انسدادجرائم سیرت طیبہ کی روشنی میں

کوئی بھی انسانی معاشرہ اس وقت تک ترقی یافتہ نہیں کہاجاسکتا جب تک اس میں امن وسلامتی ،معاشی واقتصادی خوش حالی اور سماجی ومعاشرتی ہم آہنگی کا ماحول نہ قائم ہو ۔آج عالمی منظر نامے کا جائزہ لیا جائے تو بہت سے ترقی یافتہ کہے جانےوالے ممالک بھی امن وسلامتی کی نعمت سے محروم اور بدامنی اور بے اطمینانی کے شکار ہیں۔ عالمی سطح پر جرائم کا گراف تیزی سے بڑھ رہا ہے ، سماجی ومعاشی عدم ِتوازن ، قتل وخوں ریزی ، خودغرضی وانتہا پسندی ، دشمنی اور تخریب کاری کے جراثیم نےپوری انسانی آبادی کو تباہی وبر بادی کے دہا نے پر لاکھڑا کیاہے ۔طاقت ور سے طاقت ملک بھی دہشت گردی اور انتہا پسندی کی عفریت سے لرزہ بر اندام ہے ،آج تحفظ اور سیکوریٹی کے نام پر حکومتیں جس قدر پانی کی طرح پیسے صرف کر رہی ہیں کاش اسی طرح اقتصادی ترقی اور معاشی استحکام کے لیے بھی بجٹ مختص کیے جاتے تو جرائم کا گراف خود بخود گھٹتا نظر آتا۔

ایک مسلمان کے لیے قرآن سب سےبہتر دستور زندگی اور رسول کریم علیہ الصلاۃ والتسلیم کی سیرت طیبہ سب سے اعلیٰ نمونہ حیات ہے۔زندگی کے سارے مسائل کا حل انہیں دونوں سرچشموں میں موجودہے ، اس مختصر سی تحریر میں ہمیں بڑھتے جرائم کے اسباب اور سیرت طیبہ کی روشنی میں ان کے انسداد کےطریقوں پر روشنی ڈالنی ہے۔جرائم اور ان کےطریقہ انسداد پر گفتگو سے پہلے ان محرکات کا جائزہ لینا ضروری ہے جن کی وجہ سے جرائم وجود میں آتے اور فروغ پاتے ہیں۔ کوئی بھی انسان پیدائشی مجرم نہیں ہو تا اور نہ ہی شکم مادر سے جرم وفساد کی تر بیت پاکر تولد پذیر ہو تا ہے ۔سرکار دوعالم ﷺ انسانیت کے ہادی اور سب سے عظیم رہبر ورہنما بن کر تشریف لائے تھے ۔عرب کے جس ماحول میں آپ کی بعثت ہوئی تھی ، وہ بڑابھیانک اور انسانیت سوز تھا، قتل وغارت گری ،لاقانونیت اور بدامنی ، وحشت وجہالت اورخاندانی عصبیت ان کے نمایاں اوصاف تھے ۔رحمت عالم ﷺنے جب اس پراگندہ ماحول میں اپنی تحریک ارشاد وہدایت کا آغاز فر مایا تو سب سے پہلے جرم وفساد کی اصل بنیاد اور نفرت وعداوت کے اصل محرکات کو تلاش کر کے ان کے انسداد کے لیے مکمل لائحہ عمل تیار فر مایا اور اس خوش اسلوبی کے ساتھ عربوں کی بیمار ذہنیت کا علاج کیا کہ وحشت وجہالت کی تاریکی میں ڈوبی ہوئی یہ قوم محسوس دنیا کی سب سے متمدن قوم کہلانے لگی ، آج بھی اگر سیرت طیبہ کو نمونہ عمل بناکر انسدادِ جرائم کی راہیں متعین کی جائیں تو عالم انسانیت میں ایک پر امن معاشرہ وجود میں آسکتا ہے اور پوری دنیا امن وسلامتی کے ماحول میں اطمینان کی سانسیں لے سکتی ہے۔ذیل کی سطور میں جرائم وفسادات کے چند اہم اسباب اور سیرت طیبہ کی روشنی میں ان کے انسداد کے طریقوں پر روشنی ڈالیں گے

معاشی واقتصادی بد حالی : یہ سچ ہے کہ غربت جرائم اور نفرتوں کو جنم دیتی ہے ، انسان جب جائز ذرائع سے معاش کا انتظام نہیں کرپاتا تو اپنی ضروریات زندگی کی تکمیل کے لیے صحیح اور اور غلط کے امتیاز کو بھول کر شکم کی آگ کو بجھا نے کے لیے جرائم کا ارتکاب کر بیٹھتا ہے ، ابتدائی مر حلے میں غلط ذرائع کا انتخاب اس کی مجبوری ہوتی ہے ،بعد میں یہ اس کا مشغلہ اور شوق بن جاتا ہے، پھر جرائم کا نہ ختم ہو نے والا سلسلہ شروع ہو جاتاہے ، چوری ، ڈاکہ زنی ، رہزنی ،قتل وغارت گری اور بغاوت کے عمل سے گزرتے ہوئےوہ انتہا پسندی اور دہشت گر دی جیسے خطرناک جرائم میں ملوث ہو جاتا ہے ،اس کی واضح دلیل دہشت گردی کے جرم میں گرفتار ہو نے والے ان نوجوانوں کا سروے ہے ،جن میں اکثر غربت کے ہاتھوں مجبور ہو کر اس گھنونے عمل میں ملوث ہوئے،دہشت گر دی کے عمل سے وابستہ اکثر افراد معاشی محرومی کے شکار ہوتے ہیں ، ان حقائق سے انکشاف ہو تا ہے کہ جرم وفساد کا ایک اہم سبب معاشی تنگی اور اقتصادی بد حالی ہے ۔

رسول کریم علیہ الصلاۃ والتسلیم کی سیرت طیبہ کا مطالعہ ہمیں بتاتاہے کہ آپ ہمیشہ غربت کے خاتمے کے لیے جدوجہد فر مایا کرتے تھے ، غریبی کو ایک طرح کی آزمایش قرار دیتے تھے ، آپ نے کفر اور فقر دونوں سے پناہ مانگتے ہو ئے اس طرح دعا فر مائی ـ اللھم انی اعوذبک من الکفر والفقر۔(ابو داؤد)اسلام نے غریبوں کے معاشی استحارم کے لیے صدقات وزکات کا نظام نافذ کیا ، نبی رحمت ﷺ ہمیشہ معاشرے کے غریبوں، یتیموں اور مسکینوں کا خصوصی خیال فر مایا کرتے ، ان کی ضرورتیں پوری فر ماتے ، صحابہ کرام کو ان کی مالی امداد کا حکم دیتے ، ایک موقع پر غریبوں کے لیےمال خر چ کر نے کی رغبت دلاتے ہوئے ارشاد فر مایا: یابن آدم انک ان تبذل الفضل خیر لک ، وان تمسکہ شر لک ،(بخاری)۔اے ابن آدم تیرے لیے مال کا خوب خرچ کر نا بہتر ہے اور مال کو روکے رکھنا برا ۔ایک دوسرے موقع پر ارشاد فرمایا : ما احب ان احدا لی ذھبا، یاتی علیٰ لیلۃ اوثلاث عندی منہ دینار۔اگر میرے پاس کوہ احد کے برابر بھی سونا آئے اور ایک رات یا تین راتیں گزر جانے کے بعد میرے پاس ایک اشرفی بھی رہ جائے تو مجھے یہ پسند نہیں ۔ آپ نےغریبوں کی امداد کا یہ طریقہ بھی رائج فر مایا کہ اپنے اہل وعیال کے لیے تیار کیے جانے والے کھانے میں کچھ اضافہ کر لیا جائے تاکہ پڑوس کے پریشان حال غریب بھی اس سے مستفید ہوں ۔حضرت ابو ذر رضی اللہ عنہ سے فر مایا : یا اباذر اذا طبخت مرقۃ فاکثر ماؤھا وتعاھد جیرانک (بخاری)۔ اے بوذر جب سالن پکاؤ تو شور بے میں اضافہ کر لو اور اپنے پڑوسیوں کا خیال رکھو۔آپ کا منشا یہ تھا کہ معاشرے کا کوئی بھی فر دمحتاج اور تنگ دست نہ رہے، اگر کوئی شخص غربت کا مارا ہے تو سماج کے دوسرے افراد اس کی مالی امداد کے ذریعہ انہیں اس مصیبت سے نجات دلائیں ۔ آقائے دوعالم ﷺ نے معاشی استحاسم کے لیے معاشی عدل کا عملی نطام پیش فر مایا ، سود کا خاتمہ فر مایا ،رشوت کو ممنوع قرار دیا اور ہر اس لین دین کی ممانعت فر مادی جس میں کسی مجبور کی مجبوری کا فائدہ اٹھا یا جارہا ہو۔نبی رحمت ﷺ کی ان تعلیمات کو اگر آج بھی ہم عملی جامہ پہنالیں تو یقینا معاشی واقتصادی خوش حالی پیدا ہو گی ،غربت کا خاتمہ ہو گا اور جرائم سے پاک ایک خوش گوار معاشرہ وجود میں آئے گا ۔

عدل وانصاف کا فقدان اور ظلم وزیادتی کی گرم بازاری: جرائم کے فروغ اور عالمی سطح پر بڑھتی بد امنی ، بے چینی اور کرب واضطراب کا ایک سبب معاشرتی ، معاشی ، اقتصادی ، سماجی اور سیاسی شعبوں میں ظلم وزیادتی ،حقوق کی پا مالی اور بعض طبقات کا کھلا استحصال بھی ہے ، انسانی طبقات پر ظلم وزیادتی اور ان کا استحصال امن وامان کو تہ وبالا کر کے جرم وفساد کی چنگاریوں کو شعلہ جوالہ بنا دیتا ہے ،ظلم وزیادتی کا شکار طبقہ اندر ہی اندر اپنی کمزوریوں اور محرومیوں میں جلتا رہتا ہے اور اس کے دل میں ظلم وجبر کے خلاف لاوا ابلتا رہتا ہے،پھر جب یہ لا وا پھٹتا ہے تو کشت وخون کی ندیاں بہ جاتی ہیں ،لاتعداد انسانوں کی جانیں ضائع ہو تی ہیں اور معاشرہ جرائم کی آماج گاہ بن جاتا ہے ۔

پر امن معاشرے کا قیام ظلم وجبر کے خاتمہ اور عد ل وانصاف کے قیام کے بغیر ممکن نہیں ،اسی لیے رسول کریم ﷺ نے عدل وانصاف کے قیام اور ظلم وجبر کے خاتمہ پر زور دیا ، اپنے صحابہ اور قیامت تک آنے والی امت مسلمہ کو ظلم وجبر سے بچنے کی تاکید کرتے ہو ئے ارشاد فر مایا :اپنے آپ کو مظلوم کی دعا سے بچاؤ اس لیے کہ مظلوم کی آہ اور اللہ تعالیٰ کے در میان کوئی آڑ اور رکاوٹ نہیں ہو تی ۔ ایک دوسری حدیث پاک میں ارشاد فر مایا : انصر اخاک ظالما او مظلوما (مسلم)۔ اپنے بھائی کی مدد کرو ظالم ہو یا مظلوم ۔ صحابہ کرام نے عرض کیا کہ مظلوم کی مدد تو سمجھ میں آتی ہے ظالم کی مدد کس طرح کریں ۔ آقائے کریم ﷺ نے ارشاد فر مایا :ظالم کا ہاتھ روکنا اور اسے ظلم سے باز رکھنا اس کی مدد ہے۔

ظلم وجبر کی ایک صورت یہ بھی ہےکہ ایک ہی جرم جب سماج کا کوئی بااثر اور صاحب ثروت کرے تو اسے جرم کی سزا نہ دی جائے اور اگر اسی جرم کا مرتکب کوئی غریب مفلوک الحال شخص ہو تو ا سےسزا کا مستحق قرار دیا جائے ، یہ طرز عمل لوگوں کے دلوں میں نفرت وبغاوت کا بیج بوتا ہے اور قوموں کی ہلاکت کا باعث ہوتا ہے ۔ رسول کریم علیہ الصلاۃ والتسلیم نے قوانین کے نفاذ میں کبھی بھی جانب داری سے کام نہیں لیا اور نہ ہی ایک طرح کے دو مجرموں کے ساتھ الگ الگ برتاؤ فر مایا ، آپ نے مجرمین کی سزاؤں میں حد درجہ عدل وانصاف سے کام لیا اور جانب دارانہ طرز عمل کو ہلاکت کا باعث قرار دیتے ہوئے ارشاد فر مایا :انما ھلک الذین من قبلھم انھم کانوا اذا سرق فیھم الشریف ترکوہ وان سرق فیھم الضعیف اقاموا علیہ الحدود وایم اللہ لو ان فاطمۃ بنت محمد سرقت لقطعت یدھا۔(بخاری)تم سے پہلے کے لوگ اسی لیے ہلاک ہو ئے تھے کہ جب کوئی مال دار چوری کرتا تو اسے چھوڑ دیتے اور اگر کوئی غریب چوری کر تا تو اس پر حد قائم کردیتے ، خداکی قسم اگر محمد کی بیٹی فاطمہ بھی چوری کرتی تو میں ان کا ہاتھ کاٹ دیتا۔

نبی کریم ﷺ نے جرائم پر قابو پانے اور پر امن معاشرے کے قیام کے لیے ان تمام دروازوں کو بند کر دیا جن سے جرائم کے فروغ پا نے کی گنجائش تھی ، آپ نے ظلم وجبر کا خاتمہ کر کے عدل وانصاف کی وہ نظیر پیش کی جس کی مثال دنیا پیش کر نے سے قاصر ہے ۔سیرت طیبہ کو مشعل راہ بناکر آج بھی جرائم سے آزاد مثالی معاشرے کی تشکیل کا خوا ب شر مندہ تعبیر کیا جا سکتا ہے ۔

جہالت ونا خواندگی: جہالت ایک ایسا مر ض ناسور ہے جس کے بطن سے ہزاروں جرائم جنم لیتے ہیں ۔جاہل انسان نہ تو انسانیت کی عظمتوں کو سمجھتا ہے اور نہ ہی اسے اپنی تہذیب وتمدن کا ادراک واحساس ہو تا ہے ، وہ جہالت کی وحشت ناک تاریکیوں میں سر گرداں ہو تا ہے ۔

دور جاہلیت میں عرب قوم علم کی روشنی سے بے بہرہ اور جہالت کی تاریکیوں میں ڈوبی ہوئی تھی ، یہی وجہ ہے کہ ان کے معاشرے میں وہ تمام جرائم راہ پاچکے تھے جن سے انسانیت کا وقار مجروح ہو تا تھا ، کہنے کو تو وہ انسان تھے لیکن درندوں کی ساری صفات ان میں رچ بس گئی تھیں ، چھوٹی چھوٹی باتوں پر قتل وغارت گری کا بازار گرم ہو تا تھا اور پورا قبیلہ مہینوں اور سالوں تک بر سر پیکار رہتا ۔سر کار دوعالم ﷺ نے اس جہالت زدہ قوم کو علم کی روشنی سے منور فر مایا ، انہیں حصول علم کی تاکید فر مائی اور مختصر سے عرصے میں ان تما م جرائم کا خاتمہ ہو گیا جن سے عرب سماج جوجھ رہا تھا ، عداوت محبت میں تبدیل ہو گئی ، چوری ڈاکہ زانی ، قتل وغارت گری کا خاتمہ ہو گیا ، جوا، سٹہ، سود اور شراب نوشی جیسے جرائم سے عرب سماج پاک وصاف ہو گیا،آج عالمی سطح پر جرائم کا گراف بڑھنے کی ایک اہم وجہ جہالت و نا خواندگی بھی ہے ۔سیرت طیبہ کومشعل راہ بناتے ہوئے فروغ ِ علم وادب کے ذریعہ سماجی ومعاشرتی ترقی کے راستے کھولے جاسکتے ہیں اور جرائم کے انسداد کی موثر تدبیر کی جاسکتی ہے ۔
 قومی ونسلی عصبیت : جرم وفساد اور عالمی سطح پر کرب واضطراب کی ایک اہم وجہ قومی ونسلی عصبیت بھی ہے، دنیا اس وقت عصبیتوں سے زہر آلود ہو چکی ہے، رنگ ونسل اور مذہب وزبان کی عصبیتیں تباہ کن جنگوں کا پیش خیمہ ثابت ہو رہی ہیں، بر صغیر خاص طور سے وطن عزیز عصبیت کی آگ میں جل رہا ہے ،آئے دن قتل وغارت گری اور تباہی وبربادی کے ایسے واقعات رونما ہو رہے ہیں جن کے پیچھے مذہبی جنون اور قومی تعصب کا جذبہ کار فر ما ہو تاہے ۔جب تک رنگ ونسل اور مذہبی وقومی عصبیتوں کا خاتمہ نہیں ہو گا جرائم پنپتے رہیں گے مظلوموں کی جانیں ضائع ہو تی رہیں گی ، بے قصوروں کا خون ہو تا رہے گا۔ موجودہ حالات کو دیکھ کر محسوس ہو تا ہے دنیا ایک بار پھر دور جا ہلیت کی طرف لوٹ رہی ہے۔نبی کریم ﷺ نے جرائم کے روک تھام کے لیے بڑی حکمت عملی سے تما م تعصبات کا شدت کے ساتھ خاتمہ فر مایا،اخوت ومحبت کا پیغام عام کیا ،اور جرم وفساد کی بنیاد کا خاتمہ کرتے ہوئے ارشاد فر مایا :لیس منا من دعا الیٰ عصبیۃ ولیس منا من قاتل علیٰ عصبیۃ ولیس منا من مات علیٰ عصبیۃ ۔(مسلم)وہ ہم میں سے نہیں جس نے دوسروں کو عصبیت کی دعوت دی ،وہ ہم میں سے نہیں جس نے عصبیت کی بنیاد پر دوسروں کے ساتھ لڑائی کی اور وہ ہم میں سے نہیں جو عصبیت پر ماراگیا۔سیرت پاک کا یہ گوشہ بھی ہمیں پر امن اور متوازی معاشرے کی تشکیل اور جرائم کے انسداد کے حوالے بڑا واضح نقطہ نظر پیش کرتا ہے ، بس ضرورت ہے کہ ہم سیرت مصطفیٰ جانِ رحمت کو دل و جان سے اپنی زندگی کا حصہ بنائیں اور دنیا کو امن وسلامتی کا پیغام پہنچائیں ۔

اخلاقی قدروں کا زوال : یہ ایک ناقابل تردید حقیقت ہے کہ اخلاقی بگاڑ آج ہماری زندگی کے ہر شعبے میں داخل ہوچکا ہے۔ امانت، دیانت، صدق، عدل ،ایفاے عہد، فرض شناسی اور ان جیسی دیگر اعلیٰ اقدار کمزورپڑتی جارہی ہیں۔کرپشن اور بدعنوانی ناسور کی طرح معاشرے میں پھیلی ہوئی ہے ۔ جرم وفساد کا دور دورہ ہے۔لوگ قومی درد اور اجتماعی خیر و شر کی فکر سے خالی اوراپنی ذات اور مفادات کے اسیر ہوچکے ہیں۔ یہ اور ان جیسے دیگر منفی رویے ہمارے قومی مزاج میں داخل ہوچکے ہیں۔یہ وہ صورت حال ہے جس پر ہر شخص کف افسوس ملتا ہوا نظر آتا ہے۔جب اخلاقی حس مردہ ہونے لگے توایسے معاشرے میں ظلم و فساد عام ہوجاتا ہے۔ جس کے نتیجے میں پہلے معاشرہ کمزور اور پھر تباہ ہوجاتا ہے۔یہ صرف ہمارا خیال نہیں ، بلکہ قوموں کی تاریخ پر نظر رکھنے والا عظیم محقق ابن خلدو ن بھی ہمارے اس نقطۂ نظر کی تصویب کرتا ہے۔وہ اپنی شہرۂ آفاق کتاب ’’مقدمہ‘‘ میں بتاتا ہے کہ دنیا میں عروج و ترقی حاصل کرنے والی قوم ہمیشہ اچھے اخلاق کی مالک ہوتی ہے ، جبکہ برے اخلاق کی حامل قوم زوال پزیر ہوجاتی ہے۔آج اخلاقی زوال کے سبب نہ تو زنا جیسا گھنوناجرم قبیح تصور کیا جاتا ہے اور نہ ہی دیگر اعمال قبیحہ اور افعال شنیعہ کو شرم وحیا کا باعث سمجھا جاتا ہے ، گویا ہمارا پورا معاشرہ جرائم وفسادات کی آماجگاہ بنا ہوا ہے۔
رسول کریم علیہ الصلاۃ والتسلیم ہمیشہ اعلیٰ اخلاق کی تعلیم دیا کرتے تھے ، شرم وحیا کو ایمان کا حصہ قرار دیتے ، امانت و دیانت ، راست گوئی ، ایفاے عہد کا آپ کی تعلیمات کا اہم حصہ تھا،نبی اکرمﷺ کا ارشادِ گرامی ہے: اِنَّ الصِّدْقِ یَھْدِی اِلَی الْبِرِّ وَاِنَّ الْبِرَّ یَھْدِیْ اِلَی الْجَںَّۃِ (متفق علیہ) بے شک سچائی نیکی کی طرف رہنمائی کرتی ہے اور نیکی جنت کی طرف لے جاتی ہے۔‘‘ مزید ارشاد ہوا: دَعْ مَا یُرِیْبُکَ اِلٰی مَا لَا یُرِیْبُکَ فَاِنَّ الصَّدْقَ طُمَانِیْنَۃٌ وَالْکَذِبَ رِیْبَۃٌ(ترمذی) جو چیز تجھے شک میں ڈالتی ہے اسے چھوڑ کر اس کو اختیار کر جو شک میں ڈالنے والی نہیں ہے، کیونکہ سچ قلبی طمانیت (کا نام) ہے۔ اور جھوٹ شک و اضطراب (پیدا کرنے والی چیز) ہے۔ رسول کریم ﷺکے ذریعہ رائج کردہ اخلاقِ حسنہ کا مقصد اعلیٰ سیرت و کردار پیدا کرنا اور پروان چڑھاکر جرم وفساد سے معاشرے کو پاک وصاف کر نا ہے۔قرآن و حدیث میں جن منفی صفات و اخلاق (مثلاً تکبّر، ظلم، سنگدلی، جھوٹ، غصہ، فحش گوئی اور بد زبانی، غیبت، چغلخوری، حسد، عیب جوئی ، بخل، خیانت، نفاق، فریب، بزدلی، کینہ پروری اور بدخواہی وغیرہ) سے بچنے کی تلقین کی گئی ہے۔ ان کا مقصود بھی دراصل مومن کے اندر اخلاقِ فاضلہ کی تکمیل اور جرم وفساد سے پاک ،خوش گوار معاشرے کا ارتقا ہے۔

آقائے کریم ﷺ کی حیات طیبہ میں پاکیزہ زندگی کے تمام پہلوؤں کی مثالیں اور نمونے موجود ہیں، امن وآشتی کی جھلکیاں ہوں تو صلح ومصالحت کی بھی، دفاعی حکمت عملی کی بھی اور معتدل حالات میں پرسکون کیفیات کی بھی، اپنوں کے واسطہ کی بھی اور بے گانوں سے تعلقات کی بھی معاشرت و معاملات کی بھی اور ریاضت و عبادات کی بھی۔ عفوو کرم کی بھی اور جودوسخا کی بھی تبلیغ و تقریر کی بھی اور زجر و تحدید کی بھی ان جھلکیوں میں جاں نثاروں کے حلقے بھی ہیں اور سازشوں کے نرغے بھی ، امیدیں بھی ہیں اور اندیشے بھی گویا انسانی زندگی کے گوشوں پر محیط ایک ایسی کامل اور جامع حیات طیبہ ہے جو رہتی دنیا تک پوری انسانیت کے لئے رہبر و رہنما ہے۔ سیرت طیبہ پر مکمل عمل درآمد انسانی زندگی سے وابستہ تمام جرائم کے انسداد کاموثر ذریعہ ہے ،جس کی چند جھلکیاں ہم نے یہاں پیش کر نے کی سعادت حاصل کی ہے ۔
MD SAJID RAZA
About the Author: MD SAJID RAZA Read More Articles by MD SAJID RAZA: 56 Articles with 92976 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.