عورت ہونا جرم ٹھہرا

 عورت جس روپ میں ہو عزت کیے جانے کا قابل ہوتی ہے۔ وہی عورت جس کے بطن سے ہمیں پیدا کیا گیا، وہی عورت جو اپنے سینے سے رزق اپنے بچوں کے منہ میں ڈالتی ہے۔ وہی عورت جو بولنا سکھاتی ہے۔ ماں ! رب کی رضا سے رب کا زمین پر اتارا جانے والا ایک وہ نمائندہ جسے شاید رب نے اپنے ہونے کا یقین دلانے کے لیے زمین پر پیدا کیا کہ دیکھو تمھارا رب اتنا رحیم و کریم اور اتنا مہربان ہے جیسے تمھاری ماں۔ رب کی محبت کو ماں کی محبت سے تشبیہہ دی گئی اور لوگوں کو سمجھایا گیا کہ تمھارا رب تم سے ستر ماؤں سے زیادہ محبت کرتا ہے۔

اسی عورت کو شیطان کا آلۂ کار سمجھا گیا، اسے بے عزت کیا گیا، زمانۂ جاہلیت سے لے کر آج تک برائی کا منبہ ہی تصور کیا گیا۔ عورت کی عزت کا دعویٰ کرنے والے لوگوں کی زبان سے جب بھی جب بُرا کلمہ نکلا تو تو وہ برا لفظ عورت کو گالی دینے سے شروع ہوا۔ ہمارے اردگرد ہی دیکھ لیجیے جتنی گالیاں ہیں وہ عورت کے وجود سے وابستہ ہیں اور اتنی عام ہو چکی ہیں کہ حیرت اور افسوس کی کیفیت مجھ پر طاری ہوتی ہے۔ سڑکوں پر روزانہ کتنی ہی دفعہ ٹریفک جام ہوتا ہے، کتنی ہی دفعہ چھوٹے موٹے حادثات ہوتے ہیں یا کوئی شخص گاڑی غلط طریقے سے چلاتا ہے، جس پر دوسرا غصے میں چلا کر اسے انہی برے الفاظ سے نوازتا ہے جن الفاظ میں عورت کی تذلیل چھپی ہوتی ہے۔ یوں لگنے لگا ہے جیسے لوگوں کو اپنی زبان سے عورت کو گالی دے کر سکون ملتا ہے۔ میں نے بہت سے باریش بزرگوں کو بھی جب ایک دوسرے سے لڑتے ہوئے غصہ کرتے ہوئے سنا تو نہایت افسوس ہو ا کے اچھے خاصے سمجھ دار لوگ بھی اس بیماری میں مبتلا ہیں۔ زبان کے چٹخارہ بھی ہوگیا اور مدِبقابل کی ماں بہن کو گالی دے کر سکون بھی حاصل کرلیا۔
آپ میں سے اکثر یہ تحریر پڑھ کر شاید ناگواری کے احساس میں مبتلا ہو جائیں، لیکن یقین جانیے ایسا ہی ہے۔ ہم ان برائیوں کو تسلیم کرنے کے لیے تیار نہیں اور نہ ہی ان پر بات کرنا چاہتے ہیں جو ہمارے آس پاس بکھری نظر آتی ہیں۔ بہت آرام سے اپنے دامن کو بچاکر نکل جاتے ہیں یہ سوچ کر کہ ہم تو ایسے نہیں ہیں ناں تو ہمیں کیا فرق پڑتا ہے، اگر کوئی ایسا ہے تو اﷲ اسے ہدایت دے لیکن ایسا نہیں ہے معاشرے کی برائیوں سے آنکھیں چُرا کر آگے نکل جانا دراصل اس سے بڑی برائی ہے جو برائی آپ ہوتے ہوئے دیکھ رہے ہیں۔

میں چوں کہ دن میں دو دفعہ خود ڈرائیونگ کرکے نوکری پر جاتی ہوں تو روزانہ ایسے کتنے ہی لوگ مجھے نظر آتے ہیں جو عورت کے حوالے سے اپنی سوچ کی گندگی کو نہ ظاہر کر پاتے ہیں اور نہ ہی چھپا پاتے ہیں۔ جب آپ کسی برے فعل کو اپنی نگاہوں کے سامنے ہوتا ہوا دیکھیں اور آگے بڑھ جائیں تو یاد رکھیے گا کہ کل وہی سب کچھ آپ کے اپنے گھر کے فرد کے ساتھ بھی ہو سکتا ہے۔

یہاں میں اس حوالے سے دو اہم باتوں کا ذکر کروں گی۔ سب سے پہلے تو وہ واقعہ ہے جو ایک پرائیویٹ ٹی چینل کی اینکر کے ساتھ پیش آیا جو اپنی پیشہ وارانہ ذمہ داریوں کو نبھاتے ہوئے ایک سرکاری دفتر پہنچی۔ چوں کہ اس کے پروگرام کا فارمیٹ ہی کچھ ایسا ہے کہ وہ کراچی کے مختلف دفاتر اور علاقوں میں جاکر وہاں کے شہریوں کے مسائل کو حکومت کے سامنے لاتا ہے، تو ظاہر ہے اب ایک خاتون ایسے ماحول میں جہاں خواتین کی عزت سے وہ سلوک ہوتا ہو جو میں نے اوپر بیان کیا ہے، تو اس کا سخت رویہ رکھنا کوئی اچھنبے کی بات نہیں۔ بہرکیف خاتون اینکر وہاں جاتی ہیں۔ ایف سی اہل کار انہیں پروگرام کی ریکارڈنگ سے روکتا ہے، خاتون کے ساتھ آنے والی ٹیم ریکارڈنگ نہیں روکتی۔ ایف سی اہل کار کو غصہ آتا ہے اور وہ ایک زوردار تھپڑ خاتون کے منہ پر رسید کر دیتا ہے۔ اب ظاہر ہے یہ لائیو پروگرام نہیں تھا۔ اس ویڈیو کلپ کو سوشل میڈیا پر اپ لوڈ کیا گیا اور پھر ہر شخص نے اس حوالے سے اپنے نظریات اور رائے پیش کرنا اپنا فرض سمجھا۔ کسی نے خاتون کے رویے کو نشانہ بنایا اور ایف سی اہل کار کو حق بہ جانب قرار دیا کسی نے ایف سی اہل کار کو جنگل کے باسی سے تشبیہ دی۔ چینل مالکان نے ایف سی اہل کار کے خلاف ایف آئی درج کروائی جب کہ نادرا کے محکمے کی طرف سے اس چینل اور اس پروگرام کی ٹیم کے خلاف ایف آئی درج کی گئی۔

معاملہ کچھ بھی ہو، لیکن ایک عورت پر ساری دنیا کے سامنے اسے ذلیل کرنے کے لیے پیدائش حق سمجھتے ہوئے ہاتھ اٹھانا کہاں کی تہذیب ہے۔ یہ سب کچھ ایسے ہی نہیں ہوا اس کے پیچھے ہمارے معاشرے میں پنپنے والی اس سوچ کی کارفرمانی ہے جو عورت کے حوالے سے ہم رکھتے ہیں۔ پہلے اس خاتون اینکر کو سرِبازار تھپڑ مار کر اس کی عزت پر وار کیا گیا پھر اس سے ہم دردی حاصل کرنے کا جھانسا دے کر سوشل میڈیا پر اچھال دیا گیا۔ اب جس نے چاہا اسے اس لحاظ سے استعمال کیا۔ میں سمجھتی ہوں کہ تھپڑ سے زیادہ بربریت کا حامل ہمارا وہ رویہ ہے جسے ہمارے یہاں اپنانا اب برا نہیں سمجھا جاتا۔ وہ خاتون اینکر بھی کسی کے گھر کی بیٹی ہے۔ وہ بھی کسی کی بہن ہے، لیکن نہیں، ہمارے لیے تو نہایت افسوس کے ساتھ وہ بس عورت تھی، جسے ضرورت ہی کیا ہے کہ وہ گھر سے نکلے، اسے حق ہی کیا کہ وہ سوال کرے، وہ ہوتی کون ہے اپنے آپ کو صحافت کے میدان میں منوانے والی۔ تف ہے ہماری سوچ پر۔

ہم اپنے تمام تر گناہوں کو خواتین کے حوالے سے یوں لیتے ہیں جیسے یہ ہمارا حق ہو اور ان معاملات کو اہمیت بھی نہیں دی جاتی۔ لوگ اب بھی مذاق بنا رہے ہیں۔ یہ ویسا ہی ہے جیسے عورت سے منسوب گالیاں دے کر تسکین حاصل کی جاتی ہے۔ اب چاہے کسی کی جان ہی کیوں نہ لینی پڑے عزت اور غیرت کی بات آئے تب یہ عورت ہی ہے جسے اس معاشرے میں جان لے کر خود کو بہادر اور دلیر ثابت کیا جاتا ہے۔ نہ جانے کب ہمارے مرد یہ بات سمجھیں گے کہ کسی عورت کی جان لینا بہادری نہیں بل کہ اسے اس کے گناہوں کے ساتھ راہے راست پر لانے کی کوشش اور برداشت کرنا بہادری اور مردانگی ہے، جب کہ عرصۂ دراز سے پاکستان میں غیرت کے نام پر قتل کرنا قانونی لحاظ سے وہ جرم ہے جس میں سب سے زیادہ آسانیاں پیدا کر دی گئی ہیں۔ اب چاہے وہ مقتولہ نے عزت اچھالنے یا عزت کو داغ دار کرنے کا کوئی عمل کیا ہو یا نہ کیا ہو، اس کو عزت اور غیرت کے نام پر قتل کا نام دیتے ہوئے قتل کر دیا جاتا ہے اور ہمارا قانون خاموش تماشائی کی طرح اس معاشرے میں پلنے والے بھڑیوں کو مزید گناہ کرنے کے لیے آزاد چھوڑ دیتا ہے۔

اگرچہ پارلیمینٹ نے غیرت کے نام پر قتل اور زنابالجبر کے روک تھام کا بل منظور کرلیا ہے، جس کی تفصیلات سامنے آچکی ہیں، لیکن کوئی بل کوئی قانون معاشرے کی سوچ اور رویے نہیں بدل سکتا، اس کے لیے معاشرے کو اپنی سوچ اور رویے کا جائزہ لینا ہوگا۔
Sana Ghori
About the Author: Sana Ghori Read More Articles by Sana Ghori: 317 Articles with 279385 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.