پولیو کا علاج ……بروقت احتیاط!

ماہ اکتوبر کے آخر ی عشرہ میں پاکستان سمیت دنیا بھر میں پولیو سے آگاہی کا عالمی دن اس عزم کے ساتھ منایا جاتا ہے کہ دنیا بھر سے پولیو وائرس کا کا خاتمہ یقینی بنایا جائے گا تاکہ تمام افراد کو اس کے سبب ہونے والی معذوری سے بچایا جاسکے ۔ پولیو(Poliomyelitis) ایک ایسا خطرناک وائرس ہے جو اعصابی( نروس) سسٹم کو برباد کرتے ہوئے دیکھتے ہی دیکھتے ٹانگوں سے معذور کرکے انسان کو زندگی بھر کیلئے اپاہج بنا ڈالتا ہے ۔ پولیو متعدی بیماری ہے اس کا وائرس منہ کے راستے انسان کے جسم میں داخل ہو کر انتڑیوں میں پرورش پاتا ہے،اس و ائرس کی تعداد جسم میں جا کر کئی گنا بڑھ جاتی ہے، یہ وائرس متاثرہ شخص کے گلے اور آنتوں میں موجود رہتا ہے۔ عام طور پر یہ وائرس ایک متاثرہ شخص کے پاخانہ (poop ) کے ساتھ رابطے کے ذریعے(پیٹ سے خارج ہونے والی گیس) سے پھیلتا ہے ،جو ہر چیز کو آلودہ کر دیتا ہے اور متاثرہ فرد کے جسم سے خارج ہو کر با آسانی کسی دوسرے انسانی جسم میں داخل ہو جاتا ہے۔یہ وائرس متاثرہ فرد کی چھینک یا کھانسی کے ذریعے بھی پھیل سکتا ہے۔ پولیو کا موذی وائرس متاثر ہ شخص یا بچے کے دماغ اور ریڑھ کی ہڈی پر اثر انداز ہوتا ہے۔اس وائرس کا شکار زیادہ تر پانچ سال عمر تک کے بچے ہوتے ہیں۔90فیصد مریضوں میں اس مرض کے شروع ہونے کا معلوم ہی نہیں ہوپاتا باقی10فیصدمیں ابتدائی طور پر اس سے بخار، سر درد،الٹیاں،گردن کا اکڑنا اور ٹانگوں میں درد ہونا عام علامات ہیں۔ اس خطرناک مرض کا علاج صرف حفاظتی تدابیر کے تحت پلائے گئے پولیو ویکسین کے دو قطرے ہی ہیں۔پولیو کے خطرناک وائرس کے حملہ آور ہونے کے بعد اس بیماری کا کوئی علاج نہیں۔اس مرض کا شکار زندگی بھر کیلئے اپنے خاندان اور معاشرے پر بوجھ بن کے رہ جاتا ہے اور اگر متاثرہ فرد بیٹی ہو تو ماں باپ سارے عمر رونے کے سوا اور کچھ نہیں کر سکتے ۔

اس مرض سے بچنے اور لوگوں کو اس مرض کے سبب معذوری سے بچانے کے لئے 25اپریل1954ء کو پہلی دفعہ امریکہ میں پولیوویکسین کاوسیع پیمانے پر تجربہ کیا گیااور 12 اپریل1955ء کومشی گن یونیورسٹی میں ڈاکٹر تھامس فرانسسزجونیئر نے اپنے رفقاء کی موجودگی میں اس کی کامیابی کا اعلان کیا اور بتایا کہ یہ حفاظتی ویکسین 80سے90تک کامیاب رہی ہے۔اسی دن امریکی حکومت نے اس کے عام استعمال کی اجازت دیدی۔یونیسیف، ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن، سی ڈی سی اور روٹری انٹرنیشنل دنیا کے چار سب سے بڑے ڈونرزہیں انہوں نے 1988ء میں طے کیا کہ جلد ازجلد دنیا سے پولیو کا خاتمہ کیا جائیگا۔1988ء میں125ملکوں میں 350,000سے زائد بچے پولیو سے معذور ہوئے جبکہ ان عالمی اداروں کی کاوشوں کی بناء پر 2013ء میں صرف تین ملک (پاکستان، افغانستان اورنائجیریا) میں یہ مرض باقی رہ گیا ، جہاں اس سال میں ان تین ملکوں میں کل160مریض کنفرم ہوئے جبکہ پوری دنیا میں اس سال406مریض سامنے آئے۔ اسی پولیو ویکسین کی بدولت 1988ء سے آج 2016 ء میں دنیا سے پولیو کا99فیصدتک خاتمہ ہوچکا ہے اور اس طرح ایک کروڑ بچوں کو معذور ہونے بچالیا گیاہے۔ پولیو کی تاریخ دیکھیں تو تقریباً 20 برس قبل، صرف ایک دن میں 1000 بچے پولیو کی وجہ سے مفلوج ہوجاتے تھے۔

اس مہلک مرض سے بچاؤ کے لئے پولیو ویکسین کے دو قطرے ،پانچ سال سے کم عمرکے بچوں کو باقاعدگی کیساتھ پلانے سے اس مرض کا وائرس مر جاتا اوربچے اس مرض سے محفوظ رہتے ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ حکومت پاکستان سے پولیو کی مکمل خاتمے کیلئے سنجیدہ کوششیں کررہی ہے ۔ حکومت پاکستان پانچ سال سے کم عمر تمام بچوں کے لئے ہر تین ماہ بعد ’’قومی مہم برائے انسداد پولیو‘‘(NIDs) کا انعقاد کررہی ہے۔ یونیسف، عالمی ادارہ صحت، روٹری، ریڈ کراس اور ہلال احمر اور انسانی ہمدردی رکھنے والے اور سول سوسائٹی کے دیگر گروپوں سمیت بہت سے غیرملکی اور مقامی ادارے ان مہموں کی منصوبہ بندی اوران پر عمل درآمد کے لئے مدد کر رہے ہیں۔ اور ان بچوں تک بھی پہنچنے کی ہر ممکن کوشش کی جا رہی ہے جو سیکورٹی خدشات، گھر والوں کے انکار یا دیگر وجوہات کی بناء پر ماضی میں قطرے پینے سے محروم رہ گئے تھے، ایسے بچوں میں پولیو کی بیماری ہونے کے سب سے زیادہ امکانات ہوتے ہیں۔ عالمی اداروں کے تعاون سے یہ مہمیں اس وقت تک جاری رہیں گی جب تک پاکستان اور دنیا بھر سے پولیو کا خاتمہ ممکن نہیں ہو جاتا۔ انسداد پولیو کے لئے سرکاری سطح پر کاوشوں کے ساتھ عوام کو بھی پولیو کے خاتمے میں تعاون کرنا چاہئے۔ انسداد پولیو مہم کے ہر راؤنڈ میں نہ صرف اپنے بلکہ اپنے ارد گردآباد پیدائش سے پانچ سال تک کے ہر بچے کو پولیو سے بچاؤ کے قطرے لازمی پلا نے چاہئے ۔ملک سے پولیو کے مکمل خاتمے کے لئے علماء کو بھی اپنا کردار ادا کرنا چاہئے اور عوام کے ذہنوں میں موجود مختلف غلط فہمیوں کو دور کرنا چاہئے ۔ یہ ویکسین تمام بچوں کے لئے محفوظ ہے، اور ہر خوراک پولیو کے خلاف بچے کی قوت مدافعت کو مضبوط کرتی ہے۔

عالمی کوششوں کے سبب پولیو کا تقریباً دنیا بھر سے خاتمہ ہو چکا ہے ، لیکن یہ مرض صرف دو ممالک پاکستان اور افغانستان کے چند حصوں میں ابھی تک موجود ہے۔ پاکستان میں پولیو وائرس کے کیسز کی تعداد میں98 فیصد تک کمی ریکارڈ کی گئی ہے۔عالمی ادارہ صحت کے نمائندے ڈاکٹر مائکل تھیئرن کا کہنا تھا کہ 2016ء کے دوران پاکستان میں تقریبا 11 اور افغانستان میں تقریبا 5 پولیو کیسز سامنے آئے ہیں جو کہ تاریخ میں سب سے کم تعداد ہے۔ ہمیں امید ہے کہ ہم پاکستان میں پولیو کے مکمل خاتمے میں صرف چند ماہ کے فاصلے پر ہیں۔ اس مرض کے مکمل خاتمے کے لئے ضروری ہے کہ ہر پانچ سال کے بچے کو پولیو ویکسی نیشن لازمی کروائی جائے ، اس کے ساتھ ساتھ صحت و صفائی پر خصوصی توجہ دی جائے ، صاف ستھرا ماحول اور ٹائیلٹ باتھ میں صفائی کے بہتر انتظام کے باعث بہت سی بیماریوں سے بچا جاسکتا ہے۔
٭……٭……٭

Disclaimer: All material on this website is provided for your information only and may not be construed as medical advice or instruction. No action or inaction should be taken based solely on the contents of this information; instead, readers should consult appropriate health professionals on any matter relating to their health and well-being. The data information and opinions expressed here are believed to be accurate, which is gathered from different sources but might have some errors. Hamariweb.com is not responsible for errors or omissions. Doctors and Hospital officials are not necessarily required to respond or go through this page.

Rana Aijaz Hussain
About the Author: Rana Aijaz Hussain Read More Articles by Rana Aijaz Hussain: 995 Articles with 720706 views Journalist and Columnist.. View More