سعودی معیشت مشرقِ وسطیٰ کے حالات کی نذر

مشرقِ وسطی کے حالات ، عالمی سطح پر اثر انداز ہوئے ہیں ۔ خام تیل کی قیمتوں میں گذشتہ چند برسوں سے مسلسل کمی نے عالمی مارکیٹ میں کئی ممالک کی معیشتوں کو تباہ و برباد کرکے رکھدیا۔سعودی عرب جو تیل پیداکرنے والے ممالک میں سب سے بڑا ملک کہلایا جاتا ہے اب اس نے بھی خام تیل کی پیداوار میں کمی کردی ہے۔سعودی فرمان شاہی کے ذریعہ سرکاری اخراجات میں کمی کردی گئی ہے،یہی نہیں بلکہ سعودی عرب نے اپنی گذشتہ 18ماہ سے جاری اس پالیسی کوبھی ختم کردیا جس کے تحت وہ زیادہ سے زیادہ تیل یعنی یومیہ 350ہزار بیارل پیدا کررہا تھا۔ سعودی عرب کی جانب سے اصلاحات کی خبر آتے ہی عالمی منڈیوں میں تیل کی قیمت میں اضافہ ہوگیا۔ سعودی عرب کی جانب سے زیادہ تیل پیدا کرنے کی وجہ سے عالمی سطح پر تیل کی قیمت کم ہوتی جارہی تھی لیکن سعودی عرب اس سے زیادہ مدت تک تیل کی قیمتیں کم سطح پر نہیں رکھ سکتا تھا کیونکہ اس حکمت عملی کے نتیجے میں اس کے خزانے میں اب تک 180ارب ڈالر کی کمی ہوچکی ہے ۔شدت پسندی سے نمٹنے کے علاوہ تیل کی قیمتوں میں کمی کا نتیجہ ہیکہ سعودی عرب گذشتہ سال سے ہی معاشی بحران کی جانب رواں دواں دکھائی دے رہا ہے۔خطہ میں دہشت گردی سے نمٹنے اور تیل کی قیمتوں میں مسلسل کمی نے دیگر ممالک کی طرح سعودی معیشت کو بھی بًری طرح متاثر کیا ہے۔شاہ سلمان بن عبدالعزیز نے اپنے دور حکومت میں سعودی عوام پر سے کئی رعایتیں ہٹاکر اور سرکاری اخراجات میں کمی کرکے ملک کی معیشت کو استحکام دینے کی کوشش کی ہیں، تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ ماضی میں سعودی عوام کو شاہی حکومت کئی مراعات کے ذریعہ تعیش پرستی کی جانب لاکھڑا کیا تھا اب حکومت کی جانب سے معاشی استحکام کیلئے کئے جانے والے اقدامات سعودی عوام کے لئے گراں گزریں گے۔شاہی حکومت ملک میں معاشی استحکام کیلئے مختلف اہم فیصلے کئے ہیں،عمرہ و دیگر ویزافیسوں میں اضافہ، دوبارہ عمرہ آنے والوں کے لئے تین ہزار سعودی ریال، تارکین وطن کیلئے خروج و عودہ فیس میں اضافہ کے علاوہ تارکین وطن کے افرادِ خاندان کے تجدید اقاموں اور خروج عودہ کی فیس میں بے تحاشہ اضافہ شامل ہے ، اس کے علاوہ تنخواہوں میں کمی اور غیر ضروری عملہ کو کام سے سبکدوش کردینے کے احکامات دیئے گئے ہیں ان فیصلوں کے علاوہ سب سے اہم فیصلہ جو اس سال کیا گیا ہے یہ عالمی سطح پر چونکا دینے والا ہے کیونکہ دنیا کے تقریباً تمام ممالک میں بجٹ پیش کئے جانے سے قبل یعنی آخری مہینے میں سبھی شعبوں کی جانب سے بقایا بجٹ استعمال کرنے کے لئے غیرضروری بلیں منظور کرکے بجٹ کا استعمال کیا جاتا ہے ۔ سعودی عرب کی وزارتِ خزانہ نے چونکادینے والا فیصلہ کرتے ہوئے اس سال اپنا سالانہ کھاتہ وسط ڈسمبر کے بجائے ایک ماہ قبل یعنی وسط نومبر میں ہی بند کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ عریبین بزنس رپورٹ کے مطابق وزارتِ خزانہ کی جانب سے سالنہ کھاتہ ایک ماہ قبل ہی بند کردینے سے سرکاری محکموں کی جانب سے موصول ہونے والی فنڈ کی درخواستیں رد ہوجائیں گی ، اس طرح سال کے آخر ماہ میں جو غیر ضروری اشیاء کی خریداری پر خرچ ہوتا تھا اس سے بچا جاسکتا ہے۔ یہاں یہ بات قابلِ ذکر ہیکہ مملکت سعودی عربیہ عالمی سطح پر دوسرے ممالک کو جہاں آفات ِ ناگہانی یا مظلوم انسانیت کے لئے امداد فراہم کرنے میں صفِ اول میں دکھائی دیتا تھا اب ہوسکتا ہیکہ اس میں کچھ بدلاؤ دیکھا جائے گا کیونکہ سعودی عرب نے گذشتہ سال اپنے بجٹ میں 98ارب ڈالر خسارہ بتایا ہے اور ذرائع ابلاغ کے مطابق توقع ہیکہ اس سال 87ارب ڈالر خسارہ کے ساتھ بجٹ پیش کیا جاسکتا ہے۔ شاہی فیصلہ کا اثر سب سے زیادہ سعودی درمیانہ طبقہ اورلاکھوں تارکین وطن بشمول ہندو پاک کے خاندانوں پر پڑے گا، عرب ممالک بشمول سعودی عرب کے بدلتے ہوئے حالات سے درمیانہ طبقہ اور تارکین وطن پریشان ہیں۔

سعودی عوام پر سے مختلف رعایتوں میں کمی کئے جانے کے بعد ملک کے حالات بہتر ہوتے ہیں یا نہیں ،بعض سعودی عوام جو تعیش پرستی میں مبتلا ہیں ان میں کس حد تک بدلاؤ آتا ہے یہ تو آنے والا وقت ہی بتائے گا لیکن ہندوپاک و دیگرممالک کے تارکین وطن جو سعودی عرب میں روزگار کے سلسلہ میں مقیم ہیں انہیں بھی اپنی نوکریوں کے چلے جانے کا ڈر و خوف کھائے جارہا ہے۔ گذشتہ تین چار برسوں سے تارکین وطن کیلئے سعودی عرب میں حالات انتہائی خراب ہیں۔کئی اعلیٰ تعلیم یافتہ ، قابل و تجربہ کار افراد روزگار کے چلے جانے کے خوف سے معمولی تنخواہوں پر نوکری کرنے کو ترجیح دیتے ہوئے روزگار سے مربوط ہیں۔ ہزاروں ہندو پاک کے تارکین وطن اپنے ملک کو واپس آنے کے لئے بے چین ہیں لیکن انہیں نہ تو گذشتہ کئی ماہ سے تنخواہیں ملی ہیں اور نہ انکے ملک واپس ہونے کے انتظامات ہوئے ہیں۔ہزاروں تارکین وطن کھانے پینے اور رہن سہن کے لئے مجبور و لاچکار زندگی گزار رہے ہیں اور نہیں معلوم کہ حکومت کی جانب سے کمپنیوں کے ٹنڈرس کی منظوری روکدیئے جانے اور بلوں کی عدم منظوری انہیں مزید کتنے مہینے پریشان کن حالات سے دوچار رکھے گی اور وہ اپنے ملک کب واپس ہونگے اس سلسلہ میں کچھ کہا نہیں جاسکتا۔

سعودی عرب کا اہم اقدام
سعودی قیادت کی اتحادی فورسس نے یمن میں حوثی باغیوں کے قائد کی نماز جنازہ کے موقع پر جس طرح فضائی کارروائی کرتے ہوئے 140افراد کی ہلاکت کا سبب بنا ہے اس کی تحقیقات کرنے کے علاوہ قصوروار کو سزا دینے کا وعدہ کیا ہے اور ہلاک ہونے والوں کے افراد خاندان اور زخمیوں کو معاوضہ دینے کا فیصلہ کیا ہے۔ اس سے قبل امریکہ اور برطانیہ، و دیگر عالمی اتحادی ممالک نے جس طرح عراق پر الزامات عائد کرکے خطرناک فضائی کارروائی کی ، اسی کا نتیجہ ہیکہ آج اتنا طویل عرصہ گزرنے کے باوجود عراق کے حالات بدسے بدتر دکھائی دے رہے ہیں۔ شدت پسند تنظیموں کا وجود خود امریکہ ، برطانیہ اور دیگر مغربی و یوروپی ممالک کی غلط پالیسیوں اور جھوٹے دعوؤں کا نتیجہ ہے۔ مشرقِ وسطیٰ کے حالات ہر روز خطرناک صورتحال اختیار کرتے جارہے ہیں ۔ شام میں ہر روز شامی، روسی اور ایران و شیعہ ملیشیاء فوجیوں اور شدت پسند تنظیموں کے ہاتھوں بے قصور عوام کا ہر روز قتلِ عام ہورہا ہے، امریکہ کی جانب سے شام اور روس کی جانب سے شامی بے قصور عوام پر ظلم و بربریت بھری کارروائیوں کو دیکھتے ہوئے انتباہ دیا گیا ہے کہ انکے خلاف مزید پابندیاں عائد کردی جائیں گی لیکن ایسا محسوس ہوتا ہے کہ روس امریکہ کی ڈھاک کو نظر انداز کرتے ہوئے شام میں اپنی پوری طاقت و قوت صرف کرنے کی کوشش کرے گا تاکہ عالمی سطح پر امریکہ کو نیچا دکھانے کے ساتھ ساتھ اپنی قوت کا مظاہرہ کرسکے۔البتہ یمن کے حالات کچھ بہتر ہونے کے امکانات ہیں ۔جنازہ پر حملہ کے بعد عالمی سطح پر جس طرح کے مذمتی بیانات آئے ہیں اس کے بعد سعودی قیادت کے اتحادی ممالک نے یمن میں 72گھنٹے کی جنگ بندی معاہدہ پر عمل کرنے کا فیصلہ کیا ہے جو خوش آئند اقدام ہے، اگر حوثی باغیوں اور یمنی صدر عبد ربہ منصور ہادی کی فوج کے درمیان کسی قسم کی کارروائی نہ ہوتو یہ یمن کے عوام تک اشیاء خوردو نوش اور ادویات پہنچائے جانے کے لئے بہتر ثابت ہوسکتی ہیں۔ کیونکہ اس سے قبل شام میں امریکی اتحادی فورسس اور شامی و روسی فورس کے درمیان جنگ بندی کا معاہدہ طئے پایا تھا لیکن دونوں جانب سے ایک دوسرے پر فضائی حملے کئے گئے یہی نہیں بلکہ امداد لے جانے والے عملہ اور ٹرکوں پر شامی و روسی فوج نے حملہ کرکے اپنی ظلم و بربریت کی بدترین مثال قائم کی۔ لیکن سعودی عرب نے یمن کے حالات کو معمول پر لانے اور عوام کی زندگیوں کو بچانے کے لئے 72گھنٹے جنگ بندی کے معاہدہ پر عمل کرنے کا فیصلہ کیا اور حوثی باغی بھی اس معاہدہ کو قبول کرچکے ہیں۔سعودی عرب کی قیادت میں عرب اتحاد کے ترجمان بریگیڈئیر جنرل احمد العسیری نے عرب ٹی وی کو بتایاکہ اب اہم مشن طریق کار میں تبدیلی ہے اور جنگی کارروائیوں کے لیے قواعد وضوابط پر نظرثانی کی جارہی ہے تاکہ اس طرح کی غلطیوں اور ان کی بنا پر ایسے واقعات کا اعادہ نہ ہو کیونکہ ایسی غلطیاں اتحاد کے اصولوں کے منافی ہیں اور اس کا مقصد تو شہریوں کی خدمت کرنا ہے،انھیں نقصان پہنچانا نہیں۔

شام اور یمن میں مداخلت خمینی انقلاب کی ترویج
ایرانی روحانی قائد آیت اﷲ خامنہ ای کے مشیر برائے عسکری امور حسن فیروز آبادی نے عرب ممالک میں ایرانی مداخلت کے اہداف کا خود ہی بھانڈہ پھوڑتے ہوئے کہا ہے کہ یمن، شام، عراق، لبنان اور دوسرے ملکوں میں ایران کے عسکری مشیروں کی موجودگی ایران میں نافذ ولایت فقیہ کے نظام کی ترویج و اشاعت ہے۔پاسداران انقلاب کے مقرب سمجھی جانے والے نیوز ویب پورٹل ’’فارس‘‘ کو دیے گئے ایک انٹرویو میں حسن فیروز آبادی نے کہا کہ ایران یمن، شام، عراق لبنانی حزب اﷲ اور دوسرے ملکوں میں اپنے حامی گروپوں کی عسکری رہ نمائی اور مشاورت اس لئے کررہا ہے تاکہ وہاں پر خمینی انقلاب کی ترویج و اشاعت کی جاسکے۔جنرل فیروز آبادی کا کہنا تھا کہ ہم اپنی اراضی کی توسیع نہیں کر رہے ہیں اور نہ دوسرے ملکوں میں مداخلت کرتے ہیں۔دوسرے ممالک میں ہمارے عسکری مشیروں کی موجودگی اسلامی انقلاب کی ترویج واشاعت اور اس کے نفاذ کے لیے ہے۔ ان کا اشارہ ایران میں سنہ 1979ء میں برپا ہونے والے آیت اﷲ خمینی کے انقلاب کی جانب تھا جسے ایران مسلسل دوسرے ملکوں پر مسلط کرنے کی سازشیں بھی جاری رکھے ہوئے ہے۔فیرز آبادی کا کہنا تھا کہ ہم آیت اﷲ علی خمینی کے احکامات پرعمل پیرا ہیں۔ دنیا بھر کے مظلوم مسلمانوں کی مدد ہماری ذمہ داری اور انقلاب خمینی کا تقاضا ہے۔حسن فیروزآبادی کے علاوہ ایران کے نیول چیف ایڈمرل حبیب اﷲ سیاری نے کہا ہے کہ ایران کے جنگی بحری جہازوں کو عالمی پانیوں میں بھیجنے کا مقصد ’ایرانی انقلاب کی نشرو اشاعت اور اس کی تبلیغ ہے۔ذرائع ابلاغ کے مطابق ایرانی نیول چیف کی طرف سے یہ بیان اس اعلان کے دو روز بعد سامنے آیا ہے جس میں تہران نے کہا تھا کہ اس نے دو جنگی بحری جہاز خلیج عدن کے ساحل اور یمن کی باب المندب بندرگاہ کی طرف روانہ کیے ہیں۔اس سے قبل بھی ایران کے ہتھیاروں سے لیس جہازوں کو پکڑا گیا تھا۔ ایران مشرقِ وسطیٰ میں جس طرح خاموشی سے اپنی فوجی طاقت کو عالم عرب کے خلاف استعمال کررہا ہے اس کا اندازہ اس سے بھی لگایا جاسکتا ہے۔27؍ فروری کو آسٹریلوی حکام نے ایران کا ایک مال بردار جہاز پکڑا جس پر 2000 کلاشنکوفیں ، 100 مارٹر گولے اور دیگر اسلحہ جب کہ 20؍ مارچ کو پکڑے گئے بحری جہاز سے 2000 کلاشنکوفیں، دسیوں خود کار رائفلیں اور نو ٹینک شکن میزائل قبضے میں لیے گئے تھے۔مئی 2015ء کو سلامتی کونسل میں ایک سیکریٹ رپورٹ پیش کی گئی جس میں دعویٰ کیا گیا تھا کہ ایران سنہ 2009ء سے چپکے سے یمن کے حوثی باغیوں کو مسلسل اسلحہ فراہم کررہا ہے۔ سنہ 2013ء کو یمنی حکام نے ایران کے ‘جیھان‘ بحری جہاز قبضے میں لے کر اس سے بھاری مقدار میں اسلحہ اور گولہ بارود قبضے میں لیا تھا۔اب جبکہ یمن میں جمعرات سے جنگ بندی معاہدہ طئے پایا ہے اگر یمن میں حوثی باغی اور عبداﷲ صالح کی جانب سے صدریمن عبد ربہ منصور ہادی کی فوج کے خلاف بغاوتی کارروائی روک دی جاتی ہے اور سعودی قیادت والی اتحادی فورسس بھی جنگ بندی معاہدہ پر عمل کرتے ہیں اس سے یمن کے عوام چین و سکون کی زندگی گزارسکتے ہیں لیکن کیا ایران اور دیگر شیعہ ملیشیاء چاہیں گے کہ عبد ربہ منصور ہادی کو یمن کا صدر بنائے رکھنے اور حوثی باغیوں کے خون کا انتقام نہ لینے خاموشی اختیار کرلیں ۔
***
Dr Muhammad Abdul Rasheed Junaid
About the Author: Dr Muhammad Abdul Rasheed Junaid Read More Articles by Dr Muhammad Abdul Rasheed Junaid: 352 Articles with 207349 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.