سرسید : ایک رہنما ، ایک ہمدرد قوم !

’’دوستوں میں سچ کہتا ہوں کہ جو چیز کم کو اعلی درجہ پر پہنچا نے والی ہے وہ صرف ہا ئی ایجو کیشن ہے ۔ جب تک ہماری قوم میں ایسے لوگ نہ پیدا ہوں گے ہم ذلیل رہیں گے اور عزت کو نہیں پہونچیں گے ، جس کو پہنچنے کو ہمارا دل چاہتا ہے ‘‘۔

یہ ہیں سرسید کی ایک تقریر کے چند جملے ۔ یہ وہ سرسید ہیں جو مسلمانوں کے مسیحا تھے ، ہمدرد تھے ،محسن تھے ، زمانہ شناس تھے ، علم دوست اور چشم بینا تھے ۔ یہی وہ سرسید ہیں جنہوں نے مسلمانوں پر ایسے دگرگو ں حالات میں کرم فرمائیاں کیں جب مسلم سماج جہل ، قدامت پسندی اور اس نوعیت کے دیگر مہلک امراض میں مبتلاتھا۔ سیا سی اقتدار چھن جانے کے بعد اس کی حالت نہایت خراب تھی ، زندگی اورموت کی کشمکش سے وہ دو چار تھا ،چنانچہ ایسے پر سوز دور میں جوانمردی اور پا مردی کا ثبوت دیتے ہوئے کھڑے ہوئے اور ان پانچ پہلوؤں کے مدنظر علی گڑھ تحریک کی داغ بیل ڈالی ۔ تعلیم، سیا ست ، مذہب ، ادب اور معاشرت کی خمیر یا گاڑے سے جس کالج کا قیا م عمل آیا تھا وہ تھا محمڈن اینگلوراورینٹل کالج ، جوکہ اب مسلم یو نیور سٹی کی شکل میں ہمارے پا س سرمایہ افتخار ہے ۔ یہ کالج سرسید کا خواب تھا ، ان کے خون سے تیا ر ایک مرکز تھا مس ّ ِخام کو کندن بنانے کا ۔ جہاں جدید مغربی اورقدیم مشرقی تعلیم کے سانچے میں ڈھال کر ملک وملت کا سپا سی تراشا جا تاتھا اور جاتا بھی ہے ۔ اسی علی گڑ ھ نے تقریباً مسلمانوں کے تما م تاریک گوشوں کو منور کیا ہے ۔ نو رالحسن نقوی اس تعلق سے یو ں رقمطراز ہیں :
’’ہماری زندگی کا کوئی شعبہ ایسا نہیں جو سرسید اور علی گڑھ تحریک کے احسان سے گراں بار نہ ہو ، اس عظیم الشان تحریک نے سوتوں کو جگایا اور مردو ں میں جان ڈالی ۔ مختصر یہ کہ علی گڑ ھ تحریک اور سرسید نے ہندوستانی مسلمانوں کو زندہ قوم کی طرح زندگی گزارنے اور سر بلند ہو کر جینے کا سلیقہ سکھا یا ‘‘۔

سرسید کے عہد کا ایک اجمالی جائزہ لینے سے پتہ چلتا ہے کہ وہ عہدتعلیمی پسماندگی، اخلاقی پستی، اقتصادی کمزوری کا عہد تھا، جس میں مسلم قوم زبوں حالی وپست ہمتی کے ساتھ اپنی زندگی گزاررہی تھی،مغلیہ سلطنت زوال پذیر ہوچکی تھی، ۱۸۵۷؁ء کے غدر کی وجہ سے پوری قوم مایوسی وناداری کے عمیق غار میں جاچکی تھی، طرہ یہ کہ جہاں شاہی خاندان کے افراد دانے دانے کوترس رہے تھے وہیں انگریزوں کی نگاہ میں سب سے بڑا کانٹا یہی قوم بنی ہوئی تھی اس کی بنیادی وجہ جہاں ایک طرف مسلمانوں سے چھینی ہوئی حکومت کے نتیجہ میں مسلمانوں کا ردعمل تھا وہیں انگریزوں کی مخالفت میں صدائے احتجاج بلندکرنے والوں میں انہیں کے افراد پیش پیش تھے، نتیجتاً انگریزوں نے اپناسب سے بڑا دشمن انہیں کو سمجھا، اوران پر عرصۂ حیات تنگ کردیا، جس کی وجہ سے پوری کی پوری قوم ٹوٹ کر رہ گئی، یہ وہ اسباب ہیں جس نے سرسید کے اندر دبی چنگاری کوہوا دینے اوران کی شخصیت کے اندر پوشیدہ ایک اہم تحریک کوابھارنے میں زبردست رول ادا کیا۔ اس تعلق سے ملاحظہ ہو ڈاکٹرمنظراعظمی کا ایک اقتباس:
’’سیداحمدخاں نے جب آنکھ کھولی توسلطنت مغلیہ اپنے آخری دموں پر تھی ان کا خاندان ایک عرصہ تک دربار سے متعلق رہاتھا خود انہوں نے بھی دربار کی جھلک دیکھی تھی انہوں نے مغلیہ سلطنت کے سماجی اوراقتصادی نظام اوراس کی سیاسی قوت کوٹوٹ کربکھرتے اپنی آنکھوں سے دیکھا تھا، ان کے ذہن میں وہ ابتری اوراس کے زوال کی وہ تکلیف دہ پرچھائیاں بھی رقصاں تھیں جن کا ایک ہلکا سا نقشہ انہوں نے ’’سیرت فریدیہ‘‘ میں کھینچا ہے، انہوں نے وہ آوازیں بھی سنی تھیں جب مغل شہزادے چھتوں پر چڑھ کر چلاتے تھے، ’’ہم بھوکے مرتے ہیں، ہم بھوکے مرتے ہیں‘‘ ان حالات میں نئے امکانات کی تلاش میں سعی اورنئے تہذیبی اورسماجی قوموں کی آہٹ پر ان کا کان لگادینا فطری عمل تھا‘‘ مذکورہ سطور کی روشنی میں سرسید کے ذہن میں جومضبوط ومستحکم خیالات پیدا ہوئے وہ یہ کہ مسلمان انگریزوں کا دشمن نہیں دوست بن جائے اوروہ مذہب کے راستہ سے نہیں مادیت کے راستہ سے اپنا ارتقائی سفر شروع کرے،مغربی علوم وفنون سے اس کا رشتہ گہرا ہو، یہی وجہ ہے کہ انہوں نے اندازہ کرلیا کہ اب طاقت اور تلوار کے زور سے اس قوم کوحیات اورتوانائی نہیں مل سکتی بلکہ مغربی علوم وفنون سے واقفیت اورتعلیم جدید ہی سے وہ زندگی حاصل ہوسکتی ہے جس کی اس قوم کوشدید ضرورت ہے ان کے درد وکرب کا اندازہ ان کی اس تقریر سے ہوسکتا ہے جوانہوں نے ۷؍فروری ۱۸۸۴؁ء کومظفر نگرمیں کی تھی اس میں سرسید نے کہا تھا․․․․․
’’غدر کے بعد مجھ کو نہ اپنا گھر لٹنے کا رنج تھا، نہ مال واسباب کے تلف ہونے کا جوکچھ رنج تھا اپنی قوم کی بربادی کا اور ہندوستانیوں کے ہاتھ سے جو کچھ انگریزوں پر گزرا اس کا رنج تھا‘‘ یہ وہ بنیادی محرکات ہیں جن کو پیش نظر رکھ کر سرسید نے اپنی ہمہ جہت کوششیں شروع کیں، نتیجتاً باوجود بعض مخالفتوں کے اپنے میدان میں سرگرم عمل رہ کر قوم کی کشتی کی کھیون ہاری اس طورپر کی کہ اس کو طوفان کی زد سے بہت حد تک بچاکرساحل سے ہمکنار کردیا، سرسید کی یہ وہ غیرمعمولی کوشش تھی جس نے بہت سارے میدانوں پرغیرمعمولی اثر ڈال کر جدت کی ایک نئی لہر دوڑا دی۔

مسلمانوں کی تعلیمی زبوں حالی نے سرسید احمد خاں کے دل میں ایک خلش پیدا کر دی تھی۔ یہ وہ خلش تھی جو علی تحریک کا سبب بنی۔ علی گڑھ تعلیمی تحریک کا اہم پہلو مذہبی اور سماجی اصلاحات بھی ہیں جو وقت و حالات کی ضرورت کو محسوس کرتے ہوئے سرسید احمدخاں ہندوستانی عوام کو سائنس اور جدید علوم کی تعلیم دینا طلبہ میں اعتدال پسندانہ نقطہ نظر پیدا کرنا، انگریزی تعلیم سے بہرہ ور کرنا اس کی اہمیت کو واضح کرنا مسلمانوں کے پستی کے اسباب کا جائزہ لینا اور ان کو دور کرنے کے لئے اقدامات تجویز کرنا تھا اور اس کام کو کرنے کا فخر سرسید احمدخاں اورعلی گڑھ کو حاصل ہوا ، بلکہ یہ کہنا صدفی صد درست ہوگا کہ علی گڑھ تعلیمی تحریک ایک ہمہ جہت تحریک تھی جس نے زندگی کے تمام روشن پہلوؤں کا احاطہ کیا۔

علی گڑھ تعلیمی تحریک بنیادی طور پر تعلیمی اور ثقافتی تحریک تھی جس کی بدولت جدیدہندوستان کی تعمیرمیں ایک مثبت رول ادا کیا جس کا نتیجہ آج ہم لوگوں کے سامنے ہے اور اگر تھوڑی بھی قدر و منزلت ہندوستان میں مسلمانوں کی باقی ہے تو وہ علی گڑھ تعلیمی تحریک کا ثمرہ ہے۔
سرسید احمد خاں کی ادبی خدمات کو مجموعی طور پر اس طرح بیان کیا جاسکتا ہے کہ ہمارے ملک میں سرسید احمدخاں ہی پہلے وہ شخص تھے جنہوں نے روایت کی عام ڈگر سے ہٹ کر آزادی خیال کو پہلے رواج دیا۔ آج ان کے ذریعہ قائم کردہ علی گڑھ مسلم یونیورسیٹی ساری دنیا میں ایک منفرد مقام رکھتی ہے۔ یہاں سے تشنگا ن علم دنیا بھر سے تشریف لاتے ہیں اور اپنی علمی پیاس بجھاکولوٹتے ہیں۔
Mansoor Khushter
About the Author: Mansoor Khushter Read More Articles by Mansoor Khushter: 12 Articles with 11040 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.