان چیزوں پر بھی کنٹرول حاصل کرنے کی کوشش کر رہا ہے جو قدرتی ہیں۔ دنیا میں ایسی ٹیکنالوجیز ایجاد کی جا چکی ہیں جو موسم کو اپنی مرضی سے تبدیل کر سکتی ہے۔ امریکہ اور روس نے وہ ٹیکنالوجی حاصل کر لی ہے جو موسم میں تغیرات لا کر اسے اپنے طریقے سے استعمال کر سکتے ہیں۔ چونکہ اب یہ پیش گوءی بھی ءام کی جا رہی ہے کہ تیسری جنگ ءظیم ایک موسمی جنگ ہو گی۔ یعنی لوگ قدرتی وساءل سمیت ایک دوسرے کے پانی پر قبضہ کرنے کی کوششوں میں مصروف ہوں گے
سپرپاور امریکہ کے شہر الاسکا میں موجود ہارپ نامی پراجیکٹ جسے ١٩٩٣ میں شروع کیا گیا ۔ اسے امریکی ایرفورس ی جانب سے فنڈز دیے گے۔ بعد میں اس پراجیکٹ کو،ای سسٹم، نے خرید لیا۔ یہ پراجیکٹ موسموں کوکنٹرول کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ یہ آلہ کرہ ارض کے کسی خطہ میں موسمیاتی تغیرات پیدا کر سکتا ہے، دنیا میں موجود کسی جگہ پر موجود زلزلے پیدا کر سکتا ہے، فضا میں اڑتے طیارے کو ایک باریک شعاع سے پگھلا سکتا ہے، سیلاب کی صورتحال پیدا کر سکتا ہے۔ جدید تحقیق سے یہ ثابت ہوا ہے کہ یہ آلہ موسم میں شدت لانا یا تیزی سے گھٹنا، مصنوءی حدت پیدا کرنا، اس طرح بالاءی کرہ ارض میں تبدیلی لا کر طوفانی سانچہ یا سورج کی شعا عوں کو جذب کرنے کے قرینے کو تبدیل کر سکتا ہے اور اسطرح وہ زمین کے کسی خطہ پر انتہاءی سورج کی روشنی، حدت کوبڑھا سکتا ہے اور اس نظام کے تحت سمندروں کی سطح بلند کر سکتا ہے۔

یہ ہارپ راصل ہماری فضا کی بالاءی تہہ جسے آءینوسفیر کہتے ہیں میں تبدیلی پیدا کرتا ہے۔ آءینوسفیر وہ تہہ ہے جس میں آءینز بنتے ہیں اور زمین سے تقریبا ٥٠٠ کلومیٹر اوپر واقع ہے۔ مواصلاتی سگنلز اس آءینوسفیر میں بھیجی جاتی ہیں اور پھر یہ ایک شیلڈ کی طرح عمل کرتی ہے اور ان مواصلاتی سگنلز کو بغیر کسی سیٹلاءیٹ کے زمین پر واپس بھیجتی ہیں۔ یہ ہارپ پروگرام اس آءینوسفیر میں خاص قسم کی برقی تواناءی کو انتہاءی کم فریکوءنسی میں تبدیل کرتا ہے۔ جہاں یہ آءینز سے ٹکرانے کے بعد واپس زمین پر آتی ہیں تو زمین کے اندرونی تہہ میں موجود ٹیکٹونک پلیٹس کو متاثر کرتی ہے جن سے زمین میں زلزلے آتے ہیں۔ گزشتہ کیء سالوں میں مختلف ممالک میں آنے والے سیلاب اور زلزلوں کا الزام بھی اس پراجیکٹ کے
ذمے لگایا جا رہا تھا۔ پاکستان میں آنیوالا ٢٠١٠ کا تباہکن سیلاب کے بارے میں بھی شکوک و شبہات پیدا ہوئے۔ ماہرین کا کہنا تھا کہ ٢٠١٠ میں جب مونسون کی بارشوں کا سلسلہ شروع ہوا تو کیء ءجیب حقاءق سامنے آئے۔

چونکہ پاکستان میں موسم برسات میں مونسون کے بادل ءموما مشرق کی جانب سے آتے ہیں اور سردیوں میں مونسون مغرب سے۔ لیکن اس سال مونسون کے بادل مشرق کی سمت کے ساتھ ساتھ مغرب سمت سے بھی آ اور وزیرستان اور شمالی ءلاقہ جات میں آکر ٹکر گےء۔ جسکے نتیجہ میں بارشیں کثرت سے ہوہیں۔ دراصل یہ مونسون ہواہیں جیٹسٹرم کے مشرق سے مغرب سفر کرتی ہیں۔ جب یہ ہواہیں شمالی ءلاقوں میں بڑے بڑے پہاڑوں سے ٹکراتی ہیں تو وہ اوپر کی جانب اٹھتی ہیں جن سے انکا درجہ حرارت کم ہو جاتا ہے اور پھر وہ بارش برسانے کا سبب بنتی ہیں۔ واضح رہے کہ اس سیلاب کی وجہ سے ہماری معیشت کو ناقابل تلافی نقصان پہنچا تھا۔ اگر یہ ٹیکنالوجی یوں ہی استعمال ہوتی رہی تو اسکے جلد ہی خطرناک اثرات مرتب ہوں گے۔

دفاعی نقطہ نظر سے ہارپ کو امریکہ ایک خطرناک ہتھیار کے طور پراستعمال کر رہا ہے۔ دراصل امریکہ اور روس شروع ہی سے دنیا پر مسلط ہونے کا خواب دیکھتے ہیں اور اس سلسلے میں ایک دوسرے کو پیچھے چھوڑ دینے کی دوڑ میں لگے رہتے ہیں۔

امریکہ چاہتا ہے کہ وہ اپنی پراسرار ٹیکنالوجی اور سیاسی طاقت کے بل بوتے پر تمام دنیا پر اپنی دھاک بیٹھا دے۔ چنانچہ وہ ابھی سے قدرتی ذراءع اور وساءل کو اپنے قبضے میں کرکے دنیا پر مصنوءی غذاءی قلت پیدا کرکےنا قابل تسخیر ءالمی طاقت بننا چاہتا ہے
 
Amna Khalid
About the Author: Amna Khalid Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.