ہر ضلع میں یونیورسٹی

 پنجاب اسمبلی نے ایک قرار داد منظور کی ہے، جس کے مطابق صوبے کے تمام اضلاع میں یونیورسٹی بنائی جائے گی، یا یونیورسٹی کا کیمپس قائم کیا جائے گا۔ یہ قرار داد بہاول پور سے ممبر اسمبلی ڈاکٹر سید وسیم اختر نے پیش کی، جسے متفقہ طور پر منظور کرلیا گیا۔ ہائر ایجوکیشن کے لئے حکومتِ پاکستان اور صوبائی حکومتیں بہت گہری توجہ دے رہی ہیں۔میٹرک کے بعد کے طلبا و طالبات میں لاکھوں لیپ ٹاپ تقسیم ہو رہے ہیں، مختلف امتحانوں میں پوزیشن لینے والوں کو گارڈ آف آنر دئیے جارہے ہیں، انہیں مری وغیرہ کے سیر سپاٹے کے علاوہ بیرونی ممالک کے تفریحی دورے پر بھی بھیجا جاتا ہے۔ جامعات قائم کی جارہی ہیں، پی ایچ ڈی کے امیدوار اپنے مقالہ جات اور ڈگریوں کے ساتھ میدان میں نمایاں طور پر دیکھے جاسکتے ہیں، بیرونِ ملک اعلیٰ تعلیم کے حصول کے لئے جانے والوں کو وظائف دیئے جارہے ہیں۔ یونیورسٹیوں کی عالیشان عمارتیں تعمیر کی جارہی ہیں۔حکومتوں کا یہ جذبہ قابلِ قدر اور لائقِ تحسین ہے، تعلیم کے فروغ اور ترقی کے لئے کی جانے والی کوششوں کو سراہا جانا ضروری ہے۔

ہماری حکومتوں کی کاوشیں جاری رہتی ہیں، شاید اس میں خواہشیں بھی شامل ہو نگی، دعوے اور نعرے بھی لگتے رہتے ہیں، اور اپنے کاموں کی تشہیر کا کوئی موقع جانے نہیں دیا جاتا، مگر سب کچھ کے باوجود اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ اپنے ہاں اعلیٰ تعلیم کے مواقع پورے بھی نہیں، اور جہاں موجود ہیں ، وہاں معیاری تعلیم کا فقدان پایا جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جب جامعات کی عالمی درجہ بندی کی جاتی ہے تو بدقسمتی سے پہلی پانچ سو یونیورسٹیوں میں پاکستان کا نام شامل نہیں ہوتا، دور کیا جائیے، کہ اِسی برس ہونے والی درجہ بندی میں پہلی پانچ سو میں کوئی یونیورسٹی نہیں آسکی ۔ جبکہ چھ سو سے آٹھ سو میں سات جامعات کے نام آئے ہیں۔ اس درجہ بندی میں ظاہر ہے بہت سے اشارات طے ہوتے ہیں، جن میں تحقیق، اساتذہ کی کوالی فیکیشن، کیمپسز کی صورت حال، نتائج، عالمی معیار کے نصاب کا معاملہ اور بھی بہت سی باتیں آتی ہونگی، مگر اپنے ہاں مکھی پر مکھی مارنے کا رجحان ہے۔ نہ نئی تحقیق، نہ نئی ایجاد، اساتذہ کی اکثریت علم وفضل سے محروم۔ اس ماحول میں معیار کہاں سے آئے گا؟ اساتذہ خود بھی رٹے رٹائے انداز میں لیکچر دیتے ہیں، بلکہ اب تو لیکچر کی پیشکش کی جاتی ہے، زبان اور دماغ کاا ستعمال کم اور کمپیوٹر کا استعمال زیادہ کیا جاتا ہے۔ سوال کرنے کی عادت ہمارے طلبا نے پالی نہیں، اور اگر کوئی سوال کردے تو اکثر اساتذہ کو اچھا نہیں لگتا۔

تعلیمی زوال کی ایک وجہ ہمارا پرائمری نظامِ تعلیم بھی ہے، جہاں ابھی تک ایک ایک صوبے میں لاکھوں بچے اور ایک ایک ضلع میں پچاسیوں ہزار بچے سکول جانے سے محروم ہیں۔ حکومت کے دعووں کو دیکھیں تو تعلیم کا سلسلہ آسمانوں کو چھو رہا ہے، زمینی حقائق کو دیکھیں تو لاکھوں بچوں کو سڑکوں اور کام کی جگہوں پر دیکھ کر حکومتی دعوے کربناک مذاق نظر آتے ہیں۔ جو بچے سکولوں میں جار ہے ہیں، وہ کس قدر معیاری تعلیم سے روشناس ہو رہے ہیں، یہ بات بھی سب پر آشکار ہے۔ سکولوں میں سہولتوں کے فقدان کا چرچا تو چار سُو ہے، معیارِ تعلیم بھی بہت کم ہے۔ سرکاری سکول جو کبھی معیار کی علامت اور ضمانت سمجھے جاتے تھے، اب ان کا نام مذاق کے لئے استعمال ہوتا ہے۔ اگرچہ اساتذہ کے پاس بھی بہت سے جواب اور جواز بھی موجود ہیں، مگر حقیقت یہی ہے کہ تعلیم کے زوال میں حکومتوں کے ساتھ اساتذہ کا بھی بہت اہم کردار ہے۔ یہ قصہ تو طویل ہے، اب نئی قرار داد آئی ہے تو خوشی کی ایک لہر سی دوڑ گئی ہے، اضلاع میں یونیورسٹیوں کی واقعی اور سخت ضرورت ہے، ان کے نہ ہونے سے طلبا وطالبات کو دور دراز کا سفر کرکے بڑے شہروں میں جانا پڑتا تھا، جہاں ان کے اخراجات بھی بے شمار ہوتے تھے، تعلیم ویسے بھی انصاف کی طرح دہلیز پر ، فوری اور ضرور ملنی چاہیے۔ مگر جہاں لاکھوں بچے سکولوں سے باہر ہوں ، جہاں سرکاری سکول مویشیوں کے باڑوں کا روپ دھارے ہوئے ہوں اور جہاں حکومتوں کے دعوے شرح تعلیم سو فیصد اور مفت کرنے کے ہوں، وہاں پہلی ضرورت پرائمری تعلیم پر توجہ دینے کی ہونی چاہیے۔ اگر ہر ضلع میں یونیورسٹی بن جائے تو بہت اچھا ہے، مگر ہر بستی میں پرائمری سکول کا ہونا اس سے بھی ضروری ہے۔ امیدہے ایسی بھی کوئی قرار داد جلد آئے گی۔
muhammad anwar graywal
About the Author: muhammad anwar graywal Read More Articles by muhammad anwar graywal: 623 Articles with 427878 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.