ماہ محرم اور ہماری ذمہ داریاں

اسلامی سال کا باقاعدہ آغاز محرم الحرام کے با برکت و مقدس مہینے سے ہوتا ہے ۔تاریخی اعتبار سے بھی یہ مہینہ بہت اہمیت کا حامل ہے۔اس مہینے میں بے شمار تا ریخی واقعات رونما ہوئے ہیں۔اس مہینے کی اہمیت اور فضیلت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ خود اﷲ رب العزت نے اپنے قرآن حکیم پارہ ۱۰ آیت ۳۶ میں جن چار محترم مہینوں کی طرف اشارہ کیا ہے ان میں سے ایک محرم الحرام بھی ہے۔

اس کی وضاحت حضور ﷺنے اپنے اس ارشاد مبارکہ میں کی ہے جس کو امام بخاریؒ نے اپنی کتاب بخاری شریف میں ذکر کیا ہے۔حضرت ابو بکر رضی اﷲ عنہ سے روایت ہے حضور ﷺ نے ارشاد فرمایا زمانے کی رفتار وہی ہے جس دن اﷲ تعالیٰ نے آسمان اور زمین کو پیدا فرمایا تھا ۔ایک سال بارہ مہینوں کا ہوتا ہے ان میں سے چار مہینے حر مت والے ہیں جن میں سے تین مہینے مسلسل ہیں یعنی ذوالقعدہ،ذوالحجہ،محرم اور ایک مہینہ رجب کا ہے جو جمادی الثانی اور شعبان کے درمیان آتا ہے(بخاری)

اسلام سے پہلے بھی یہ مہینہ ان چار مہینوں میں شامل تھا جس میں مشرکین عرب جنگ و جدال اور قتل و قتال نہیں کرتے تھے۔خاص طور پر محرم الحرام کی دسویں تاریخ جسے ـــ ـ:عاشورا؛کہا جاتا ہے اسلامی لحاظ سے پہلے بھی یہ ایک مقدس دن سمجھا جاتا تھااصل میں اس دن کے محترم ہونے کی وجہ یہ تھی کہ اس دن حضر ت موسیٰ ؑکی قوم بنی اسرائیل کو فرعون کے ظلم و جبر سے نجات ملی تھی اس لیے وہ آزادی حاصل ہونے کی خوشی میں شکرانہ کے طور پرعاشورہ کے دن روزہ رکھا کرتے تھے۔رمضان کے روزوں کی فرضیت سے پہلے تک یہ روزہ مسلمانوں پر فر ض تھا لیکن جیسے ہی رمضان کی فرضیت کا حکم نازل ہوا تو عاشورہ کے روزہ کی فرضیت منسوخ ہو گئی۔لیکن آپ ﷺنے اس دن کا روزہ رکھنا سنت اور مستحب قرار دیا ۔

مسلم شریف کی روایت ہے جس میں آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا رمضان کے روزوں کے بعد سب سے بہترین روزے محرم کے روزے ہیں۔صحیح مسلم کی ایک اور روایت میں آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا مجھے اﷲ کی رحمت سے امید ہے جو شخص عاشورا کے دن روزہ رکھے گا تو اس کے گزشتہ ایک سال کے گناہ معاف کر دیے جائیں گے۔

حضور ﷺنے اپنی حیات مبارکہ میں اس دن روزے کا اہتمام فرمایالیکن وفات سے قبل آپ ﷺ نے اپنے صحابہ کرام رضوان اﷲ تعالیٰ اجمعین سے مخاطب ہو کر فرمایا چونکہ اس دن یہودی بھی روزہ رکھتے ہیں جس وجہ سے ان کے ساتھ عبادت میں مشابہت پیدا ہو جاتی ہے اگر میں آئندہ سال زندہ رہا تو صرف عاشورہ کا روزہ نہیں رکھوں گا بلکہ اس کے ساتھ ایک اور روزہ ملاؤں گا ۹ محرم یا ۱۱ محرم کا روزہ بھی رکھوں گا۔ تاکہ یہودیوں کے ساتھ مشابہت نہ رہے۔لیکن اگلے سال سے پہلے ہی آپ ﷺ ۱۲ بیع الاول کو دار فانی سے رحلت فرما گئے اور جاتے جاتے اپنی امت کو یہ پیغام دے گئے کہ خبر دار غیروں کی کبھی مشابہت اختیار نہ کرنا ،نہ عبادت میں نہ کلچر میں اور نہ ہی ان کے طور و اطریقے میں رنگنے کی کوشش کرنا۔بلکہ اسلام کو اپنا شعار سمجھنا اور اسی میں عافیت ہے۔اسی لیے آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا تھا جس نے کسی قوم کی مشابہت اختیار کی وہ انہی میں سے ہو گا۔

آج ہم زرہ غور کریں کہ ہم کن کے طریقوں پر چل رہے ہیں رحمٰن کے یا شیطان کے آج معاشرے میں سنت پر عمل کرنے کو عار سمجھا جاتا ہے اور غیروں کے طریقوں پر چلنے میں فخر محسوس کیا جاتا ہے۔
ا ﷲ رب العزت نے جہاں حرمت والے مہینوں کا ذکر فرمایا وہاں یہ بھی فرما دیا فلا تظلمو ا فیھن انفسکم :یعنی ان حرمت والے مہینوں میں تم اپنے اوپر ظلم نہ کرواس سے مراد ہے کہ اپنے آپ کو گناہوں سے بچا کر رکھو،غلط ر سومات اور بدعات میں مشغول ہو کر اپنے آپ کو مشکل میں نہ ڈالو۔لیکن ہم دیکھتے ہیں معاشرے میں نت نئی رسومات اور بدعات جنم دے رہی ہوتی ہیں جن کو جاہل لوگ اسلام سمجھ کر عمل کر رہے ہوتے ہیں حالانکہ ان چیزوں کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں ہوتا بلکہ صرف و صرف غیروں کی نقالی کی جا رہی ہوتی ہے۔

خاص طور پر محرم الحرام میں بعض علاقوں میں اس بات کا اہتمام کیا جاتا ہے کہ مرد و زن قبرستان جاتے ہیں وہاں بتیا ں جلائی جاتی ہیں اور چراغاں کیا جاتا ہے اس چیز کو نبی کریم ﷺ نے نا پسند فرمایا ہے۔ترمذی شریف کی رویت ہے جس میں آپ ﷺ نے قبروں کی زیارت کرنے والی عورتوں پر قبروں کو سجدہ گاہ بنانے والوں پراور قبروں پر چراغ جلانے والوں پر لعنت فرمائی ہے۔یہی اپنی جانوں پر ظلم کرنا ہے۔اﷲ رب العزت امت محمدیہ کو دین کی صحیح سمجھ عطا فرمائے آمین۔ ا سی طرح نوحہ اور ماتم کرنا،شادی بیاہ یا خوشی کی کوئی تقریب منعقد کرنے کو معیوب سمجھنا ان چیزوں کا اسلام اور شریعت سے کوئی تعلق نہیں بلکہ آپ ﷺنے اپنی امت کو خاص طور پر عاشورا کے روز اپنے اہل و عیال پر فراخی کا کہا ہے اس دن ا پنے اہل خانہ پر فراخی کرنے سے رزق میں مز ید برکت ہوتی ہے۔

محرم الحرام میں پیش آنے والے چند واقعات جن میں یکم محرم فاروق اعظم ر ضی اﷲ عنہ کی شہادت کا دن ہے۔اسی طرح خاص طور پر ۱۰ محرم الحرام کو نواسہ رسول حضرت حسین رضی اﷲ عنہ اور اہل بیعت کو دھوکہ دے کر جس بے دردی سے شہید کیا گیا اس کی مثال نہیں ملتی۔محرم الحرام میں ہماری ذمہ داری بنتی ہے کہ ہم اس عظمت والے مہینے کا احترام کریں ۔نبی اکرم ﷺ کی تعلیمات پر عمل پیرا ہو تے ہوئے خود بھی امن و سکون سے رہیں اور دوسروں کے امن و سکون کا بھی خیال رکھیں کسی کو تکلیف پہنچانا حرام ہے۔
لیکن دیکھا جاتا ہے کہ خاص طور پر محرم الحرام میں اس چیز کا بالکل خیال نہیں رکھا جاتاچونکہ بعض حضرات اس مہینے تعزیہ اور عزاداری جلوس نکالتے ہیں اوراس کے علاوہ جو سیاسی جلسے جلوس یا وی آئی پی مومنٹ ہوتی ہے ایسی صورتحال میں انتظامیہ اکثر روڈیں اورراستے رکاوٹیں کھڑی کر کے بند کر دیتی ہے جس کی وجہ سے عوام الناس اورخاص طور پر وہ خواتین و حضرات جو بیماری کی حالت میں زندگی اور موت کی کشمکش میں ہوتے ہیں جن کو ایمرجنسی ہسپتال پہنچانا ضروری ہوتاہے ان کو بہت مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

جب یہ ساری چیزیں سر عام سڑکوں پر ہونگی تو اس صورت میں جن لوگوں کے ہاں ایساکرنا مناسب نہیں ان کی دل آزاری ہوتی ہے اور یہی چیزیں اختلافات کا باعث بنتی ہیں ۔

جب اختلافات پیدا ہوتے ہیں تو پھر مسائل جنم دیتے ہیں جن پر قابو پانے کیلئے ہزاروں کی تعداد میں اہلکاروں کو متحر ک کیا جاتا ہے جس پر حکومت کے کروڑوں روپے خرچ ہوتے ہیں اگر حکومت اور یہی سول ادارے کم از کم متفق علیہ مسئلوں پرجمع ہو کر ایسی جامع پالیسی بنائیں جس میں تمام عبادتوں کو اپنی اپنی عبادت گاہوں اور مخصوص جگہوں تک محدود رکھا جا سکے ایسا کرنے سے مسائل اور اختلافات بھی پیدا نہیں ہونگے ملکی ترقی کا پہیہ بھی جام نہیں ہو گا اور ملکی امن و امان بھی بحال رہے گا۔
Muhammad Zahid Aziz
About the Author: Muhammad Zahid Aziz Read More Articles by Muhammad Zahid Aziz: 6 Articles with 5291 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.