اہل قلم پاک فوج کے شانہ بشانہ

کالم نگار کسی بھی معاشرے کا اہم طبقہ ہوتے ہیں لیکن قلم کے سپاہیوں کو وہ مقام جو ملنا چاہئے میسر نہیں۔اہل قلم پاکستان بھر میں شدید مشکلات کا شکار ہیں۔اگر اپنے کالم میں کسی کے خلاف ایک لفظ بھی لکھ دیا جائے تو دھمکیاں ملنا شروع ہو جاتی ہیں اور دوسروں کے لئے آواز اٹھانے والے ان اہل قلم کے بارے کوئی آواز بلند نہیں کرتا۔پاکستان میں کالم نگاروں کے حقوق کے لئے مختلف تنظیمیں کام کر رہی ہیں۔کالمسٹ کونسل آف پاکستان کے بانی صدر عقیل خان ہیں جوایک محب وطن کالم نگار ہیں انکی ہر تحریرسے پڑھنے والے کو رہنمائی ملتی ہے۔عقیل خان سیاست سمیت حالات حاضرہ ،اہم موضوعات پر لکھتے ہیں ۔ان کے کالم قومی اخبارات میں شائع ہوتے ہیں۔کالمسٹ کونسل آف پاکستان کے موجودہ صدر ایم اے تبسم ہیں جو لاہور کے رہائشی ہیں ۔اگرچہ کالم نگاروں کی یہ پرانی تنظیم ہے لیکن فعال نہیں،شاید عقیل خان کو دوبارہ صدر بنا دیا جائے تو یہ تنظیم فعال ہو سکتی ہے۔ایک اور تنظیم پاکستان فیڈرل یونین آف کالمسٹ ہے جو ٹوٹ چکی ہے اور اس میں سے ایک دھڑا پاکستان کونسل آف کالمسٹ کے نام سے کام کر رہا ہے جو صرف سندھ تک محدود ہے،پنجاب میں اس کی کوئی سرگرمی نہیں ،کئی عہدیدار استعفے دے چکے ہیں۔پاکستان فیڈرل یونین آف کالمسٹ سالانہ ایک سیمینار کرتی ہے جس میں سینئر کالم نگاروں کو مدعو کیا جاتا ہے اور نئے لکھاریوں کی تربیت کی جاتی ہے۔اس سیمینار کے علاوہ اس تنظیم کی بھی کالم نگاروں کے حقوق کے لئے کوئی متحرک کارکردگی نہیں۔چند ماہ قبل ورلڈ کالمسٹ کلب کے نام سے تنظیم بنی جس کے چیئرمین حافظ شفیق الرحمان جو نئی بات میں ایڈیٹوریل انچارج ہیں وہ بنے،ناصر اقبال خان صدر اور باقی عہدیداراروں کی ایک لمبی فہرست ہے۔اس تنظیم نے پاکستان کے مختلف شہروں میں تنظیم سازی کی اور عہدیدار بنائے ،انٹرنیشنل سطح پر بھی لوگ ورلڈ کالمسٹ کلب کے ساتھ چلے لیکن بدقسمتی سے اہل قلم کا اتحا د قائم نہ رہ سکا اور یہ تنظیم بھی ٹوٹ گئی۔حافظ شفیق الرحمان نے ذوالفقار راحت کو مرکزی صدر بنا دیا جبکہ ناصر اقبال خان کو عہدے سے ہٹا دیا گیا۔کور کمیٹی کے اجلاس میں یہ سب کچھ ہوا ۔ناصر اقبال خان ایک سینئر کالم نگار ہیں اور قومی اخبارات میں ان کے کالم شائع ہوتے ہیں۔کالم نگاروں کے حقوق کے لئے آواز بلند کرتے رہتے ہیں۔ورلڈ کالمسٹ کلب کیوں ٹوٹی؟پھوٹ کیوں او ر کیسے پڑی ؟ناصر اقبال خان کو عہدے سے کیوں ہٹایا گیا ؟کور کمیٹی کی میٹنگ میں صدر کی عدم موجودگی میں نیا صدر کیوں لایا گیا؟یہ چند سوالات ہیں جن پر کوشش کی کہ معلومات حاصل ہوں۔ذرائع کا کہنا ہے کہ ورلڈ کالمسٹ کلب کی تنظیم سازی میں جب انتہائی محترم سینئر صحافی و کالم نگار حافظ شفیق الرحمان کو چیئرمین بنایا گیا تو انہوں نے ورلڈ کالمسٹ کلب کو ’’نئی بات کالمسٹ کلب ‘‘ بنا لیااور زیادہ تر عہدے نئی بات میں ہی لکھنے والوں کو دے دیئے۔ناصر اقبال خان سب خاموشی سے دیکھتے رہے۔کورکمیٹی میں شامل اور مرکزی عہدیدران میں یوسف سراج نئی بات میں لکھتے تھے جو اب پاکستان میں لکھ رہے ہیں۔عبدالستار اعوان نئی بات میں ،ناصف اعوان نئی بات میں ،ریاض احمد سیکرٹری اطلاعات نئی بات میں،بلکہ اس کے بعد لاہو ر چیپٹر کے عہدے بھی نئی بات کو ہی دے دیئے گئے ،حافظ ذوہیب طیب نئی بات،حافظ طارق عزیز نئی بات،شہباز سعید آسی نئی بات او ر سید بدر سعید جو فیملی میگزین میں لکھتے تھے ان کے کالم بھی اب نئی بات میں شائع ہو رہے ہیں۔نوے فیصد عہدیداروں کا تعلق نئی بات سے تھا اسی لئے میں نے اسے نئی بات کالمسٹ کلب لکھا ،پھر دیگر اضلاع میں بھی تنظیم سازی کے وقت نئی بات کے کالم نگاروں کو ہی ترجیحی طور پر عہدے دیئے گئے جبکہ دیگر اخبارات میں لکھنے والے سینئر ترین کالم نگاروں کوان کا حق نہیں دیا گیا۔گزشتہ دنوں ورلڈ کالمسٹ کلب کے زیر اہتمام پاک فوج سے یکجہتی کے لئے اور بھارت کے کشمیر میں مظالم کے خلاف لاہور پریس کلب کے سامنے احتجاج کیا گیا،جس کا فیصلہ کورکمیٹی کے اراکین نے کیا تھا۔جناب چیئرمین کی بھی تائید تھی ۔اس احتجاجی مظاہرے میں کثیر تعداد میں اہل قلم پہنچے اور پاک فوج کو پیغام دیا کہ ضرورت پڑنے پر اہل قلم بھی اپنے قلم چھوڑ کر ملک کے دفاع کے لئے پاک فوج کے شانہ بشانہ ہوں گے۔نوائے وقت کے سینئر صحافی ڈاکٹر اجمل نیاز ی نے بھی اس پروگرام میں شرکت کی ۔لیکن شرکت نہیں کی تو نئی بات کے کالم نگاروں نے،حافظ شفیق الرحمان خود بھی نہیں گئے بلکہ ان کے زیر اثر کالم نگار بھی اس پروگرام میں نہیں پہنچے ۔لاہور کے عہدیدار بالکل غائب تھے کیونکہ ان میں اکثریت نئی بات کے کالم نگاروں کی ہے اور کورکمیٹی کے جو عہدیدار نئی بات کے کالم نگار ہیں وہ پہنچے تو صرف رپورٹ لینے اور دینے کے لئے پہنچے ۔جنہوں نے مظاہرے کی رپورٹ مرتب کر کے جناب چیئرمین کو پیش کی اور اس کے بعد سوشل میڈیا پر ناصر اقبال خان کی جانب سے لگائی جانے والی ایک پوسٹ کو خواہ مخواہ کا ایشو بناکر کور کمیٹی کا اجلاس بلا کر نیا صدر بنا لیا گیا۔فیس بک پر جناب شفیق الرحمان جو انتہائی محترم ہیں اور سینئر ،بزرگ کالم نگار ہیں پر الزام تراشی کی گئی ،بہتان باندھے گئے جو نہیں ہونے چاہئے تھے،اگر وہ اصلی آئی ڈیز تھیں تو ان کا پیچھا کیا جانا چاہئے تھا ،فیک تھی تو بھی معلوم کرنا چاہئے تھا،ھافظ شفیق الرحمان جن کو کالم نگاروں کا استاد مانا اور کہا جاتا ہے ان کے خلاف غلیظ زبان استعمال کرنے والوں کا محاسبہ انتہائی ضروری تھا اگر ایسا نہیں کیا گیا تو اس پر کام ہونا چاہئے۔سوشل میڈیا پر پوسٹ لگنے کے بعد سے لے کر کورکمیٹی کے اجلاس اور پھر صدر کی تبدیلی کے بعد بھی ناصر اقبال خان تا حال خاموش ہیں۔انہوں نے کسی کی پوسٹ کا کوئی جواب نہیں دیا ۔کالمسٹ کلب میں جو کچھ ہوا وہ نہیں ہونا چاہئے تھا،اہل قلم کو اتحا د کا مظاہرہ کرنا چاہئے تھا لیکن ایسا نہیں ہو سکا،بلکہ ایک ایسے فرد کو کلب سے فارغ کیا گیا جو سب سے زیادہ متحرک تھا ۔ناصر اقبال خان آج بھی ورلڈ کالمسٹ کلب کا خود کو صدر کہتے ہیں اور وہ حقیقت میں صدر ہی ہیں کیونکہ انہوں نے کالم نگاروں کے حقوق کی بات کی تھی ۔ورلڈ کالمسٹ کلب کی بہتری کے لئے ناصر اقبال خان جو بھی فیصلہ کریں گے اہل قلم اسے تسلیم کریں گے۔اب جناب حافظ شفیق الرحمان کی قیادت میں اہل قلم کی تنظیم کو ’’نئی بات کالمسٹ کلب‘‘ ہی نام رکھ لینا چاہئے کیونکہ ورلڈ کالمسٹ کلب کی باگ ڈور ناصر اقبال خان کے ہاتھ میں ہے اور وہ جو بھی فیصلہ کریں گے کالم نگاروں کی اکثریت قبول کرے گی ہاں نئی بات میں لکھنے والے نہیں کرتے تو کوئی بات نہیں کیونکہ انکا اپنا’’نئی بات کالمسٹ کلب‘‘ جو ہے۔نئی بات میں لکھنے والوں کے لئے ایک بری اور اچھی خبر بھی ہے کہ حافظ شفیق الرحمان جلد بول کو جوائن کرنے والے ہیں کیونکہ ان کے دوست بول میں چلے گئے ہیں او ر وہ انہیں وہاں ایڈجسٹ کرنے کی سر توڑ کوششوں میں لگے ہوئے ہیں اب نئی بات میں لکھنے والوں کے کالم پھر بول میں شائع ہوں گے اور ایک نئے’’بول کالمسٹ کلب‘‘ کا قیام وجود میں آجائے گا۔
Shoaib Malik
About the Author: Shoaib Malik Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.