جس چیز کی جو حد مقرر کی گئی ہے اس سے آگے نکل جانا غلو و ممنوع ہے!

دینِ اسلام دینِ فطرت اور ہر قسم کے افراط و تفریط سے پاک و صاف، اﷲ تعالیٰ کی طرف سے قیامت تک آنے والے انسانوں کے حق میں پسند کیا ہوا مبارک دین ہے ، جس میں کسی کمی وبیشی کی گنجائش ہے اور نہ افراط و تفریط کی۔ دین میں کی جانے والے افراط و تفریط ہی کو گویا ’غلو‘ سے تعبیر کرتے ہیں۔ اﷲ سبحانہ و تعالیٰ اور اس کے محبوب، رحمۃ للعالمین، حضرت محمد صلی اﷲ علیہ وسلم نے اس دین کو قیامت تک کے لیے چور دروازوں سے محفوظ کرنے کی خاطر غلو جیسے مہلک امراض کی نہ صرف مکمل نشان دہی کی بلکہ اہلِ اسلام کو ان سے احتراز کرنے کی خصوصی تاکید بھی فرمائی، مگر افسوس! فی زمانہ امت کا ایک بڑا طبقہ مختلف بلکہ تمام شعبوں میں غلو فی الدین کا شکار ہے ۔ غلو انسان کو صراطِ مستقیم سے منحرف کر دیتا ہے اور دیگر برائیوں کے بالمقابل غلو کی سب سے بڑی نحوست یہ ہے کہ اس کا کرنے والا یعنی ’غالی‘ اپنے عمل کو ہر آن درست ٹھہرانے بلکہ دوسروں پر تھوپنے کے در پے ہوتا ہے ، جس سے دین میں بدعات کا دروازہ کھلتا ہے اور اس کی اصل صورت مسخ ہو کر رہ جاتی ہے ۔ غلو کے اسباب میں سے جہالت و ناواقفیت کے علاوہ ہواے نفسانی کی پیروی اور غیر مستند و غیر معتبر باتوں پر اعتماد کرنا اور علاج صحیح علم حاصل کرنے اور اس کی اتباع کی ہر ممکن کوشش کرنے کے ساتھ اﷲ سبحانہ و تعالیٰ سے صراطِ مستقیم کی دعائیں مانگنا ہے۔

غلو کی مذمت قرآن و احادیث میں
ارشادِ باری تعالیٰ ہے :(مفہوم)اور ان سے یہ بھی کہو کہ اے اہل کتاب ! اپنے دین میں ناحق غلو نہ کرو اور ان لوگوں کی خواہشات کے پیچھے نہ چلو جو پہلے خود بھی گمراہ ہوئے ، بہت سے دوسروں کو بھی گمراہ کیااور سیدھے راستے سے بھٹک گئے ۔ (المائدہ:77)دوسرے مقام پر ارشاد فرمایا:(مفہوم)اے اہلِ کتاب اپنے دین میں حد سے نہ بڑھو اور اﷲ کے بارے میں حق کے سوا کوئی بات نہ کہو۔ مسیح عیسیٰ ابن مریم تو محض اﷲ کے رسول تھے اور اﷲ کا ایک کلمہ تھا جو اس نے مریم تک پہنچایا، اور ایک روح تھی جو اسی کی طرف سے پیدا ہوئی تھی۔ لہٰذا اﷲ اور اس کے رسولوں پر ایمان لاؤ اور یہ مت کہو کہ خدا تین ہیں۔ اس بات سے باز آجاؤ کہ اسی میں تمھاری بہتری ہے ، اﷲ تو ایک ہی معبود ہے وہ اس بات سے بالکل پاک ہے کہ اس کا کوئی بیٹا ہو۔ آسمانوں اور زمین میں جو کچھ ہے اسی کا ہے اور سب کی دیکھ بھال کے لیے اﷲ کافی ہے ۔ (النساء:171)

اسی طرح رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے احادیثِ مبارکہ میں بھی غلو کی مذمت بیان فرمائی ہے ،آپ نے تاکید کے ساتھ یک بارگی تین بار ارشاد فرمایا غلو کرنے والے ہلاک ہوگئے ۔(مسلم )حضرت عبد اﷲ ابن عباسؓ سے روایت ہے : دس ذی الحجہ کی صبح کو رسول کریم صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے مجھ سے ارشاد فرمایا تم یہاں آجاؤ اور تم میرے واسطے کنکریاں چن کر لاؤ، آپ صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم اس وقت اپنی اونٹنی پر سوار تھے ۔ چناں چہ میں نے آپ صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کے واسطے چھوٹی چھوٹی کنکریاں چن لیں جو کہ انگلیوں سے پھینکی جاسکتی ہیں، جب میں نے کنکریاں آپ صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کے مبارک ہاتھ میں دیں تو آپ صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا تم ایسی ہی کنکریوں سے رمی کرو اور دین میں غلو سے بچنا کیوں کہ تم سے پہلے امتیں دین میں غلو اختیار کرنے کی وجہ سے ہلاک ہوگئیں۔(ابن ماجہ، نسائی)ایک مرتبہ رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے دیکھا کہ مسجدِ نبوی میں ایک رسّی بندھی ہوئی ہے، آپ کے دریافت کرنے پر بتایا گیا کہ یہ ام المؤمنین حضرت زینب رضی اﷲ عنہا نے بندھوائی ہے ، رات میں نفل نمازوں کی کثرت سے جب وہ تھک جاتی ہیں تو اس کا سہارا لے لیتی ہیں۔ آپ نے رسّی کھلوادی اور فرمایا :جب تک آدمی نشاط محسوس کرے تب تک نماز پڑھے ، جب تھک جائے تو سو جائے ۔(بخاری،مسلم)

غلوکے لغوی وشرعی معنی
’الغُلُوْ‘ کے معنی کسی چیز کے حد سے تجاوز کر جانے کے ہیں، اگر یہ اشیا کے نرخ میں ہو تو اسے ’غَلَاء‘ (گرانی) کہا جاتا ہے اور قدر و منزلت میں ہو تو اسے ’غُلُوْ‘ کہتے ہیں ۔(المفردات القرآن)اردو زبان کی مشہور لغت ’فرہنگِ آصفیہ‘ میں لکھا ہے : ’حد سے گزرنا‘ یا علمِ معانی کی اصطلاح میں مبالغے کی ایک قسم کو’ غلو ‘کہتے ہیں۔

یعنی غلو کے معنی حد سے نکل جانے کے ہیں، دین میں غلو کا مطلب یہ ہے کہ اعتقاد و عمل میں دین نے جو حدود مقرر کی ہیں ان سے آگے بڑھ جائیں، مثلاً انبیاء کی تعظیم کی حد یہ ہے کہ ان کو خلقِ خدا میں سب سے افضل جانے، اس حد سے آگے بڑھ کر اُنھی کو خدا یا خدا کا بیٹا کہہ دینا اعتقادی غلو ہے ۔ انبیاء اور رسل کے معاملے میں بنی اسرائیل کے یہ دو متضاد عمل کہ یا تو ان کو جھوٹا کہیں اور قتل تک سے دریغ نہ کریں،یا یہ زیادتی کہ ان کو ہی خدا یا خدا کا بیٹا قرار دے دیں، یہ وہی افراط وتفریط ہے جو جہالت کے لوازم سے ہے ۔ عرب کا مشہور مقولہ الجاہل أما مفرِط أومفرِّط یعنی جاہل آدمی کبھی اعتدال اور میانہ روی پر نہیں رہتا، بلکہ یا افراط میں مبتلا ہوتا ہے یا تفریط میں، افراط کے معنی حد سے آگے بڑھنے کے ہیں اور تفریط کے معنی ہیں فرض کی ادایگی میں کوتاہی اور کمی کرنے کے ۔یہ افراط وتفریط یہ بھی ممکن ہے کہ بنی اسرائیل کی دو مختلف جماعتوں کی طرف سے عمل میں آئی ہواور یہ بھی ممکن ہے کہ ایک ہی جماعت کے یہ دو مختلف عمل مختلف انبیاء علیہم السلام کے ساتھ ہوئے ہوں کہ بعض کی تکذیب و قتل تک نوبت پہنچ جائے اور بعض کو خدا کے برابر بنادیا جائے ۔ ان آیات میں اہلِ کتاب کو مخاطب کر کے جو ہدایت ان کو اور قیامت تک آنے والی نسلوں کو دی گئی ہیں وہ دین و مذہب اور اس کی پیروی میں ایک بنیادی اصول کی حیثیت رکھتی ہیں کہ اس سے ذرا اِدھر اُدھر ہونا انسان کو گمراہیوں کے غار میں دھکیل دیتا ہے ۔

امام حصاص نے ’احکام القرآن‘ میں فرمایا :دین کے بارے میں غلو یہ ہے کہ دین میں جس چیز کی جو حد مقرر کی گئی ہے اس سے آگے نکل جائے۔ اہلِ کتاب یعنی یہود و نصاری دونوں کو اس حکم کا مخاطب اس لیے بنایا گیا کہ غلوفی الدین ان دونوں میں مشترک ہے اور یہ دونوں فرقے غلوفی الدین ہی کے شکار ہیں، کیوں کہ نصاریٰ نے تو عیسیٰ علیہ السلام کو ماننے اور ان کی تعظیم میں غلو کیا، ان کو خدا یا خدا کا بیٹا یا تیسرا خدا بنادیا اور یہود نے ان کے نہ ماننے اور رد کرنے میں غلو کیا کہ ان کو رسول بھی نہ مانا، بلکہ معاذ اﷲ ان کی والدہ ماجدہ مریم پر تہمت لگائی اور ان کے نسب پر عیب لگایا۔چوں کہ غلو فی الدین کے سبب یہود و نصاریٰ کی گمراہی اور تباہی مشاہدے میں آچکی تھی، اس لیے رسولِ اکرم صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم نے اپنی امت کو اس معاملے میں پوری احتیاط کی تاکید فرمائی۔(معارف القرآن)

غلو کا حکم
دین اصل میں چند حدود وقیود ہی کا نام ہے ، اس حدود کے اندر کوتاہی کرنا اور کمی کرنا جس طرح حرام ہے اسی طرح ان سے آگے بڑھنا اور زیادتی کرنا بھی جرم ہے ، جس طرح رسولوں اور ان کے نائبوں کی بات نہ ماننا ان کی توہین کرنا گناہِ عظیم ہے اسی طرح ان کو اﷲ تعالیٰ کی صفاتِ مخصوصہ کا مالک یا مساوی سمجھنا اس سے زیادہ گناہِ عظیم ہے ۔(معارف القرآن)علامہ ابن القیم رحمہ اﷲ نے غلو کو کبائر میں شمار کرتے ہوئے فرمایا: مخلوق کے بارے میں غلو کرنا حتیٰ کے اس کے مقام سے تجاوز کیا جائے ، بعض اوقات یہ غلو گناہِ کبیرہ سے شرک کی طرف لے جاتا ہے ۔(اعلام الموقعین)

اصولِ خمسہ
علما ء نے غلو و بدعات کے نہایت اہم اصول لکھے ہیں، جن کو مختصراً نقل کرنا ضروری خیال ہوتا ہے ، فرماتے ہیں:
(۱)کسی امرِ غیر ضروری کو اپنے عقیدے میں ضروری اور مؤکد سمجھ لینا یا عمل میں اس کی پابندی اصرار کے ساتھ اس طرح کرنا کہ فرائض و واجبات کی مثل یا زیادہ اس کا اہتمام ہو اور اس کے ترک کو مذموم اور تارک کو قابلِ ملامت و شناعت جانتا ہو، یہ دونوں امر ممنوع ہیں، کیوں کہ اس میں حکمِ شرعی کو توڑ دینا ہے ۔
(۲)فعلِ مباح بلکہ مستحب بھی کبھی امرِ غیر مشروع کے مل جانے سے غیر مشروع و ممنوع ہو جاتا ہے ، جیسے دعوت میں جانا مستحب بلکہ سنت ہے لیکن وہاں اگر کوئی امر خلافِ شرع ہو، اس وقت جانا ممنوع ہو جائے گا۔
(۳)چوں کہ دوسرے مسلمانوں کو ضَرر سے بچانا فرض ہے ، اس لیے اگر خواص کے کسی غیر ضروری فعل سے عوام کے عقیدے میں خرابی پیدا ہوتی ہو تو وہ فعل خواص کے حق میں بھی مکروہ و ممنوع ہو جاتا ہے ، خواص کو چاہیے کہ وہ فعل ترک کر دیں۔۔حدیثوں میں سجدۂ شکر کا فعل مباح ہے ، مگر فقہاے حنفیہ نے حسبِ قول علامہ شامیؒ اس لیے مکروہ کہا ہے کہ کہیں عوام اس کو سنتِ مقصودہ نہ سمجھنے لگیں۔
(۳)جس امر میں کراہت عارضی ہو، اختلافِ ازمنہ و امکنہ و اختلافِ تجربہ و مشاہدۂ اہلِ فتویٰ سے اس کا مختلف حکم ہو سکتا ہے یعنی یہ ممکن ہے کہ ایسے امر کو ایک زمانے میں جائز کیا جائے کیوں کہ اس وقت اس میں وجوہ کراہت کی نہیں تھیں اور دوسرے زمانے میں ناجائز کہہ دیا جائے ، اس لیے کہ اس وقت علتِ کراہت کی پیدا ہو گئی یا ایک مقام پر اجازت دی جائے دوسرے ملک میں منع کر دیا جائے ۔۔۔حدیث و فقہ میں اس کے بے شمار نظائر مذکور ہیں۔
(۵)اگر کسی امرِ خلافِ شرع کرنے سے کچھ فایدہ اور مصلحتیں بھی ہوں، جن کا حاصل کرنا شرعاً ضروری نہ ہو، [یاان کا حاصل کرنا ضروری تو ہو لیکن] اس کے حاصل کرنے کے اور طریقے بھی ہوں اور ایسے فایدوں کے حاصل کرنے کی نیت سے وہ فعل کیا جائے ، یا ان فایدوں سے مرتب دیکھ کر عوام کو اس سے نہ روکا جائے ، یہ بھی جائز نہیں ۔ نیک نیت سے مباح تو عبادت بن جاتا ہے اور معصیت مباح نہیں ہوتی، خواہ اس میں ہزار مصلحتیں اور منفعتیں ہوں، نہ اس کا ارتکاب جائز، نہ اس پر سکوت جائز، اور یہ قاعدہ بہت ہی بدیہی ہے ۔(اصلاح الرسوم)

غلو کی تباہ کاریاں
افسوس کہ قرآن و احادیث اور علماے محققین کے اس قدر اہتمام اور شریعت کی اتنی پابندیوں کے باجود آج امتِ مسلمہ تقریباً تمام ابواب میں غلو کی شکار ہے ، دین کے سارے ہی شعبوں میں اس کے آثار نمایاں ہیں، ان میں سے بالخصوص جو چیز ملت کے لیے مہلک اور انتہائی مضر ثابت ہو رہی ہے وہ دینی مقتدا و پیشواؤں کا معاملہ ہے ، مسلمانوں کی ایک جماعت تو اس پر گئی ہے کہ مقتدا و پیشوا، علماو عرفا کوئی چیز نہیں، کتاب اﷲ ہمارے لیے کافی ہے ، جیسے وہ اﷲ کی کتاب سمجھتے ہیں ہم بھی سمجھ سکتے ہیں، ھم رجال ونحن رجال یعنی وہ بھی آدمی ہیں ہم بھی آدمی ہیں۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ ہر ہوس ناک جو نہ عربی زبان سے واقف ہے نہ قرآن کے حقائق معارف سے ، نہ رسولِ کریم صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کے بیان و تفسیر سے ، محض قرآن کا ترجمہ دیکھ کر اپنے کو قرآن کا عالِم کہنے لگا۔ قرآنِ کریم کی جو تفسیر و تشریح خود رسولِ کریم صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم یا آپ کے بلاواسطہ شاگرد یعنی صحابۂ کرامؓ سے منقول ہے اس سب سے قطعِ نظر جو بات ذہن میں آگئی اس کو قرآن کے سر تھوپ دیا۔۔۔دوسری طرف ایک بھاری جماعت مسلمانوں کی اس غلو میں مبتلا ہوگئی کہ اندھا دھند جس کو چاہا اپنا مقتدا اور پیشوا بنا لیا، پھر ان کی اندھی تقلید شروع کردی، نہ یہ معلوم کہ جس کو ہم مقتدا اور پیشوا بنا رہے ہیں یہ علم و عمل اور صلاح وتقویٰ کے معیار پر صحیح بھی اترتا ہے یا نہیں؟ اور نہ پھر اس طرف کوئی دھیان کیا کہ جو تعلیم یہ دے رہا ہے وہ قرآن و سنت کے مخالف تو نہیں ؟

شریعتِ اسلام نے غلو سے بچا کر ان دونوں کے درمیان طریقۂ کار یہ بتلایا کہ کتاب اﷲ کو رجال اﷲ سے سیکھو اور رجال اﷲ کو کتاب اﷲ سے پہچانو، یعنی قرآن و سنت کی مشہور تعلیمات کے ذریعے پہلے ان لوگوں کو پہچانو جو کتاب و سنت کے علوم میں مشغول ہیں اور ان کی زندگی کتاب و سنت کے رنگ میں رنگی ہوتی ہے ، پھر کتاب و سنت کے ہر الجھے ہوئے مسئلے میں ان کی تفسیر و تشریح کو اپنی رائے سے مقدم سمجھو اور ان کا اتباع کرو۔(معارف القرآن)

اﷲ تعالیٰ ہمیں اور پوری امتِ مسلمہ کو دین میں غلو کرنے سے محفوظ فرمائے اور قرآن و سنت کے مطابق عمل کی توفیق سے نوازے۔ آمین
Maulana Nadeem Ahmed Ansari
About the Author: Maulana Nadeem Ahmed Ansari Read More Articles by Maulana Nadeem Ahmed Ansari: 285 Articles with 306798 views (M.A., Journalist).. View More