سب سے پہلے پاکستان

پاکستان میں سن دو ہزار کے بعد آنے والی تبدیلی نے جہاں اس ملک کے تمام شعبوں پر اثر ڈالا وہیں اس نے لوگوں کو ایک دوسرے سے اس قدر نزدیک کر دیا کہ ہمارا ہر عمل کسی نہ کسی طور پر ایک دوسرے پر اثر ڈال رہا ہے پاکستان میں آنے والے نیوز چینلز نے عوام کی زندگیوں میں ایک انقلاب برپا کر دیا ساتھ ساتھ اسی کی وجہ سے کئی طرح کے مسائل بھی سامنے آنا شروع ہوئے ان مسائل کی بنیادی وجہ اس سسٹم کاریگولائز نہ ہونا بھی تھا کیونکہ اس کو لانچ کرتے وقت کوئی ٹھوس منصوبہ بندی نہیں کی گئی تھی جس کی وجہ سے معاملہ بہت بگڑ گیا اور جب اس پر کام کرنے کی ضرورت محسوس کی گئی تب تک بہت دیر ہو چکی تھی پاکستان میں میڈیا کی آزادی کو تو ہر کوئی جانتاہے یہ ایک ایسا بے لگام گھوڑا ہو چکا ہے جس کو روکنا اب شاید ریاست کے بس میں بھی نہیں ہے لیکن آزاد میڈیا کے بہت سے مثبت اور بہت سے منفی پہلو بھی گاہے بگاہے سامنے آتے رہتے ہیں جس سے اب یہ بحث بھی چھڑ چکی ہے کہ آخر اس کا کوئی اینڈبھی ہو گا یہ پھر جو بھی ہو گا دیکھا جائے گا اس کے برعکس بعض سنجیدہ حلقے یہ کہتے نظر آتے ہیں کہ اس بارے میں سخت اور قابل عمل قوانین مرتب کرنے اور ان کو عملی طور پر لاگو کرنے سے یہ ہی یہ مسئلہ حل ہو سکتا ہے ہمارے ہاں صحافی اپنی ریٹنگز کے چکر میں بعض اوقات اپنی جان تک داؤ پر لگا دیتے ہیں یہی وجہ ہے کہ گزشتہ سالوں میں کئی صحافی مختلف حادثات کی کوریج کے دوران جانبحق ہو چکے ہیں اب جو صحافی اس حد تک جا سکتا ہے اس کو یہ سکھانے کی ضرورت اور بھی زیادہ ہو جاتی ہے کہ کسی بھی خبر کے لئے خود خبر بن جانے سے بہتر ہے کہ وہ خبر ہی نہ لی جائے اسی طرح بعض ہمارے دوست لکھتے ہوئے ملکی سلامتی تک داؤ پر لگا دیتے ہیں کیونکہ جب مائک یا قلم ہاتھ میں ہو اور بندہ لائیو جا رہا ہو تو پھر رکنا کیسا جو منہ میں آیا بول دیا ایسے میں بولتے وقت بہت سے لوگ وہ الفاط بھی بول جاتے ہیں جو ملکی سلامتی کے لئے نقصان دہ ہو سکتے ہیں حال ہی میں ملک کے معروف اخبار میں چھپنے والی خبر کا تذکرہ زبان زد عام ہے اور اس کی وجہ سے جو پاکستان کا امیج خراب ہوا ہے وہ کسی سے چھپا ہوا نہیں ہے اب یہ ضروری نہیں تھا کہ وہ صاحب جنھوں نے یہ خبر بریک کی تھی کچھ تھوڑا سوچ لیتے سمجھ لیتے کہ ایسی خبر سے کیا وہ پاکستان کی سیکیورٹی کے ساتھ تو نہیں کھیل رہے کیا اس سے ملک دشمن عناصر کو کوئی مدد تو نہیں ملنے والی مگر ہمارے ہاں جو بھی خوب مرچ مسالے لگانے میں ماہر ہو اسے ہی دبنگ صحافی سمجھا جاتا ہے اس خبر کی اشاعت حکمران جماعت ،یا میڈیا کا نہیں بلکہ ہم سب کا مشترکہ مسئلہ ہے کیونکہ اس خبر سے ہمارے دشمن کو الزام تراشی کا موقع ملا ہے بھارتی میڈیا نے اس خبر کے بعد واویلا مچا دیا کہ پاکستان سے متعلق جو بھارت کہتا تھا وہ بات سچ ثابت ہوگئی ہے اس خبر کے ذریعے دشمن کے بیانیہ کی تشہیر ہوئی ہے اب سوال یہ ہے کہ اس کو روکنا کس کا کام ہے کیونکہ پاکستان کے علاوہ دنیا کے تمام ممالک میں ایسی خبروں کی اشاعت ممنوع ہے جن سے ملکی سلامتی کے اداروں پر کوئی آنچ آئے امریکہ جیسے ملک میں عدالتیں فیصلہ دے چکی ہیں کہ قومی سلامتی کے معاملے میں خبر کے ذرائع بتانے چاہیں اس خبر نے ہمارے دشمنوں کو ہمیں چارج شیٹ کرنے کا موقع دیا بعض لوگ اس معاملہ کو آزادی صحافت کے تناظر میں دیکھنے کی کوشش کررہے ہیں یہ انداز فکر درست نہیں ہے پہلی بات تو یہ ہے کہ خبر حقائق پر مبنی ہونی چاہیے تاہم دوسرا اہم پہلو یہ ہے کہ کیا قومی سلامتی کے معاملہ میں کسی اخبار یا اخبار نویس کی کوئی ذمہ داری نہیں ہے؟ کیا آزادی صحافت ملک اور اس کے عوام کے مفادات سے بھی بلند تر ہے۔ ؟ دنیا بھر میں ارباب صحافت ملکی سلامتی اور مملکت و عوام کے مفادات کو پیش نظر رکھتے ہیں مغربی ملکوں میں حقیقی معانوں میں پولیس کی آزادی ہے لیکن اس کے باوجود وہاں کے صحافیوں نے ہمیشہ قومی سلامتی اور ملکی مفادات کے منافی اطلاعات کو خبر بنانے سے گریز کیا ہے اس وقت جب قوم دہشت گردی کے خلاف حالت جنگ میں ہے اور بھارت کی طرف سے جنگ کی دھمکیوں اور ایل او سی پر اشتعال انگیزیوں کا سلسلہ جاری ہے اس نوع کی اطلاعات جو دشمن کے مذموم مقاصد کو تقویت پہنچاتی ہوں ان کی اشاعت محض اتفاق نہیں ہے اس بارے میں مکمل تحقیقات ہونی چاہیے اور قومی سلامتی سے کھیلنے والوں کیخلاف قانون کے مطابق کارروائی ہونی چاہیے جو این جی اوز اس معاملہ میں مداخلت کرتے ہوئے اسے آزادی صحافت سے تعبیر کرتے ہوئے حکومتی اقدامات کو آزادی کی راہ میں رکاوٹ قرار دے رہی ہیں ان کی سرگرمیوں پر بھی کڑی نظر رکھی جانی چاہیے۔اور خصوصا صحافی برادری کو یہ یاد رکھنا چاہے کہ یہ ملک ہمارا ہے اس کی سرحدوں کی حفاظت ہماری مسلح افواج کر رہی ہیں جو کہ ان کا کام ہے اور اس کی نظریاتی سرحدوں کی حفاظت ہم قلم کاروں کا کام ہے جو ہم نے کرنا ہے یہ ہم پر ہے کہ ہم اس کے لئے کیا کرتے ہیں ایک ایسے وقت میں جب دشمن ہم پر یلغار کرنا چاہتا ہے وہ ہمیں سر عام پوری دنیا میں تنہا کرنے کے واضح اعلانات کر رہا ہے اور ہم اسی کی بولی بولتے ہوئے اس کے آلہ کر بن جائیں یہ تو ہماری پاکستانیت کی توہین ہے اس لئے ہمیں خود سے یہ پوچھنا ہو گا کہ جو ہم لکھ رہے ہیں کیا اس کے نتائج ملکی سلامتی کے لئے خطرناک تو نہیں ہمیں قلم اٹھانے سے پہلے سب سے پہلے پاکستان کو دیکھنا ہو گا کیونکہ اس ملک سے ہم ہیں اور اس سے ہی ہماری صحافت۔
rajatahir mahmood
About the Author: rajatahir mahmood Read More Articles by rajatahir mahmood : 304 Articles with 206254 views raja tahir mahmood news reporter and artila writer in urdu news papers in pakistan .. View More