مہینوں کے نام کیسے پڑے ؟(ایک معلوماتی آرٹیکل)

 عیسوی سال 365دن6گھنٹے پرمشتمل ہوتا ہے ، سال میں52ہفتے اور مہینے 12 ہوتے ہیں ۔ ان میں اپریل ،جون ،ستمبر اور نومبر کے 30دن ہوتے ہیں ،جنوری، مارچ ، مئی ، جولائی ، اگست ،اکتوبر اور دسمبر 31دنوں پر مشتمل ہوتے ہیں جبکہ فروری 28یا 29دن کا ہوتا ہے ، جوسن عیسوی 4پر تقسیم ہو جائے اسے’’ لوند کا سال (Leap Year) ‘‘کہتے ہیں ،مثلاً 2016,2020,2024وغیرہ ،لوند کے سال میں366دن ہوتے ہیں ۔ ان مہینوں کے نام کس طرح رکھے گئے ،یہ داستان دلچسپ پس منظر رکھتی ہے :

٭ جنوری :
عیسوی سال کے پہلے مہینے کانام رومیوں کے ایک دیوتا ’’ جانس (Janus)‘‘ کے نام پر رکھا گیا۔ جانس دیوتا کے متعلق کہا جاتا ہے کہ اس کی پوجا صرف جنگ کے دنوں میں کی جاتی تھی ،امن میں نہیں ۔ دیوتا کے دو سر تھے ،جن سے وہ بیک وقت آگے پیچھے دیکھ سکتا تھا ۔ اس مہینے کا نام ’’جانس‘‘ یوں رکھا گیا کہ جس طرح دیوتا اپنے دو سروں کی وجہ سے آگے پیچھے دیکھ سکتا ہے ،اس طرح انسان بھی جنوری میں اپنے ماضی و حال کا جائزہ لے سکتا ہے ۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ جنوری کا لفظ لاطینی زبان کے لفظ’’ جنوا(Janua) سے اخذ کیا گیا ہے جس کا مطلب ’’دروازہ‘‘ کے ہیں ۔یوں جنوری کامطلب ’’سال کا دروازہ‘‘ ہوا۔

٭ فروری :
ایک زمانے میں فروری سال کا آخری اور دسمبر دوسرا مہینا سمجھا جاتا تھا ۔ حضرت عیسی علیہ السلام کے دور میں فروری سال کا دوسرا مہینا قرار پایا ۔ یہ مہینا اس لحاظ سے بھی منفرد ہے کہ سب سے کم یعنی 28 دن رکھتا ہے جبکہ لوند (Leap) کے سال میں فروری کے 29دن ہوتے ہیں ۔ چنانچہ لوند کاسال 366دنوں پر مشتمل ہوتا ہے ۔ ہر چوتھا سال لوند کاسال ہوتا ہے ۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ سورج کرۂ ارض کے گرد اپنے مدار کا سفر 365دن 6گھنٹے میں مکمل کرتا ہے ۔تین سال کے دوران اس کا ہر سال 365دنوں کا ہی شمار ہوتا ہے جبکہ چوتھے سال میں (6+6+6+6گھنٹے)جمع کریں تو24گھنٹے یعنی ایک دن کے برابر بن جاتا ہے ۔یوں ایک دن زیادہ جمع کر کے یہ 366 دن یعنی لیپ کاسال کہلاتا ہے ۔ لفظ فروری بھی لاطینی زبان کے لفظ ’’ فیبرام(Fabrum) ‘‘سے اخذ کیا گیا ہے جس کا مطلب’’ پاکیزگی کا ذریعہ ‘‘ ہے ۔

٭ مارچ :
اس مہینے کانام رومی دیوتا ’’مارس(Mars)‘‘ کے نام پر رکھا گیا ۔ مارس کو اردو میں’’ مریخ‘‘ کہتے ہیں ۔ کہتے ہیں کہ یہ دیوتا بڑا خطرناک تھا ۔ رومی دیو مالا کے مطابق اس کے رتھ میں انتہائی منہ زور گھوڑے جتے ہوئے ،رتھ میں دیوتا نیزہ تھامے کھڑا ہوتا ۔ نیزے کی انی کا رخ آسمان کی طرف تھا ،دوسرے ہاتھ میں ڈھال ہوتی ، دیوتا کا چہرہ آسمان کی طرف اٹھا ہوتا ۔ اہلِ روم اسے سب سے طاقتور دیوتا سمجھتے تھے۔ ان کے عقیدے کے مطابق بارش ،بجلی،بادل اور گرج چمک سب مارس دیوتا کے ہاتھ میں تھا۔یہ مہینا 31دنوں پر مشتمل ہوتا ہے ۔ لفظ مارچ لاطینی زبان کے لفظ ’’مارٹیئس(Martius) سے اخذ کیا گیا ہے ،اسی لفظ سے سیارہ مریخ کانام’’مارس (Mars)‘‘ بھی بنایا گیا ہے ۔ مارچ میں عموماً موسم ِ بہار کا آغاز ہوتا ہے ۔

٭ اپریل:
اپریل لاطینی لفظ ’’اپریلس (Aprilis)‘‘ سے بنا ہے ،جس کا مطلب کھولنے والا،آغاز کرنے والاہے ۔ اس مہینے میں چونکہ نئے پودوں اور درختوں کی نشوونما کاآغاز ہوتاہے چنانچہ اسے کسی دیوی یا دیوتا نہیں بلکہ بہار کے فرشتے سے منسوب کیا گیا۔ یہ مہینا 30دنوں پر مشتمل ہوتا ہے ۔

٭ مئی :
لفظ مئی انگریزی زبان کے لفظ ’’مائیس(Maius) ‘‘سے ماخوذ ہے ۔یہ بھی کہا جاتا ہے کہ اس مہینے کانام ایک رومی دیوی ’’میا (Maia) ‘‘ کے نام پر رکھا گیا ۔ رومیوں کے نزدیک اس وسیع و عریض زمین کو دیوتا نے اپنے کندھوں پر اٹھا رکھا تھا۔ اس دیوتا کی سات بیٹیاں تھیں ، جن میں میا دیوی کو سب سے زیادہ شہرت حاصل ہوئی۔ یہ سال کا پانچواں مہینا ہے اور 31دن رکھتا ہے ۔

٭ جون :
اس مہینے کا نام بھی ایک دیوی ’’جونو(Juno) ‘‘کا نام پر رکھا گیا ۔ البتہ بعض لوگوں کے نزدیک یہ نام روم کے مشہور شخص ’’جونی لیس‘‘ کے نام پر رکھا گیا ۔جونو دیوتاؤں کے سردار جیو پیٹر کی بیٹی تھی جبکہ جونی لیس ایک بے رحم اور سفاک انسان تھا۔جون 30دن پر مشتمل ہوتا ہے۔

٭ جولائی:
اس مہینے کانام روم کے ایک مشہور حکمران ’’جولیئس سیزر‘‘ کے نام پر رکھا گیا ۔جولیئس سیزر قدیم روم کا مشہور شہنشاہ تھا۔ مشہور شاعر اور ڈرامہ نگار ’’ولیم شیکسپیئر ‘‘ نے جولیئس سیزر پر ایک ڈرامہ بھی لکھا۔ ایک زمانے میں یہ پانچواں مہینا تھا ۔ جولائی 31دن پر مشتمل ہوتا ہے ۔

٭ اگست :
سال کا آٹھواں مہینا 31دن پر مشتمل ہوتا ہے۔ پہلے یہ چھٹا مہینا تھا کیونکہ تب سال کا آغاز مارچ سے کیا جاتا تھا اور کل دس مہینے ہوتے تھے یعنی مارچ تا دسمبر۔ اگست کانام ایک قدیم رومی شہنشاہ ’’آگسٹس(Augustus) ‘‘کے نام پر رکھا گیا ،اس مہینے میں پہلے 29دن ہوتے تھے ،بعد میں جولیئس سیزر نے 2دن کا اضافہ کرکے 31دنوں کا مہینا کردیا۔پہلے رومی شہنشاہ کانام کچھ اور تھا ،جب اس نے لوگوں کی فلاح و بہبود کے لئے بہت زیادہ کام کئے تو رومی لوگ اس کے اتنے گرویدہ ہوگئے کہ اسے آگسٹس کے نام سے پکارا جانے لگا ،اس نام کا مطلب ہے،دانا، دانشمند۔چنانچہ اس مہینے کو آگسٹس کے نام پر اگست کہا گیا۔

٭ ستمبر:
ستمبر لاطینی زبان کے لفظ ’’سیپٹ (Sept)‘‘ سے بنا ہے جس کا مطلب ’’ساتواں ‘‘ ہے، اسی لئے ستمبر کا مطلب ’’ ساتواں مہینا‘‘ ہے۔ مگر پھرکیلنڈر کی نئی ترتیب سامنے آئی تو یہ نویں درجے پر چلا گیا ۔ یہ مہینا 30دن رکھتا ہے ۔

٭ اکتوبر:
لاطینی میں آٹھ کو ’’اوکٹو(Octo) ‘‘کہا جاتا ہے ۔ اسی مناسبت سے سال کے آٹھویں مہینے کانام اکتوبر رکھا گیا۔ اکتوبر کا مطلب ہے ’’ آٹھواں مہینا‘‘ ۔ مگر پھرکیلنڈر کی نئی ترتیب سامنے آئی تو یہ دسویں درجے پر چلا گیا ۔ یہ مہینا 31دن رکھتا ہے ۔

٭ نومبر:
لاطینی میں 9 کو ’’نووم (Novum)‘‘ کہا جاتا ہے ۔ اسی مناسبت سے سال کے نویں مہینے کانام نومبر رکھا گیا۔نومبر کا مطلب ہے ’’ نواں مہینا‘‘ ۔ مگر پھرکیلنڈر کی نئی ترتیب سامنے آئی تو یہ گیارہویں درجے پر چلا گیا ۔ یہ مہینا 30دن رکھتا ہے ۔

٭ دسمبر:
لاطینی زبان کی گنتی میں دس کا مطلب ہے ’’دسم (De cem) ‘‘۔اس لفظ کی مناسبت سے دسویں مہینے کو دسمبر کہا جاتا ہے ۔ اب یہ سال کا بارھواں مہینا ہے اور اس کے 31دن ہوتے ہیں ۔
٭ ماخذ و مراجع:
اردو صفحہ ڈاٹ کام
وکی پیڈیا
 
Dr. Talib Ali Awan
About the Author: Dr. Talib Ali Awan Read More Articles by Dr. Talib Ali Awan: 50 Articles with 88636 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.