صحافت کی ماں بہن

رکئے جناب!ایسا مت کیجئے ،عورت کے نام پر صحافت کو مت بیچئے ۔لال پٹیاں اور سرخ پھٹے چلا کر ،چیخ چیخ کر قوم کو آزادی صحافت پر حملے کی خبر دینے والے نیوز کاسٹرز اور ٹاک شوزکے اینکرز بھی ہوش کریں ،عورت کا نام لے کر جذباتی بلیک میلنگ کے ذریعے صحافت جیسے مقدس پیشے کے اصول،ضابطے اور قاعدے مت روندیں۔یہ مرد یا عورت کا سوال نہیں ،تہذیب اور جہالت کا معاملہ ہے،یہ صحافت اور ریاستی طاقت کانہیں قاعدے قانون اور اخلاق کی بات ہے۔یاد کیجئے جب ایک خاتون سیاستدان نے پوری قوم کے سامنے ایک خاتون سرکاری افسر کے منہ پر تھپڑ مارا تھا ،تب خواتین کے حقوق کی بات کرنے والے کہاں سو رہے تھے؟کسی نے یہ نہیں کہا کہ ایک خاتون پر حملہ ہو گیا ،ریاست پر حملہ ہوگیا۔کیوں؟اس لئے کہ سامنے بھی ایک خاتون تھی ؟کیا خاتون جرم کرے تو اس کی سنگینی کم ہوجاتی ہے؟کیا مرد قتل کرے تو اسے تختہ دار پر لٹکا دیں اور یہی جرم عورت سے سرزد ہوتو اسے معاف کردیں؟

ہوش کیجئے صاحب ،ہوش!صحافت کا لفظ ہی صحیفے سے نکلا ہے،سوچئے کہ اس ملک کے باسیوں کا ذرائع ابلاغ سے اعتمادکیوں اٹھتا جارہا ہے ؟۔مولا نا ظفر علی خان، حمید نظامی ،منہاج برنا،حسین نقی،ضمیر نیازی ،احمد علی خان اور پروفیسر وارث میر کے علمی وارثوں کی یہ زیب نہیں دیتا کہ خواتین کے حقوق یا ان کی عز ت کے نام پر خود اپنے ہی قبلے کو سستی شہرت کے چند لال پھٹوں ، بے بنیاد اور دلیل سے عاری ٹیلی فونک بیپروں کے عوض بیچ ڈالیں۔

کل ایک موقر جریدے کی خاتون صحافی سے بات ہو ئی صاف لفظوں میں انہوں نے کہا ’’میری دیانتدارانہ رائے یہ ہے کہ بہت کم خواتین پروفیشنل ہوتی ہیں‘‘۔ایک اور صحافی خاتون کے الفاظ ہیں’’خاتون رپورٹر کو نادرا آفس میں تھپڑ رسید کرنے والے پر لعن طعن کرنے کی بجائے اس خاتون سے پوچھا جائے کہ اس نے گارڈ (ایف سی اہلکار)کا بازو کیوں کھینچا،میرے حساب سے جواب میں تھپڑ بالکل جائز تھا،مشہوری کی خاطر صحافتی اقدار کا جنازہ مت نکالیں،خدارا محنت کریں اور آگے آئیں۔بند کریں خاتون صحافی کو تھپڑمارنے والاڈرامہ،آج بھی عورت غیرت کے نام پر قتل ہورہی ہے،کئی بے سہارا ماؤں کے بے گناہ بچے جیلو ں میں قید ہیں،ہوم بیسڈ ورکرز اور کھیتوں میں کام کرنے والی خواتین کو شرمناک معاوضہ دیا جاتاہے۔آپ میں سے کتنے لوگ ہیں جنہوں نے آج تک اس چیز پر آواز اٹھائی ؟‘‘۔

ایف سی اہلکار کی طر ف سے خاتون کو تھپڑ مارنے کی حمایت بالکل نہیں کی جاسکتی یہ ایک ناپسندیدہ اور قابل مذمت عمل تھا لیکن سوال یہ ہے کہ اس تھپڑ کا محرک کیا تھا؟اگر آپ کسی کو دیوار کے ساتھ لگا دیں تو اس سے آپ اور توقع بھی کیا کر سکتے ہیں؟

ہر شعبے میں کچھ قاعدے قانون ہوتے ہیں جو وقت کے ساتھ بدل بھی سکتے ہیں لیکن کچھ اصول پتھر پر لکیر ہوتے ہیں جو کسی صورت بدلے نہیں جاسکتے ۔ صحافت ایک باعزت پیشہ ہے اور اس کے بھی کچھ اصول اور ضابطے ہیں۔اگر مذکورہ خاتون صائمہ کنول نے باضابطہ طور پر کسی اخبار یا ٹی وی میں کسی استاد سے چند رو ز بھی تربیت لی ہوتی یا دوسرے لفظوں میں صحافت کی الف بے ہی سیکھی ہوتی تو میں یہ بات دعوے سے کہہ سکتا ہوں کہ یہ ناخوشگوار واقعہ پیش ہی نہ آتا۔صحافت میں پہلا سبق ہی یہ دیا جاتا ہے کہ جب آپ فیلڈ میں جاتے ہیں تو اپنے جذبات پر قابو رکھیں،فیلڈ میں آپ مردیا عورت نہیں بلکہ ایک صحافی ہیں جس کو کسی بھی وقت کسی بھی قسم کے حالات کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے ایسے میں اپنے حواس پر قابو رکھنا ہی ایک سچے صحافی کی نشانی ہے۔اگر صحافی ہی کسی سوگوار ماحول میں اوسان خطا کر بیٹھے اور آنسو بہانا شروع کر دے تو اس کے فرائض کون سرانجام دے گا؟۔اسی طرح صحافی کا فرض صرف اتنا ہے کہ وہ جو دیکھے یا سنے وہ بلا کم و کاست عوام کو بیان کردے ،اس میں اپنی رائے یا جذبات کی آمیزش قطعاََ نہ ہونے دے۔محترمہ صائمہ کنول نے جو کیا وہ صحافت کے بنیادی اصولوں کے بالکل الٹ تھا، اول تو انہیں ایف سی اہلکا رسے الجھنا ہی نہیں چاہیے تھا ،سوال کرناایک صحافی کا فرض ہے اور اس حق کو دنیا بھر میں تسلیم بھی کیا جاتا ہے لیکن آپ کسی بھی شخص کو جواب دینے پر مجبور نہیں کر سکتے،یہ اس کی صوابدید ہے کہ وہ آپ کو کوئی جواب دے یاآپ کے سوال کا جواب دینے سے معذرت کر لے۔محترمہ صائمہ کنول کو یہ معلوم ہونا چاہیے تھا کہ ہاتھ میں قلم یا مائیک پکڑ لینے سے آپ کو لامحدود اختیارات نہیں مل جاتے اور نہ ہی آپ کو یہ حق دیا جاسکتا ہے کہ آزادی صحافت کے نام پر شتر بے مہار کی طرح جدھر چاہیں دُڑکی لگا دیں۔لفظوں کے نشتر سے کسی کی دستار اچھالنے یا شلوار اتارنے کا نام صحافت ہر گز نہیں ہے۔ صحافی کا ایک ایک لفظ شائستگی کی میٹھی گولی میں لپٹا ہوتا ہے جو اس کے سامنے موجود شخص کو حقیقت اگلنے پر مجبور کردیتا ہے لیکن اسے مشتعل نہیں ہونے دیتا۔ اس کی بہترین مثال بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کابھارتی صحافی کرن تھاپڑ کو دیا گیا انٹرویو ہے ۔ میری رائے ہے کہ محترمہ صائمہ کنول کو اگر صحافی بننا ہے تو وہ یہ انٹرویو ضرور دیکھیں۔مجھے یقین ہے کہ انٹرویو دیکھنے کے بعد وہ کبھی کسی سے یہ نہیں پوچھیں گی ’’او وو،تمھارے گھر میں ماں بہن نہیں ہے‘‘۔کسی کی غیرت کو جگانے سے پہلے اپنے گریبان میں جھانکئے ، کہیں ایسا نہ ہو کہ آپ خود ہی صحافت کی ماں بہن ایک کر رہے ہوں۔کالم کے آخر پر ملک کے نامور صحافی مبشرعلی زید ی کی سو لفظوں کی کہانی نقل کر رہا ہوں ۔ اگر سمجھ آجائے تو بسم اﷲ ورنہ ۔۔۔۔۔
بس میں ایک شخص چڑھا اور آواز لگائی ،
پیاری بہنو اور پیارے بھائیو،
اگرآپ کے دانت پیلے ہیں،داڑھیں ہلتی ہیں،
مسوڑھوں سے خون آتا ہے،
منہ سے بد بو آتی ہے،
کوئی بھی مسئلہ ہو ،ہمارا منجن لگائیں۔
اس منجن میں ولایتی کوئلہ ہے،دیسی نمک ہے،
کٹی ہوئی الائچی ہے، پسی ہوئی سونف ہے،
دانت اگر نہ چمکیں ، داڑھیں ہلنا بند نہ ہوں ،
منہ سے خوشبو نہ آئے تو پیسے واپس۔
میں نے اسے گھورا،
تمھارا چہرہ جانا پہنچانا لگ رہا ہے،
منجن فروش نے کہا ،
بھائی صاحب!شام کو ایک چینل پر پروگرام کرتا ہوں۔
muhammad kaleem ullah
About the Author: muhammad kaleem ullah Read More Articles by muhammad kaleem ullah: 107 Articles with 108054 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.