جاوید قریشی کی تصنیف ’تجربات‘کا تنقیدی جائزہ

جاوید قریشی کی تصنیف ’تجربات‘کا تنقیدی جائزہ الطاف حسین جنجوعہ 9697069256 سرزمین پونچھ کی تحصیل سرنکوٹ ادبی لحاظ سے انتہائی زرخیز ہے جس نے درجنوں ایسی شخصیات کو جنم دیا ہے جنہوں نے مختلف زبان وادب کی ترقی وترویج کے لئے قابل رشک کام کیا ہے۔ اردو، پنجابی، گوجری، پہاڑی اور کشمیری زبان میں ضلع، صوبائی سطح یا پھر ریاستی وملکی سطح پر کوئی ادبی محفل منعقد ہو یا مشاعرہ اس میں سرنکوٹ سے کوئی نہ کوئی شخص ضرور موجود ہوتا ہے۔درجنوں شخصیات ایسی بھی ہیں جنہوں نے محنت شاقہ سے کئی تصانیف بھی تحریر کی ہیں جوقارئین کیلئے سبق آموز، تحریک وترغیب، معلومات میں اضافہ کے لئے اہم ثابت ہورہی ہیں۔
سرزمین پونچھ کی تحصیل سرنکوٹ ادبی لحاظ سے انتہائی زرخیز ہے جس نے درجنوں ایسی شخصیات کو جنم دیا ہے جنہوں نے مختلف زبان وادب کی ترقی وترویج کے لئے قابل رشک کام کیا ہے۔ اردو، پنجابی، گوجری، پہاڑی اور کشمیری زبان میں ضلع، صوبائی سطح یا پھر ریاستی وملکی سطح پر کوئی ادبی محفل منعقد ہو یا مشاعرہ اس میں سرنکوٹ سے کوئی نہ کوئی شخص ضرور موجود ہوتا ہے۔درجنوں شخصیات ایسی بھی ہیں جنہوں نے محنت شاقہ سے کئی تصانیف بھی تحریر کی ہیں جوقارئین کیلئے سبق آموز، تحریک وترغیب، معلومات میں اضافہ کے لئے اہم ثابت ہورہی ہیں۔حالیہ دنوں درابہ سے تعلق رکھنے والے محمد جاوید قریشی کی تصنیف’تجربات‘منظر عام پر آئی ہے جس کی رسم رونمائی یونیورسل ہائیر سکینڈری سکول درابہ سرنکوٹ میں منعقدہ ایک تقریب کےد وران انجام دی گئی۔ اس تقریب میں کے کے کپور ،یا محمد خان ،شہباز راجوروی، عبدالسلام بہار، رشید فدا، خورشید بسمل،کے ڈی مینی، ڈاکٹر شمس کمال انجم، ایم این قریشی، نذیر حسین قریشی، آزاد شیخ، حسام الدین بیتاب، مشتاق احمد قریشی اور خالد قریشی وغیرہ نے شرکت کی جنہوں نے طویل علالت کے باوجود موصوف کی پہلی تنصیف کی بے ھد سراہنا کی۔جاوید قریشی ولد منشی فضل حسین پیشہ سے انگریزی کے لیکچرر ہیں۔سماجیت، انگریزی میں ماسٹرز اور ایل ایل بی وبی ایڈ ڈگری یافتہ محمد جاوید قریشی کی تصنیف111صفحات پر مشتمل ہے جس میں موصو ف نے اپنی ذاتی تجربات، احساسات، جذبات کو صفحہ قرطاس پر اُتارنے کی ایک کامیاب کوشش کی ہے۔ شہباز راجورری، خورشید بسمل، شمیر احمد قریشی، رکن اسمبلی سرنکوٹ چوہدری محمد اکرم، سابقہ رکن اسمبلی سرنکوٹ سید مشتاق بخاری ، ادیب ایم این قریشی، نذیر حسین قریشی کے تاثرات بھی شامل کتاب ہیں جنہوں نے مصنف کی خامیوں ، کوتاہیوں کو دبے الفاظ میں اجاگر کرنے کے ساتھ ساتھ بھر پر حوصلہ افزائی کی ہے اور اصلاح کی بھی بھر پور کوشش کی۔ ’تجربات ‘ تنصیف میں سفرنامہ پیر پنجال، پیرمرگ کی ایک شام، پیرپنجال کے سروں کا سفر، علی گڑھ سے جنوبی ہندوستان کا تعلیمی سفر، محکمانہ تعلیمی سفر، علالت نامہ، کچھ اپنے متعلق ، ایک خواب وغیرہ میں مصنف نے اپنی تجربات کا ذکر کیا ہے۔ وہیں جموں وکشمیر تاریخ اور سیاست کی روشنی، پونچھ تاریخ کی روشنی میں، کشمیر کی مختصر تاریخ اور زیارت شاہدرہ شریف میں مختصر تاریخی واقعات پیش کئے ہیں جس میں چند شخصیات کا ذکر کیاہے،لیکن انہوں نے یہ حوالہ نہیں دیا ہے کہ تاریخی مواد انہوں نے کس کتاب سے لیا وغیرہ، عموماًایسا ہوتا ہے مصنف کتاب کے آخر میں ان تمام تصانیف معہ مصنف کی فہرست پیش کرتے ہیں جن سے انہوں نے اپنی تصنیف تیار کرنے میں مددیا رہنمائی حاصل کی ہوتی ہے لیکن اس کتاب میں ایسا کوئی حوالہ نہیں دیاگیا ہے۔ قریش طبقہ کا تفصیلی ذکر کیا گیا ہے جس میں سائیں خیر اللہ شاہ، سائیں شاہ نواز کی ملاقات مہاراجہ گلاب سنگھ کے ساتھ، سائیں گوہر علی شاہ، سائیں ناظر علی شاہ، سائیں شہاب الدین، دختر پناہ بیگم، صندلابیگم، سائیں وارث علی شاہ، سائیں نصیب علی شاہ، حضرت سائیں نیاز علی شاہ، سائیں ہیرا شاہ، حضرت سائیں باغ علی شاہ، سائیں اکبر علی شاہ، سائیں وزیر علی شاہ، سائیں سیف علی شاہ، منشی خادم حسین، منشی طالب حسین کے علاوہ اپنے والد، اولاد اور اہلیہ کے بارے میں تحریر کیا ہے ساتھ ہی انہوں نے سرنکوٹ کے چندسیاحتی مقامات کی نشاندہی کرتے ہوئے مختصراًان کی اہمیت بھی بیان کی ہے، ان مقامات بارے تفصیل پیش کی ہوتی تو یہ زیادہ فائیدہ مند رہتا ۔قریش قوم کا ذکر کرتے ہوئے وہ رقم طراز ہیں کہ سائیں خیر اللہ شاہ اٹھارہویں صدی عیسویں میں سیروسیاحت کے لئے گاؤں ہیلاں تحصیل پھالیہ ضلع گجرات سے یہاں آئے ار بٹوڑی میں ہی پناہ لی۔ دوہرا ڈنہ گاؤں کلر اور درابہ کے درمیان ایک خوش نما دھار کے پاس سائیں خیر اللہ کی گلاب سنگھ سے ملاقات اور ان کا گلاب سنگھ کو حکمراں ہونے کی بشارت سنانا شامل ہیں۔ قریشی خاندان کی چند شخصیات کا ذکر کرتے وقت ان کے پیچھے سائیں لگانے کی وجہ بارے وہ لکھتے ہیں کہ دربار شاہدرہ سے منسلک لوگوں کا لقب قدیم فقیر اور سائیں چلا آتا تھا اور یہاں کے سجاد نشینوں کو بھی فقیر کے لقب سے مقلب کرنے لگے تھے۔ قریشی برادری کا ہرجگہ نام مختلف چلا آتا ہے۔ مثلاً پونچھ کا مولوی خاندان قوم کا قریش تھا، اسی برادری سے مولوی یسین شاہ کو سرکار کی طرف سے شمس العلماءکا خطاب بھی ملا، بہت سارے حکیم خاندانداروں کی قوم بھی قریشی تھی، گاؤں پھاگلہ کی قریشی برادری پیر کہلاتی ہے۔ سمہوٹ، گنڈی ، درابہ اور گورسائی وغیرہ کے قریشی برادری قاضی کہلاتی ہے اور علاقہ اداہ تھکیلانہ کی قریشی برادری میاں کہلاتی ہے۔ ’پیر پنجال کی سروں کا سفر ‘مضمون کافی دلچسپ ہے جس میں انہوں نے نندن سر، چندن سر، سکھ سر، باغ سر، نیل سر، کٹورہ سر، کال ڈچھنی جھیلوں کا ذکر کیا ہے۔ ڈھوکوں میں ہورہے متعدد مشاغل جن میں بازو پکڑنا، بھینس لڑانے، بھگدرا اٹھانا ،لوگ گیت، لوک ناش اور سریلی ومست آواز لوگوں کا گنگانے کا بھی ذکر کیا ہے۔ ’پیر مرگ کی ایک شام ‘ میں انہوں نے شاہ جہاں 1627ءتا 1658ءکے حکم سے علی مرداں خان گورنر یا صوبیدار کشمیر جوخود ایک اعلیٰ پایہ کے انجینئر تھا کاذکر کرتے ہوئے کہا ہے کہ علی آباد سرائے کی شمال وادی کو جاتے ہوئے قریب ہی اور پیر پل سے چھ میل پر لال غلام واقع ہے، اسی مقام پر ایک قسم کا پل اینٹوں کا بنایا ہوا ہے جس کو آج تک مرمت کی ضرورت نہیں پڑی ۔ موصوف کافی علیل ہیں، دونوں گردوں میں انفکیشن ہے اور کافی عرصہ سے ڈائی لیزز پر ہیں لیکن اس کے باجود حوصلہ رکھ کر انہوں نے یہ کتاب لکھنے کی سعی کی۔ لکھنے والوں کے لئے مشعل راہ اور معلومات کا ذکیر بھی ہوسکتا ہے اور صحتمند لوگون کے لئے سبق بھی۔ انہوں نے دور حاضر کی اخلاقی، سماجی، روحانی قدروں کا بھر پور تبصرہ کرتے ہوئے وقتی سماجی برائیوں کا حل بھی پیش کیا ہے۔ ایک جگہ وہ یہ رقم طراز ہیں کہ ”خواتین کا محفلوں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینا ضروری نہیں، ناچ گانے اور رقص سے دور رکھنا ہے، انہیں پیشہ ور رقاصہ بناکر اس صنف کی تذلیل اور بے حرمتی نہیں کرنی چاہئے۔ انہیں شرم وحاءکی تلقین کے ساتھ زندگی کی ناگزیر سماجی سرگرمی میں شامل کرنا ہے، مسلکی رواداری اور مذاہب کے درمیان فرقہ وارانہ ہم آہنگی قائم کرنے میں ہی سماجی بہتری ہے“۔ایسے لوگوں کی تعداد ہزاروں بلکہ لاکھوں میں ہوتی ہے جن کے اندر بلند پایہ خیالات، تجربات ہوتے ہیں لیکن وہ اس کو لفظی شکل نہیں دے سکتے، لاکھوں ایسے ہوتے ہیں جواچھا لکھتے ہیں لیکن ان کی قلم کسی کی تابع یاکسی چیز کی محتاج ہوتی ہے اور بہت کم لوگ ایسے ہوتے ہیں کہ جو کسی بھی وابستگی سے بالاتر ہوکر اپنی غلطیوں کی پرواہ کئے بغیر بھی کچھ لکھتے ہیں ۔ ایسی شخصیات میں محترم جاوید قریشی کا بھی شمار کیاجائے تومبالغہ آرائی نہ ہوگی جنہوں نے اپنے تجربات، خیالات کو کتابی شکل دیکر ایک طرف جہاں اردو کی ترقی وترویج میں اپنا قابل ستائش حصہ ڈالا وہیں اد ب نواز شخصیات کو اپنی اصلاح کا موقع فراہم کیا جس سے مستقبل میں ان کی تحریر وخیالات میں کافی روانگی آئے گی۔ کتاب میں متعدد مقامات پر لفاظی غلطیاں بھی ہیں، کچھ علاقائی زبانوں پہاڑی اور گوجری الفاظ استعمال کئے گئے ہیں ، جن کا اردو میں ذکر کیاجانا چاہئے تھا۔ تسلسل کی بھی کمی کہیں کہیںدیکھنے کو ملتی ہے لیکن انہوں نے ’تجربات‘سے اپنی صلاح کرنے کا ایک موقع قارئین کو فراہم کیا ہے ۔اللہ سے دعا کی ہے کہ وہ صحت یاب ہوں اور قلمی سفر جاری رہے۔ امید ہے کہ وہ اپنی آئندہ تحریروں کو زیادہ پراثر انداز میں پیش کریں گے۔ادبا، مصنف، شعر ءحضرات ، ماہرین تعلیم اور زبان وادب پر دسترس رکھنے والوں کی نظر میں شاہد ہی کتاب معیار پر کھراُترتی ہو لیکن ایک عام طالبعلم کیلئے کافی دلچسپ اور معلوماتی ہے۔
Altaf Hussain Janjua
About the Author: Altaf Hussain Janjua Read More Articles by Altaf Hussain Janjua: 35 Articles with 52598 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.