لا علاج

موت کا دن مقرر ہے موت کسی کو بتا کر نہیں آتی البتہ بیماریوں کی صورت میں وارننگ دیتی ہے کہ اگر احتیاط نہ برتی گئی تو کسی بھی وقت گردن دبوچ لی جائے گی ،بیماری اور صحت انسانی زندگی کا خاص حصہ ہیں اور کسی بھی وقت ایک صحت مند انسان بیماری میں مبتلا ہو سکتا ہے اگر احتیاط نہ برتی جائے تو معمولی نزلہ زکام بھی موت کا سبب بن سکتا ہے لاکھ دوا دعا کی جائے لیکن موت اپنا راستہ باآسانی تلاش کر لیتی ہے اور موت سے کوئی ٹکر نہیں لے سکتا یہ بات درست ہے کہ معمولی بیماری میں مبتلا انسان عام دوا علاج سے تندرست ہو جاتا ہے لیکن اگر ٹی بی ،ایڈز، برین ٹیومر یا کسی بھی قسم کے کینسر کا اٹیک ہو تو موت یقینی ہوتی ہے، کینسر کے بارے میں دنیا بھر کے ماہرین کی رپورٹ ہمیشہ منفی رہی ہے اور خاص طور پر اگر بچے یا کم عمر افراد کینسر میں مبتلاہو جائیں تو والدین اور معالج بچوں کی صحت یابی کیلئے زمین آسمان ایک کر دیتے ہیں ، بڑی عمر کے افراد اکثر سماجی ماحول اور تجربات کے پیش نظر ہیلتھ سسٹم کی جانکاری رکھتے ہیں لیکن اگر بچے یا نوجوان اس بیماری کا شکار ہو جائیں اور خاص طور سے اس وقت جب وہ سکول یا کالج میں تعلیم حاصل کر رہے ہوں تو ان کے ساتھ ساتھ والدین کا بھی پرسان حال نہیں ہوتا سوال یہ ہے کہ کینسر ان بچوں اور جوانوں پر کس قدر یا کس انداز سے اثر انداز ہوتا ہے؟۔برلن ہیلتھ فاؤنڈیشن کی رپورٹ کے مطابق دنیا بھر میں کئی بچے اور کم عمر افراد کینسر میں مبتلا ہیں رپورٹ میں بتایا گیا کہ کیسے ان بچوں کی مدد کی جا سکتی ہے یا بہتری لائی جا سکتی ہے،اس بیماری کے پیچھے کیا ہے؟اخباری نمائندے کے سوالات کا جواب دیتے ہوئے تنظیم کے نمائندے نے بتایا کہ اس وقت صرف جرمنی میں اٹھارہ سے انتالیس برس کے ہزاروں افراد کینسر میں مبتلا ہیں اور اعداد وشمار کے مطابق تقریباً سالانہ پندرہ ہزار افراد اس بیماری میں مبتلا ہوتے ہیں مختلف اقسام کے کینسر سے سالانہ چار لاکھ سے زائد افراد کو کلینک منتقل کیا جاتا ہے ۔سوال۔کیوں؟جواب۔کیونکہ تشخیص میں تاخیر ہو سکتی ہے کئی ڈاکٹرز بچوں اور جوان مریضوں کے بارے میں فوری طور پر کینسر کے بارے میں نہیں سوچتے یا شکوک وشبہات میں مبتلا ہونے کے سبب مکمل رپورٹ آنے تک انتظار کرنے کا کہتے ہیں۔جرمنی کے شہر کوئٹنگن کے اونکولوجسٹ ڈاکٹر کرسٹوف کرام کا کہنا ہے ہم اکثر شاک میں مبتلا ہو جاتے ہیں جب کسی بچے یا جوان کی رپورٹ منفی ظاہر ہو تی ہے یعنی وہ کینسر کا مریض ہے ہماری کوشش ہوتی ہے کہ بہترین علاج سے مرض کو ختم کیا جائے ہمیں شدید جھٹکا لگتا ہے اور سب سے پہلے جڑ کو پکڑنے کی کوشش کرتے ہیں علاوہ ازیں تجربات کی بنا پر ہم ایک بیس بائیس سالہ جوان فرد کو عام طور پر بچوں کے کلینک میں ایڈمٹ کرتے ہیں تاکہ وہ وہاں بہتر محسوس کر سکے نہ کہ ایک اسی سالہ ادھیڑ عمر کے مریض کے کمرے میں داخل کرتے ہیں کیونکہ بچوں کے کلینک یا وارڈز میں نوجوان کینسر کے مریضوں کی بہتر طریقے سے دیکھ بھال کی جاسکتی ہے وہاں سوشل ورکرز کے علاوہ نفسیاتی امراض کے ماہرین بھی موجود ہوتے ہیں۔کون سے کینسر میں عام طور پر بچے یا کم عمر نوجوان اوسطاً مبتلا ہوتے ہیں؟فاؤنڈیشن کے مطابق عام طور پر سکن کینسر،گریواکینسر،بریسٹ کینسراور جوان مردوں کے خاص اعضاء کا کینسر وغیرہ شامل ہیں۔کیا کینسر بچوں اور جوانوں کو شدید متاثر کرتا ہے؟کولون یونیورسٹی کلینک کی ماہر اونکولوجسٹ ڈاکٹر کیرولین بہرینگر کا کہنا ہے تشخیص میں ایسا وقت بھی آتا ہے جہاں انسان کی سوچ موت پر ختم ہو جاتی ہے کیونکہ جوانی میں ہر انسان سپنے دیکھتا ہے کہ تعلیم مکمل ہو گی،

اچھی جوب،روشن مستقبل،شادی بچے اور فیملی وغیرہ لیکن سب سپنے تو سچ نہیں ہوسکتے کیونکہ بیماری کسی انسان کو مہلت نہیں دیتی اور خاص طور پر کینسر کیونکہ انسان اپنے آپ کو غیر محفوظ اور دوسروں کا محتاج سمجھتا ہے اور ایسے خیالات اسے مزید ذہنی اور روحانی تکلیف پہنچاتے ہیں نوجوانی میں کینسر انسان کی تمام امیدوں پر پانی پھیر دیتا ہے اور منصوبہ بندی کو یک مشت کریش کر دیتا ہے۔سوال؟بچوں اور نوجوان مریضوں پر کینسر کا کس قسم کا بوجھ شدید اثر انداز ہوتا ہے؟جواب۔نوجوان اس بیماری سے شدید متاثر ہوتے ہیں کیونکہ مالی تحفظ کی کمی سب سے اہم کردار ادا کرتی ہے فاؤنڈیشن کے ترجمان کا کہنا ہے طالب علم کے وظیفے اور دیگر مراعات میں کمی ہو جاتی ہے اکثر اپارٹمنٹ کا ایگریمنٹ بھی منسوخ کر دیا جاتا ہے لیکن بچوں کے ساتھ خاصی رعایت برتی جاتی ہے ،نوجوان افراد کی باقی ماندہ زندگی رسک سے بھرپور گزرتی ہے ہیلتھ کا ادارہ مالی امداد کرتا ہے لیکن کئی افراد صحت کے علاوہ دیگر سماجی معاملات کا شکار ہوجاتے ہیں مثلاً اگر بیماری سے قبل کسی نے شادی کر لی ہے اور بچے بھی ہیں تو شدید ذہنی دباؤ کا شکار ہوتا ہے کیونکہ اگر میاں بیوی میں علیحدگی نہ بھی ہو تو بچوں کے بارے سوچ سوچ کر انسان اپنی آدھی زندگی وہیں ختم کر لیتا ہے ۔نوجوانوں کی صحت یابی کے کتنے امکانات ہیں ؟عمر رسیدہ افراد کے مقابلے میں علاج کی شرح مثبت ہے اور اسی فیصد صحت یابی کے امکانات ہوتے ہیں طویل مدتی تھیراپی اور دیگر علاج سے اٹھارہ اور انتالیس برس کے افراد کا کامیابی سے علاج ہوتا ہے لیکن خدشات کو بھی رد نہیں کیا جاسکتا کہ چند برسوں بعد ممکنہ طور پر گردوں یا دماغی خلیات پر منفی اثر پڑ سکتا ہے۔ جبکہ ترقی پذیر ممالک میں اب تک یہ مرض لاعلاج ہے اور روزانہ لاکھوں افراد موت کا شکار ہوتے ہیں جس کی ایک نہیں کئی وجوہات ہیں۔
 

Disclaimer: All material on this website is provided for your information only and may not be construed as medical advice or instruction. No action or inaction should be taken based solely on the contents of this information; instead, readers should consult appropriate health professionals on any matter relating to their health and well-being. The data information and opinions expressed here are believed to be accurate, which is gathered from different sources but might have some errors. Hamariweb.com is not responsible for errors or omissions. Doctors and Hospital officials are not necessarily required to respond or go through this page.

Shahid Shakil
About the Author: Shahid Shakil Read More Articles by Shahid Shakil: 250 Articles with 228191 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.