عورت, طلاق اور تہذیب نو کے مساںُل

دور قدیم میں جس طرح مشترکہ خاندان کا چلن تھا اور لوگوں کے مزاج میں سادگی پائی جاتی تھی نہ تو شادی اور نکاح کو اتنا بڑا مسںُلہ سمجھا جاتا تھا اور نہ ہی طلاق کے مسںُلے کو لیکر ہی کبھی بحث و مباحثہ ہوا -ہاں اتنا ضرور تھا کہ طلاق کو ہر دور میں ایک غیر اخلاقی عمل سمجھ کر معیوب فعل سمجھا گیا ہے -اس کی وجہ یہ نہیں تھی کہ طلاق کے بعد لڑکی کے کنوارے رہنے اور سڑک پر آجانےکا اندیشہ تھا جیسا کہ جدید سرمایہ دارانہ صنعتی دور میں یہ عنوان زیر بحث ہے کہ پانچ یا دس سال تک ایک عورت کے ساتھ زندگی گذارنے کے بعد اگر ایک شخص اپنی بیوی یا شریک حیات کو طلاق دے دیتا ہے تو اس عورت کی کفالت کا ذمدار کون ہوگا بلکہ اس کی وجہ یہ تھی کہ ماضی کے اس دور میں ایک عورت اور مرد کے نکاح کی شکل میں نہ صرف دو زندگیوں کے درمیان تاحیات گذر بسر کرنے کا معاہدہ طںُے پاتا تھا اس مقدس عمل کے توسل سے کںُی خاندان اور قبیلے جو پیار محبت اور مساوات کے رشتے میں قید ہوجایا کرتےتھے طلاق کی صورت میں ان کے درمیان تعلقات میں دراڑ پڑ جانے کا اندیشہ تھا - شاید اسی لیںُے عورت اور مرد کی ازدواجی زندگی میں اگر کبھی تلخیاں پیدا بھی ہوجاتی تھیں تو لوگ عدالت اور قانون کی مداخلت کے بغیر آپس کے مشورے سے حل کر لیا کرتے تھے-آج کے جدید سرمایہ دارانہ سیاسی نظام اور شہری زندگی میں جہاں مشترکہ خاندان اور قبیلے کا تصور ہی ختم ہوچکا ہے اور نںُی نسل اپنے کسی بھی ذاتی معاملات اور فیصلے میں خاندانی اور سماجی بندھن کی پابند بھی نہیں ہے قصوروار صرف طلاق دینے والا مرد ہی نہیں ہے بلکہ عورتوں کی آذاد خیالی بھی ایک اہم وجہ ہے جو گھر میں نہ صرف ساس سسر کی بالا دستی قبول کرنے کیلئے تیار نہیں ہے, چاہتی ہے کہ مرد بھی اس کا غلام بن کر رہے اور معاشرے میں تقریباً نوے فیصد مردوں نے عورتوں کی غلامی کو قبول بھی کر لیا ہے جس کا اندازہ شادی بیاہ کے موقع پر رسم ورواج اور لین دین کےوقت کیا جاسکتا ہے جب عورتیں ہی مردوں کی رہنمائی کرتی ہیں کہ کسے کیا دینا ہے اور کہاں کتنا خرچ کرنا ہے -یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ اسی فیصد طلاق کے مطالبات عورت کی طرف سے ہی ہوتے ہیں نہ کہ مرد کے- ہاں کبھی کبھی ایسا ہوتا ہے کہ ایک شخص شراب کے نشے یا غصے کی حالت میں ایک مجلس میں ہی تین طلاق دے دیتا ہے لیکن ایسے معاملات شاذونادر ہی کسی بہت ہی پسماندہ اور ناخواندہ معاشرے میں وقوع پزیر ہوتے ہیں- اس کے برعکس ہمارے دور کا جو اہم مسںُلہ ہے یعنی جو حکومتی بدعنوانی اور سیاسی نقص ہے جس کی وجہ سے پورے سماج اور معاشرے میں بے چینی اور الجھن پائی جاتی ہے اس پر کوئی بحث نہیں ہوتی -مثال کے طورپر اسی سماج میں ضعیف اور معزور افراد بھی ہیں جن کی اولادیں اپنے والدین کو آخری وقت میں بوڑھوں کے آشرم میں شرافت کے ساتھ خودکشی کرنے کیلئے چھوڑ جاتے ہیں اور یہ سو فیصد لوگ غیر مسلم ہوتے ہیں - متھرا اور بنارس کی مندروں میں ہزاروں بوڑھی اور جوان بیوہ عورتیں صرف ہندوؤں کی ہوتی ہیں نہ کہ مسلمانوں کی -اگر اسلامی تعلیمات میں کوئی نقص ہے یا مسلمانوں کے معاشرے میں خرابی ہے تو پھر کوئی بتاےُ کہ ایسے کتنے مسلمان ہیں جنھوں نے اپنے بوڑھے والدین کو آشرم میں لاوارث چھوڑا ہے اور ایسی کتنی طلاق شدہ عورتیں سڑکوں پر بھیک مانگتی ہویُ نظر آرہی ہیں -ہاں اگر کچھ نقاب پوش عورتیں بھیک مانگتی ہویُ نظر بھی آتی ہیں یا بیر باروں کی طرف راغب ہیں تو یقیناً یہ کچھ ایسی پیشہ ور عورتیں ہیں جو اپنے گھروں سے غلط قدم اٹھا کر اس انجام کو پہنچی ہیں تو اس کا ذمدار نہ تو مسلمان ہے اور نہ ہی اسلام بلکہ عورتوں کی آذاد خیالی اور موجودہ سرمایہ دارانہ نظام ہے جو ناگہانی اور حادثاتی حالات کی شکار بے سہارا عورتوں کی فلاح بہبود کا کوئی نظم نہ کرکے انہیں طواںُف بننے پر مجبور کر دیتا ہے -ایک ایسے دور میں جہاں اب مشترکہ خاندان کا چلن ختم ہوچکا ہے ,جہاں ہر شخص اپنے اخراجات کے بوجھ کے نیچے دبا چلا جارہا ہے جہاں نکاح ثانی کو تقریباً حرام کے برابر سمجھا جانے لگا ہو یا گلیمر اور ریاکاری کے دور میں بیوہ عورتوں سے نکاح کرنے کی روایت بھی منسوخ ہو چکی ہو جہاں عورت نے خود ساس ,بہو ,نند , دیورانی, جیٹھانی اور سوتن کو برداشت نہ کرکے خود کو تنہا کر لیا ہو یہ بحث بظاہر درست بھی ہے کہ ایک طلاق شدہ عورت کا سہارا کون بنے- لیکن سوال یہ اٹھتا ہے کہ جدید سرمایہ دارانہ صنعتی انقلاب اور لادینی معاشرے کی تخلیق میں پیدا ہونے والے اس جدید مسںُلے اور فتنے کا ذمدار کیا اسلام ہے- یقیناً اس کے ذمدار ہم اور ہمارا جدید معاشرہ اور جدید نظام ہے جو اگر انسانوں کو ایک پرامن اور پرسکون زندگی کی ضمانت نہیں دیتا تو یہ اس دور کے اچھے انسانوں کی ذمدارای ہے کہ ایک بار پھر ایک صالح انقلاب کیلںُے جدوجہد کریں نہ کہ زمانے کے بدلاؤ کے مطابق اسلامی قوانین کو بدلنے کی کوشس ہو -جیسا کہ طلاق کے مسںُلے کو لیکر مسلمانوں میں کچھ بھولے بھالے لبرل اور مادہ پرست مسلمان بھی اس بحث میں الجھے ہیں کہ مسلم پرسنل لاء بورڈ کو ایک مجلس میں تین طلاق کے فقہی اصول کو منسوخ کرکے عورت کو جو کبھی کبھی ایک ظالم مرد کے ساتھ ایک منٹ بھی برداشت کرنے کو تیار نہیں ہوتی جبراً تین مہینے تک ذہنی اذیت سے گذرنے کیلئے مجبور کر دیا جاےُ -اس میں کوئی شک نہیں کہ اسلام میں طلاق دینے کا احسن طریقہ یہی ہے کہ ایک مرد ایک ایسی عورت کو جو کہ ایک وقت تک اس کی شریک حیات بھی رہ چکی ہے ایک وقت مقررہ کی مہلت دینے کے بعد ہی اپنے طلاق کے حق کا استعمال کرے - لیکن ایسا اسی وقت ممکن ہے جب طلاق کا معاملہ عورت اور مرد دونوں کی رضا مندی سے قرار پاےُ اور دونوں کے آپسی خاندان میں بھی سوجھ بوجھ اور سمجھداری ہو-لیکن اکثر ایسا بھی دیکھا گیا ہے کہ دونوں کے آپس میں رنجش اور خلش کی خلیج اس حد تک وسیع ہوجاتی ہے کہ دونوں میں سے کوئ کسی کی شکل دیکھنا بھی پسند نہیں کرتا یا کبھی کبھی لڑکی شوہر کا گھر چھوڑ کر ماںُیکے آجاتی ہے اور دونوں خاندانوں کے بیچ نوبت مارپیٹ اور پولیس میں شکایت تک پہنچ جاتی ہے -ایسے میں جبکہ شدید کشیدگی اور تناؤکا ماحول ہو کیا یہ ممکن ہے کہ طلاق کے احسن طریقے کا استعمال کیا جاےُ- نیز اس بات کی کیا ضمانت ہے کہ عورت کو شوہر کے ساتھ تین مہینے کی عدت کے دوران کسی ذہنی اور جسمانی اذیت سے نہیں گذرنا پڑے گا - جبکہ حدیث میں صحابہ کرام کے عمل سے ایک مجلس میں تین طلاق کا طریقہ بھی موجود ہے اور کبھی کبھی یہ حالات اس مظلوم عورت کے حق میں ہی بہتر ہوتے ہیں کہ وہ ایک ایسے شوہر نما ظالم مرد سے جس سے کہ اسے اپنی جان کا خطرہ لاحق ہو ایک ہی نشست میں چھٹکارہ حاصل کرلے -سچ تو یہ ہے کہ مسںُلہ طلاق اور شریعت کا نہیں انسانوں کی جدید جہالت کا ہے اور اس معاملے میں اسلام دشمن میڈیا جس طرح واویلہ مچانا شروع کردیتا ہے جیسے کہ انہیں مسلمانوں سے زیادہ مسلمانوں کی اپنی بہو بیٹیوں اور بہنوں سے ہمدردی ہو - جبکہ ان کی طرف سے مسلمانوں کی دیگر پسماندگیوں اور حکومتی جبر و تشدد کے خلاف کوئی آواز نہیں اٹھائی جاتی -اور آج بھی گجرات فساد سے متاثر کوثر بی, ذکیہ جعفری اور ظہیرہ شیخ جیسی مظلوم عورتیں انصاف کیلئے منھ تک رہی ہیں -

ہمارے دور کی مادی تہذیب کا ایک فتنہ یہ بھی ہے کہ اب ہر شخص اپنی زندگی کے مختصر وقت میں ہی دنیا کی زیادہ سے زیادہ عیش وعشرت کے سامان کو حاصل کر لینا چاہتا ہے -عورت اور مرد کا رشتہ بھی اسی زندگی کی فطری ضرورت سے منسلک ہے -مگر جب کچھ شادی شدہ جوڑوں کی یہ خواہش پوری نہیں ہو پاتی تو ان کی ازدواجی زندگی میں کشیدگی کا پیدا ہونا لازمی ہے اور پھر نوبت طلاق اور جدائ تک پہنچ جاتی ہے -اب اگر کوئی یہ کہے کہ جدید مادی تہذیب اور گلیمر کا شکار صرف مرد ذات ہی ہے اور طلاق دینے کا قصوروار بھی صرف وہی ہے تو غلط ہے -بلکہ ہمارا ذاتی تجربہ تو یہ ہے کہ سماج کے غریب ناخواندہ اور پسماندہ طبقات میں اگر کبھی کںُی ہزار میں ایک واقعہ یہ پیش آتا ہے کہ ایک شخص شراب کے نشے یا غصے کی حالت میں اپنی بیوی کو طلاق دینے کی جراُت کر لیتا ہے تو اس لیںُے کہ بیوی کی طرف سے قانونی چارہ جوئ کی شکل میں اس کے پاس کھونے کیلئے کچھ نہیں ہوتا لیکن کیاکوئی بتا سکتا ہے کہ عورتوں کے حق میں جہاں ملک کا قانون پوری طرح اندھا ہے سماج کا امیر و کبیر اور شریف خاندان کا شخص بھی یہ جراُت کرسکتا ہے -ایک اندازے کے مطابق اسی فیصد طلاق کے مطالبات عورتوں کی طرف سے ہوتے ہیں اور مرد قانون اور عدالت کی ذلت سے چھٹکارہ پانے کیلئے کچھ دے لیکر معاملات کو آپس میں طںُے کر لیتا ہے جس پر ہم تفصیل کے ساتھ اپنے اگلے مضمون میں تبصرہ کریں گے -

جو لوگ ایک نشست میں طلاق کی مخالفت کرتے ہیں انہیں اس پہلو پر بھی غور کرنا چاہیے کہ اگر مرد واقعی ظالم رہا یا کسی وجہ سے لڑکی انجانے میں کسی بدمعاش قسم کے لڑکے کے چنگل میں پھنس جاتی ہے یا لڑکا ہی کسی بدکار عورت کے دھوکے میں آکر نکاح کرلیتا ہے جیسا کہ انٹرنٹ کی شادیوں میں کثرت کے ساتھ ایسا ہو رہا ہے اور ہمارے سامنے ایسے بھی واقعات آےُ ہیں کہ کچھ لڑکیاں لڑکوں کی ظاہری چکاچوند میں آکر ایسے نوجوانوں کے جھانسے میں آجاتی ہیں جن کا کردار مشکوک ہوتا ہے اور پھر شادی کے بعد بھید کھلنے پر معلوم پڑنے پر ان کے پاس اس کے سوا اور کوئی چارہ نہیں ہوتا کہ وہ فوری طورپر طلاق لیکر اس عذاب سے چھٹکارہ حاصل کریں -مثال کے طورپر ہمارے ایک ہندو ساتھی کی لڑکی کے ساتھ ایسا ہوا -انٹرنٹ کے ذریعے لڑکے نے اپنی ڈگری اور دبئ میں اپنی ڈیڑھ لاکھ کی ملازت کا فرضی ثبوت بتا کر لڑکی سے شادی کرکے دبئ میں ہی اپنے ساتھ رکھنے کا وعدہ کیا تو لڑکی والوں نے مناسب رشتہ جان کر یہ شادی طںُے کردی اور پھر شادی کے فوراً بعد لڑکا لڑکی کو دبئ لیکر چلا بھی گیا لیکن لڑکا لڑکی کو دبئ لے جانے کے بعد اس کے ماں باپ اور رشتہ داروں سے رشتہ منقطعہ کروا دیتا ہے یا کبھی فون وغیرہ سے بات بھی کرواتا تو ساتھ میں بیٹھ کر دھمکیاں دیتا کہ وہ اتنا ہی بات کرے جتنا کہ اس نے سکھایا ہے -اس طرح وہ اپنی بیوی کو مجبور کرنے لگا کہ وہ اس کے لاےُ ہوےُ گراہکوں کے ساتھ ناجائز تعلقات قاںُم کرے تاکہ وہ اس کے عوض رقم حاصل کرے -لڑکی کے انکار کرنے پر وہ اسے ٹارچر کرتا رہا-لڑکی نے کچھ مہینوں تک اس کی اس اذیت کو سہتے ہوےُ کسی طرح پڑوسیوں کی مدد سے اپنے گھر والوں سے رابطہ قاںُم کیا اور پھر لڑکی کے باپ نے اپنی طبیعت خراب ہونے کا بہانہ بناکر نہ صرف اپنے کسی رشتہ دار کی مدد سے اپنی بیٹی کو واپس بلوایا لڑکے پر بھی ظاہر نہیں ہونے دیا کہ وہ ساری حقیقت کو جانتا ہے یا لڑکی نے کچھ بتایا ہے لڑکی کو واپس لے جانے کے بہانے لڑکے کو ہندوستان بلوایا اور پھر جبراً طلاق نامہ لکھوا لیا -لڑکی کا باپ اگر قانون اور عدالت کا سہارا لیتا تو شاید اسے لڑکی کی بے گناہی ثابت کرنے میں ایک وقت گذر جاتا اور اگر اسے انصاف مل بھی جاتا تو بھی ایک ایسا شخص جس کا کوئی پتہ اور ٹھکانہ ہی نہ ہو بالآخر طلاق کے سوا اور کیا دیتا -ایسا حادثہ کسی مسلمان لڑکی اور کسی کی بہن اور بیٹی کے ساتھ بھی ہو سکتا ہے-ایسے میں اگر کوئی لڑکی پولس میں شکایت بھی کرتی ہے اور معاملہ عدالت تک پہنچ جاتا ہے تو پھر ایک مظلوم لڑکی کو طلاق لینے کیلئے صرف تین نشست نہیں بلکہ تیس نشست کے بعد بھی طلاق مل جاےُ گا اس کی کیا ضمانت ہے -میں سمجھتا ہوں کہ ایسے موقع پر علماء دین کے پاس بھی اس کے سوا کوئی چارہ نہیں رہ جاتا کہ وہ ایک نشست میں ہی نکاح کو فسخ کرکے لڑکی کو اس عذاب سے نجات دلاںُیں یا پھر جب ساری عدالتیں ناکام ہو جاںُیں تو ایک مسلمان باپ کے پاس بھی اس کے سوا کوئی چارہ نہیں رہ جاتا کہ وہ بھی وہی کرے جو ہمارے ہندو دوست نے کیا -ایک سوال یہ بھی ہے کہ جب اضطراری اور ہنگامی حالات میں قرآن کے کچھ اصول میں تبدیلی ہو سکتی ہے اور نماز جیسی اہم عبادت کو بھی جمع کر کے ادا کیا جاسکتا ہے تو پھر ہنگامی اور اضطراری کیفیت میں اگر کبھی کبھار کوئی شخص تین طلاق کے وقفے کو جمع کرکے ایک مجلس میں ادا کردے تو اس پر اتنا واویلا کیوں.......؟
Umar Shaikh
About the Author: Umar Shaikh Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.