فصیل حق

اللہ تعالی نے روز اوٌل سے ہی حق کا انکا ر کرنے والوں کے بارے میں ارشاد فرمایا تھا کہ ایسے لوگ کافر ہیں جو کہ اللہ اور اسکے رسول کو ماننے سے انکار کرتے ہیں ۔ تکفیر کے بارے میں علماء اور دیگر افراد کو ہمیشہ سے ہی احتیاط برتنے کا حکم دیا گیا ہے ۔ جیسکہ ایک مشہور حدیث ہے کہ ایک دفعہ دوران جنگ کفار نے کلمہ پڑھنا شروع کر دیا جس کو سن کر کئی صحابہ نے ہاتھ روک لیا اور کچھ نے ان کفار کو قتل کر دیا اس پر آپ ﷺ نے اس نے سختی سے پوچھا کہ جب انھوں نے کلمہ پڑھ لیا تھا تو ان کو ؛قتل کیوں کیا ؟ ان صحابہ نے جواب دیا کہ ان لوگوں نے صرف اپنی جان کی امان کے لیے کلمہ پڑھا ۔ اس پر نبی کریم ﷺ نے فرمایا : ’’افلا شققت عن قلبہ ‘‘ کیا تم نے اس کا دل چیر کے دیکھا تھا کہ اس کے دل میں ایمان تھا یا نہیں ؟
تکفیر تاریخ کہ آئینہ میں : بنیادی اعتبار سے اسلام دین دعوت و تبلیغ ہے نہ کہ انکار و تکفیر کا ۔امت مسلمہ کے لیے یہ بات قابل افسوس ہے کہ نبی کریم ﷺ کے وصال کے بعد ہی فتنوں میں گرفتار ہو گئی ۔ آپ کے وصال کے بعد ہی رونما ہو گیا اس کے بعد زمانے میں نگاہ فلک نے جم و صفین جیسے خون آشام معرکے بھی دیکھے اور پھر اس پر سلسلہ رکا نہیں اور کربلا کا واقعہ رونما ہوا ۔

نظریاتی اعتبار سے دیکھا جائت تو حضرت علی کے دور میں ہی تکفیری گرو ہ بنام خوارج سامنے آیا جس میں حضرت علی اور حضرت امیر معاویہ بہی مسلمان نہ رہ سکے اس کے بعد قدرو جبر کی بحثیں چلیں تو معتزلہ اور مرجیہ کا ظہور ہوا ۔ عہد عباسی میں یونانی علوم کی درآمد کے سبب گمراہیوں کا بازار گرم ہوتے ہی نظریاتی اختلافات کی نہ ختم ہونے والی جنگ کا آغاز ہوا ۔ اسی کے سبب کئی فرقے جنم لینے لگے جن کی نظر میں ان کے سواء سب کافر ہوتے تھے ۔

اللہ بھلا کرے متکلمین کا جن کی بدولت مسئلہ تکفیر کو مشکل سے مشکل کیا گیا اور اس کے فضول اطلاق کے سد باب کے لیے ضروریات دین کے انکار کو اس کے ساتھ مشروط کیا گیا ۔ اسکے ساتھ مزید احتیاط کے طور پر اس میں کلام ، متکلم اور تکلم کی تاویلات کے ذریعے اس کو مزید مشکل بنایا گیا ۔

تکفیر کا حکم اور صورتیں : فقہا اور متکلمین نے ایک طرف اقوال کفریہ اور اعمال کفریہ کی فہرست بنائی تو دوسری طرف یہ بھی طہ کیا کے ان تمام عوامل اور تمام اقال کے با وجود ان کے قائلین کے بارے میں پوری تحقیق و تفتیش نہ کر لی جائے تب تک اس پر حکم کفر وارد نہ کیا جائے گا ۔ یہاں مزید احتیاط کا پہلو یہ رکھا گیا کہ ان تما م اقوال کے باوجود بھی کسی شخص کی تکفیر نہیں کی جائے گی بلکہ اس کے قول و عمل کو عمل کفر قرار دیا جائے گا ۔

متکلمین نے مسئلہ کفر کے بارے میں ایک اہم شرط یہ بھی رکھی کہ اگر کسی میں ننانوے پہلو کفر اور ایک پہلو اسلام کا ہو پھر بھی اس پر حکم کفر نہیں لگے گا ۔ چاہے یہ اسلام کا پہلو نخیف سے نخیف ہی کیوں نہ ہو ۔

حکم کفر کی شرائط اور اسکی حکمتیں : اگر متکلمین حکم کفر کے لیے ایسی شرائط نہ رکھتے تو آج کوئی بھی انسان اس دنیا میں اس وقت مسلمان نہ رہتا ۔ کیونکہ یہاں ہر دوسرا انسان ہی حق پر ہے اور اسکی نظر میں تما م انسان کافر ہیں ۔

حکم کفر لگانے سے پہلے یہ بات ضرور ذہن میں ہونی چاہیے کہ جب تک انسان ضروریات دین میں سے کسی کا انکار نہیں کرتا تب تک اس پر حکم کفر نہیں لگے گا ۔ ضروریات دین کی تعریف یہ کہ کہ جو چیز تواتر سے ثابت ہو اور بدیہی ہو جائے اسے ضروریات دین کہتے ہیں اگرکوئی بھی شخص نماز کی فرضیت کا انکا ر کرتا ہے تو کیا ثبوت ہے کہ اس نے اسکا انکار کیا یا نہیں ؟ اسکے انکار کا ثبوت بھی بداہت و تواتر سے ہونا چاہیے تب جا کر کہیں تکفیر کی جا سکے گی ۔اما م غزالی فرماتے ہیں کہ ایک ہزار کفار کو چھوڑ دینا ، ایک مسلمان کو کافر بنانے سے زیادہ آسان ہے ۔ ایک مسلمان کا کفر بچانا ایک ہزار کفار کو دائرہ اسلام میں داخل کرنے سے بہتر ہے ۔

معرفت تاویل : مسئلہ کفر کے لیے معرفت تاویل ہونا بہت لازمی ہے ۔ تاویل صرف اللفظ عن الظاھر کو کہتے ہیں ۔ یعنی اس لفظ کے ظاہری معنی سے دوسرے معنی کی طرف پھیر دینا ۔ جب تک کلام میں تاویل کا امکان باقی ہو گا، نہ کسی مسلمان کی تکفیر کی جائے گی نہ تضلیل ۔

تکفیری فتوی جات کے اثرات : تفرقہ بازی فساد نفرت کا ماحول باہمی انتشار بے اعتمادی علماء سے نفرت مذہب سے دوری بے راہ روی، عقائد باطلہ کا ظہور ، تعصب پسندی ، شدت پسندی

————————————————————
مصادرو مراجع : القرآن ، شرح فتح القدیر ، فتاوی رضویہ ، تکفیری جرائم کا سدباب
 
Faisal Naveed Gulyanvi
About the Author: Faisal Naveed Gulyanvi Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.